قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں نئی حکومت کے کام کی شروعات کے سلسلے میں مجریہ اور  پارلیمنٹ کی اچھی ہم آہنگی کی تعریف کی اور ڈاکٹر حسن روحانی کو پسندیدہ، قابل اعتماد اور روشن انقلابی ماضی کا مالک قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں پسندیدہ حکومت کی خصوصیات منجملہ اخلاقی و اعتقادی صحتمندی، عوامی خدمت کے جذبے، انصاف پسندی، اقتصادی سلامتی، بدعنوانی سے مقابلہ، قانون پسندی، حکمت و دانش پر ارتکاز اور داخلی صلاحیتوں پر بھروسے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ معیشت اور علم و دانش کو ترجیحات میں رکھئے اور افراط زر پر قابو پاکر عوام کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل، پیدواری شعبے کے فروغ، معاشی شعبے میں استحکام اور چہل پہل اور عوام کے اندر مستقبل کے تئیں امید میں اضافہ کیجئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے شام کے خلاف فوجی جارحیت کی امریکی دھمکی کو پورے علاقے کے لئے حتمی المئے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ہر طرح کی مداخلت اور جنگ افروزی جنگ کی آگ بھڑکانے والے کے نقصان میں جائے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے صدر مملکت کی جانب سے بلا تاخیر پارلیمنٹ میں اپنی کابینہ کے وزراء کے نام پیش کر دئے جانے کی تعریف کی اور فرمایا کہ مجوزہ ناموں کے لئے پارلیمنٹ کی جانب سے اکثریت کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حکومت کا کام فوری طور پر شروع ہو جانے کا باعث بنا اور اس سے دونوں شعبوں میں قابل قدر ہم آہنگی نیز حکومت کا کام شروع ہو جانے کے سلسلے میں صدر مملکت اور پارلیمنٹ دونوں کی خاص حساسیت کا اندازہ ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی مشکلات برطرف کرنے کے سلسلے میں صدر جمہوریہ کے عزم راسخ کی تعریف کی اور فرمایا کہ انشاء اللہ حکومت اپنے عزم محکم کی مدد سے صحیح سمت میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے سنگین فرائض کو انجام دیگی۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پسندیدہ اسلامی حکومت کی خصوصیات اور معیاروں کو بیان کرتے ہوئے اخلاقیات او عقیدے کی سلامتی کا ذکر کیا اور اسے پسندیدہ اسلامی حکومت کی سب سے اہم خصوصیت قرار دیا۔ آپ نے  فرمایا کہ یہ عقیدہ اور معاشرے کے حقائق کے سلسلے میں یہ طرز فکر حکومت کی صحتمند کارکردگی کا باعث بنے گا۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی کی تقاریر میں انقلاب کے اقدار اور اصول بالکل نمایاں ہیں، اگر ہم عملی طور پر ان کے پابند رہیں اور کسی بھی طرح کا شبہ ہونے پر ان سے رجوع کریں تو تمام امور بنحو احسن انجام پائيں گے اور آگے بڑھیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عقیدے اور اخلاقیات کے اعتبار سے صحتمندی کی مزید تشریح کرتے ہوئے اللہ کے وعدہ نصرت پر یقین کامل کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح، مقدس دفاع اور اوائل انقلاب میں متعدد قومیتی شورشوں پر غلبہ حاصل ہونے کے بعد عوام اور حکام کو اللہ کے وعدہ کے ایفاء کا منظر واضح طور پر نظر آیا اور یہ گراں قدر تجربات اللہ کے وعدوں پر یقین میں مزید پختگی پیدا ہو جانے کا باعث بنے۔

قائد انقلاب اسلامی نے داخلی وسائل اور صلاحیتوں پر تکیہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مشکلات کا حل داخلی وسائل اور توانائیوں میں مضمر ہے، لہذا ان سے دانشمندی کے ساتھ استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے داخلی وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے سلسلے میں مزید فرمایا کہ اس کا مطلب بیرونی وسائل کو ترک کر دینا نہیں ہے بلکہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں بیرونی وسائل سے آس نہیں لگانی چاہئے اور ان پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے انقلاب دشمن طاقتوں کے محاذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ دشمن محاذ سے دوستی اور یگانگت کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں دس بارہ سال قبل شروع ہونے والی تیز رفتار علمی تحریک کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ یہ تیز رفتار علمی تحریک ہرگز رکنا نہیں چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کا حل علم و دانش پر منحصر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ معاشی میدان میں علمی پیشرفت اور نالج بیسڈ کمپنیوں پر تکیہ کرنا تیل اور خام مال فروخت کرنے سے زیادہ سودمند ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کی پرزور سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی علمی تحریک کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ علم و ٹکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا ہے۔ آپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کی زنجیر کی تکمیل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سلسلہ فکر و آئیڈیا سے شروع ہوتا ہے پھر سائنس و ٹکنالوجی کے مرحلے تک پہنچتا ہے اور سرانجامد پیداوار اور بازار تک  پہنچتا ہے بنابریں صرف ٹکنالوجی تک رسائی حاصل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ یہ زنجیر مکمل ہونا ضروری ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں خارجہ پالیسی کے تعلق سے بھی اہم ترین نکات بیان فرمائے۔ آپ نے کہا کہ اگر اس میدان میں عزت، حکمت اور مصلحت کو بخوبی سمجھا اور ان پر عمل کیا جائے تو خارجہ پالیسی اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان ہو جائے گی۔

قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے حساس اور بحرانی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مصر کے امور میں مداخلت کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہم مصر کے عوام کے قتل عام کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ آپ نے کہا کہ ہم مصر کے عوام کے قتل عام کی جو مسلح بھی نہیں تھے مذمت کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس قتل عام کا سبب جو کوئی بھی ہو اسلامی جمہوریہ ایران کی نظر میں قابل مذمت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مصر میں خانہ جنگی سے شدت کے ساتھ اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ مصر میں خانہ جنگی پورے عالم اسلام اور علاقے کے لئے المئے سے کم نہیں ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے جمہوریت اور عوام کے ووٹ کو مرکزی درجہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ مصر کےعوام نے برسوں کی استبدادی حکومت کے بعد اسلامی بیداری کی برکت سے شفاف اور صحتمند انتخابات کا انعقاد کیا اور جمہوریت کا یہ عمل رکنے والا نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے شام کے تغیرات کے سلسلے میں فرمایا کہ امریکا کی ممکنہ مداخلت کا خطرہ پورے علاقے کے لئے المیہ ثابت ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ایسی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو امریکیوں کو یقینی طور پر اسی طرح نقصان اٹھانا پڑے گا جیسے عراق اور افغانستان میں مداخلت سے انہیں نقصان پہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی بھی ملک میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ آگ بھڑک اٹھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اور ان طاقتوں سے قوموں کی نفرت میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ اشتعال انگیزی بارود کے ڈھیر میں چنگاری کا کام کرے گی جس کے نتائج اور گوناگوں پہلوؤں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔