قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے سربراہ اور اراکین کے ساتھ ملاقات میں ثقافت کی حیاتی اہمیت اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے مقام و منزلت، اس کونسل سے منظور ہونے والے قوانین کے نفاذ کی ضمانت ، ثقافت کے بارے میں اداروں کی نظارتی اور قیادتی ذمہ داری ؛ ثقافتی مسائل کے سلسلے میں مدبرانہ و حکیمانہ اقدامات، یونیورسٹیوں میں علمی پیشرفت کے تسلسل؛ تعلیمی شعبے کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کے اصولوں کی تدوین اور فارسی زبان کی حفاظت کے بارے میں اہم نکات بیان کئے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں ثقافت کے مقام و منزلت اور اس کی اہمیت کو اپنے خطاب میں پہلے نکتہ کے عنوان سے پیش کیا اور مقننہ، عدلیہ اور مجریہ کے سربراہان کے ثقافتی ماضی و خدمات اور اسی طرح ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے اکثر اراکین کے ثقافتی میدان میں ہمدردانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کونسل سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ثقافت کے موضوع کو نمایاں کرنے اور اس کو حقیقی مقام و منزلت تک پہنچانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیگی اور ضروری اقدامات کرے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت اور ثقافتی اقدار کو قوم کا تشخص، پہچان اور روح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ثقافت در حقیقت سیاست اور اقتصاد کی ذیلی شئے نہیں ہے بلکہ سیاست اور اقتصاد ، ثقافت کے ذیل میں آتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں تمام اہم موضوعات اور مسائل کے سلسلے میں ثقافتی امور کو ملحوظ رکھے جانے سے متعلق اپنی ماضی کی سفارشات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات ممکن ہے کہ فیصلے اور منظور شدہ قوانین، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور علمی ہوں لیکن ان کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں جس کی اصل وجہ ثقافتی امور پر عدم توجہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی سرگرمیوں کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ملک کی ثقافت خود بخود آگے بڑھے گی چاہے وہ عام ثقافت ہو یا ممتاز شخصیات کی ثقافت ہو یا یونیورسٹی سے متعلق ثقافت ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ثقافتی مسائل کے سلسلے میں حکومت کے رہنما کردار اور نگرانی کے لازمی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی عام ثقافت کے بارے میں ملک کے مختلف ادارے ذمہ دار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل میں حکومت کے رہنما رول اور نگرانی کو باغ کے خوبصورت پھولوں پر باغباں کی نگرانی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ پھولوں کے رشد و نمو اور پانی، روشنی اور ہوا سے درست استفادہ کی غرض سے باغ سے فرسودہ اور خشک گھاس پھوس کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حساس اور گمراہ کن ثقافتی معاملات کا مقابلہ کرنے کو حکومت کی نظارتی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی عام ثقافت اور ثقافتی مسائل کے بارے میں ہم سب کے دوش پر شرعی اور قانونی ذمہ داری عائد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کو عوامی شراکت و حصہ داری پر منحصر قراردتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی مسائل کو عوام کے حوالے کرنے کا مطلب حکومت کے رہنما کردار اور نظارتی ذمہ داری کی نفی نہیں ہے اور اسی طرح ثقافتی میدان میں حکومت کی موجودگی عوام کی موجودگی سلب کرنے کے معنی میں بھی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کی طرح ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بعض غیر ذمہ دارانہ بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب مغربی ممالک مرد و عورت کے اختلاط جیسے غلط ، غیر منطقی اور غیر معقول مسائل کو مرد اور عورت کی مساوات کا پیمانہ قرار دینے پر اصرا کرتے ہیں تو ہم اسلام کی اعلی اور گرانقدر اقدار کے نفاذ پر اصرار کیوں نہ کریں؟
قائد انقلاب اسلامی نے دوسرا نکتہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے مقام و منزلت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل حضرت امام خمینی (رہ) کا ایک عظیم شاہکار ہے جو ملک کی ثقافت کا سب سے اعلی اور بہترین مرکز ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں ملک کی اہم اور مؤثر علمی اور ثقافتی شخصیات کی موجودگی کو اس کونسل کا قوی اور مضبوط پہلو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی مسئلہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ملک کی ثقافت کا معاملہ سیاسی نشیب و فراز کے تابع نہ ہو اور ملک کی ثقافتی پیش قدمی میں ہمیشہ ثبات اور دوام قائم رہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کونسل کے اراکین ملک کی ثقافتی پالیسیوں کے سلسلے میں کونسل کے مؤثر مقام و منزلت پر یقین رکھتے ہوں اور اسے اصلی مرکز کے عنوان سے تسلیم ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی کونسل کے اجلاسوں میں اراکین کی پیہم اور دائمی شرکت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو بنیادی اور اساسی موضوعات پر توجہ مبذول کرنا چاہیے اور جزوی مسائل میں نہیں الجھنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تیسرے نکتہ کے طور پر ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے منظور شدہ قوانین کے اجراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی کونسل کے قوانین پرحتمی طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے ۔