قائد انقلاب اسلامی کے پیغام حج کے موضوع پر عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ تسخیری سے ایک گفتگو.
ایک طویل وقفے کے بعد ایرانی حجاج کرام کی دوبارہ سعودی عرب روانگی کے موقعے پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہم آہنگی کے لئے دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مذاکرات انجام پائے۔ سعودی عرب کے حکام سے مذاکرات کرنے والے ایرانی وفد کے ارکان میں ایک، آیت اللہ تسخیری تھے۔ اس کے علاوہ آیت اللہ تسخیری مختلف عالمی اداروں میں اہم سرگرمیاں انجام دے چکے ہیں اور ان کے پاس انتہائی اہم اور دلچسپ اطلاعات ہیں لہذا یہ گفتگو بڑی اہم اور دلچسپ ہے۔ آیت اللہ تسخیری سعودی عرب میں قائد انقلاب اسلامی ایران کے نمائندہ دفتر میں عالمی امور کے مشیر اعلی ہیں، اس کے علاوہ وہ مکہ مکرمہ میں علمائے مسلمین رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں جبکہ اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے سرگرمیاں انجام دینے والی تقریب مذاہب اسلامی کونسل کی سربراہی کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
سوال: موسم حج میں ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ قائد انقلاب اسلامی اس عظیم اجتماع کے لئے پیغام جاری کرتے ہیں جو مسلمین جہان کے تعلق سے انتہائی اہم اور حساس نکات کا حامل ہوتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس پیغام کا فلسفہ کیا ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب دینے کے لئے پہلے میں چند نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حج اسلامی احکامات پر مبنی ایک ایسا عمل ہے جو بڑے اہم اہداف کی جانب بڑھتا ہے۔ حج کا شاید سب سے اہم ہدف جیسا کہ قرآنی آیات سے سمجھ میں آتا ہے، تمام امت اسلامیہ کو طول تاریخ میں انبیائے الہی نے جو اعمال انجام دیئے ہیں ان سے جوڑنا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں خلقت انسان سے گفتگو شروع ہوئی ہے، پھر ملائکہ کے سجدے کا ذکر ہے، جنت میں حضرت آدم کے گزرے وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے، اس کے بعد حضرت آدم کی زمین پر آمد کی گفتگو ہے اور جنت کے اسی تجربے کو یاد رکھنے کا حکم ہے کہ اگر کبھی معصیت سرزد ہو جائے تو توبہ کرکے اللہ کی بارگاہ میں لوٹنا اور اس کی اطاعت میں محو ہو جانا چاہئے۔
قرآن ان مراحل میں سے ہر ایک کا ذکر و اذ کے لفظ سے شروع کرتا ہے۔ و اذ کے یہ الفاظ انبیاء کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابراہیم تک پہنچتے ہیں اور پھر ارشاد ہوتا ہے کہ وَ اِذِ ابتَلَی اِبراهیمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِماماً قالَ وَ مِن ذُرِّیَّتی یعنی صالح بندوں کے اندر امامت کے مسئلے کی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ قال لا ینال عھدی الظالمین یہاں سے مسئلہ حج کی جانب گریز کیا گيا ہے۔ وَ اِذ جَعَلْنا البَیْتَ مثابَهً للنَّاسِ وَ اَمناً وَاتَّخِذوُا مِن مَقامِ اِبراهیمَ مُصلًّی حج کا تذکرہ انبیاء کی روش زندگی کے مرکزی نکتے کے طور پر کیا گيا ہے۔ شیخ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کے طریقے کا تعین اور اس کے اہداف کی نشاندہی کرنے والا قرار دیا گيا ہے۔ اس حج کا ایک اہم ترین مقصد امت اسلامیہ کو انبیاء کی روش سے جوڑنا ہے۔ انبیاء کی روش سے مراد وہی طرز زندگی ہے جس سے اللہ تعالی انسانیت کو جوڑنا چاہتا ہے۔ پاکیزگي کی روش، اطاعت شعاری کی روش، طہارت کی روش، بندگی خدا میں محو معاشرے کی تعمیر کی روش۔ دوسرا ا ہم ہدف جو اسی راستے سے سمجھ میں آتا ہے وہ ہے انسان کی انسانیت کو سنوارنا، انسان کو اس کے فطری راستے یعنی اطاعت پروردگار کی طرف متوجہ کرنا۔ حج کے تمام مناسک میں انسان سازی کا پہلو نمایاں دکھائی پڑتا ہے۔ حج میں انتہائی اہم اہداف مضمر ہیں، ان میں ایک برائت از مشرکین ہے۔ مشرکین سے اعلان برائت کا حقیقی نمونہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات مبارک ہے۔ اس کا ایک اور اہم ہدف امت اسلامیہ کا اتحاد ہے، چنانچہ تمام حجاج کرام ایک ہی لباس میں، ایک ہی نیت کے ساتھ اور ایک ہی طرح کے کلمات دوہراتے ہوئے کعبے کا طواف کرتے ہیں، شیطان کو پتھر مارتے ہیں، ایک جگہ توقف کرتے ہیں، ایک ہی طرح سے عبادت کرتے ہیں، ایک ہی انداز سے مناجات کرتے ہیں، ایک ہی جگہ پر جمع ہوتے ہیں، وہ ایسے سارے لباس ترک کر دیتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ ظاہر کریں، سب ایک ہی پوشاک میں نظر آتے ہیں۔ یہ سب انسانوں کی یگانگت اور امت اسلامیہ کے اتحاد کے مظاہر ہیں۔ حج میں یہ اہداف زیادہ نمایاں معلوم ہوتے ہیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے حجاج کرام کے نام جو پیغامات جاری کئے یا قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے جو پیغامات آتے ہیں ان میں حج کے ان اہداف کی خاص طور پر نشاندہی کی جاتی ہے۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ پیغام حج کا فلسفہ کیا ہے اور اسلامی جمہوریہ اور رہبر انقلاب اس پر اتنی تاکید کیوں کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حج کا احیاء عبارت ہے امت اسلامیہ کے احیاء سے۔ حج کے پیغامات کی عملی تصویر امت اسلامیہ کا عملی حرکت ہے۔ روایتوں میں بھی آیا ہے کہ الحج علم الاسلام حج پرچم اسلام ہے۔ پرچم اسلام سے کیا مراد ہے؟ جنگ کے اہم اصولوں میں ایک یہ ہے کہ جب تک پرچم لہرا رہا ہے اس وقت تک فوج زندہ ہے اور بڑھ بڑھ کر حملے کر رہی ہے۔ بنابریں حج کا احیاء یعنی حج میں اس کی اصلی روح پھونکنا اسلامی جمہوریہ ایران کے اسلامی بیداری کے مشن کا اہم ہدف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے جو پیغامات حج ہیں اور قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی طرف سے حج کے جو پیغام جاری ہوتے ہیں ان میں ان نکات پر ہمیشہ خاص تاکید ہوتی ہے اور عرف عام کے مطابق یہ پیغام منشور کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی امت کو راستہ دکھانے والا ایک جامع اعلامیہ۔ امام خمینی کے زمانے میں بھی اور عصر حاضر میں بھی۔
سوال: ایسا لگتا ہے کہ حج کے پیغامات کی جتنی اہمیت ہے اس سلسلے میں تشہیراتی کام اتنا نہیں کیا جاتا۔ جواب: بالکل، افسوس کا مقام ہے کہ اس پیغام کی عظمت کو ہم خود بھی کما حقہ سمجھ نہیں سکے ہیں اور نہ دوسروں کو سمجھا سکے ہیں اور نہ ہی دور دراز کے علاقوں کے لوگوں تک اسے پہنچا سکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عامہ، حجاج کرام اور دیگر حلقے کام تو کر رہے ہیں لیکن اس پیغام کی اہمیت کی سطح پر کام نہیں ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ، کلچرل ہاؤس، تمام تشہیراتی وسائل اور نیٹ ورک جو ہمارے پاس ہیں، ان ایام میں اس پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کے لئے اپنی پوری توانائی بروئے کار لائیں تاکہ یہ ہدف پورا ہو سکے۔ اس سلسلے میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا دیگر ممالک کے سربراہوں کے بھی پیغامات آتے ہیں؟
جواب: اس صورت میں نہیں آتے۔ صرف سعودی عرب کے حاکم کی ایک پریس رلیز آتی ہے۔ یہ در حقیقت امام خمینی کی ایک جدت عملی تھی۔
سوال: کیا شروع ہی سے یہ پیغام مشرکین سے اعلان برائت کے دن جاری کیا جاتا تھا؟
جواب: نہیں، امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے شروع میں اس پیغام کے لئے یوم برائت کا تعین نہیں کیا تھا بلکہ حج کے دوران کسی دن جس کا تعین خود امام خمینی رحمت اللہ علیہ کرتے تھے، پیغام جاری کر دیا جاتا تھا لیکن بعد میں جو محاصرے اور جھڑپوں کا سانحہ پیش آیا جس کے بعد ایرانی کئی سال تک حج کے لئے نہیں گئے اس کے بعد فریقین کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے کے مطابق یہ طے پایا کہ مکہ میں اجتماعات نہ کئے جائیں بلکہ یوم عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کو عرفات میں ایرانیوں کے خیمے ایک دوسرے سے متصل کر دیئے جائیں اور حجاج کرام وہاں عظیم اجتماع منقعد کریں اور رہبر انقلاب کا پیغام اس میں پڑھا جائے۔
سوال: مدینہ منورہ میں دعائے کمیل کے جلسے کے سلسلے میں اتفاق رائے بھی اسی وقت ہوا تھا؟
جواب: نہیں، دعائے کمیل کے اجتماع کے سلسلے میں بعد میں اتفاق رائے ہوا۔ یہ بالکل الگ معاہدہ تھا جس کے لئے بڑے مقدمات اور طاقت فرسائی کی ضرورت پڑی تھی۔
سوال: ہمارا دعوی یہ ہوتا ہے کہ حج کا پیغام مسلم اقوام کے لئے جاری کیا جاتا ہے، اب تک اس پیغام کے کیا عملی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
جواب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ اسی مقام پر مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس پیغام کا شاید دس زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے اور اس کی کاپیاں موسم حج میں منا کے میدان میں اور اس کے بعد تک تقسیم کی جاتی ہیں اور اسلامی انقلاب کے پیغام کے عنوان سے اسے حجاج کرام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی مختلف زبانوں میں اسے نشر کیا جاتا ہے جس کا مسلمانوں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ حالانکہ عالمی استکبار اور متعدد عرب و اسلامی حکومتیں اس پیغام کو دبانے کی باقاعدہ کوشش کرتی ہیں۔ ایک دفعہ یہ پیغام برطانیہ کے ایک اخبار میں شائع ہو گیا تو عالمی صیہونزم اس اخبار کے خلاف حرکت میں آ گيا۔ اس اخبار کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو گئيں۔
سوال: یہ واقعہ کب پیش آيا؟
جواب: مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے لیکن یہ انیس سو نوے کے عشرے کی بات ہے۔ صیہونیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ پیغام عام نہ ہونے پائے۔ سعودی عرب کی حکومت بھی اس کے نشر و اشاعت میں مددگار ثابت ہونے کے بجائے بسا اوقات رکاوٹ بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ البتہ حالیہ برسوں کے دوران گرفتاریاں بہت کم ہو گئی ہیں۔ تاہم ہر جگہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پیغام کو دبا دیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم یہ پیغام غیر ملکی اخبارات میں شائع کروانا چاہتے ہیں، اس کے لئے رقم بھی ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی شائع نہیں ہو پاتا۔ بہت سے اخبارات اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اور بعض کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
سوال: یورپی ممالک میں بھی؟
جواب: یورپی ملکوں میں بھی، بلکہ خود اسلامی ممالک میں بھی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہم سے بھی کسی حد تک کوتاہی ہوئی ہے۔
سوال: اس پیغام کی ماہیت کیا ہے؟ کیا یہ ایک سیاسی پیغام ہے جو کوئی حکمراں عوام کے لئے جاری کرتا ہے؟
جواب: نہیں، یہ قائد امت کا پیغام ہے امت کے نام۔ یہ امت اسلامیہ کے نام ایک دینی رہنما اور دینی مرجع کا پیغام ہے جو انقلاب کی قیادت کا بھی ذمہ دار ہے۔ وہاں موجود حاجی تمام امت اسلامیہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہاں جو اجتماع ہوتا ہے وہ در حقیقت امت مسلمہ کے نمائندوں کا اجتماع ہے۔ یعنی پوری امت مسلمہ کا اجتماع قربۃ الی اللہ کی نیت کے ساتھ۔ لوگوں کو وہاں یکساں اعمال اور نعروں کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تربیت صرف زبانی نہیں بلکہ عملی ہوتی ہے۔ حاجی کو اپنی نگاہ کے سلسلے میں محتاط رہنا ہوتا ہے، اپنے ہاتھ پیر کے حرکات و سکنات کے سلسلے میں محتاط رہنا ہوتا ہے، اسے اپنے منہ اور زبان کے سلسلے میں احتیاط رکھنا ہوتا ہے۔ احرام کے محرمات حاجی کی تربیت کے ضوابط ہیں۔
رہبر کا پیغام بھی اسی تناظر میں جاری ہوتا ہے۔ ان برسوں میں حجاج کرام کے نام رہبر انقلاب کی طرف سے جو پیغام جاری کئے گئے میں نے اس نقطہ نگاہ سے ان کا جائزہ لیا ہے، اگر آپ کہیں تو بیان کر دوں۔
سوال: جی بالکل بیان فرمائے!
جواب: اگر ہم رہبر معظم انقلاب کے ان پیغامات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ان میں سب سے پہلے جو نکتہ بیان کیا جاتا ہے وہ امت اسلامیہ کی تعمیر میں حج کے کردار سے متعلق ہے۔ قائد انقلاب کے پیغامات میں حج کے اس کردار پر بڑی باریکی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے۔ جیسے امت اسلامیہ کی کمزوریوں کے ازالے میں حج کا کردار۔ آپ نے ان پیغمات میں سے بعض میں فرمایا ہے کہ کچھ کمزوریاں خود ہمارے اندر ہیں اور کچھ کمزوریاں باہری عوامل نے پیدا کر دی ہیں۔ حج کے پیغامات میں تقوی اور تزکیہ نفس پر خاص تاکید اور غفلت سے پرہیز کی سفارش کے ذریعے ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حج کے کردار کو بیان کرنے والا ان پیغامات کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حج کو پرچم اسلام قرار دینے پر خاص تاکید ہوتی ہے۔ ایک پیغام میں قائد انقلاب نے فرمایا کہ حج امت کی حرکت کا مظہر اور سیاسی اسلام کے کردار کا آئينہ ہے۔
اگر ہم حج کے محوروں کو شمارکرنا چاہیں تو ان میں ایک ہے خانہ کعبہ کا طواف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری امت شریعت خداوندی اور ہدایت الہی کے مطابق چکر لگا رہی ہے۔ ایک اور ہم محور ہے رمی جمرات یعنی امت طاغوت اور طغیان کے مظاہر کو پتھر مارتی ہے۔
حج کا ایک اور اہم پیغام ہے اسلام کو در پیش چیلنجوں کے مقابلے میں استقامت کے لئے امت کو منظم و متحد کرنا۔ اس نکتے پر بھی قائد انقلاب کے پیغامات میں خاص تاکید ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہنا چاہئے کہ ان پیغامات میں جس محوری نکتے پر خاص تاکید ہوتی ہے وہ ہے امت اسلامیہ کے طرز زندگی میں حج کا کردار۔
ایک اور اہم نکتہ ہے شخص اور معاشرے کی اخلاقی تربیت میں حج کا کردار۔ یہ نکتہ بھی تمام پیغامات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پیغام میں حج سے متعلق مقدس مقامات پر موجودگی کے سنہری موقعے کو غنیمت جاننے اور تہذیب نفس پر توجہ دینے پر ضرور تاکید کی جاتی ہے۔
تیسرا اہم نکتہ جو ان پیغامات میں ہوتا ہے وہ ہے اسلام کی عظمت اور اس کے نتائج کی نشاندہی۔ انسانیت کی مشکلات کے سلسلے میں اسلام کی جانب سے پیش کردہ راہ حل کی عظمت کی نشاندہی۔
ایک اور اہم نکتہ جس پر تاکید ہوتی ہے اسلامی اتحاد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے پیغامات میں اسلامی اتحاد کا سب سے اہم راستہ اور مظہر اسلامی بیداری کو قرار دیا جاتا ہے۔ ان پیغامات میں اسلامی بیداری کو عصر حاضر کی سب سے پرکشش حقیقت قرار دیا جاتا ہے۔ ان پیغاموں میں بیداری کو وسیع تر اور عمیق تر بنانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اتحاد کے مظاہر اور نمونوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جیسے ایک ہی لباس، ایک ہی راستہ، ایک ہی موقف، طواف کی ایک ہی جگہ۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی سال کے پیغام حج میں فرمایا ہے کہ کعبہ رمز کلمہ توحید اور متحدہ امت مسلمہ کی منزل کی جانب پیش قدمی کا آئینہ ہے۔
ان پیغامات میں امت اسلامیہ کے عظیم وسائل و امکانات، مادی، روحانی، جغرافیائی اور ثقافتی امکانات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یعنی امت مسلمہ کو اس کے بے پناہ وسائل کی یاددہانی کرائی جاتی ہے جنہیں بد قسمتی سے دشمن تاراج کر رہے ہیں۔
ان پیغامات کا ایک اور اہم نکتہ ہے عالمی استکبار کی سازشوں سے پردہ ہٹانا۔ ان تمام پیغامات میں امت اسلامیہ کو مٹا دینے کی عالمی استکبار کی سازشوں اور ان مجرمانہ حرکتوں کی وجوہات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان جرائم کا بھی ذکر ہوتا ہے جو انجام دیئے جا رہے ہیں اور اسلامی علاقوں کے اہم ترین مسائل اور حالات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ تحریف کی کوششوں، معاندانہ اقدامات، فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں، قتل و غارتگری کے اقدامات اور امت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈے وغیرہ کا ذکر اس میں ہوتا ہے۔ ان تمام اندیشوں اور خطرات کو جن میں گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد اور بھی شدت پیدا ہو گئی ہے قائد انقلاب اسلامی اپنے پیغامات میں بیان کرتے ہیں۔ چونکہ اسلامی انقلابات اور اسلامی بیداری کی وجہ سے عالم اسلام پر تسلط قائم کرنے کے عالمی استکبار کے منصوبے نقش بر آب ہو گئے اس لئے دشمنوں نے امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے اور بد عنوانیاں پھیلانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ چنانچہ قائد انقلاب اسلامی اپنے پیغامات میں استکبار کو مستضعفین کا دشمن، انسانی حقوق کا مخالف، دہشت گردی کا حامی اور عالم اسلام میں نفاق کے بیج بونے والا قرار دیتے ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ علاقے کی پٹھو حکومتوں کی سازشوں کی قلعی کھولنا بھی ہے جو استعماری طاقتوں کے اہداف کی تکمیل کے لئے کوشاں رہتی ہیں اور حج کو اس کے اعلی اہداف سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ ان پیغامات میں اس پر بھی خاص تاکید ہوتی ہے۔
ایک اور اہم نکتہ ہے اسلامی جمہوری نطام کو عالمی استکبار کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کے کامیاب نمونے کے طور پر متعارف کرانا، اسے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کے نفاذ کا نمونہ، اسلامی وحدت کا علمبردار، قوم اور قائد کی باہمی وابستگی کا نمونہ اور دینی جمہوریت کا آئینہ و مستضعفین سے محبت اور ان کی مدد کا مظہر قرار دینا۔ یہ نکات پیش نظر ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ قائد انقلاب اسلامی کے پیغامات میں انہی محوروں کو تفصیلی یا اجمالی طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
سوال: ان محوری نکات پر تاکید کرنے کا دیگر ممالک میں کیا اثر دیکھنے میں آتا ہے؟ کیا عرب اور اسلامی ممالک کے ممتاز دانشوروں اور سیاستدانوں کے حلقے کی سطح پر کوئی رد عمل ہوتا ہے؟
جواب: سبھی کہتے ہیں کہ یہ پیغام ان کے لئے کتنے موثر، حیات بخش اور بصیرت افروز ثابت ہوئے؟! میں ہر سال تقریبا پچاس ممالک کا دورہ کرتا ہوں، جب بھی غیر ملکی دوروں پر جاتا ہوں، کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہوں تو مختلف افراد سے، تنظیموں سے، مسلم رہنماؤں سے، خصوصا مختلف ملکوں کی اسلامی و سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ سبھی ان نکات کا ذکر کرتے ہیں اور ان پیغامات کی تعریف کرتے ہیں۔ یعنی ان پیغامات کی تشہیر میں ہماری جو کمزوری رہی ہے اس کے باوجود یہ پیغام جہاں جہاں پہنچے ہیں ان سے بڑے حیات بخش اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت عوامی ڈپلومیسی کی اصطلاح دنیا میں رائج ہے۔ یعنی ملکوں کے رہنما دیگر ممالک کی حکومتوں کے بجائے وہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ کیا پیغام حج کو اسلامی جمہوریہ ایران کی عوامی سفارت کاری اور انقلاب کو برآمد کرنے کا اہم ذریعہ قرار دیا جا سکتا ہے؟
جواب: بیشک۔ انقلاب کے پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا ایک بہترین راستہ حجاج کرام کے نام امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور قائد انقلاب اسلامی کا پیغام ہے۔ حج کے عظیم اجتماع میں جان ڈال دینے کا ایک راستہ، حج کو اس کے اصلی مضمرات سے تہی بنا دینے کی کوششوں کو ناکام کر دینے کا ایک راستہ اور مسلمانوں کی زندگی میں حج کے کردار کو نمایاں کر دینے کا ایک راستہ یہی پیغامات ہیں جنہوں نے اپنا اثر دکھایا بھی ہے۔ البتہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس پیغام کی تشہیر میں ہم سے کسی حد تک کوتاہی ہوئي ہے۔
سوال: اختتامی کلمات کے طور پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: میری آرزو ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ اسلامی عبادات کے مضمرات کو صحیح طور پر سمجھیں اور ان کے پیغامات کا ادراک کریں۔ مشکل یہ ہے کہ بہت سے حجاج کرام طولانی سفر طے کرکے آتے ہیں، زحمتیں برداشت کرتے ہیں، لیکن حج کے پیغام کو سمجھ نہیں پاتے۔ روایات میں ہے کہ مایزال علی الحاج نور الحج حتی لم یذنب یعنی حاجی نور حج کے ساتھ گھر لوٹتا ہے اور انسان کے وجود میں یہ نور اس وقت تک درخشاں رہتا ہے جب تک اس سے خدانخواستہ کوئی گناہ سرزد نہ ہو جائے۔ ایسا ہو جانے پر یہ نور رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ حجاج کرام یہ نور کسب کرنے کی بھی کوشش کریں گے اور اس کے پیغام اور اس عبادی اجتماع کے ثمرات کی حفاظت کرنے کی بھی کوشش کریں گے تا کہ حج امت اسلامیہ کی تربیت میں اپنا اثر دکھا سکے۔