تکفیریت کے خطرات کا جائزہ لینے کے لئے قم میں منعقد ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے والے دنیا کے اسی سے زائد ملکوں کے شیعہ اور سنی اسکالروں دانشوروں اور علمائے کرام نے منگل کو تہران میں قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے اپنے خطاب ميں تکفيريت کو اسلامي دنيا کے لئے سامراج کا پيدا کردہ فتنہ قرار ديا ۔ آپ نے اس فتنے کے اہداف پر روشني ڈالتے ہوئے فرمايا کہ عالم اسلام کے اہم ترين مسئلے يعني مسئلہ فلسطين سے توجہ ہٹانا اور اسلامي ملکوں کا بنيادي ڈھانچہ تباہ کر دينا اس فتنے کے بنيادي اہداف ميں شامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے تکفيريت کے موضوع پر قم ميں ہونے والي بين الاقوامي کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ پچھلے چند سال کے دوران تکفيري نظريات کو دوبارہ پروان چڑھا کر عالمي سامراج نے عالم اسلام پر ايک مشکل مسلط کر دي ہے- قائد انقلاب اسلامي نے امريکا ، سامراجي حکومتوں اور صہيوني حکومت کے مفادات خاص طور پر مسئلہ فلسطين اور مسجد الاقصي کو فراموش کر دئے جانے کے مقصد سے جاری خبيث تکفيري گروہوں کے اقدامات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ تکفيري نظريات اور گروہوں کو جڑ سے ختم کرنا ، اس قسم کے گروہوں کو وجود ميں لانے کے لئے سامراجي طاقتوں کي پاليسيوں کو بے نقاب کرنا اور عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر فلسطين کے موضوع پر خاص توجہ دينا موجودہ حساس صورتحال ميں علمائے اسلام کي پہلي اور اہم ذمہ داري ہے -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ تکفيري گروہ اور ان کي مدد کرنے والي حکومتيں پوري طرح سے سامراجي طاقتوں يعني امريکا يورپي حکومتوں اور صہيوني حکومت کے مقاصد کي تکميل ميں لگي ہوئي ہيں- آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ سامراجي طاقتوں نے اسلامي بيداري کي لہر کو منحرف کرنے کي پوري کوشش شروع کر دي ہے۔ آپ نے فرمايا کہ اسلامي بيداري کي تحريک امريکا مخالف، استبداد مخالف اور امريکا کي پٹھو حکومتوں کے خلاف ايک تحريک تھي ليکن تکفيري گروہوں نے سامراج کے خلاف اٹھنے والی اس عظيم تحريک کو خانہ جنگي اور مسلمانوں کے درميان برادرکشي ميں تبديل کر ديا ہے- آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ علاقے ميں مسلمانوں کي جد وجہد کا اگلا محاذ مقبوضہ فلسطين تھا ليکن تکفيري گروہوں نے مسلمانوں کے فرنٹ محآذ کو تبديل کر ديا اور اب عراق شام پاکستان اور ليبيا کے شہروں اور سڑکوں پر اس جنگ کو پہنچا ديا ہے اور يہ تکفيري گروہوں کے ناقابل فراموش جرائم ہيں-
قائد انقلاب اسلامي نے تکفيري گروہوں کے ہاتھوں مسلم ملکوں کي گرانقدر اور بنيادي تنصيبات کي تباہي و بربادي کو دشمنان اسلام کي خدمت کرنے کے تعلق سے تکفيري گروہوں کے اقدامات کي ايک اور مثال بتايا اور فرمايا کہ تکفيري گروہوں کا ايک اور انتہائي پست اور خبيثانہ اقدام اس حقیقی اسلام کي شبيہ کو بگاڑ دينا ہے جو رحمت و الفت اور عقل ومنطق کا دین ہے- آپ نے فرمايا کہ تکفيري گروہوں نے اسلام کے نام پر تلواروں سے بے گناہ انسانوں کي گردنيں کاٹنے اور ايک مسلمان کے دل اور جگر کو سينے سے نکال کر اسے کچا چبانے جيسے اپنے وحشيانہ جرائم کي فلم اور ويڈيو کلپ بنا کر اسلام کو بدنام کيا ہے-
قائد انقلاب اسلامي نے اپنے خطاب ميں، حال ہي ميں عراق ميں سرگرم دہشت گرد گروہ داعش کے لئے امريکي طياروں سے مسلسل فوجي وسا‏ئل گرائے جانے کے اقدام کو اس کي ايک اور مثال قرار ديا اور فرمايا : امريکي حکام ان اقدامات کے باوجود بظاہر داعش کے خلاف اتحاد تشکيل دئيے جانے کے دعويدار ہيں، جو کذب محض ہے، اس لئے کہ اس اتحاد کي تشکيل کا ايک بنيادي ہدف مسلمانوں کے درميان جنگ اور فتنہ پروري کي آگ کو بھڑکائے رکھنا ہے تاہم انہيں اپنے اس مقصد ميں ہرگز کاميابي نصيب نہيں ہوگي-
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے مسلمان ملکوں ميں تکفيريت کے فروغ اور اس کو پروان چڑھانے سے متعلق امريکہ، برطانيہ اور صيہوني حکومت کے کردار اور پاليسیوں کو بے نقاب کئے جانے کو علمائے اسلام کے ايک عظيم فريضے سے تعبير کيا اور فرمايا علما کا تيسرا اہم فريضہ فلسطين اور مسجد الاقصي کے سلسلے ميں ٹھوس اور بنيادي کام کرنا ہے تاکہ عالم اسلام کے اس اہم ترين مسلے سے لوگوں کي توجہ ہٹنے نہ پائے- قا‏‏ئد انقلاب اسلامي نے عالم اسلام کے مقابلے ميں دشمنوں کي طاقت اور پوزيشن کو ماضي کے مقابلے ميں بہت ہي کمزور قرار ديا اور فرمايا: صيہوني حکومت بھي ماضي کے مقابلے ميں خاصي کمزور ہو چکي ہے-
آپ نے فرمايا: يہ وہي حکومت ہے جو برسوں قبل نيل سے فرات تک قبضے کا خواب ديکھ رہي تھي جبکہ غزہ کي پچاس روزہ جنگ ميں صيہوني حکومت نے اپني پوري فوجی طاقت استعمال کرلي لکن وہ حماس اور جہاد اسلامي کي بنائي ہوئي سرنگوں کو ختم نہ کر سکي-
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے عراق، شام اور لبنان سميت پورے خطے ميں دشمنان اسلام کي مشکلات اور ناکاميوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا: دشمن کي کمزوري کي ايک اور مثال ايران کا ايٹمي پروگرام ہے، امريکا اور يورپ کے سامراجي ممالک ايک دوسرے کے شانہ بشانہ، ايران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے سرتوڑ کوششوں کے باوجود اپنے مقصد ميں کامياب نہيں ہو سکے اور آئندہ بھي انہيں ناکامي کا منہ ديکھنا پڑے گا-
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی اور دیگر علمائے کرام کی قدردانی کی جنہوں نے بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد اور تکفیری تحریک کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے عالم اسلام کے علمائے کرام کی سطح پر ایک علمی مہم شروع کرنے کا قابل تعریف قدم اٹھایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس خطرناک تحریک کا جائزہ لیتے وقت اس نکتے پر توجہ رکھنا چاہئے کہ نئے سرے سے پروان چڑھائی جانے والی تکفیریت کی تحریک کا ہمہ جہتی مقابلہ داعش کے خلاف اقدام سے وسیع تر ہے کیونکہ داعش اس 'شجربہ خبیثہ' کی محض ایک شاخ ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے موجودہ حالات میں عالم اسلام کے علمائے کرام کی حد درجہ اہم ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک اہم فریضہ تکفیری تحریک کی بیخ کنی کے لئے اسلامی مکاتب فکر کے علماء کی جانب سے وسیع علمی و منطقی مہم کا آغاز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تکفیری گروہ 'سلف صالح' کے جھوٹے نعرے کے ساتھ سامنے آیا ہے چنانچہ دین اور علم و منطق کی زبان میں اس گروہ کے اقدامات سے 'سلف صالح' کی بیزاری کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علمی و منطقی مہم کے ذریعے ان نوجوانوں کو نجات دلائي جائے جو اس خبیث گروہ کے چنگل میں پھنس گئے ہیں اور یہ ذمہ داری علمائے کرام کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقبوضہ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کے صیہونی کابینہ کے حالیہ فیصلے کا حوالیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ صیہونی حکومت بیت المقدس اور مسجد الاقصی پر قبضہ اور فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتی ہے، چنانچہ تمام مسلم اقوام اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ اپنی حکومتوں کے سامنے مسئلہ فلسطین کو اٹھائیں اور اس پر نظر رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مخالفت کی پالیسی کے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی طرف سے اعلان کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومت اور عوام فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مخالفت کے مسئلے میں متفق ہیں اور امام خمینی کے ہاتھوں معین کئے گئے راستے سے گزشتہ پینتیس سال کے دوران کبھی منحرف نہیں ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کے عوام اور نوجوان گہرے لگاؤ کے ساتھ فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہیں اور صیہونیوں کا مقابلہ کرنے کے متمنی ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ایران فضل پروردگار سے مذہبی و مسلکی اختلافات کا شکار نہیں ہوا چنانچہ جس طرح لبنان میں شیعہ تنظیم حزب اللہ کی مدد کرتا ہے اسی طرح فلسطین میں حماس، جہاد اسلامی اور دیگر سنی تنظیموں کی بھی مدد کر رہا ہے اور یہ مدد آئندہ بھی جاری رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ کے فلسطینی بھائیوں کو تقویت پہنچانا، اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی مدد کئے جانے کی واضح مثال ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے پہلے بھی اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے کو ہتھیاروں سے لیس اور دفاع کے لئے آمادہ کیا جائے اور یہ کام ضرور انجام دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل عالم اسلام کے علمائے کرام کی نظر میں انتہا پسند تکفیری تنظیمیں کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے کنوینر حجت الاسلام علی زادہ موسوی نے کانفرنس میں زیر بحث آنے والے موضوعات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ دو روزہ کانفرنس میں خصوصی کمیٹیوں نے تکفیری تنظیموں کی جڑوں، ان سے وابستہ سیاسی امور اور تکفیریت کی مشکل سے نجات کے راستوں کا جائزہ لیا۔ حجت الاسلام موسوی نے بتایا کہ کانفرنس میں عالم اسلام کے تین سو پندرہ علماء نے شرکت کی جبکہ ایک سو چوالیس منتخب مقالوں کو آٹھ جلدوں میں فارسی اور عربی زبان میں شائع کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کے سلسلے میں مقدماتی نشستیں شام اور پاکستان میں منعقد ہو چکی ہیں۔