قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد، ايران اسلامي عوام کي حمايت اور پشتپناہي سے تمام مشکلات و مسائل پر غلبہ پانے ميں کامياب رہا-
آپ نے خطے ميں جاري اسلامي بيداري کو اسلامي انقلاب کي برکات ميں شمار کيا اور امريکي عوام کي وال اسٹريٹ مخالف تحريک کے بارے ميں کہا کہ سرمايہ دارانہ نظام کي بدعنوانياں امريکي عوام پر عياں ہو چکي ہيں-
آپ نے وال اسٹريٹ پر قبضہ کرو تحريک کے بارے ميں فرمایا کہ يہ تحريک، جس نے امريکي عوام ميں ہيجان پيدا کر ديا ہے، بہت اہم ہے تاہم امريکي حکام اسے معمولي مسئلہ ظاہر کرنے کي کوشش کر رہے ہيں-
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے وال اسٹریٹ مخالف تحریک کے سلسلے میں امریکی حکام اور ذرائع ابلاغ کی کئي ہفتوں کی خاموشی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اظہار خیال کی آزادی کے دعویدار جب اس احتجاجی مہم کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے تو انہوں نے اس کے خلاف سخت اقدامات کئے اور سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل جمہوریت میں اجتماعات کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی اور انسانی حقوق کی حمایت کی اصلی حقیقت سامنے آ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہزاروں کی تعداد میں امریکی مظاہرین کے ہاتھوں میں نظر آنے والے پلے کارڈز کا حوالہ دیا جس پر یہ عبارت درج ہے کہ ہم ننانوے فیصدی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکہ کے عوام در حقیقت ننانوے فیصدی پر مشتمل اکثریت پر ایک فیصدی پر مشتمل اقلیت کی حکمرانی پر اعتراض کر رہے ہیں جو عوام سے وصولے جانے والے محصول اور پیسے کو افغانستان و عراق میں جنگی کارروائیوں اور صیہونی حکومت کی مدد پر صرف کر رہی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اس مہم کی جڑیں مستقبل میں اس طرح پھیلیں گی کہ یہ مہم امریکہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو زمیں بوس کر دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے برطانیہ میں مظاہرین کے ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کے برتاؤ کو اظہار خیال کی آزادی اور انسانی حقوق کی حمایت کے دعویداروں کی کارستانی کا ایک اور نمونہ قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ حالت ان افراد کے لئے درس عبرت ہے جو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی تقلید کے خواہشمند ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ سرمایہ دارانہ نظام پوری طرح بند گلی میں پہنچ گيا ہے اور مغرب کا بحران بھرپور انداز میں شروع ہو گيا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ دنیا انتہائی حساس اور تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے اور اس موقعے پر ملت ایران نیز دیگر مسلمان اقوام موثر کردار ادا کر سکتی ہیں اور ایران کا اسلامی نظام خود کو ایک نمونہ عمل ثابت کر سکتا ہے۔
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے بارہ اکتوبر بدھ کے روز مغربي ايران کے کرمانشاہ صوبے کے صدر شہر کرمانشاہ ميں ہزاروں کے عوامي اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علاقے ميں اسلامي بيداري اور عرب ملکوں ميں آنے والے عوامي انقلابوں کے بارے ميں کہا کہ يہ تحريکيں ايران کے اسلامي انقلاب کو نمونہ عمل قرار دیکر معرض وجود ميں آئي ہيں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد عوامي حمايت و پشتپناہي کے سبب ايران اسلامي نے دشمنوں کي سبھي سازشوں کو ناکام بنا ديا-
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہر کرمان شاہ کے آزادی اسٹیڈیم میں جوش و جذبے سے چھلکتے ہزاروں کے افراد کے اجتماع سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں اصلی معیار کا درجہ رکھنے والے عوامی کردار، مقام، شراکت اور عزم و ارادے پر روشنی ڈالی اور ہر طرح کے چیلنجوں کے مقابلے اور علمی و اقتصادی و صنعتی و زرعی میدانوں میں پیشرفت کے سلسلے میں عوام کی نمایاں صلاحیتوں اور توانائيوں کے استعمال کی گہری تاثیر کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے گوناگوں سماجی تحریکوں اور تغیرات کی کامیابی اور گیرائی کو عوام سے اس تحریک کی قربت اور نزدیکی رابطے پر منحصر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی عصری تاریخ میں آئینی انقلاب اور تیل کی صنعت کو قومیانے کی دو تحریکوں کا تجربہ موجود ہے، ان دونوں تحریکوں کی ابتدائی کامیابیوں میں عوام کا بے بدل کردار موثر عنصر ثابت ہوا لیکن چونکہ یہ تحریکیں عوام سے دور ہونے لگیں لہذا ان کا انجام رضاخان کی استبدادی حکومت اور انیس اگست کے کودتا کی شکل میں سامنے آیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کی تاریخ میں اسلامی انقلاب کی مانند کوئی واقعہ ایسا نہیں ہے جس کی کامیابی اور تسلسل میں عوام کا کلیدی اور براہ راست کردار رہا ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد عوام کا کردار ختم نہ ہونے کو اس انقلاب کی سب سے اہم خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی عوام کے کردار اور شراکت کا جاری رہنا عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی حکمت، تدبیر اور گہری نظر کا نتیجہ تھا جنہوں نے ملت ایران کو بخوبی پہچانا، اس پر بھروسہ کیا اور انہیں ملت ایران کی توانائیوں اور عزم راسخ پر یقین کامل تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے چھوٹے سے عرصے میں ہی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جانب سے اختیار کی جانے والی تدابیر منجملہ نظام کی نوعیت کے تعین، آئین کے لئے ماہرین کی کونسل کی تشکیل، آئین کی توثیق اور پہلے صدر کے انتخاب کے لئے عوام کے حق رائے دہی پر تکیہ کرنے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ گزشتہ بتیس برسوں میں ہمیشہ بغیر کسی تاخیر کے اسلامی نظام کے تمام حکام بشمول قیادت، قائد انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین، صدر جمہوریہ، پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے ارکان اور شہری کونسلوں کے ارکان عوام کے ووٹوں اور خواہش کے مطابق منتخب ہوئے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ گزشتہ بتیس سال کے دوران مختلف سیاسی فکر اور سوچ کے افراد اقتدار میں آئے جن میں بعض افراد تو نظام کے اصولوں سے بھی اختلاف رکھتے تھے لیکن اسلامی نظام کی عظیم عوامی صلاحیت بغیر کوئی بے صبری دکھائے ان تمام مشکلات کو عبور کرتی رہی جس کی سب سے اہم وجہ اسلامی نظام کے تئيں عوام کی پابندی، ان کا ایمان اور شراکت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کے اعلی اہداف اور اس کی جانب سے استکباری نظام، بین الاقوامی زیادتیوں اور دشمنوں کی جانب سے کھڑے کئے جانے والے چیلنجز کے کامیاب مقابلے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اگر ایسے نظام کو قائم اور اسے اسی راستے پر گامزن رکھنا ہے تو اس کے لئے عظیم عوامی صلاحیتوں اور توانائيوں کی ضرورت ہے جس کا نظریہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تدبیر سے متن اسلام سے اخذ کیا گيا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسی تدبیر کی بنیاد پر اور دولت ایمان اور عوامی عزم و شراکت کے سہارے ایران کا اسلامی جمہوری نظام تمام سافٹ اور ہارڈ چیلنجز پر غالب آتا رہا ہے اور لطف خدا سے آئندہ بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں اسے کامیابی حاصل ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایسے متعدد چیلنجز کا ذکر کیا جن پر اسلامی نظام نے عوامی طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی فتح کے شروع میں ہی شروع ہونے والی آٹھ سالہ جنگ کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مقدس دفاع کی ذمہ داری عوام نے سنبھالی اور عوام کے ایمان و عشق و صفاء کے ذریعے اسلامی نظام اس غیر مساوی جنگ میں فتحیاب ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ بہت مناسب ہے کہ مقدس دفاع کے دور کے انفرادی اور دلنشیں واقعات کو نوجوان نسل کے سامنے از سر نو پیش کیا جائے۔
انقلاب کی فتح کے بعد ہی سے دشمنوں کی جانب سے شروع ہو جانے والی پابندیوں اور شدید دباؤ کو اسلامی نظام کے سامنے پیدا ہونے والا ایک اور بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اقتصادی پابندیاں اور دباؤ ملت ایران کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ اسلامی نظام، عوام کی استقامت و بصیرت کے ذریعے ان مشکلات کو مواقع میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا اور ایجادات و اختراعات کے میدان میں اس نے عظیم پیشرفت حاصل کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے کو بھی اسلامی نظام کے سامنے کھڑا کیا جانے والا ایک چیلنج قرار دیا جس کا حکام نے عوامی پشت پناہی اور حمایت کے ذریعے مقابلہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹکنالوجی میں ترقی کے میدان کو عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی شراکت کا انتہائی اہم میدان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت پورے ملک خصوصا علمی مراکز اور حساس شعبوں میں ایرانی نوجوان سائنس و ٹکنالوجی کے لحاظ سے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں جو ملت ایران کی خود اعتمادی اور ملک کی اقتصادی ترقی کا مقدمہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دو اہم نکات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مغربی پالیسی سازوں کو اسلامی نظام کی حقیقت یعنی اس کے اندر عوامی کردار، شراکت اور ڈھانچے کا ماہیت کا احساس ہو گیا ہے اور دوسرے یہ کہ حکام کو تمام میدانوں میں عوام کی موجودگی، جدت عمل اور عظیم صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ کرمان شاہ کے عوام سے خطاب میں پارلیمنٹ کے آئندہ انتخابات کا حوالہ دیا اور انتخابات میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر دفعہ کے انتخابات سے ملک کے پیکر میں ایک نئی جان پڑ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ برسوں سے دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ انتخابات یا تو منعقد ہی نہ ہوں اور اگر منعقد ہوں و جوش و خروش سے خالی ہوں۔
اطلاعات کے مطابق کرمانشاہ کے لوگ رات ہي سے آزادي اسکوائر تک جانے والي سڑکوں اور آس پاس کي گليوں ميں پہنچ گئے تھے جہاں سے قائد انقلاب اسلامي گزرنے والے تھے- کرمانشاہ کے عوام نے اس شہر کے ہوائي اڈے سے لے کر آزادي اسٹيڈيم تک کے راستے پر سجاوٹ کر رکھي تھي اور لوگوں کي بھيڑ اتني زيادہ تھي کہ قائد انقلاب اسلامي کي گاڑي تاخير سے آزادي اسٹيڈيم پہنچي جہاں آپ نے عوامي اجتماع سے خطاب فرمايا-