قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکی حکام کو خبردار کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہر سازش، تخریبی حرکت اور رخنہ اندازی کا پوری طاقت سے جواب دے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کرمانشاہ کے دورے کے پانچویں دن ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے والے یونیورسٹی اساتذہ، طلبہ اور عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے ایران پر دہشت گردانہ کارروائی کا الزام عائد کرنے کے لئے امریکی کی جانب سے شروع کئے گئے ہنگامے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام امریکہ کے اس سناریو کے پس پردہ عزائم پر مکمل طور پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق امریکہ کی اس ہنگامہ آرائی کا ایک ممکنہ مقصد وال اسٹریٹ تحریک پر پردہ ڈالنا ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کے کم از کم اسی ممالک کے عوام نے مسلسل پھیل رہی اس تحریک کی حمایت کی ہے جو امریکی حکام کے لئے کڑوا گھونٹ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکومت کی جانب سے عوام کی سرکوبی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ممکن ہے کہ وہ پولیس اور فوج کی مدد سے اس تحریک کو کچل دے لیکن یہ ختم نہیں ہوگی بلکہ راکھ میں دبی چنگاری بن کر باقی رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ اور یورپ کے حکام پر قائم صیہونیوں کے خباثت آمیز نیٹ ورک کے سخت کنٹرول کا ذکر کرتے ہوئے مغربی حکام کو خبردار کیا کہ جس دن قوموں کو اپنی مشکلات اور بد بختی کی اصلی وجہ یعنی صیہونیوں کے مقابلے میں آپ کی حقارت و پستی کا پتہ چلے گا ان کے غیظ و غضب کی آگ سرمایہ دارانہ نظام کو جلا کر خاکستر میں تبدیل کر دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے اپنے عوام سے روگردانی کر لی ہے اور آپ ان کی اکثریت کے نزدیک نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں صورت حال اس کے برعکس ہے اور عظیم عوامی اجتماعات سے دشمن کی ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے ملت ایران کے عزم و استقامت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ بتیس سال کے دوران دشمن کی ہر سازش اور دباؤ کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت و بے خوفی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ ہماری پوری قوم میدان میں ہے، ہم سب اسی قوم کا جز اور نظام و اسلام کے سپاہی ہیں اور یہ متحد و مستحکم پیکر ہر شیطانی اقدام اور سازش کا مقابلہ کرے گا اور کوئی غنڈہ ٹیکس نہیں دے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی حکام کے ذہن میں کچھ خیالات پیدا ہوئے ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی یا فوجی ہر ناشائستہ حرکت کا ملت ایران منہ توڑ جواب دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ سے دنیا کے خبیث ترین شیطان کی دشمنی، وعدہ الہی کی صداقت پر دلیل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کی رو سے ان خباثتوں کے نتیجے میں ہمارا اور ہماری قوم کا ایمان بڑھے گا اور تمام سازشی قوتوں پر ملت ایران کی فتح اور اللہ تعالی کی جانب سے نصرت و مدد، ہمارے عوام کے سامنے پایہ ثبوت کو پہنچے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب وہ تحریک ہے جس نے ظالمانہ شاہی نظام کو سرنگوں اور (اسلامی) نظام کی تشکیل کے لئے حالات کو سازگار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام سے مراد وہ سسٹم ہے جس کا عوام نے ملک کے لئے انتخاب کیا۔ بنابریں ملک کو چلانے والے انتظامی اداروں کے قیام کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی تشکیل، پھر اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کے بعد امت اسلامیہ کی تشکیل ایک ہی زنجیر کے حلقے ہیں جو ماضی، حال اور مستقبل کی راہ کا تعین کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے تینوں ابتدائی حلقوں کی تشکیل مکمل ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے چوتھے حلقے یعنی امت اسلامیہ کی تشکیل کو انتہائی اہم ہدف قرار دیا اور اس سلسلے میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ امت اسلامیہ وہ عظیم معاشرہ ہے جس میں انسان کے لئے اسلام کی جانب سے معین کردہ اعلی اہداف اور امنگوں کو جامہ عمل پہنایا جائے۔
آپ نے اس مثالی معاشرے کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ انصاف اور آزادی سے بہرہ مندی، ملک کا نظام چلانے اور اپنے مستقبل کے تعین میں عوام کا موثر کردار، قومی وقار اور بے نیازی کی کیفیت، رفاہ عامہ کی فراہمی اور غربت و بھکمری کا خاتمہ، ہمہ جہتی علمی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کا حصول، جمود اور توقف سے پرہیز کرتے ہوئے دائمی پیش قدمی اسلامی معاشرے کی نمایاں پہچان ہے اور ملت ایران اور اسلامی نظام اسی منزل مقصود کی سمت رواں دواں ہے۔
آپ نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ البتہ اسلامی معاشرے کا بھی حتمی ہدف انسانوں کو معنوی و روحانی کمال اور معرفت و بندگی پروردگار کی منزل تک پہنچانا ہے اور ایسا معاشرہ خود بخود امت اسلامیہ کی تشکیل کی تمہید ثابت ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی معاشرے کی خصوصیات اور مغربی اصطلاحات میں کسی بھی طرح کے خلط ملط سے اجتناب کی ضرورت پر زور دیا اور ان مفاہیم کے لئے ضروری حدبندی پر تاکید کرتے ہوئے چند مثالوں کی روشنی میں فرمایا کہ انصاف، آزادی، وقار انسانی اور دیگر خصوصیات جو اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں وہ اپنے مخصوص عمیق اسلامی مفاہیم کے ساتھ مطلوب ہیں اور مغرب میں رائج اسی قسم کے مفاہیم سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ نے اسلامی معاشرے کی ان خصوصیات سے مغرب میں رائج مفاہیم اخذ کئے جانے کو ماضی قریب اور ماضی بعید کے برسوں کی ایک بڑی مشکل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان مفاہیم کے سلسلے میں کسی بھی زاویئے سے مغرب کے غلط راستے کے زیر اثر نہیں آنا چاہئے بلکہ ان الفاظ کے حقیقی مفاہیم سے آشنائی کے لئے اسلام و قرآن کے زاویہ نگاہ کا سہارا لینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ ویسے مغرب والے ان الفاظ سے جو معانی مراد لیتے ہیں اس حد تک بھی وہ ان کے پابند نہیں ہیں اور یہ بات انہوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور دیگر ممالک میں ثابت بھی کر دی ہے کیونکہ جمہوریت، ایٹمی ہتھیاروں سے مقابلے، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے بینر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر وہ دنیا کے اہم اقتصادی اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطوں پر قبضہ کرنے، قوموں کے ذخائر اور منابع پر تسلط قائم کرنے، صیہونی حکومت کی حمایت اور استکبار کے سلسلے کو مکمل کرنے جیسے اپنے شیطانی اہداف کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ ہم انہیں حقائق کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ مغرب میں رائج جمہوریت بنیادی طور پر کھوکھلی اور جھوٹی جمہوریت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام کے اندر ولایت امر مسلمین کے مفہوم پر روشنی ڈالی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نقطہ نگاہ سے ولایت فقیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نقطہ نگاہ سے ولایت امر مسلمین یعنی مسلسل آگے بڑھنے والا ایک زندہ انتظامی سلسلہ جس کا مصداق اتم خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) تھے۔
آپ نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک ولایت مطلقہ کے سلسلے میں مد نظر تعریف کے تعلق سے پھیلائے جانے والے مغالطے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں نے امام کے نقطہ نگاہ کی تفسیر یہ کی کہ ولی امر مسلمین تمام قوانین سے بالاتر ہے جبکہ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ولایت مطلقہ پر تاکید کے ساتھ ساتھ خود سب سے زیادہ قوانین کی پابندی کی اور شرعی احکام پر عمل پیرا رہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نقطہ نگاہ سے ولی امر مسلمین کے انتہائی حساس شرائط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ شرائط موجود نہ رہیں تو ولی امر مسلمین بغیر کسی کے معزول کئے خود بخود اپنے مرتبے سے معزول ہو جاتا ہے جس سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ولی امر مسلمین کے انتظامی فرائض ملک کے اجرائی امور سے بالکل مختلف اور مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے امور سے بالکل الگ ہیں۔ ولی امر مسلمین حکام کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کی مجموعی پیشرفت پر بھی نظر رکھتا ہے اور انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی صورت میں اسلامی نظام کو غیر ضروری اور غیر جائز لچک پیدا کرنے پر مجبور کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس دور کو جب ایران کی ایٹمی سرگرمیاں بند ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں اور اس وقت کو جب امریکہ سے تعلقات قائم کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں ایسے مواقع سے تعیبر کیا جن میں ولی امر مسلمین نے اپنے انہی فرائض منصبی پر عمل کرتے ہوئے اسلامی نظام کی مجموعی حرکت میں انحراف کا سد باب کیا۔