رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بحرین میں بزرگ عالم دین شیخ عیسی قاسم سے اس ملک کے حکام کے تعرض کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ان حکام کی ہلاکت کے آثار قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ شیخ عیسی قاسم وہ انسان ہیں جنھوں نے اس وقت تک جب تک انھیں بولنے کی آزادی تھی، عوام کو حتی المقدور مسلحانہ کارروائی سے روکا، لیکن بحرین کے حکام کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس مجاہد عالم دین سے تعرض کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس رکاوٹ کو ہٹا رہی ہے جو حکومت کے خلاف ہر طرح کی کارروائی انجام دینے کے معاملے میں نوجوانوں کو روکتی تھی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بحرین کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں شیعہ سنی تنازع کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک بڑی اکثریت پر ایک خودغرض مستکبر اقلیت کی جائرانہ حکمرانی کا معاملہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ استکباری طاقتیں اور ان کے آلہ کار ہمیشہ عوام کی شناخت اور معاشرے کے جذبہ ایمانی کے ادراک سے قاصر رہتے ہیں اور بار بار اندازے کی غلطی کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ صحیح راستہ اسلام کی راہ میں آگے بڑھنا اور اللہ تعالی پر توکل کرنا ہے اور رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھنے پر وہی قوم قادر ہے جو مجاہد ہو اور ایمان و عزم راسخ رکھتی ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ماہ رمضان کے آخری ایام اور شبہائے قدر سے بخوبی مستفیض ہونے کی سفارش کی اور فرمایا کہ یہ راتیں اور یہ سحر کے لمحات تضرع اور توسل کے لمحات ہیں، ہمیں بلند مرتبہ ارواح منجملہ شہدا کی روحوں سے طلب نصرت کرکے اور انھیں اپنا شفاعت کنندہ قرار دیکر حضور قلب کے ساتھ اس طرح دعا کرنا چاہئے کہ اللہ کی نظر عنایت ہم پر ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر حرم اہل بیت کے دفاع کے مسئلے اور اس راہ میں جان نچھاور کرنے والے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مسئلہ تاریخ کے حیرت انگیز واقعات میں ہے کہ ایران اور دیگر ملکوں سے کچھ مومن اور پرعزم نوجوان اپنی زوجہ، کمسن بچے اور آسودہ حال زندگی کو چھوڑ کر ایک غیر ملک میں جاکر راہ خدا میں جہاد کریں اور اسی راہ میں جام شہادت نوش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حرم اہلبیت کے محافظ شہدا کی قوت ایمانی اور ان کے خاندانوں کے صبر و ضبط کو بھی بہت حیرت انگیز قرار دیا اور فرمایا کہ اس ماجرا کا ایک اور پہلو اس اسلامی جمہوری نظام کے اقتدار کے عوامل ہیں جو مومن و مجاہد انسانوں اور شہدا کے ایمان اور عزم و ارادے پر استوار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی نظام کے دشمن اس نظام کی قوت و توانائی کے اصلی عناصر کو کبھی سمجھ نہیں سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ شہدا اور ان کے اہل خانہ اسلامی جمہوری نظام کے فولادی ستون ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گوناگوں مشکلات کا سامنا ہونے پر یہ نظام ان پر غالب آ جاتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم نے جہاں بھی انقلاب اور انقلابی جذبات کو بنیاد قرار دیا، ہمیں پیشرفت حاصل ہوئی اور جہاں بھی استکباری عناصر کو خوش کرنے کے مقصد سے ہم اپنے اقدار سے پیچھے ہٹے اور انقلابی موقف بیان کرنے میں تکلف سے کام لیا وہیں ہمیں نقصان پہنچا اور ہم پسماندگی کا شکار ہوئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ استکباری دشمنوں سے انقلابی جذبے کے ساتھ پیش آنا چاہئے، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی ذات پر ایمان، جہاد پر عقیدہ، مومن و انقلابی نوجوانوں کے محکم جذبات، استکباری محاذ سے اسلامی جمہوری نظام کی غیر مساوی جنگ میں اس نطام کی بالادستی کے عوامل ہیں اور استکباری طاقتیں قدرت و توانائی کے اس سرچشمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس کی حقیقت کے ادراک سے قاصر ہیں، بنابریں وہ بے رحمانہ اور تشدد آمیز روشیں اپناتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش کی تشکیل اور اس کی منصوبہ بندی کو اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنائی جانے والی ایسی ہی روش قرار دیا اور فرمایا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ کی تشکیل اور عراق و شام میں ان گروہوں کی ریشہ دوانیوں کے پیچھے ان کا مقصد ایران پر حملہ کرنا تھا، لیکن اسلامی جمہوری نظام کی توانائی نے انھیں وہیں عراق و شام میں زمیں بوس کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی نظر میں شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں ہے، وہ ایسے ہر مسلم شخص کو نشانہ بناتے ہیں جو اسلامی انقلاب کا حامی اور امریکا کا دشمن ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یہ بیان شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات میں دیا۔ ان میں مقدس دفاع کے شہدا کے اہل خانہ شام و عراق میں حرم اہل بیت رسول کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جانے والے مجاہدین کے اہل خانہ شامل تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کی اور آپ کو تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شہید، شہید محراب اور راہ حق و استقامت کا شہید قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 جون 1981 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں دہشت گردانہ دھماکے کو 35 سال کا عرصہ گزر جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھیانک جرم انجام دینے والا گروہ جو بے رحم خبیث دہشت گرد گروہ ہے، ایران سے بھاگ کر اس وقت برسوں سے یورپی ممالک اور امریکا کی پناہ میں ہے جو دہشت گردی کے خلاف لڑائی اور انسانی حقوق کی حمایت کے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس مسئلے کو یورپی ملکوں اور امریکا کی تاریخی رسوائی کا معاملہ قرار دیا اور فرمایا کہ دہشت گرد گروہ وہ ہیں جو عوام اور کبھی کبھی اسلام کے دفاع کے نام پر جدو جہد کا آغاز کرتے ہیں لیکن آگے چل کر 28 جون کے سانحے جیسے بھیانک جرائم انجام دیتے ہیں، عام انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور آخرکار صدام جیسے آدمی سے جا ملتے ہیں اور آج امریکا کے زیر سایہ سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔