قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین کی کونسل (مجلس خبرگان) کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں دو مارچ سنہ 2012 کے پارلیمانی انتخابات میں بھرپور شرکت کے ملک کے عوام کے بروقت، دانشمندانہ اور بصیرت آمیز اقدام کی قدردانی کی اور اس عظیم الشان شرکت کے نتائج اور اثرات کا جائزہ لیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں عوام کی اکثریت کی شرکت در حقیقت اسلامی نظام کی حمایت اور نظام پر عوام کے مکمل اعتماد کی علامت ہے اور اس نے دماغ ٹھیک کر دینے والے طمانچے کی طرح ان لوگوں کو جو اسلامی نطام کے وجود، اس کے مستقبل اور عوام کے بارے میں توہمات کا شکار ہیں، ہوش میں لا دیا اور حقیقت کو آشکارا کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ واقعی اس دفعہ کے انتخابات میں عوام نے بھرپور انداز میں اپنا فریضہ پورا کیا، عوام نے دو مارچ کے انتخابات کے موقعے پر مخالف محاذ کے مقابلے میں اپنے ایمان و بصیرت کی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس عظیم اقدام سے انتخابات کو بے رونق بنانے کے دشمنوں کے کئی مہینوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع شرکت در حقیقت ملک میں رحمت خداوندی کی نسیم بہاری کے حرکت میں آ جانے کی علامت تھی، لہذا ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس رحمت خداوندی کی قدردانی میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ شکر بجا لانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ رحمت الہی کے نزول کے لئے ضروری ہے کہ اس کی راہ ہموار کی جائے اور ایرانی عوام نے میدان عمل میں اپنی موجودگی، بے مثال بصیرت اور استقامت کے ذریعے رحمت الہی کے نزول کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا چنانچہ اس توفیق پر بھی ہمیں شکر الہی بجا لانے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں تہہ دل سے عزیز ایرانی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نویں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد میں دخیل تمام عہدیداروں اور خاص طور پر نگراں کونسل کی قدردانی کی جس کے دوش پر سنگین فرائض ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس دفعہ کے انتخابات میں حکومت، وزات داخلہ، سیکورٹی حکام، اداروں اور تشہیراتی و نشریاتی اداروں نے واقعی بہت نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس انتہائی حیاتی عمل کو بحسن و خوبی سرانجام دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی جمہوریت اور اس کے اندر انتخابات کی اہمیت کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ انتخابات اسلامی نظام کا ایک اہم جز ہے اور دینی جہموریت کا دار و مدار انتخابات پر ہوتا ہے بنابریں جو شخص بھی اسلامی نظام پر عقیدہ رکھتا ہے، انتخابات میں شرکت کو اپنا فریضہ مانتا ہے چاہے اسے بعض باتوں سے شکایت ہی کیوں نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جمعے کے دن انتخابات میں جن لوگوں نے شرکت کی انہوں نے در حقیقت ایک واجب امر پر عمل کیا اور صحیح ادراک کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا کیونکہ اسلامی جمہوری نطام میں یہ اجازت نہیں ہے کہ کچھ چیزوں سے اختلاف رائے ہونے کی بنا پر انتخابات میں شرکت نہ کی جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ کے انتخابات نے ہوش میں لا دینے والے طمانچے کی مانند ان افراد کو خـبردار کر دیا جو اسلامی نظام اور عوام کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے تھے، آپ نے فرمایا کہ انتخابات سے ساری حقیقت سامنے آ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے خلاف جنگ کے بارے میں نہیں سوچتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ بات اچھی ہے اور اس سے توہمات سے باہر نکلنے کا اندازہ ہوتا ہے لیکن امریکی صدر نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ہم پابندیوں کی مدد سے ایرانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پابندیوں کے معاملے میں اب بھی وہ توہم کا شکار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ توہم جاری رہا تو امریکی حکام شدید نقصان اٹھائیں گے اور ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے رہیں گے کیونکہ دشمن محاذ بالخصوص امریکا تینتیس سال سے ایران پر پابندیاں لگائے ہوئے ہے اور خاص طور پر پچھلے سال کے دوران اس نے دباؤ بڑھا کر عوام الناس کو اسلامی نظام سے بیزار بنا دینے کی کوشش کی لیکن دو مارچ کو پوری دنیا نے اسلامی نظام سے عوام کے والہانہ لگاؤ کا مشاہدہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے دو مارچ کے انتخابات کے ایک اہم ترین پہلو کی حیثیت سے اسلامی نظام پر عوامی اعتماد کا نام لیا اور فرمایا کہ سنہ دو ہزار نو کے ہنگامہ خیز انتخابات کے بعد بعض لوگ اس طرح کی باتیں کرنے لگے تھے کہ اسلامی نظام سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن دو مارچ کے انتخابات کا منظر اس غلط اندازے اور تخمینے کا واضح اور بھرپور جواب ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوامی بصیرت اور رائے دہندگان کی فکری پختگی کو بھی نویں پارلیمانی انتخابات کا نمایاں پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ پولنگ کے مراکز پر پہنچنے والے ہر چھوٹے بڑے کی نظر میں ووٹ دینے کے لئے ایک تجزیہ اور منطقی وجہ تھی اور سب سے اہم وجہ دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے کا عزم تھا جس سے عوام کی بصیرت ثابت ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس دفعہ کے انتخابات کا ایک اور اہم نکتہ اتنے اہم انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے، جو افراد منتخب ہوکر آئے ہیں انہیں چاہئے کہ قانون سازی سمیت اپنے تمام فرائض پر دانشمندی اور فکر و تدبر کے ساتھ عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی جمہوریت کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ اصولوں کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی ممالک میں ہولوکاسٹ کے انکار یا اس کے بارے میں کئے جانے والے شک کو جرم کے دائرے میں رکھے جانے اور دوسری طرف پیغمبر اکرم کی شان میں گستاخی پر اعتراض کی اجازت نہ ہونے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسی طرح کا ایک نمونہ دفتر اور کام کی جگہ پر عورتوں کے حجاب کے استعمال کو جرم قرار دیا جانا ہے۔