قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے اعلی حکام، مختلف عوامی طبقات اور تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں اتحاد و یگانگت کو دنیائے اسلام کے لئے شفابخش نسخہ قرار دیا۔
عید الفطر کو ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں جاری مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ منصوبہ بند سازش ہے، جس کا مقصد مسلمان اقوام کی توجہ صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایرا کی پالیسی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے اور امریکا پر ایران کو ذرہ برابر اعتماد نہیں ہے کیونکہ امریکی رہنما ناانصافی اور بد دیانتی کے نقطہ اوج پر ہیں۔
آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عالم اسلام کے المناک حالات اور اتحاد و یکجہتی کے فقدان کا ذکر کیا اور فرمایا: علاقے میں موجود تفرقہ و اختلافات غیر فطری اور باہر سے مسلط کردہ ہیں اور عالم اسلام کے علما، دانشوروں، حکومتی عمائدین، رہنماؤں، مفکرین اور ممتاز شخصیات کو چاہئے کہ امت مسلمہ کے اندر تفرقہ و اختلاف پھیلانے والے خیانت کار عناصر پر توجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان اختلافات کے غیر فطری ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علاقے کے ملکوں میں صدیوں سے چلی آ رہی شیعہ و سنی مسلمانوں کی باہمی مفاہمت و رواداری کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اگر مسلم امہ متحد ہوتی اور اپنے اشتراکات کو مرکز توجہ قرار دیتی تو یقینی طور پر دنیائے سیاست کے فلک پر ایک منفرد قوت کے طور پر پہچانی جاتی، مگر بڑی طاقتوں نے اپنے اور صیہونی حکومت کے مفادات کی حفاظت کے مقصد سے یہ اختلافات مسلم امہ پر مسلط کر رکھے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی جانب اسلامی حکومتوں کے اندر بعض عناصر کے جھکاؤ کے باوجود اس حکومت کے تعلق سے مسلمانوں کے اندر موجود نفرت و ناگواری کے جذبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ استکباری طاقتیں، بعض اسلامی حکومتوں کے اندر کچھ نابکار افراد کے تعاون سے مسلم اقوام کے ذہنوں کو صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ جنگوں کی منصوبہ بندی اور القاعدہ اور داعش جیسی جرائم پیشہ تنظیموں کی تشکیل کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے داعش کی سرگرمیوں کے آغاز اور توسیع میں امریکی حکومت کا ہاتھ ہونے سے متعلق بعض امریکی حکام کے اعترافات کا حوالہ دیتے ہوئے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے اتحاد کو ناقابل اعتماد قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ علاقے میں استکباری طاقتوں کی پالیسیاں کھلے عام خیانت ہے اور سب کو چاہئے کہ اس حقیقت کی طرف متوجہ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسی استکباری سیاست کے عین مخالف سمت میں ہے۔ آپ نے عراق کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عراق میں استکبار کی پالیسی عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کو سرنگوں کرنے، شیعہ و سنی تنازعے کو ہوا دینے اور سرانجام عراق کی تقسیم پر مرکوز ہے، لیکن عراق کے معاملے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی انتخابات سے تشکیل پانے والی حکومت کی حمایت و تقویت، اختلافات اور خانہ جنگی کا باعث بننے والے عناصر کا مقابلہ اور عراق کی ارضی سالمیت کی حفاظت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شام کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: شام کے سلسلے میں استکبار کی پالیسی قوم کے ارادے کے برخلاف اپنی مرضی مسلط کرنا اور اس حکومت کو سرنگوں کر دینا ہے جو کھلے عام اور پوری قطعیت سے صیہونی حکومت کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اس حکومت کے وجود کو جس کا نعرہ، نیت اور ہدف صیہونیوں کے مقابلے پر مبنی ہے، عالم اسلام کے لئے غنیمت سمجھتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق، شام، یمن، لبنان اور بحرین جیسے علاقائی بحرانوں میں اپنے مفادات کی فکر میں نہیں ہے، بلکہ اس کا نظریہ ہے کہ ان ملکوں میں فیصلے کا حق عوام کو ہے اور دوسروں کو مداخلت اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے لبنان میں اسلامی جمہوریہ ایران اور عالمی استکبار کی پالیسیوں کے باہمی تصادم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: امریکا کی سرکردگی میں عالمی استکباری نظام برسوں سے لبنان کے بڑے حصے پر غاصب صیہونی حکومت کے قبضے پر رضامندانہ سکوت اختیار کئے ہوئے تھا، مگر جیسے ہی صاحب ایمان اور جذبہ قربانی رکھنے والی مزاحمتی تنظیم نے جو عالمی سطح پر شریف ترین قومی دفاعی تنظیم ہے، غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں مزاحمت کا آغاز کیا اور انھیں اپنی سرزمین سے کھدیڑا، عالمی استکبار نے اس گروہ کو دہشت گرد قرار دے دیا اور اس کی نابودی کے در پے ہو گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران لبنان کے مزاحمتی محاذ کی حمایت، جارح عناصر کے مقابلے میں اس کی شجاعت، جذبہ قربانی و استقامت کی وجہ سے کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: امریکی، لبنان کے مزاحمتی محاذ کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور حزب اللہ کی حمایت کی وجہ سے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ حقیقت میں دہشت گرد خود امریکی ہیں جنھوں نے داعش کو وجود بخشا ہے اور خبیث صیہونیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی پشت پناہی پر ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یمن کا بھی ذکر کیا اور اس مسئلے میں بھی استکبار اور اسلامی جمہوری نظام کی پالیسیوں کے ٹکراؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یمن میں امریکا نے ایسے صدر کی حمایت کی ہے جس نے حساس ترین حالات میں سیاسی خلا ایجاد کرنے کے لئے استعفا دیا اور ملک سے فرار ہو گیا، پھر دوسرے ملک سے اپنے ہی عوام پر حملہ کرنے کی درخواست کر دی، جو یمن کے بے گناہ عوام اور بچوں کے قتل عام کی حمایت کر رہا ہے، امریکا مستبد ترین حکومت کو گلے لگائے ہوئے جو اپنے عوام کو انتخابات کا نام تک سننے کی اجازت نہیں دیتی، جبکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جس کا پورا وجود انتخابات سے آمیختہ ہے، استبدادی نظام قرار دیتا ہے!
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: امریکی رہنما انتہائی غیر منصفانہ بات کرتے ہیں اور روشن حقائق کا بڑی بے شرمی سے انکار کر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ جو کہا جاتا ہے کہ امریکیوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اس کی وجہ یہی ہے، کیونکہ ان کے یہان صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
امام خامنہ ای نے فرمایا: ایٹمی مذاکرات کی اسی دشوار آزمائش میں بھی جس کے تعلق سے ہمارے صدر محترم دیگر متعلقہ افراد نے بڑی زحمت کی، ہم نے بارہا امریکیوں کی بد دیانتی کا مشاہدہ کیا، خوشی کا مقام ہے کہ حکام نے اس کا مقابلہ کیا اور بعض اوقات تو انقلابی انداز میں پیش آئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دنیائے اسلام کی مشکلات کا علاج اور اسی طرح ہر ملک کے مسائل کا انفرادی طور پر علاج اتحاد و یگانگت کی حفاظت ہے۔ آپ نے فرمایا: ملت ایران بھی متحد رہے اور ایٹمی مسائل ملک کے اندر اختلاف کا باعث نہ بننے پائيں، کیونکہ ایٹمی مسئلے کو متعلقہ حکام دیکھ رہے ہیں اور حکام کو قومی مفادات کی فکر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی بیرونی میڈیا کی وسیع مہم کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ان سازشوں کے مقابلے کا واحد طریقہ، ملی و عمومی تقوا نیز ایمان، علم، صنعت اور ثقافت کی تقویت کے ذریعے داخلی قوت و اقتدار کا تحفظ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے اپنی تقریر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید فطر کی مبارکباد دی اور ماہ رمضان کو ایمان کے امتحان کا مہینہ، استقامت کا مہینہ اور مزاحمت و بردباری کا مہینہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سال کا ماہ رمضان ہم دلی و ہم زبانی اور پاکیزہ فطرت انسانی کی جانب بازگشت کا مہینہ تھا۔
صدر روحانی نے کہا کہ اس سال رمضان کے مہینے میں عوام کی دعاوؤں سے سپر طاقتوں کے سامنے ملت ایران کی بارہ سالہ مزاحمت رنگ لائی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس روڈ میپ کی بنیاد پر جس کا خاکہ ملت ایران کے ارادے اور استقامت نے کھینچا تھا، رہبر معظم انقلاب کی مدبرانہ رہنمائیوں، اسلامی نظام کے دیگر شعبوں اور فورسز کی حمایت اور سفارت کاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فرزندان قوم کی مجاہدت و فداکاری کی مدد سے ملت ایران کے حقوق کو تسلیم کروانے میں کامیابی حاصل کی۔
صدر روحانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے سفارت کاری اور مذاکرات کی توانائی کے نام کی ایک نئی طاقت ساری دنیا کے سامنے پیش کی۔ صدر روحانی نے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال کا ماہ رمضان عراق، شام اور یمن سے لیکر فلسطین، لبنان اور پاکستان تک ہمارے ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے لئے بہت سخت مہینہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا عزم تمام مظلومین کی حمایت اور ظالموں کے مد مقابل استقامت پر استوار ہے۔