قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عدلیہ کے سربراہ، اعلی عہدیداروں، جج صاحبان اور کارکنوں سے ملاقات میں سختیوں کے وقت بصیرت کے ساتھ صبر و تحمل کو گزشتہ تینتیس برسوں میں ملت ایران کی مسلسل پیشرفت کا راز قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے قدرت اور عمومی اعتماد کو عدلیہ کے لئے لازمی دو اہم ستونوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) اور خاص طور پر عدلیہ کے حکام کے اعداد و شمار، رپورٹوں اور کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے کسی بھی طرح کا اقدام بالکل غلط، عمومی اعتماد کے منافی اور ملکی مفادات کے برخلاف ہے۔ اس ہم نکتے پر تمام حکام، بااثر افراد اور ذرائع ابلاغ کی توجہ ہونا چاہئے۔
ایران میں جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں اٹھائيس جون سنہ انیس سو اکیاسی کو ہونے والے دہشت گردانہ دھماکے کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ اس سالانہ اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے سانحے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس حملے میں عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ بہشتی اور بہتر دیگر انقلابی رہنما شہید ہو گئے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اٹھائيس جون کا واقعہ واقعی ایک بڑی آزمائش تھی لیکن ملت ایران نے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ملنے والی بصیرت اور صبر و ضبط کی طاقت کے ساتھ اس آزمائش کو نعمت میں تبدیل کر دیا اور طوفان کا رخ دشمنوں کی جانب موڑ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے اس کامیاب تجربے کو ترقی و پیشرفت کا ایک اہم عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ معاشرے میں اسلامی اقدار کی ترویج اور اسلامی اصولوں پر عمل آوری نیز دنیا میں اس کی تبلیغ کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے باعث ملت ایران کو ہمیشہ دنیا کی جابر طاقتوں، استعماری قوتوں، ڈکٹیٹروں اور ان کی جانب سے ایجاد کی جانے والی رکاوٹوں کا سامنا رہا اور آئندہ بھی رہے گا۔ بنابریں بصیرت پر استوار صبر و تحمل کے ساتھ سختیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور آزمائشوں کو ترقی و پیشرفت کی سیڑھی میں تبدیل کر دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے محکمہ جاتی امور پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ عمومی اعتماد اور قدرت و استحکام عدلیہ کے دو بنیادی ستون ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ افرادی اور فنی صلاحیتوں سے ڈھانچے کی تقویت سے اس کے اندر قدرت پیدا ہوگی۔ لیاقت مند، فاضل، امانت دار اور باکردار انسانوں کی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ اختراعی اقدامات، دقت نظری کے ساتھ قانون سازی اور عقلی پیمانے پر پرکھنے کے بعد گوناگوں فنی اور محکمہ جاتی ترقیہ یافتہ وسائل کا صحیح استعمال عدلیہ کے اندرونی استحکام اور قدرت کی تمہید ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عمومی اعتماد کے حصول کے لئے عدل و انصاف کے قیام کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ عدلیہ کے اندر انصاف کو ہمہ گیر اور دائمی حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے تقوا، چھوٹے بڑے واقعات کے سلسلے میں غیر جانبدارانہ نقطہ نگاہ اور قانون پر دقت نظری کے ساتھ حکیمانہ انداز سے عمل آوری لازمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے الزامات کو میڈیا میں اچھالے جانے کو سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ کسی پر الزام عائد ہونے کا مطلب اسے مجرم قرار دینا نہیں ہے بنابریں عدلیہ کے اندر یا باہر اسی طرح میڈیا میں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جرم کو ثابت ہونے سے قبل میڈیا میں پیش کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ پر بعض افراد کے جرائم کے انکشاف کے لئے دباؤ ڈالے جانے پر بھی تنقید کی اور فرمایا کہ جرائم کو منظر عام پر بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کسی مسلمان کی عزت اچھالنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شریعت نے کچھ خاص مواقع پر ہی سزا اور سزا کی تمام تفصیلات کو منظر عام پر لانے کی اجازت دی ہے چنانچہ اگر عدالت میں جرم ثابت ہو جاتا ہے تب بھی مجرم قرار دئے گئے شخص کا نام منظر عام پر لانے اور میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس طرح اس کے اہل خاندان کے لئے مشکلات پیش آئیں گی اور ان پر دباؤ پڑے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی فتح کے وقت سے لیکر اب تک عدلیہ میں ہونے والی پیشرفت کا بھی ذکر کیا۔
اس ملاقات میں عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ آملی لاری جانی نے اٹھائيس جون انیس سو اکیاسی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور گزشتہ دو برسوں میں عدلیہ کے اندر انجام پانے والے اقدامات کی بریفنگ دی۔