قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے میں آپ کے شیدائیوں اور عقیدتمندوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کو پدر ملت اور مہربانی و شفقت اور قوت و استقامت کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی تاریخ ساز قوم نے انہی خصوصیات کی مدد سے اقوام عالم کے سامنے عالمی استکباری طاقتوں کے دائرہ تسلط سے آزاد مملکت ایران کی شکل میں کامیاب نمونہ پیش کیا اور دنیا کی استبدادی طاقتوں کو وحشت زدہ کر دیا اور یہ سلسلہ، پیشرفت و ترقی کی بلند ترین چوٹیوں تک رسائی اور دشمنوں کی مکمل قنوطیت و مایوسی تک جاری رہے گا، بلا شبہ مسلمان اقوام اور ملت ایران کا مستقبل ان کے ماضی سے بہتر ہوگا۔
رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تیئیسویں برسی کے موقع پر آج اتوار تین جون دو ہزار بارہ کی صبح عقیدت مندوں کا سیلاب امڈ پڑا۔ اس عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے پدر امت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی عید اور تیرہ رجب کو یوم پدر کے طور پر منائے جانے کی بہترین رسم کا ذکر کیا۔ آپ نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بے نظیر خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس قوم کے لئے ایک باپ کا کردار ادا کیا، آپ ایک طرف پدرانہ عطوفت و شفقت کا مظہر اور دوسری جانب طاقت و استقامت کا آئینہ تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کو عالم اسلام میں پھیلی اسلامی تحریک کا سرچشمہ قرار دیا اور فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی سیرت اور روش کا ایک اعجازی پہلو ملک کے اندر قومی وقار کی روح پھونکنا اور قوم کو نئی زندگی عطا کرنا تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر قومی وقار کا جذبہ بیدار کرنے کے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے حکیمانہ اقدام کو معاشرے کے زمینی حقائق پر استوار بحث قرار دیا اور عزت نفس کے تعلق سے قرآن کا نقطہ نگاہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی نقطہ نگاہ سے حقیقی اور کامل عزت اللہ اور اس شخص کے لئے ہے جو الہی محاذ میں شامل ہو۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مطابق قرآنی تعلیمات کی رو سے عزت نفس اللہ سے طلب کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ جب کسی شخص یا معاشرے کو حقیقی معنی میں عزت نفس مل جاتی ہے تو وہ عزت نفس مستحکم حصار کی مانند دشمن کے نفوذ، ہجوم اور تخریبی کوششوں سے معاشرے کی حفاظت کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ عزت نفس، سماج اور افراد کے باطن میں جتنی گہرائی تک اتر جاتی ہے اس کا تحفظ اتنا ہی نمایاں ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ انسان اور سماج ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ سب سے برے دشمن یعنی شیطان کی دست برد سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو اس عزت نفس کا بھرپور مرقع قرار دیا اور فرمایا کہ امام خمینی، اپنی پوری زندگی کے دوران، تعلیم و تدریس کے دور میں بھی، انقلابی تحریک کے دور میں بھی اور حکومت و انتظامی امور کی انجام دہی کے دور میں بھی، خدائے عزیز و رحیم کی ذات پر توکل کے حقیقی مصداق تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایسے عظیم کام جنہیں لوگ ناممکن اور محال گردانتے تھے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ظہور کے ساتھ ہی ممکن نظر آنے لگے اور سد راہ بن جانے والی ناقابل تسخیر دیواریں امام خمینی کے آتے ہی لرزنے لگیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ خود بھی عزت نفس اور روحانیت کا مظہر تھے اور آپ نے قوم کے اندر بھی عزت نفس کا جذبہ بیدار کیا، نتیجتا ملت ایران نے انقلاب اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات سے عزت نفس کا جو درس حاصل کیا اس کی مدد سے اپنی توانائیوں کا انکشاف کرنے میں اسے کامیابی ملی اور وہ متعدد الہی وعدوں کے ایفاء منجملہ مستکبرین پر مستضعفین کی فتح کی شاہد بنی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سرزمین کی پرنشیب و فراز تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم ایرانیوں نے اپنی طویل تاریخ میں عزت و ذلت کے مختلف اداور دیکھے ہیں اور اسلامی انقلاب پر آکر ختم ہونے والا دو سو سالہ دور تاریکی و ذلت کا انتہائی دشوار دور رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے اور دنیا کی سطح پر تنہائی، اقتصادی شعبے میں رو‌ز افزوں پسماندگی، علم و دانش کے شعبے میں تیز رفتار انحطاط اور اغیار و استعمار کے سامنے ایرانی حکمرانوں کی غلامی، قاجاریہ اور پہلوی دور کے شرمناک حقائق ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ترکمن چائے اور گلستان نامی شرمناک معاہدوں اور ان کے نتیجے میں وطن عزیز سے درجنوں شہروں کے نکل جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ذلت ناک دور میں اغیار نے پٹھو پہلوی حکومت کی تشکیل کی اور ایران کو اپنی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی زور آزمائی کا اکھاڑا بنا دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ دو سو سالہ دور میں اغیار کے استبداد کے سامنے ایرانی حکام کی ذلت و رسوائی کی بعض مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک اس دور میں بھی کچھ استثنائات جیسے امیر کبیر، تنباکو کے قضیئے میں آیت اللہ شیرازی کا فتوی، آئینی تحریک اور آئل انڈسٹری کے نیشنلائیزیشن کی تحریک میں علماء کا کردار، وغیرہ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ استثنائات یا تو کوتاہ مدت تھے یا پھر پوری طرح ناکام ثابت ہوئے اور تاریخ کی معمار اس قوم پر ذلت و رسوائی کے بادل پھر چھا گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عظیم اسلامی انقلاب کی فتح کو ذلت و رسوائی کے دور کا خاتمہ اور عزت و وقار کے دور کا سرآغاز قرار دیا اور فرمایا کہ انقلاب کی فتح کے بعد ایک نیا باب شروع ہوا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قومی عزت نفس کے احیاء پر توجہ دیکر اس باایمان قوم کے دلوں کی گہرائیوں میں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں کا جذبہ جاگزین کر دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے قرآنی آیات کی روشنی میں ایمان کی عزت آفرینی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ حکیم ملت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جذبات اور ہمت و حوصلہ کا احیاء کرکے صاحب ایمان قوم کو میدان میں پہنچایا اور میدان عمل میں قوم کی آمد سنت الہیہ کے مطابق بیکراں رحمت پروردگار کے نزول کا مقدمہ بن گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوم کی اندرونی اور باطنی تعمیر کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات کا بنیادی عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ قومی عزت نفس کے احیاء کے عمل میں کبھی بھی غرور اور مبالغہ آرائی کی روش اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ قوم کے اندرونی ڈھانچے کی تقویت پر زور دیتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس عظیم سرزمین میں قومی عزت نفس آج زندگی کی حرارت پھیلا رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت اور قومی عزت نفس کے تسلسل کے لئے جمود کے عوامل کے مقابلے پر زور دیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے عمل کو مختل کر دینے والے بعض عوامل خود ہمارے اندر پائے جاتے ہیں، جبکہ بعض عوامل دشمنوں کی جانب سے مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انقلاب سے قبل کے اس جہنمی ماحول میں دوبارہ مبتلا نہ ہوں تو ان تمام عوامل کا ہمیں ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے کو ترقی و انصاف کے عشرے سے موسوم کئے جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے حقیقی وسیع مفہوم میں انسان اور معاشرے کے جملہ مادی و روحانی پہلو بشمول آزادی و انصاف و ترقی و اخلاقی ارتقاء، سب کچھ موجود ہے بنابریں ہمارے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ملت عزیز کو جس راستے پر پہنچایا ہے اسی پر ہمیں گامزن رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کو پیشرفت اور قومی عزت نفس کا کامیاب اور مجرب نمونہ قرار دیا اور اس حقیقی پیشرفت کے نمونوں اور مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران گزشتہ تینتیس سال کے دوران تمام سیاسی، دفاعی، معاشی اور سیکورٹی سے متعلق چیلنجوں پر غالب آئی جو اسلامی نطام کو نابود کرنے کے مقصد سے کھڑے کئے گئے تھے، یہ حقیقت عظیم الشان ملت ایران کی پیشرفت کی نمایاں علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقائی و عالمی تغیرات کے سلسلے میں ایران کے قابل لحاظ اور نمایاں اثر و نفوذ کو ملت ایران کی ناقابل انکار پیشرفت کی ایک اور علامت قرار دیا اور اس سلسلے میں بعض صیہونی اور امریکی حکام کے اعترافات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ تین عشروں کے دوران قوم اور اسلامی نطام کی استقامت، عزت نفس اور پائیداری، علاقے اور دنیا کے اہم واقعات میں اس کے موثر کردار پر منتج ہوئی۔
ملک بھر میں تسلسل کے ساتھ وسیع پیمانے پر جاری ترقیاتی و تعمیراتی کاموں اور نوجوان ایرانی ماہرین کے ہاتھوں پیچیدہ ترین کارخانوں اور صنعتوں کی تعمیر و تکمیل کو بھی قائد انقلاب اسلامی نے ترقی کے عینی نمونوں سے تعبیر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی موضوع کے ضمن میں ملک کی علمی پیشرفت کی رفتار کو ایک اور اہم علامت قرار دیا جو دنیا کے معتبر مراکز کی رپورٹوں کے مطابق ملک کی قابل قادر پیشرف کو ثابت کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عالمی مراکز کی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال ایران کی علمی پیشرفت دنیا کی علمی پیشرفت کی اوسط رفتار کی گیارہ گنا تھی، جبکہ ایٹمی ٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی، اسٹیم سیلز، ایروناٹکس اور بایو ٹکنالوجی کے شعبو میں ایران بہت درخشاں پوزیشن میں ہے اور دنیا کے پیشرفتہ ترین ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں پائیدار اور تابناک جمہوریت کو بھی گزشتہ تین عشروں میں ایرانی قوم کی پیشرفت کی اہم علامت قرار دیا۔ آپ نے ایک روز کی بھی تاخیر کے بغیر دس صدارتی انتخابات کے انعقاد اور خاص طور پر دسویں صدارتی الیکشن میں عوام کی شاندار شرکت اور نویں پارلیمنٹ کے کام کی شروعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حالیہ تینتیس برسوں میں کوئی بھی سیاسی یا سیکورٹی کے امور سے متعلق واقعہ اور کوئی بھی فوجی دھمکی جمہوریت کے پرشکوہ عمل کو متاثر نہیں کر سکی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے نعروں اور امنگوں کے دوام کو ملت ایران کی پیشرفت کی ایک اور اہم علامت قرار دیا اور ہر سال اسلامی انقلاب کی فتح کے پرشکوہ جشن کے انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے میں روحانی و دینی جذبات کی گہرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کچھ لوگ مٹھی بھر افراد کے طرز عمل کو بنیاد بنا کر معاشرے کی کلی فضا کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیں تاہم اعتکاف جیسے پروگراموں میں معاشرے کے مختلف طبقات بالخصوص یونیورسٹیوں سے وابستہ نوجوانوں کی بڑھ چڑھ کر شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ قوم کے روحانی ارتقاء کا عمل بھی جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو حقائق بیان کئے گئے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران اور ایرانی شہری پرچم اسلام کے زیر سایہ، عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی الہی تحریک و پیغام کے زیر سایہ اور قومی عزت نفس اور اندرونی ڈھانچے کے استحکام کی مدد سے ہر پہلو سے ترقی کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی پیشرفت اور علاقے و دنیا کی اقوام کی نطر میں اس قوم کے نمونہ عمل کی حیثیت اختیار کر لینے کا حوالہ دیا اور اسے اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے خوف و ہراس کی اصلی وجہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کے ایٹمی خطرے پر مبنی دنیا کے سیاسی حلقوں کی مبالغہ آرائی، جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ جوہری ایران سے نہیں بلکہ اسلامی ایران سے خائف ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ استکبار کے ایوانوں کی بنیادیں اس حقیقت کی وجہ سے لرزاں ہو گئی ہیں کہ ملت ایران نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکا اور بلند بانگ دعوے کرنے والی طاقتوں کی مدد کے بغیر بلکہ ان کی دشمنیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ترقی کی منزلیں طے کی جا سکتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا اور دوسری سامراجی طاقتیں دنیا کی اقوام، سیاسی شخصیات اور دانشوروں کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ امریکی دائرے سے نکل کر ترقی ممکن ہی نہیں ہے جبکہ ملت ایران نے اس تاثر پر خط بطلان کھینچ دیا اور قوموں کے سامنے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی پیشرفت کی علامتوں کی بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ آپ ایرانی عوام نے تینتیس سال کے عرصے میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے اور بے مثال ترقی کی ہے تاہم اگر اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں پر آپ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے تو یقینی طور پر آپ کو شکست ہو جائے گی اور آپ پھر پسماندگی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ بنابریں ترقی کی راہ پر سفر بغیر کسی وقفے کے جاری رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیشرفت کی حقیقی بلندیوں کی جانب پیش قدمی کے عمل میں حکام کی ذمہ داریوں اور فرائض کو بہت سنگین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سفر میں کسی بھی قسم کا توقف، خود ستائی و غرور، خود محوری، غفلت، اشرافیہ تکلفات، تعیش، دنیوی زیبائی کے وسائل کی ذخیرہ اندوزی اور مقبولیت و شہرت حاصل کرنے کی کوشش حکام کے لئے بالکل ممنوع ہے اور بلندیوں تک رسائی اسی امتناع کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم عہدیداروں کو چاہئے کہ خود کو ان قباحتوں سے محفوظ رکھیں جیسا کہ عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے خود کو ان چیزوں سے دور رکھا۔ آپ نے معاشرے کے نوجوانوں، طلباء، حکام، علماء اور بااثر افراد پر زور دیا کہ سیاست، علم و دانش، سائنس و ٹکنالوجی بالخصوص اخلاقیات و معنویت جیسے میدانوں میں پیشرفت کے اوج پر رسائی کے لئے پیش قدمی کا عمل جاری رکھنا چاہئے اور اس سفر کے دوران اپنی خامیوں کو برطرف کرتے رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ نقطہ اوج کی جانب بلا وققہ حرکت کے نتیجے میں دشمن کی ایجاد کردہ رکاوٹیں منجملہ پابندیاں بھی بے اثر ہوتی جائیں گی۔ آپ نے مزید فرمایا کہ پابندیاں ملت ایران کی پیشرفت کے عمل کو روک نہیں سکتیں بلکہ ان کا واحد نتیجہ مغرب سے ملت ایران کی نفرت میں اضافہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران اس وقت پیشرفت کے سفر میں پہاڑ کے دامن تک پہنچ چکی ہے اور جس دن اس نے چوٹی کو سر کر لیا خباثت آمیز دشمنیاں اور مخالفتیں دم توڑ دیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے عظیم عوامی اجتماع سے خطاب میں یمن، بحرین، مصر، لیبیا، تیونس اور دیگر ممالک میں جاری عوامی انقلابی تحریک کو جو خاکستر میں دبی چنگاری کی مانند ہیں، اسلام کے زیر سایہ قومی عزت نفس، انصاف اور آزادی کے حصول کے لئے قوموں کی مجاہدت کا واضح نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان تحریکوں کے تعلق سے اسلامی بیداری کا نظریہ، استدلال پر استوار پختہ خیال ہے کیونکہ قومیں اپنے اصول و زاویہ فکر کے تناظر میں آزادی، انصاف اور جمہوریت کی خواہاں ہیں اور علاقے کی اقوام کے ایمان کے مد نظر ان کا زاویہ نگاہ اسلامی ہے اور اسی بنیاد پر علاقے کی تحریکوں کی ماہیت بھی اسلامی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک اور ان کی ہمنوا حکومتوں کی جانب سے علاقے کے انقلابوں کی ماہیت تبدیل کرنے اور ان تحریکوں کو بے سود ظاہر کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کی بااثر شخصیات اور اقوام بہت محتاط رہیں کہ کہیں دھوکا نہ کھا جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے حالیہ انقلابات کے باعث سیاسی و سماجی فضا میں آنے والی بنیادی اور اثرانگیز تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت جو کچھ رونما ہوا ہے وہ نئی صبح کے آثار ہیں اور آئندہ چل کر ہم اور بڑے تغیرات کا مشاہدہ کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے سیاسی و سماجی حالات میں آنے والی تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت مصری عوام کا انقلاب اپنے اوج پر تھا، بہت سے مغربی ممالک اور علاقے کی استبدادی حکومتوں نے حسنی مبارک حکومت اور اس کے ہاتھوں عوامی انقلاب کی سرکوبی کی حمایت کی لیکن مصری عوام کی فتح کے بعد انہیں طاقتوں اور ان کی ہمنوا ڈکٹیٹر حکومتوں نے جو عوام الناس اور عوامی حقوق کا نام سننے کی روادار نہیں تھیں، انسانی حقوق اور جمہوریت کا دم بھرنا شروع کر دیا جو علاقے کے ماحول میں اہم تبدیلی کی علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر کو عظیم ملک اور مصری قوم کو علاقے کی بہت بااثر اور دیرینہ تاریخ کی مالک قوم قرار دیا اور فرمایا کہ بدعنوان حکمرانوں نے برسوں تک مصری قوم کو رسوا کیا اور اس ملک کو صیہونی حکومت کے اسٹریٹیجک ذخیرے میں تبدیل کر دیا لیکن اب یہ خزانہ غاصب صیہونیوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے حسنی مبارک سرکار کے فریضے کا ذکر کیا جس کے تحت بائیس روزہ جنگ غزہ کے دوران پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو کھلی جیل میں محصور کرنے میں حسنی مبارک کو کوئی تامل نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ مبارک کے سقوط کے بعد اب صیہونی حکومت شدت سے احساس عدم تحفظ کر رہی ہے اور اس پر اضطراب و سراسیمگی طاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے عہدیداروں کی فوجی دھمکیوں اور واویلا کو ان کی بیچارگی، دہشت اور خوف و ہراس کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ صیہونی حکام کو بخوبی اندازہ ہے کہ وہ اس وقت ہمیشہ سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور ان کا کوئی بھی غلط اقدام اور ناشائستہ حرکت خود ان پر بجلی بن کر گر سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت کرنے والے مغرب اور امریکا انتہائی ناسازگار حالات سے دوچار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آج اقتصادی، مالیاتی اور سماجی بحرانوں کی وجہ سے مغرب اپنے عوام کے سامنے بے دست و پا ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقت میں اپنا منہ پیٹ رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یورپ میں کئی امریکہ نواز حکومتوں کی سرنگونی اور امریکا سے قوموں کی نفرتوں میں روز افزوں شدت کو مغرب میں پھیلے گہرے بحران کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی ممالک حادثہ آفرینی کرکے اس بحران کو ایشیا، افریقا اور ہمارے علاقے میں منتقل کرنے کے در پے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے حال ہی میں انقلاب لانے والے ممالک میں نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر اختلاف ایجاد کرنے اور انقلابوں کو الٹ دینے جیسی روشوں کو بحران کی منتقلی کے امریکا اور مغرب کے حربے قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت امریکی حکام، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے برطانیہ کے تجربے اور مہارت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ لہذا تمام اقوام، علماء و دانشوروں بشمول شیعہ و سنی کے، سب کو چاہئے کہ محتاط رہیں کہ دشمن کی سازشوں پر عملدرآمد میں مددگار نہ بن جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں اور مغربی حکام کے ان اقدامات کو دیوانہ پن قرار دیا اور فرمایا کہ یہ لوگ اپنے بحران اور مشکلات پر پردہ ڈالنے اور ذہنوں کو دوسری جانب موڑنے کے لئے ایران کے ایٹمی مسئلے کے تعلق سے مبالغہ آرائیاں کر رہے ہیں اور اسے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کے لئے کوشاں ہیں، وہ دروغگوئی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کی بات کرتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے اور ان کی سازشیں کسی نتیجہ تک پہنچنے والی نہیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران علاقے کو پرامید نگاہوں سے دیکھ رہا ہے، البتہ کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ علاقے کے بعض ممالک نے امریکا کی نیابت میں کچھ اقدامات انجام دیئے لیکن لطف الہی سے انقلابی ممالک بالخصوص مصر امن و استحکام کی منزل تک پہنچے گا اور علاقے کے ڈکٹیٹروں کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بحرین کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے بحرینی عوام کو انتہائی مظلوم قرار دیا اور فرمایا کہ اس ملک کے عوام ظالم و مستبد حکومت کے ہاتھوں بلا وجہ کچلے جا رہے ہیں اور ان کے احتجاج کا جواب بڑی سفاکی سے دیا جا رہا ہے، حالانکہ بحرین کے عوام اپنے ابتدائی ترین جمہوری حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بحرین میں عوام کے مطالبات پر توجہ دینے کے بجائے مسئلے کو مذہبی اختلافات اور شیعہ سنی سنازعے کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سچائی پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں جاری تحریکیں اپنی منزل پر پہنچیں گی تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ شعلہ ور نہ ہونے پائے۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اقوام اور ملت ایران کا مستقبل ان کے ماضی سے بہتر ہوگا۔