قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین کی کونسل (قائد انقلاب کا انتخاب اور کارکردگی کی نگرانی کرنے والا ادارہ، مجلس خبرگان) کے ارکان سے انتہائی اہم خطاب میں اسلامی نظام کے عہدیداروں کو ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر جامع دور اندیشانہ نظر رکھنے اور مرعوب ہوئے بغیر حکمت و بصیرت کے مطابق فیصلہ کرنے کی سفارش کی۔ آپ نے فرمایا کہ تمام حکام کو چاہئے کہ ہر فیصلے اور موقف میں تین عناصر یعنی بلند اہداف اور آرزوؤ، عمومی و کلی اسٹریٹیجی اور زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں۔ آپ نے فرمایا کہ حکام کو چاہئے کہ دانشمندانہ طرز عمل اور مستقبل کے تئیں بھرپور امید کے ساتھ اسلامی نظام کے اندرونی ڈھانچے کی تقویت، مشکلات کے ازالے اور اصولوں کے تئیں مکمل التزام کی جانب حرکت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے جملہ مسائل اور واقعات کا جامع اور ہمہ گیر نقطہ نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ایک اہم واقعہ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل ہے جو گردبادوں کے دور اور مادیت کی جانب بڑھنے والی دنیا میں اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر رونما ہوا جو کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی فتح کے فورا بعد سے اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس دشمنی کی اصلی وجہ اسلام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے اور دنیا کے موجودہ حالات اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف محاذ بندی کے صحیح تجزئے اور ادراک کے لئے حقائق پر منطبق جامع نقطہ نگاہ کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ مغربی ایشیا کا علاقہ برسوں سے استکبار کی ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ اور سامراجی طاقتوں کی جولان گاہ رہا ہے، لیکن ایسے حالات میں بھی اسلامی بیداری کی لہر اٹھی جو استکبار کو قطعا پسند نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ تصور کہ اسلامی بیداری کی لہر زائل ہو چکی ہے، غلط تصور ہے، کیونکہ اسلامی بیداری صرف سیاسی تبدیلی نہیں ہے جو بعض افراد کے آنے اور کچھ دیگر افراد کے چلے جانے سے ختم ہو جائے، اسلامی بیداری تو خود آگاہی، خود اعتمادی اور اسلام پر ارتکاز کی ایک حالت کا نام ہے جو اسلامی معاشروں میں پھیل چکی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ہم علاقے میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، در حقیقت اسلامی بیداری کی لہر پر استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کا رد عمل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ استکباری طاقتیں علاقے کے مسائل کو اپنے مفادات کے مطابق حل کرنا چاہتی ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس علاقے میں استکباری طاقتوں کا وجود کھلی ہوئی جارحیت، تسلط پسندی اور استبداد ہے جس کا مقصد اس مداخلت پسندانہ موجودگی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینا ہے، لیکن سامراجی محاذ، مخالفت کو ختم نہیں کر پایا اور آئندہ بھی وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار کا اصلی مقصد علاقے میں ایسا تسلط قائم کرنا ہے جس میں صیہونی حکومت کو مرکزیت حاصل ہو، آپ نے فرمایا کہ شام سے متعلق حالیہ قضیئے میں بھی جو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے شروع ہوا ہے، ہدف یہی ہے لیکن امریکی حکام لفاظی اور چرب زبانی کے ذریعے ایسا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ گویا وہ انسانی جذبے کے تحت اس مسئلے میں مداخلت کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس چیز کی امریکی سیاستدانوں کے نزدیک ذرہ برابر وقعت و اہمیت نہیں ہے وہ انسانی مسائل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی ایسے عالم میں انسانیت کی دہائی دے رہے ہیں کہ جب ان کے نامہ اعمال میں گوانتانامو اور ابو غریب جیلیں، حلبچہ اور ایران کے شہروں پر صدام کے کیمیائی حملے پر مجرمانہ سکوت اور افغانستان، پاکستان اور عراق میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام درج ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انسان دوستی کا موضوع ایسا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ امریکیوں کو اس کی فکر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارا یہ خیال ہے کہ امریکی، شام میں بہت بڑی بھول کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے اوپر پڑنے والی ضرب کا احساس کریں گے اور یقینی طور پر نقصان اٹھائیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام تیس سال سے جاری دشمنیوں اور سازشوں کا سامنا کرنے کے بعد موجودہ علاقائی حالات میں نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوا بلکہ طاقت، اثر و نفوذ اور توانائیوں کے اعتبار سے بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نطام کی تشکیل سے وابستہ حقائق اور تمام تر دشمنیوں اور معاندانہ محاذ بندیوں کے باوجود اس نظام کی طاقت میں روز افزوں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام حکام کو چاہئے کہ ہر فیصلے اور موقف میں تین چیزوں یعنی اہداف اور آرزوؤں، کلی اسٹریٹیجی اور زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اہداف اور آرزوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی آرزو اسلامی تمدن کی تشکیل اور ایسے معاشرے کا قیام ہے جو مادی و روحانی دونوں میدانوں میں پیشرفتہ ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اس مطلوبہ ہدف تک رسائی کی حکمت عملی بھی واضح ہے۔ یہ حکمت علمی ہے 'اسلامیت'، گوناگوں مسائل میں ظلم سے اجتناب کرنے کے ساتھ ہی اپنے اوپر ظلم کا موقعہ نہ دینا، عوامی رائے پر تکیہ کرنا، عمومی سعی و کوشش اور قومی اتحاد۔
قائد انقلاب اسلامی نے حقائق کے صحیح ادراک کو تیسرا اہم نتکہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اعلی ہدف اور بلند آرزوؤں کے ساتھ ساتھ حقائق پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاہم حقیقت کا ادراک صحیح انداز میں اور ہمہ جہتی ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق معاشرے میں تلخ و شیریں دونوں طرح کے حقائق موجود ہیں چنانچہ فیصلے کرتے وقت اور ملکی مسائل کا جائزہ لیتے وقت صرف تلخ حقائق کو ہی سامنے نہیں رکھنا چاہئے بلکہ معاشرے میں فعال عناصر، ابتکاری صلاحیتوں کے مالک دماغوں کی موجودگی، عوام بالخصوص نوجوان نسل میں ہمہ گیر دینی رجحان، دینی و اسلامی نعروں کی پائیداری اور علاقائی و عالمی سطح پر اسلامی جمہوری نطام کے روز افزوں اثر و رسوخ کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور ان حقائق کی مدد سے تلخ حقائق کو ختم کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض تلخ حقائق جو ہمارے راستے میں رکاوٹ کی طرح موجود ہیں ہماری پیش قدمی کو روکنے نہ پائیں بلکہ درست طرز فکر کے ساتھ ان رکاوٹوں کو دور یا ان کو عبور کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے پہلے عشرے میں عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی اسی روش کے مطابق عمل کیا، امام خمینی نے حقائق سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا اور اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی وہی ہستی ہیں جس نے فرمایا کہ صیہونی حکومت ایک سرطانی پھوڑا ہے جسے مٹا دیا جانا چاہئے اور آپ نے صیہونی حکومت کے مسئلے میں کبھی بھی تقیہ نہیں کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی نے امریکا اور اس کی شرپسندی کے بارے میں بھی کبھی تقیہ نہیں کیا چنانچہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ 'امریکا شیطان بزرگ ہے'۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ 'امریکی سفارت خانے پر قبضہ، انقلاب دوم ہے جو شاید انقلاب اول سے بھی زیادہ اہم ہے' یہ بھی امام خمینی کا ہی جملہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی کی اسی استقامت کے نتیجے میں اسلامی نظام کی بنیادوں کو استحکام ملا۔ آپ نے بہت اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان افراد اور ملکوں کی حالت بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے جنہوں نے استکباری طاقتوں کا دل جیتنے کے لئے اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر مصر میں اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا نعرہ باقی رہتا اور امریکی وعدوں کے جھانسے میں آکر پسپائی نہ کی جاتی تو ہرگز یہ صورت حال پیش نہ آتی کہ مصر کے عوام کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے والا ڈکٹیٹر جیل سے آزاد ہو اور مصری عوام کے منتخب افراد سلاخوں کے پیچھے اور عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مصر اصولوں پر ثابت قدمی سے ڈٹا رہتا تو منتخب افراد کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہونے والے معترض افراد بھی ان کی طرف آ جاتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی بنیادی حکمت عملی علاقے میں فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینا ہے اور دشمن اپنی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے اور فتنے کی آگ بھڑکانے کے لئے دو زرخرید گروہوں کو استعمال کر رہا ہے، ایک خود فروش تکفیری گروہ ہے جو اہل سنت کے نام پر سرگرم ہے اور دوسرا بے ضمیر گروہ شیعہ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو بھی جماعت اور حکومت اس سازش کا شکار ہوگی یقینی طور پر اسلام نوازی کی تحریک کو نقصان پہنچائے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شیعہ و سنی علمائے کرام بہت ہوشیار رہیں کہ اسلامی مکاتب فکر کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات نئی محاذ بندی اور اصلی دشمن کی جانب سے غافل ہو جانے کا باعث نہ بننے پائیں۔