پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت با سعادت 17 ربیع الاول کی مناسبت سے ملک کے مختلف عوامی طبقات، سول اور فوجی عہدیداران نیز اٹھائیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس میں شرکت کرنے والے علما و مفکرین اور تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں کی قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات ہوئی۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد و یکجہتی کو پیغمبر اسلام کا سب سے اہم درس اور امت اسلامیہ کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا: پیغمبر ختمی مرتبت کی تعظیم اور قدردانی صرف لفظوں اور گفتگو تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ آنحضرت کے اتحاد و یکجہتی کے پیغام پر عملدرآوری تمام اسلامی ممالک اور مسلم اقوام کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس عظیم دن کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے میلاد پیغمبر اکرم کو علم و خرد، اخلاق، رحمدلی اور وحدت و یگانگت کی نئی شروعات قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان عمیق اور تقدیر ساز مفاہیم کو عملی شکل دینا عہدیداروں، سیاستدانوں، علما اور دانشوروں کی بہت اہم ذمہ داری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمنان اسلام کی تفرقہ انگیز سازشوں اور منصوبوں کی کامیابی پر گہرا افسوس ظاہر کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ اگر مسلم اقوام جو بے پناہ وسائل اور منفرد خصوصیات سے آراستہ ہیں، تمام امور نہیں صرف کلی فیصلوں اور پالیسیوں میں 'ہمدل اور ہم آواز' ہو جائیں تو امت مسلمہ کی ترقی و پیشرفت یقینی ہو جائیگی اور عالم اسلام کی یکجہتی اور ایک آواز کا عالمی سطح پر انعکاس ہو تو اس سے پیغمبر اسلام کی عظمت اور جلالت بڑھے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے دن مسلم اقوام کی پرشکو نماز اور حج کے عظیم اجتماع کو امت مسلمہ کے وقار کو چار چاند لگانے والے دو اہم نمونوں سے تعبیر کیا اور کہا: اس سال اربعین حسینی کے موقعے پر بھی دسیوں لاکھ مسلمانوں نے جن میں اہل سنت بھی شامل تھے ایک عظیم اور حیرت انگیز منظر پیش کیا اور عالمی سطح پر اسلامی دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم اجتماع کی حیثیت سے اس کی گونج عالم اسلام کی عظمت و وقار میں اضافے کا باعث بنی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں عراق کی حکومت، وہاں کے عوام اور قبائل کا اس سال بھی اربعین حسینی کے زائرین کی فداکارانہ خدمت پر اظہار تشکر کیا اور ان کی اس فراخدلی کی قدردانی کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام میں اتحاد قائم کرنے میں مددگار اسباب کا ذکر کرتے ہوئے بدگمانی سے اجتناب اور مختلف شیعہ و سنی فرقوں کے ایک دوسرے کی توہین سے ہرہیز کو بہت اہم قرار دیا اور تفرقہ انگیزی کے لئے مغرب کی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور اداروں کی وسیع پیمانے پر جاری کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: جو تشیع برطانیہ کی 'ایم آئی 6' سے رابطہ رکھتا ہو اور جو تسنن 'سی آئی اے' سے متعلق ہو وہ اسلام اور پیغمبر کے خلاف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتحاد بین المسلمین کے مسئلے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے قائدانہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مربوط مساعی کا حوالہ دیا اور فرمایا: گزشتہ 35 سال کے دوران مسلمان بھائیوں کو ایران سے جو مدد دی گئی ہے اس کا بیشتر حصہ برادران اہل سنت کو پہنچا ہے اور اسلامی نظام اور ملت ایران نے فلسطینی قوم اور علاقے کے ملکوں کے عوام کی دائمی بنیادوں پر حمایت کرکے اتحاد کے نعرے کے تئیں اپنی عملی پابندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں کو مخاطب کرکے یہ سوال اٹھایا کہ جب دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلاموفوبیا پھیلانے اور اسلام کی نورانی شبیہ کو مسخ کرنے کے لئے شدت سے سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں تو ایسے حالات میں مسلم مکاتب فکر کا ایک دوسرے کی شبیہ کو بگاڑنا اور اختلافی باتیں کرنا، کیا عقل و حکمت اور سیاست کے منافی نہیں ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ممالک کی خارجہ پالیسی کے ایران دشمنی پر مرکوز ہو جانے کو بہت بڑی بھول قرار دیا اور فرمایا کہ ان غیر عاقلانہ پالیسیوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران بدستور علاقے کی حکومتوں سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ دوستی و برادری کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھاتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے 'پلیورلزم' مکتب فکر (کثرتیت، یعنی تمام ادیان کو صحیح اور بر حق ماننا) کی ترویج کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات سے غلط مفہوم اخذ کئے جانے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کی صریحی آیتوں سے واضح ہے کہ اسلام 'پلیورلزم' کو قبول نہیں کرتا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امت مسلمہ کے مفادات اور عالم اسلام کی یکجہتی پر توجہ مرکوز رکھے جانے کو تمام اسلامی ملکوں کے مفادات کی تکمیل کی ضمانت قرار دیا اور فرمایا کہ ہم تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن کے متن منجملہ اس آیت کریمہ؛ «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفار وَ رُحماءُ بَینَهم» کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی استکبار، عالمی صیہونزم کی شکل میں موجود مہلک سرطان، ان میں سب سے پیش پیش رہنے والے امریکا اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے خلاف ڈٹ جائیں، جبکہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے مہربان، مددگار اور ہمدل رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ امت اسلامیہ کو دوسرے کسی بھی دور سے بڑھ کر اس زمانے میں سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، مہربانی، رحمدلی، رواداری، قانون پسندی اور اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔
صدر روحانی نے کہا کہ جو لوگ جہاد، دین اور اسلام کے نام پر ناجائز طریقے سے انسان کشی، تشدد اور انتہا پسندی کر رہے ہیں وہ مانیں یا نہ مانیں، در حقیقت اسلاموفوبیا پھیلانے اور اسلام کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ دہشت گردی علاقے کے ملکوں میں ہو، یورپ میں رونما ہو یا امریکا میں انجام دی جائے قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ علاقے کے مسلمان عوام عراق، شام، لبنان اور فلسطین سے لیکر پاکستان اور افغانستان تک ہر جگہ انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کی مخالفت کر رہے ہیں اور آئے دن انہیں کوئی نہ کوئی بڑی کامیابی مل رہی ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ماضی کی طرح آج بھی ان تمام اقوام کی حمایت میں کھڑا ہے جو دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔
اس پروگرام کے آخر میں وحدت اسلامی کانفرنس کے مندوبین نے قائد انقلاب اسلامی سے نزدیک سے ملاقات کی۔