اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کی اور شبہائے قدر کی روحانی و معنوی نسیم کے جھونکوں سے بھرپور طریقے سے بہرہ مند ہونے کی سفارش کرتے ہوئے شعر کی فطری اور بنیادی تاثیر و افادیت کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ شعر کا سب سے پہلا استعمال شاعر کے تفکرات و احساسات اور قلبی واردات کی عکاسی کے لئے ہوتا ہے لیکن شعر کی اصلی افادیت سننے والے مخاطب انسانوں کے ذہن و دل کے خلاء کو پر کرنا اور انہیں فکری غذا فراہم کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس فکری خلا کو شیطانی اقدار و تعلیمات سے بھر دینے کی شیطانی قوتوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شاعر کا فرض ہے کہ تاریخ فارسی کے عظیم شعراء کی طرح اس وادی میں بھرپور ہنرمندی کے ساتھ وارد ہو اور سامعین کے ذہن و دل کے خلا کو روحانی باتوں، نشاط و امید کے جذبات اور عمل و پیشرفت کی جرئت سے آراستہ کر دے اور ان عناصر کو تقویت پہنچائے جو ایک قوم کی حقیقی شناخت کی تعمیر کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی حامنہ ای نے فرمایا کہ سماجی مشکلات کو انسانوں کی اندرونی اصلاحات اور ان کے اندر امید و نشاط کے جذبات اور جوش و خروش پیدا کرکے حل کیا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے شعر کے سماجی اثرات کے سلسلے میں فرمایا کہ ثقافتی خصائص اور ثقافتی امتیازات قوم کے ثقافتی تشخص کی تعمیر کرتے ہیں اور اشعار کے لئے ضروری ہے کہ اسی قومی تشخص کی پاسداری کرنے والے ہوں اور اسے مزید ثمربخش اور پاکیزہ بنائيں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی تشخص کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی تشخص در حقیقت وہی عقل عمومی اور روحانی معقولیت ہے جو کسی بھی قوم کی زندگی اور ارتقاء کا سرچشمہ قرار پاتی ہے، چنانچہ ہمارا اسلامی انقلاب اور ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ بھی اسی ثقافتی تشخص کے ثمرات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی تشخص کی حفاظت کے اہم جذبے کو قومی تشخص پر دشمن کی آشکارا یلغار کا مقابلہ کرنے کے فرض کے احساس کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا کہ بعض افراد کی مشکل یہ ہے کہ اسلامی تشخص اور ثقافتی تشخص پر کینہ پرور دشمن محاذ کے وسیع حملوں کو واضح علامات اور نشانیوں کے باوجود نہیں دیکھ پاتے لیکن فنکارانہ طبیعت، تیز بیں نظر اور دردمند دل رکھنے والا شاعر اس تشخص کا دفاع کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ دنیا کے تلخ حقائق کا ذکر کرتے ہوئے قوموں کے اخلاقیات، روحانیت، دین و مذہب، سرمائے اور خود مختاری پر بڑی طاقتوں کی جارحیتوں اور تشہیراتی تسلط کے ذریعے حقائق میں تحریف کی جانب اشارہ کیا اور غزہ کے دردناک واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ کبھی دنیا کے کسی گوشے میں کسی جانور کے مر جانے پر تشہیراتی طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے، لیکن غزہ پر حالیہ حملوں اور سو سے زائد افراد کے قتل عام کی، جن میں بیشتر معصوم و مظلوم بچے ہیں، ان کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، بلکہ امریکا اور برطانیہ تو رسمی طور پر ان حملوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا کی موجودہ زمینی سچائی یہ ہے کہ تسلط پسند طاقتیں ہر اس بدعنوانی، خباثت اور شیطنت کی حمایت کرتی ہیں جن سے ان کے مفادات پورے ہوتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف وہ ایسی تمام اچھی اور پاکیزہ چیزوں کی مخالفت کرتی ہیں جو ان کے اغراض و مقاصد سے ہم آہنگ نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان تلخ حقائق کا ذکر کرنے کے بعد یہ سوال اٹھایا کہ شعور و ادراک و فہم و قوت بیان سے آراستہ شاعر کا ان حقائق کے سلسلے میں اور ان حالات میں کیا فرض بنتا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ فرمایا کہ شاعر کو چاہئے کہ اپنی ان امتیازی خصوصیات کی مدد سے جو در حقیقت نعمت و حجت خداوندی ہیں، مظلومین کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور شعر کی زبان میں حق و حقیقت کو برملا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آخر میں ملک میں کاروان شعر کی پیشرفت اور خاص طور پر نوجوان شعر اور انقلاب کے موضوع سے متعلق شاعری کے ارتقاء پر اظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا کہ شعر کی تاثیر اور بقاء کی بنیادی شرط، اچھے مضمون و مفہوم کے ساتھ ہی مضبوط فنکارانہ قالب اور بندش بھی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کچھ شعرا نے اپنے اشعار بھی پیش کئے۔