قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا ہے کہ دنيا بھر ميں امريکہ سے نفرت بڑھ رہی ہے اور عالم اسلام ميں اس سے زياد قابل نفرت ملک کوئی اور نہيں ہے۔

اتوار کي شام تہران ميں مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں، ماہرین کی کونسل کے سربراہ، کابینہ کے ارکان، ارکان پارلیمنٹ، مختلف اداروں کے حکام، ائمہ جمعہ، صوبوں میں ولی امر مسلمین کے نمائندوں اور مسلح فورسز کے سینیئر کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب میں علاقے اور دنیا میں پیدا ہونے والے بالکل نئے قسم کے حالات کا حوالہ دیا اور ملک کی صورت حال کی ایک جامع تصویر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بتیس سال گزر جانے کے بعد اسلامی جمہوری نظام کی پوزیشن کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک اس وقت ناقابل تصور پیشرفت اور کامیابیاں حاصل کر چکا ہے جو بلندیوں کی جانب پیش قدمی جاری رکھنے کے سلسلے میں انتہائی حوصلہ افزا اور اچھی بنیاد ہے تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ ترجیحات اور ادھورے کاموں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جنہیں انجام دینے کے لئے ہمدلی، اتحاد، مربوط مساعی، اصولوں اور اقدار پر ثابت قدمی کے ساتھ اور نظام پر عوام کے اعتماد اور نوجوانوں کے جذبہ خود اعتمادی کو بروئے کار لاتے ہوئے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملکی حالات کے جائزے میں حقیقت پسندی کو مد نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ملک کی صورت حال کے سلسلے میں صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے علاقے اور دنیا کے معروضی حالات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کیونکہ علاقے میں پھیلی اسلامی بیداری، مغربی دنیا میں پھیلا معاشی بحران اور مغرب میں انتہا پسندی کی لہر اسلامی انقلاب کی فتح کے اوائل سے اب تک کے عدیم المثال تغیرات ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے اور دنیا میں پیش آنے والے ان بے مثال حالات کی وجہ سے اسلامی جمہوری نظام کے لئے بڑے اہم مواقع پیدا ہو گئے ہیں چنانچہ اگر ملکی حالات کا صحیح اندازہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مواقع ضائع ہی نہیں بلکہ خطرات و مشکلات میں تبدیل ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملکی حالات کے صحیح اندازے کے لئے حقیقت پسندانہ طرز فکر کی پابندی اور یکطرفہ سوچ سے گریز کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ ملکی حالات کا جائزہ لیتے وقت مثبت نکات اور خامیوں دونوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور منفی طرز فکر سے اجتناب کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض حکام اور سیاسی شخصیات کے اندر پائی جانے والی منفی سوچ پر نکتہ چینی کی اور ایسی اجتماعی سوچ کو مایوسی و ناامیدی کی وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض جرائد اور اخبارات بھی خاص مقاصد کے تحت منفی پیغام کی حامل سرخیاں لگاتے ہیں، یہ روش غلط ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ صرف خوبیوں کو دیکھنا بھی درست نہیں کیونکہ یہ جھوٹے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ آپ نے یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز سے وابستہ دانشوروں اور حکام کو مثبت اور منفی باتوں کے صحیح اور ماہرانہ مطالعے کی دعوت دی اور فرمایا کہ مثبت نکات ملک کی صلاحیتوں اور توانائيوں کی نشانی ہیں جبکہ منفی نکات سے ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، لہذا دونوں فہرستوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیشرفت و رفعت کی سمت مناسب انداز میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں موجودہ حالات میں ملک کی بعض مثبت باتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مثبت نکات بتیس برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی مربوط اور بلا وقفہ مساعی کے ثمرات ہیں جن کے حصول میں بہت سے نشیب و فراز بھی آئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشکلات پر غلبے کی طاقت کو اسلامی نظام کی اہم مثبت خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ انقلاب کی کامیابی کے اوائل سے تاحال اسلامی نظام کو دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف پیچیدہ سیاسی، فوجی اور اقتصادی خطرات کا سامنا رہا تاہم نظام اپنے عوام اور ذاتی توانائیوں کے سہارے سب پر غالب آتا رہا۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول ملک کی دوسری اہم خصوصیت نظام اور عوام کے درمیان پایا جانے والا باہمی اعتماد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت ایران کے عوام کے اندر اسلامی نظام پر جس طرح کا اعتماد پایا جاتا ہے وہ دنیا میں شاید ہی کسی نظام کے سلسلے میں دیکھنے میں آئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دو سال قبل صدارتی انتخابات میں اسی فیصدی سے زائد پولنگ، یوم قدس اور اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں عوام کی پر شکوہ شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سال بھی شدید گرمی کے موسم میں دنیا ماہ رمضان میں اور یوم قدس پر ایرانی عوام کی عظمت کا مشاہدہ کرے گی۔
نام نہاد مصلحت پسندی کے نام پر بعض افراد یہ باتیں کرتے ہیں کہ اسلامی نظام سے عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے تاہم قائد انقلاب اسلامی نے ان خیالات پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام اسلامی نظام کو چاہتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے کمربستہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پابندیوں کے عالم میں حاصل ہونے والی پیشرفت کو بھی ملک کی ایک اہم خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ سخت ترین پابندیوں کے دور میں جب دشمن مفلوج کر دینے والی پابندیوں کی باتیں کر رہا ہے، ملک سائنس و ٹکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کر رہا ہے۔ ایٹمی کامیابیاں، نینو ٹیکنالوجی، ایرو اسپیس، سپر کمپیوٹر، اسٹیم سیلز، کلوننگ، نیوکلیئر میڈیسن وغیرہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں ایران کی زبردست ترقی کی مثالیں ہیں جن میں بعض ٹکنالوجیاں ایسی ہیں جو دنیا کے معدودے چند ممالک کے پاس ہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بنیادی تنصیبات کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ قومی خود اعتمادی بھی ملک کی ایک بڑی کامیابی ہے، اس طرح سے کہ موجودہ نوجوان نسل کے اندر جو خود اعتمادی پائی جاتی ہے وہ انقلاب کی پہلی اور دوسری نوجوان نسل سے زیادہ خود اعتمادی سے آراستہ ہے۔
عالمی سطح پر ایران کے مقام و مرتبے میں اضافہ بھی ان اہم نکات میں تھا جن پر قائد انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی، آپ کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج ایک محترم، موثر، بانفوذ اور عالمی وقار کا حامل ملک ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اصولوں، اقدار اور انقلاب کے نعروں پر عوام اور حکام کی ثابت قدمی کو اس عالمی وقار کا سرچشمہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کو ہمیشہ سے زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب علاقے اور دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور امریکہ اس وقت علاقے اور عالم اسلام میں سب سے زیادہ ناقابل اعتماد اور نفرت انگیز ملک بن گیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ اگر مغربي ملکوں کے عوام کو اس حقيقت کا پتہ چل جائے کہ ان ملکوں کي حکومتوں پر امريکہ اور صيہوني حکومت کا تسلط ہي ان کي مشکلات کا اصل سبب ہے تو يورپ ميں بھي امريکہ کي مقبوليت ميں کمي واقع ہوگي-
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی عالمی ساکھ کو مخدوش ظاہر کرنے کی بعض حلقوں کی کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ بعض لوگ یہ تاثر عام کرنا چاہتے ہیں کہ چونکہ اسلامی نظام اپنے موقف پر اٹل رہا اس لئے ایران کی عالمی ساکھ کو دھچکا لگا ہے جبکہ بعض ادوار میں جب حکام نے مغرب کے مقابلے میں نرمی کا مظاہرہ کیا تو ان (مغرب والوں) کا رویہ اور بھی تلخ اور توہین آمیز ہو گیا۔
آپ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ ملک کے حکام نے امریکی حکام کی قصیدہ خوانی بھی کی لیکن امریکہ کے فرومایہ صدر نے فورا اسلامی جمہوریہ ایران کو شیطنت کا محور قرار دے دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایک اور دور میں ایک یورپی ملک سے بظاہر اچھے تعلقات قائم ہوئے اور وہ حکومت ایران کی تعریفیں بھی کرتی تھی لیکن اسی یورپی حکومت نے میکنس ریسٹورنٹ کے مسئلے میں ایک عدالت تشکیل دی اور یورپی ممالک نے تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا اور بخیال خود ایران کو طمانچہ رسید کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اور بھی زناٹے دار تھپڑ ملا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب بھی اسلامی نظام نے امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں نرمی دکھائي وہ مزید گستاخ ہو گئے اور جہاں بھی اسلامی نظام نے اپنے نعروں اور انقلاب کی بنیادوں پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کا وقار بڑھا ہے۔ قائدانقلاب اسلامي نے علاقے کي صورت حال کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ خطے کے حالات امريکہ اور عالمي صيہونيزم کے تصورات کے بالکل برخلاف ہيں- آپ نے اسلامي بيداري کو انتہائي اہم اور غير معمولي قرار ديا اور فرمايا کہ مصر تيونس اور يمن ميں جوکچھ ہو رہا ہے اس کي وسعت کا اندازہ نہيں لگايا جاسکتا اور اس کے وسيع نتائج بعد ميں سامنے آئيں گے- آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے اس بات پر تاکيد فرمائي کہ مصر کے ڈکٹيٹر کو عدالت کے کٹہرے ميں لانا انتہامعني خيز، حيرت انگيز اور عميق واقعہ ہے اور اس بات کي علامت ہے کہ اسرائيل پر عرصہ حيات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔  قائد انقلاب اسلامي نے خطے کے ملکوں کے حالات کو اپنے قابوں ميں کرنے کي غرض سے امريکہ کي سرتوڑ کوششوں کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ يہ کوششيں اب تک لاحاصل رہي ہيں اور آئندہ بھي ان کا کوئي نتيجہ برآمد نہيں ہوگا- آپ نے ليبيا کي صورتحال پراپني گہري تشويش کا اظہار کرتے ہوئے فرمايا کہ ليبيا ميں مغرب کي پاليسياں انتہائي خطرناک اورگھناؤني ہيں کيونکہ وہ ليبيا کي عوامي تحريک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک میں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے علاوہ ليبيا ميں اپنے فوجي تسلط کو مستحکم کرنے کي کوشش کر ر ہے ہيں تاکہ پورے شمالي افريقہ اور خاص طور پر مصر اور تيونس پر اپني بالادستي قائم کي جاسکے-