بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں خداوند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے شہر کرمان اور صوبہ کرمان کے علما، طلاب کرام اور عظیم شخصیات کے درمیان حاضر ہونے کی توفیق عطا کی۔ حوزہ علمیہ کرمان اور کرمانی احباب کی برسوں -چالیس سال- کی ہمراہی کی یادیں ایک بار پھر تازہ ہوگئي ہیں۔
یہ ہمارا دوستانہ اجلاس ہے۔ حالانکہ جناب جعفری صاحب نے اپنی فصیح و بلیغ تقریر سے اجلاس کو کسی حد تک رسمی شکل دے دی تاہم یہ اجلاس بے تکلفانہ اور دوستانہ ہے۔ جلسے میں بڑا تنوع بھی رہا۔ تلاوت قرآن بھی ہوئي، ترانہ بھی پڑھا گيا، جناب جعفری کی تقریر بھی ہوئي اور اچھے اشعار بھی پیش کئے گئے۔ بس ایک ہی عیب نظر آیا کہ موضوع یہ حقیر تھا۔ اگر یہ ایک عیب نہ ہوتا تو اشعار قابل تعریف تھے خصوصا بعض اشعار بہت ہی اچھے تھے۔
قرآن کی تلاوت بھی بنحو احسن کی گئی۔ دینی طلبا میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو اچھی آواز میں صحیح طور پر قرآن کی تلاوت کریں۔ قاری کی آواز بھی اچھی تھی قرآن کی تلاوت بھی صحیح تھی اور تجوید اور اصول تلاوت کو مکمل پابندی کی گئي۔ ترانہ بھی بہت اچھا تھا البتہ اس بند میں جو مکرر ہے، لفظ ناجی کی جگہ منجی کا استعمال کیجئے کیوں کہ اس جگہ ناجی کا استعمال درست نہیں ہے۔
میں عزيز نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ترانہ پڑھ رہے ہیں، جو کہ بہت اچھی بات ہے کیوں کہ ترانہ بہت اچھا تبلیغی ذریعہ ہے اور یہ جوانوں اور بچوں کی دلچسپی کی چیز ہے، اس بات کی کوشش کیجئے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جو معنی سے سرشار اور آیات و روایات اور ان اقوال پر استوار ہوں جن کا موضوع امام زمانہ علیہ السلام ہیں۔ البتہ اس ترانے کے بعض حصے انہیں خصوصیات کے حامل تھے اور بڑے اچھے مفاہیم کو کے حامل تھے لیکن آپ کوشش کریں کہ ترانہ معمولی ترانوں سے بہتر ہو جو کچھ نوجوان پڑھتے ہیں۔ مفاہیم بہت ٹھوس اور اسلامی ہوں۔ ان میں امام علیہ السلام کے عدل و انصاف، اور انسانیت بلکہ کائنات کی ضرورت وجود امام کی جانب اشارہ ہو۔ ان حالات کی جانب اشارہ ہو جن سے آج دنیا اور انسانیت دوچار ہے۔ اس بات کی تلقین ہو کہ یہ امید اور آرزو برقرار ہے اور اس بات کا انتظار ہے کہ انسانی زندگی اپنی فطری روش کی جانب کہ جس کا ہدف عدل و انصاف اور توحید ہے، واپس لوٹے گی۔ بہرحال اجلاس بہت اچھا تھا۔
کرمان کے دینی مدرسے سے میری آشنائي بہت پرانی ہے۔ پہلی بار سن تیرہ سو بیالیس ہجری شمسی ۔( انیس سو ترسٹھ) میں مدرسہ معصومیہ میں کہ جس کا نام جناب جعفری صاحب نے لیا، میرا آنا ہوا ۔ میں نے مدرسہ دیکھا اور تین دن تک جناب حجتی صاحب کا مہمان رہا۔ آپ اس وقت یہاں مقیم تھے۔ ماہ رمضان المبارک میں تقاریر کے لئے میں زاہدان جاتا تھا، لیکن جناب حجتی اور مرحوم سید کمال شیرازی کے خاطر میں نے تین دن مدرسہ معصومیہ میں قیام کیا اور مدرسے اور طلبا کو نزدیک سے دیکھا۔ ایسے افراد سے آشنائی ہوئي جن میں بعض اس وقت موجود ہیں۔ یہی ہمارے دعائی صاحب جو یہاں تشریف فرما ہیں اور جناب فہیم صاحب جو قم میں ہیں اس وقت نئے نئے اس مدرسے میں آئے تھے۔ یہ مدرسہ انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ مدرسے کے اندر جناب حجتی کے کمرے سے مدرسے کے دروازے کے درمیان کچھ نوجوان نظر آتے تھے جو پمفلٹ اور اعلامئے لیتے تھے، کاغذ دیتے تھے، ہدایات حاصل کرتے تھے، آگے بڑھتے تھے۔ یہ سرگرمیاں رکتی نہیں تھیں۔ میں دیکھتا تھا کہ یہ افراد مسلسل نقل و حرکت میں مصروف ہیں۔ مدرسے کا بھی اپنا خاص مقام تھا۔ مرحوم آیت اللہ شیخ علی اصغر صالحی رضوان اللہ علیہ مدرسے کے سربراہ اور بڑے محترم انسان تھے۔ یہ حضرات جو اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں اور اب سن رسیدہ افراد کے طبقے کا حصہ بن چکے ہیں، ان دنوں مدرسے کے نوجوان تھے۔ جناب نیشاپوری مدرسے کے مدیر تھے اور مدرسے کی بہت سی ذمہ داریاں ان کے سپرد تھیں۔ در حقیقت وہ اور بعض دیگر افراد کہ جن کے آشنا چہرے اس وقت میرے سامنے ہیں جناب صالحی کے سب کچھ تھے۔ یہ مدرسہ بہت اچھا تھا اور اس نے بڑی اہم شخصیات کی برآمد کی ہیں ۔ قم اور ملک کے دیگر علاقوں میں یہاں سے بڑی برجستہ شخصیات برآمد کی گئیں۔
آج اس مدرسے کی ذمہ داری ان دنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ سنگین ہے۔ البتہ اس کے بعد برسوں تک مجھے کرمان کے مدرسے کی کوئی خبر نہیں ملی۔ البتہ کرمان کے علما سے میری آشنائي رہی۔ کئی دفعہ کرمان آنا ہوا اور اسی جامع مسجد میں تقریریں کیں۔ کرمان، جید علما اور محترم واعظو سے مالامال رہا ہے جو عوام کی ہدایت فرماتے رہے ہیں۔ نوجوان ان سے مطمئن تھے۔ وہ جہاد کے میدان میں سرگرم کارزار تھے اور ان کا شمار پاک و پاکیزہ شخصیات میں کیا جاتا تھا۔ البتہ ان افراد میں سے بہت کم ہی اب حیات ہیں۔ بعض احباب کی آج زیارت ہوئي، بعض کی بیماری کی اطلاع ملی، خدا وند عالم ان سب کو شفای عاجل عطا فرمائے۔
آج مدرسے کی ذمہ داریاں ماضی سے مختلف اور بہت زیادہ ہیں۔ مدرسہ صرف نماز جماعت قائم کرنے کے لئے ہیں۔ اگر منبر سے ہونے والی تقریریں مفید پیغام اور مضمون کی حامل نہیں ہیں تو کافی نہیں ہیں۔ آپ دیکھئے آج دنیا میں مواصلاتی ذرائع کتنے وسیع ہو گئے ہیں، دنیا کے ایک کونے میں ایک نوجوان ایک مشین لیکر بیٹھتا ہے اور دنیا کے دوسرے گوشے سے کسی بھی شخص بلکہ ہر کس و ناکس کے افکار اور تجاویز بآسانی موصول کرتا ہے۔ آج انٹرنیٹ، سیٹلائٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع موجود ہیں، بات بہت آسانی سے پوری دنیا میں پہنچ رہی ہے۔ عوام اور مومنین کا نظریاتی فورم، گوناگوں نظریات کی جولان گان بن گیا ہے۔ آج ہم حقیقی معنی میں نظریاتی کارزار کے میدان میں ہیں۔ یہ نظریاتی جنگ کسی طرح بھی ہمارے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ ہمارے فائدے میں ہے۔ اگر ہم اس میدان میں اتر پڑیں اور اپنی ضروریات کے مطابق اسلامی کے نظریاتی ذخیرے اور الہی و اسلامی تعلیمات کے خزانے سے استفادہ کریں تو، کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم یہ کام کریں۔
آج مدارس کی ذمے داری ، مختلف نظریات کے مختلف طبقات کی ہدایت و رہنمائي ہے۔ البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ تبلیغ و ہدایت کا ہمارا روایتی طریقہ جو مسجد و منبر اور تقاریر کے پیرائے میں جاری ہے، بے نظیر ہے۔ اس کو برقرار رہنا چاہئے ۔ آپ کسی شخص کے سامنے بیٹھئے اس باتیں کیجئے اور وہ آپ کے روبرو ہو دونوں ایک دوسرےکو دیکھ رہے ہوں گرمی جذبات کا احساس کر رہے ہوں، یہ بہت اچھا ہے۔ اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے لکن یہی کافی نہیں ہے۔ آج تحریری اور زبانی تبلیغ کی روش قدرے مختلف اور زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر علما برادری اس کارواں سے پیچھے رہ گئی تو یقینی طور پر اسے ایک بہت بڑا خسارہ پہنچے گا۔
جناب جعفری صاحب نے فرمایا کہ شہید مطھری رضوان اللہ علیہ بیرونی افکار کے خلاف بر سر پیکار تھے اور حقیقی معنی میں مرد میدان تھے۔ شہید مطہری کیوں فتحیاب ہوئے۔ انہوں نے کیوں کر ہمارے نظریاتی میدان پر اتنا وسیع اور عمیق اثر ڈالا۔ اس لئے کہ انہوں نے خود سازی کے لئے بے انتہا علمی سعی و کوشش کی تھی اور پھر اس علمی ذخیرے سے سخاوت کے جوہر دکھانے میں کوئي کوتاہی اور سستی نہیں کی۔ شہید مطہری کبھی بیٹھتے نہیں تھے۔ مسلسل چیزیں نوٹ کرتے رہتے اسے منظم کرنے میں مشغول رہتے ، اپنی تقریریں مرتب کرتے رہتے، دینی اور مذہبی نظریاتی میدان میں نئے نئے نکات نکالنے اور نئے نئے گوشے تلاش کرنے اور گمراہ نظریات کے جواب دینے میں مصروف رہتے تھے۔ اس شخص میں کبھی سستی نظر نہیں آئی۔ نتیجتا انہوں نے اپنے علمی ذخیرے اور عملی کوششوں کا اثر ڈالا۔ آج ہم شہید مطہری کے نظریاتی دسترخوان پر بیٹھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ معاشرے کی نظریاتی فضا مختلف میدانوں میں خواہ وہ فلسفے کا میدان ہو یا دینی سماجی اور دینی سیاسی شعبہ ہای فکر ہوں انہیں کے نظریات کی مرہون منت ہے۔ آج ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں ہے۔بہت سی نئي باتیں سامنے آ رہی ہیں بہت سے سوال اعتراضات اور شبہات شہید مطھری کی علمی کاوشوں کےبعد پیدا ہوئے ہیں ان کا جواب دینے کے لئے آمادگي ضروری ہے، لہذا دینی مدارس کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔
دینی مدارس کے لئے سب سے پہلا کام تعلیم کی گہرائي اور گیرائي کو بڑھانا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس سے افکار کی نشر اشاعت لازمی ہے۔ مدارس میں برجستہ شخصیات کی تربیت ہونی چاہئے۔ ان مدارس سے ایسے علما نکلیں جو عالمی سیاست سے آشنا ہوں، دنیا کو بخوبی پہچانتے ہوں۔ ہماری ایک کمی زمانے کے حالات سے عدم آگاہی ہے۔ بعض افراد علم و تقوی سے مزین ہیں لیکن اس محاذ اور میدان سے آشنا نہیں ہیں جہاں ڈٹ کر انہیں کام کرنا چاہئے اس شخص کی مانند جو اپنوں اور دشمنوں کے درمیان اپنی جگہ گم کر دے اور غلطی سے دشمن کی صف میں جا کھڑا ہو، وہ حملہ بھی کر رہا ہے لیکن نشانہ بن رہے ہیں اس کے اپنے دوست۔ دنیا کے نظریاتی و سیاسی جغرافیہ سے عدم آگاہی ، اسی طرح دشمن کے نقطہ ارتکاز، اس کی نگاہوں کی سمت اور اس کے تیروں کی رسائي کا اندازہ لگانے میں عدم مہارت ہے جو بغض و کینے کی کمان سے چلائے جا رہے ہیں، اس سے ہمیں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ہمیں علمی میدان میں جد و جہد کرنا چاہئے۔ سیاسی میدان میں ہمارے پاس اطلاعات کا ذخیرہ ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ خود کو پاکیزہ بنائيں اور ذاتی لحاظ سے اہل تزکیہ افراد میں شامل ہوں۔ ایک عالم دین، پرہیزگاری و پاکیزگي کا مظہر ہوتا ہے۔
اس میں کوئي شک نہیں کہ اس وقت دشمنوں کے حملوں کا ایک ہدف علما ہیں۔ عالم دین کے کردار کو مٹا دینے کی کوششیں ہو رہیں ہیں۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ درست ہے کہ علمائے دین میں سے بعض کو وسیلہ بنا کر یہ حملے کئے جا رہے ہیں اور ان میں سے بعض کی حمایت بھی کی جارہی ہے لیکن دشمن کی نظر میں علمائے دین مضر ہیں اور ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ علما، دینی تعلیمات کے پابند ہوتے ہیں، سوائے اس عالم دین کے جو دشمن کے دام میں گرفتار ہے۔ البتہ ایسے عالم دین بہت کم ہیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے کے لئے سب سے مضبوط ڈھال دینی ادراک ہے۔ جس کے سہارے معاشرہ دشمن کے سامنے ڈٹ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن علم دین اور علمائے دین کے سرگرم کردار کا مخالف ہے۔ اگر کوئي مومن، فعال، با اثر، دانشمند اور زیرک عالم دین ہے تو اس کی زیادہ مخالفت کی جاتی ہے اور اس کو سب سے بڑھ کر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس بنا پر آج با فضیلت طلبا کی تربیت اور انہیں بڑا عالم دین بنانا، بنیادی فریضہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔فضلاء، علما، فقہا، فلاسفہ، ماہرین علم کلام، مفسرین اور محدثین کو مدارس سے نکلنا چاہئیں، جو دنیاوی مسائل، تاریخ اور دشمن کی کارکردگی سے بھی باخبر ہوں۔ اس ہدف کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
اس وقت ہمارے بعض دینی مدارس نے اس لحاظ سے بڑی پیش رفت کی ہے۔ آج قم کا دینی تعلیمی مرکز بہت با برکت اور عظمتوں والا مرکز ہے۔ تنوع، نئی دریافت، حالات حاضرہ سے آگاہی اور بعض امور میں ماہرانہ نظر کے لحاظ سے قم کا دینی علوم کا مرکز ماضی کے مقابلے میں بہت آگے پہنچ چکا ہے۔ یہ دینی تعلیمی مرکز بہت با برکت ہے، لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ ملک کے تمام علاقوں میں دینی مدارس کی ایسی پیش رفت نظر آنا چاہئے اور تمام مدارس میں علما نظر آنے چاہئیں، جیسا کہ اس سے قبل تھا۔ اسی صوبہ کرمان میں میں نے بعض بزرگ علما اور فقہا کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔ کرمان میں مرحوم صالحی، رفسنجان میں مرحوم غروی اور مرحوم نجفی، یہ مجتہدین تھے، اعلی علمی مدارج پر فائز، علوم سے مکمل طور پر آگاہ۔ دیگر صوبوں میں بھی بزرگ اور محترم علما تھے جنہیں میں نے نزدیک سے نہیں دیکھا اور جس سے آشنائي نہیں تھی۔ قم میں مقیم علما اپنی تعلیم و تحقیق کی تکمیل اور ضروری علمی توشہ حاصل کر لینے کے بعد لوٹیں اور ان مدارس میں سرگرم عمل ہوں، انہیں سنواریں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جناب جعفری نے اپنی رپورٹ میں فرمایا کہ صوبے کی ڈھائي ہزار مساجد میں سے پانچ سو مساجد میں چونکہ امام جماعت ہیں اس لئے وہ فعال ہیں۔ یعنی دو ہزآر مساجد میں امام جماعت نہیں ہیں، اگر میں نے یہ اعداد و شمار درست سنا ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ بہت سی جگہوں پر مساجد نہیں ہیں یقینا کچھ گاؤں اور دور دراز کے علاقے ہوں گے جہاں مومن افراد اور با اسعتداد نوجوان ہوں گے لیکن وہاں مسجد عالم دین اور، علمی پناہ گاہ نہیں ہے، ان کے لئے سعی و کوشش کی ضرورت ہے۔
آج علما مختلف شعبوں میں موجود ہیں جہاں ماضی میں ان کی موجودگی نا ممکن تھی۔ مثلا ادارے، کارخانے، چھاؤنیاں، یونیورسٹیاں اور جامعات۔ بنا بریں ایسا متاع تیار کیا جانا چاہئے جو ان مقامات پر پیش کیا جا سکے۔ خوش قسمتی سے اسلامی تعلیمات میں روز افزوں قیمتی متاع بہت زیادہ ہے جسے ہم پیش کر سکتے ہیں۔ اگر شہید مطہری کی کتابوں کا مطالعہ جائے ان پر غور کو خوض کیا جائے تو ہر پڑھنے والے کے ذہن و دماغ میں مفاہیم کا ذخیرہ تیار ہو جائے گا۔ یہ بہت اہم اور ضروری ہے۔
ملک کے عام مسائل کے سلسلے میں بھی چند باتیں عرض کرتا چلوں کہ ہمارا آئین بہت اچھا اور پیش رفتہ ہے۔ ہمارا آئین بھی ان اشیا میں ہے جنہیں دشمنوں نے اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کیونکہ یہ آئین اپنی موجودہ خصوصیات اور طاقت کی موجودہ تقسیم کی بنیاد پر ملک کو منظم اور معاشرے کو ترقی یافتہ بنا سکتا ہے ۔ یہ آئين نظام اسلامی کا ضامن بن سکتا ہے۔ وہ نظام جو انسانوں کی مادی اور روحانی ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آئین ذہنوں کو قائل اور مطمئن کر سکتا ہے اور جسموں کو مادی آسائشیں فراہم کر سکتا ہے لوگوں کی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔ اسی آئین کی بنا پر آج ملک پیش رفت کر رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئي نقص و عیب نہیں ہے، بلا شبہ کچھ کمیاں ہیں، لیکن اگر آپ ملک کی پوزیشن اور اسلامی جمہوری نظام کی استثنائي صورت حال کو مد نظر رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ انقلاب کے پہلے دن سے سبھی شعبوں میں ہماری پیش رفت اچھی، بعض شعبوں میں بہت اچھی اور بعض دیگر میں اطمینان بخش رہی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام کا خاص مقام اس لئے ہے کہ اس دنیا میں سر بلند ہے جس کی بنیادی مادی طاقت مادیت پرست عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو کسی اخلاقی، روحانی اور دینی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ طاقتیں عیسائیت کی باتیں کرتی ہیں اور بظاہر ان کے درمیان عیسائيت کا عقیدہ رائج ہے لیکن سامراجی دنیا میں کہ جو ظلم ،حقیقی استبداد، اور جارحیت کی دنیا ہے جہاں علم کو جرائم کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا رہا ہے، ایک دین الہی اور اخلاقی تعلیمات کے سرچشمےکی حیثیت سے عیسائيت کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ آج علم ان لوگوں کے پاس ہے جو انسانیت سے بے بہرہ ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کا استعمال ان اہداف کے لئے کیا جا رہا ہے جو صد فیصد انسانی معاشرے کے زیاں اور سرمایہ داروں، زر اندوزوں اور بڑی طاقتوں کے مفاد میں ہیں۔
ان لوگوں نے بہت اہم کامیابیاں حاصل کر لی تھیں جس وقت دنیا میں دو قطبی نظام تھا اس وقت دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات ہونے کے باوجود بہت سے مسائل میں ان طاقتوں کا موقف ایک ہی ہوتا تھا کیوں کہ ان کے تمام کاموں کی بنیاد مادیت اور دنیا پرستی تھی۔ ان کے اہداف سامراجی تھے، البتہ انہوں نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اگر کوئي قوم آزادی و خود مختاری اور ناوابستہ نظام حکومت کے بارے میں سوچتی تھی تو مارکسسٹ طاقت جو بزعم خود سوشیلسٹ طاقت تھی اس قوم کر اپنے آہنیں شکنجے میں جکڑ لیتی تھی، ہم نے بعض ممالک میں دیکھا کہ وہاں کی قوموں نے کس طرح اپنا خون دیا، قربانیاں دیں محنت و مشقت کی اور طاغوتی طاقت کے خلاف انقلاب برپا کیا لیکن آخرکار وہ مارکسسٹ دام میں پھنس گئی۔ اب ان پر پڑنے والا دباؤ پہلے کے مقابلے میں اگر زیادہ نہیں تھا تو کم بھی نہیں تھا۔
اس طرح کے دنیا پرستی کے ماحول میں اس طرح کے سامراجی محاذ کے مقابلے میں اس طرح کے طاقتور عالمی سیاسی نظام کے مقابلے میں کہ جس میں معنویت کا کوئي عنصر نہیں تھا معنویت کی بنیاد پر ایک نظام معرض وجود میں آیا جس نے روحانیت کا پرچم بلند کرکے، لوگوں کو معنویت اور اللہ کی پناہ میں آ جانے کی دعوت دی ۔ دین کی جانب پیش قدمی الہی تعلیمات و احکام سےتمسک کے طفیل میں دنیاوی زندگی کو سنوارنے کا وعدہ کیا ۔ دین سے وابستگی کے زیر سایہ عوام کی آزادی اور معاشرے کی خود مختاری کی ضمانت دی۔ یہ نظام حکومت ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
یہ مسئلہ کسی ایک ملک اور ایک قوم تک محدود نہیں تھا۔ اس وقت دنیائے اسلام کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا بیس فیصد ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد مسلمانوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ ارب ہے۔ درجنوں مسلم ممالک ہیں اور دسیوں لاکھ مسلمان غیر مسلم ممالک میں آباد ہیں۔ ان کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کا دین، ان کا اسلام، ان کا دینی رجحان، اور ان کے مذہبی عقائد آج دنیا میں پیش آنے والے اہم ترین سوالوں کے جواب دینے پر قادر ہیں، ان لوگوں کو اپنے تشخص کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اسلامی انقلاب اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا نام پوری دنیا پر چھا گيا جبکہ ہم نے یہ نہیں کیا۔ دنیائے اسلام کے کسی بھی گوشے میں اگر کوئي مسلمان زندگی بسر کر رہا تھا تو وہیں امام خمینی رحمت اللہ علیہ، اسلامی انقلاب، انقلابی تعلیمات اور نعروں کا تذکرہ تھا، اس سے سامراج خوفزدہ ہو گيا، ہم سے دشمنی کی وجہ یہی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دشمن تراشی نہ کیجئے، لیکن اسلامی جمہوریت کا تشخص اور وجود ہی دشمن تراشی کے لئے کافی ہے، یہ بات کہ اسلام کے نام کا پرچم بلند کیا جائے اور کوئي قوم معنویت کے نعرے کے ساتھ اپنے وجود کا اعلان کرے اپنے آپ میں دشمنی کا باعث ہے۔ ہم نے اس سے زیادہ کوئي دشمن تراشی نہیں کی ہے۔ ٹکراؤ ،غیر قانونی حرکتیں اور خصومت ہمیشہ ان کی جانب سے اسلامی نظام کے خلاف شروع کی گئی ہے۔ ہم نے ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ ہاں ہمارا دفاع دلیرانہ تھا۔ ہم نے اس انداز سے اپنا دفاع کیا کہ دشمن کی سمجھ میں آ گيا کہ ہم اپنا دفاع کرنے پر قادر ہیں،الحمد لللہ ہم کامیاب بھی رہے ہیں۔ سامراج ایسے نظام کے وجود کا مخالف ہے۔ ہم مخالفتیں اور دشمنیاں جاری رہیں گی۔ اس کا واحد علاج خود کو طاقتور بنانا ہے، علم کے ذریعے ایمان کے ذریعے، ٹکنالوجی کے ذریعےسماجی تعلقات کے ذریعے قومی یکجہتی اور حقیقی عوامی اتحاد کے ذریعے، جب انہیں آپ کی قوت و طاقت کا اندازہ ہو جائے گا ان کے حملوں میں کمی آ جائے گی۔ خصومت و عناد بھی فطری طور پر کم ہو جائے گا، جیسا کہ ہوا بھی ہے۔
مادیت کی دنیا میں دشمن کو حملے کا ارادہ بدلنے پر مجبور کرنے کے لئے اپنی فوجی طاقت بڑھائي جاتی ہے۔ جس وقت متعدد بڑی طاقتیں تھیں، تو ہر طاقت خود کو دوسری بڑی طاقت کے ایٹمی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ایٹمی اسلحہ بناتی تھی جبکہ ان کو یہ علم تھا کہ اس اسلحے کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ایٹمی اسلحے کو ایک بڑے خطرے کے طور پر اپنے پاس رکھتی تھیں۔ اپنی اندرونی طاقت بڑھاتی تھیں تاکہ دشمن کے مقابلے میں انہیں تحفظ حاصل ہو جائے۔ جو اقتدار اور جو طاقت ہم اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں وہ ایٹمی اسلحے اور فوجی طاقت سے ممکن ہے ویسے ضروری حد تک فوجی طاقت ہونی چاہئے لیکن جو چیز مختلف سطح پر دشمن کے حملوں کے مقابلے میں ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے وہ یہیں چیزیں ہیں جن کا نام میں نے لیا ہے ، ایمان کی طاقت، علم کی طاقت ، ٹکنالوجی کا طاقت، عصری فنون میں مہارت، نئے علوم کی ایجاد میں پیش رفت، آرٹ اور سائنس جیسے موضوعات میں ابنائے قوم اور نوجوانوں کی صلاحیوں کا نکھار، قومی یکجہتی، اور عوام میں اخوت کے جذبات کی تقویت وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی قوم کو طاقتور بنا سکتی ہیں۔ اس قوم کو آباد بھی کر سکتی ہیں اور دشمنوں کے خطرات سے اسے محفوظ بھی رکھ سکتی ہیں۔ یہی وہ ذرائع ہیں جن کی ہمیں اپنی حفاظت کے لئے اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی تلاش کرنا چاہئے اور ہمیں ان کا پابند ہونا چاہئے۔
علما اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، خود سازی، یعنی اپنی شخصیت کو علمی اور عملی زیور سے آراستہ کرنا اور ابنائے قوم اور نوجوانوں میں تمام میدانوں میں سرگرم کردار ادا کرنا جوش و ولولہ پیدا کرنا اور سب سے بڑھ کر عوام کے ایمان کی تقویت، یہ اہم ترین کام ہیں جو ہم عمامہ پوش افراد اور علمائے دین انجام دے سکتے ہیں۔ ایمان کی تقویت کے لئے زبانی نصیحت سے زیادہ عملی پیغام کی ضرورت ہے۔ البتہ تبلیغ کے نئے انداز، زبان ، اہم مضامین کی حامل باتیں بھی ضروری ہیں۔
دعا کرتا ہوں کہ خدا وند عالم ہمیں اس سلسلے میں ہمارے فرائض کی ادائگی میں کامیاب کرے۔ خدا وند عالم کرمان کے دینی مدرسے، یہاں کے علما، مبلغین اور فعال کردار ادا کرنے والے مذہبی افراد کو حفظ و امان میں رکھے اور اس بات کی توفیق عطا کرے کہ یہ دینی تعلیمی مرکز روز بروز زیادہ موثر ثابت ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
چہاردہ اردیبہشت سال ہشتاد و چہار،
صوبہ کرمان کی اہم شخصیات سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کا خطاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے لئے یہ بڑا ہی مفید با معنی اور دلچسپ نشست تھی ، اہم شخصیات سے ملاقات کہ جو ہمارے سفر کے دائمی پروگراموں میں شامل ہے، اس کی ایک علامتی حیثیت بھی ہے اس احترام کے تعلق سے جو اسلامی جمہوری نظام نے ہر شعبے کی اہم شخصیات کے لئے رکھا ہے۔ اسی طرح کام اور دیگر پہلوؤں سے بھی اس کی اہمیت ہے، ہمیں معاشرے کی نمایاں شخصیات کی زبانی مختلف مسائل سننے کو ملتے ہیں اس کی خاص اہمیت ہے۔ جو افراد ٹیلی ویژن کے ذریعے اس اجتماع کو دیکھ رہے ہیں ان تک اس علاقے کی برجستہ شخصیات کے نظریات منتقل ہوں گے یہ بھی ایک اہم بات ہے۔ اتنی ساری برجستہ اور اہم شخصیات کا ایک صوبے میں جمع ہونا بہت دلچسپ بات ہے اس کا سبھی لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں جو کہ ایک بڑی بات ہے۔ البتہ حقیر کو بھی ایسی شخصیات اور آپ جیسے عزیزوں سے ملاقات کرکے خاص روحانی لذت حاصل ہوتی ہے، یہ بھی دوسرے مرحلے میں ایک سبب ہے ایسی ملاقاتوں کا۔
اس وقت اس کی گنجائش نہیں ہے کہ میں مختلف مسائل پر گفتگو کروں۔ ویسے بھی میرے ذہن میں جو باتیں ہیں مختلف بیانات اور خطابات کے پیرائے میں ہمارے بھائی بہنوں تک پہنچتی رہتی ہیں۔ مجھے صرف دو باتیں عرض کرنا ہیں۔
ایک تو یہ کہ میں ہمیشہ کرمان کو تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہوں اور آج مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان اہم شخصیات سے ملاقات کرکے جن میں دانشور، فنکار، ادیب ، شاعر، ماہر معلمین، منتخب اساتذہ، مقدس دفاع کے قابل احترام کمانڈر، محترم علما، اچھے سخنور، معروف کھلاڑی موجود ہیں، میری تحسین آمیز نگاہ کی تائید ہوئي ہے۔ الحمد للّہ یہ صوبہ مختلف شعبوں میں تنوع اور ماہرین میں تبدیل ہو جانے والے عناصر کا حامل ہے۔ یہ میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے۔
آپ حضرات نے جو کچھ فرمایا اسے میں نے اجمالی طور پر نوٹ کر لیا ہے اور ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ نکات متعلقہ حکام تک پہنچاتے ہیں۔ تاکید کرتے ہیں اور جہاں منصوبہ بندی میں ضرورت ہوتی ہے ہم مداخلت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان تجاویز اور درخواستوں پر عمل کیا جائے گا۔ اقدامات ہوں گے، میں امید کرتا ہوں کہ اقدامات فوری اور مناسب ہوں۔ ملک کے وسائل اور توانائي کے مطابق انشاء اللہ کام انجام پائے گا۔
دوسری بات یہ کہ اہم شخصیات، ملک کا روحانی سرمایہ ہیں۔ دنیا میں روحانی دولت اور سرمائے کو مادی نگاہ سے دیکھے جانے کے باعث اس سرمائے کو مالی معیار پر تولا جاتا ہے، اس ٹیکنالوجی سے کتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ یہ فن کتنی دولت پیدا کر سکتا ہے، لیکن اسلام میں یہ معیار نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ علم و فن اور روحانی سرمائے سے پیسہ کمانے میں کوئی قباحت ہے ہرگز نہیں، علم انسانی زندگی کو آسائشیں فراہم کرنے کے لئے ہے اس میں کوئي برائي نہیں ہے لیکن مالی اہمیت سے ہٹ کر بھی اس روحانی سرمائے کی اسلام کی نظر میں خاص اہمیت اور قیمت ہے۔ یعنی یہ فنکار، خواہ اس کے فن سے لوگ آشنا نہ ہوں اور اس کے فن سے کوئي لطف اندوز نہ ہو تب بھی فنکار کے پاس اس فن کا ہونا ہی اسلام کی نظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ فلاں عالم کو لوگ ماننے سے انکار کر دیں، اس کے علم کا کوئي معترف نہ ہو لیکن علم ہونا ہی اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔ درست ہے کہ علم عمل کا مقدمہ ہے، درست ہے کہ دانائي، توانائي کا وسیلہ ہے لیکن یہ عمل اور یہ توانائي یقینی طور پر ہمیشہ ایسی نہیں ہے کہ اس سے پیسہ اور رقم حاصل کرنا ممکن ہو۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے کہ کسی سماج میں وسائل اور تجربات کی کمی اور فقدان کی بنا پر کسی ٹیکنالوجی، تحقیق، فن یا اس قسم کے روحانی سرمائے کی صحیح مالی قیمت ادا نہ کی جا سکے، یقینی طور پر ہمارے معاشرے میں بھی ایسا ہی ہے۔ دنیا کے دیگر بہت سے علاقوں میں بھی یہ صورت حال ہے۔ لیکن اس سے علم و فن کے آبشار کا بہاؤ رکنا نہیں چاہئے۔
میں جب علم و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ انسانی علمی ترقی کا ایک بہت بڑا حصہ اسی طرح اس کی فنی پیش رفت ایسی ہے کہ جس کا کوئي مادی اور مالی بدلہ نہیں ملا۔ کبھی اس کی تحقیر بھی کی گئي اس کا انکار بھی کیا گيا لیکن علم و ادب کے میدان کی شخصیات روحانی جذبے سے سرشار تھیں ان میں روحانی عشق و شوق تھا۔ اس کا انکار نہیں کیا جانا چاہئے اسے نہیں روکا جانا چاہئے۔ ہر جگہ علم و فن اور تحقیق کو مالی معیار پر نہیں پرکھا جاتا پیسے سے اس کی قیمت نہیں لگائي جاتی ۔
ممتاز شخصیات اس فکر کو معاشرے میں بہتر طور پر رائج کر سکتی ہیں۔یہ کہ اگر کوئي شخص فلسفہ، عرفان یا کسی اور علم میں ید طولیٰ رکھتا ہے یا کسی فن میں ماہر ہے، اپنی جگہ یہ خود بہت بڑی خصوصیت ہے، خواہ کسی کو اس کی اطلاع نہ ہو خواہ اس سے پیسہ نہ کمایا جا سکتا ہو اور تنگ نظر بازار میں اس کا کوئي صحیح خریدار نہ مل سکتا ہو۔ یہ سوچ اور فکر بہت اچھی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے ملک میں علم و دانش اور تحقیق و تعلیم کو بڑی وسعت حاصل ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمارا نظریہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کوئي علم حاصل کر رہے ہیں یا کسی فن سے آشنا ہو رہے ہیں تو لازمی طور پر اس کی مالی قیمت بھی ہو اور اگر یہ مالی قیمت ہم یہاں حاصل نہ کر سکتے ہوں تو کسی اور سمت کا رخ کریں۔ البتہ انسانی فطرت اسے اسی سمت کھینچتی ہے لیکن دینی اور اسلامی نظریہ یہ نہیں ہے۔
اسلامی نظام کے عہدیداران کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں۔ اس کا ہم اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ان شعبوں میں بہت سے ضروری کام ابھی مکمل طور پر انجام نہیں پا سکے ہیں یا یہ کہ مناسب شکل میں انجام نہیں دئے گئے ہیں۔ علم و تحقیق، روحانیت اور ذہنی و فکری تخلیقی صلاحیتوں کی پیش رفت ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے ملک میں کم از کم حالیہ چند عشروں کے دوران بہت زیادہ زیر بحث نہیں رہیں ہیں۔ یہ تو اسلامی انقلاب سے ملنے والا ثمرہ ہے۔
ہماری تاریخ ایک فکری سامراجی حملے اور بیرونی تسلط کے نتیجے میں اپنے بنیاد خطوط سے ہٹ گئی اس کا قدیمی سلسلہ ٹوٹ گیا۔ آج ہم اپنے تاریخی تشخص کی شناخت اور اس کی بازیابی کے لئے کوشاں ہیں، اس پر ہمیں فخر بھی ہے۔ ہم خود کو اسی ٹوٹے ہوئے سلسلے کی ایک کڑی سمجھتے ہیں۔ آج ہم اپنے آپ پر نازاں ہیں کہ علم و دانش، سائنس و ٹیکنالوجی اور متعدد انسانی علوم میں پیش رفت اور نئی دریافت پر ہم قادر ہیں۔ کل ہمارے ملک میں یہ خود اعتمادی نہیں تھی ۔
جب ہم کہتے ہیں کہ علم کی سرحدوں کو توڑ دینا چاہئے علم کی عصری حدوں سے ایک قدم آگے رہیں تو بعض افراد کے لئے یہ بات نا قابل یقین ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں اس جگہ پہنچ جانا چاہئے کہ اگر دنیا کے کسی گوشے میں کوئي دانشور یا سائنسداں کسی سائنسی اصول یا فلسفیانہ نظرئے کو سمجھنا چاہے تو مجبورا فارسی زبان سیکھے، تو بعض افراد انکار آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں کہ یہ ممکن ہے۔ ہم اگر کمر ہمت باندھ لیں تو بیس سال، تیس سال بعد ایسا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں کہ جب علم و سائنس کے میدان کی تخلیقی صلاحیتوں کا تذکرہ ہو تو ایرانی اور ہمارا ملک سر فہرست نظر آئے۔ ہم یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ ہماری صلاحیتیں بہت ہیں۔ ہر چیز اس کی گواہی دے رہی ہے۔ ہمارے پاس جس چیز کی کمی تھی کہ جو اسلامی انقلاب سے ہمیں حاصل ہو گئی ہے وہ خود اعتمادی تھی۔ آج ہمارے اندر خود اعتمادی ہے، ملک میں علمی شعبہ بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ، آج ہمارے نوجوانوں میں خود اعتمادی ہے۔
اسلامی انقلاب کے اوائل میں ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی اکثر ضروریات کی تکمیل کے لئے دوسروں کے فکری نتائج اور اشاروں پر عمل کرتے تھے لیکن آج دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو ایرانی فکر اور رہنمائی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے، ہم نے پیش رفت کی ہے۔ یہ خود اعتمادی کا نتیجہ ہے۔ علم کے شعبے میں اس قومی خود اعتمادی کی تقویت کی جانی چاہئے۔ اس کی تعلیم ہمیں اسلام دیتا ہے اور ہم انشاء اللہ پیش رفت کریں گے۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ وقت نہیں ہے، نماز کا وقت نزدیک ہے، مناسب نہیں ہے کہ میں مزید وقت لوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بیست و ہفتم خرداد سال ہشتاد و چہار
نویں صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کے وقت قائد انقلاب اسلامی کا انٹرویو
س- میں بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ موقع مجھے عنایت کیا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ نویں صدارتی انتخابات کے لئے ووٹنگ کے آغاز کو کچھ ہی منٹ گذریں ہیں اور جناب والا ووٹنگ کے لئے تشریف لائے ہیں۔ ووٹنگ کے ابتدائي لمحات میں حق رای دہی کے استعمال کی آپ کی اس پابندی کی کیا وجہ ہے؟
ج- بسم اللہ الرحمن الرحیم انسان کار خیر جتنی جلد انجام دے بہتر ہے۔ انسان کو ایک گھنٹے کےبعد کیا ہوگا اس کی خبر نہیں ہے۔ اول وقت میرے لئے یہ ممکن تھا میں زندہ تھا تو میں نے یہ کام انجام دے دیا۔
انتخابات میں شرکت ایک کار خیر ہے۔ اس کار خیر کو بھر پور طریقے سے بر وقت انجام دینا چاہئے۔ بہت سے کام ہیں جن کی انجام دہی کا ایک مخصوص وقت ہے۔ صدارتی انتخابات بھی ایسے ہی کاموں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم ایرانیوں نے انتخابات کے لئے اقدام کیا ہے تو اپنے اور ملک کے لئے ایک نیا وسیلہ ایجاد کیا ہے۔ اگر میں ایک ایرانی کی حیثیت سے آج یہ کار خیر انجام نہ دوں تو کل یا پانچ دس دن بعد اس کو انجام نہیں دے سکوں گا۔ چار سال تک اس کار خیر کو انجام نہیں دیا جا سکے گا۔
مومن اور دانشمند انسان ہر کام بر وقت انجام دیتا ہے۔ آج نو بجے سے لیکن ووٹنگ کے وقت کے اختتام تک اس کام کو انجام دینے کا موقع ہے۔ ہماری قوم نے ماشاء اللہ اب تک ثابت کیا ہے کہ اس کام کے معنی اور اہمیت کیا ہے۔ جب ہم آئین کے تناظر میں پولنگ بوتھ تک جاتے ہیں اور ووٹ ڈالتے ہیں تو در حقیقت ہم آئین اور اسلامی نظام کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں، خواہ ہم کسی شخص کو بھی ووٹ دیں۔ اس وقت عہدہ صدارت کے لئے سات افراد کے نام سامنے ہیں۔ ان میں خواہ کسی کو بھی ہم ووٹ دیں، ہم نے در حقیقت اسلامی نظام کو ووٹ دیا ہے۔ یعنی ہم نے دو کام انجام دئےہیں ایک تو کسی شخص کو ووٹ دیا ہے اور دوسرے اس نظام اور آئین کو ووٹ دیا ہے۔ اس کام کا مفہوم یہ ہے ہماری قوم کو اس کا ادراک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام مختلف انتخابات میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ انشاء اللہ آج بھی شرکت کریں گے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ جو ملک کے مفاد میں ہے جو حکومت اس وقت ملک کے مسائل کو دور کرنے اور ضروریات کی تکمیل پر قادر ہے وہی شخص اور وہی حکومت ملک کی باگڈور سنبھالے، ہماری خواہش یہ ہے اور اللہ تعالی ہم سے بہتر اس سے آگاہ ہے۔ ہمارا علم اور اس کی گیرائي بہت محدود ہے۔ مصلحت سے اللہ تعالی واقف ہے اور ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ ہر شخص اپنی تشخیص کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے۔
س- آپ بخوبی واقف ہیں کہ آج کل نام نہاد مغربی ڈیموکریسی انتخابات کو جمہوریت اور آزاد حکومت کا مظہر قرار دیتی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے خلاف مغربی تشہیراتی مہم مختلف شکل میں سامنے آئي ہے۔ ان کی تشہیراتی مہم کا مقصد یہ ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں اور حق رای دہی کے لئے ( شہروں سے) باہر نہ آئيں۔ آپ اس تضاد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج- جس تشہیراتی مہم کی جانب آپ نے اشارہ کیا کہ عوام کو انتخابات میں شرکت نہ کرنے کے لئے ورغلایا جاتاہے اس کا تعلق مغربی جمہوری سسٹم سے نہیں بلکہ ہمارے بعض دشمنوں سے ہے۔ وہ دشمن ہو ہرگز نہیں چاہتے کہ اسلامی نظام اپنے دینی تشخص کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور اقتدار پر استوار ہو۔ وہ نہیں چاہتے کہ حقیقی اسلام عوامی نظام کی تشکیل میں کامیاب ہو اور اسے مضبوط بنائے۔ چونکہ اس قسم کے نظام کی تشکیل ان کے مفادات کے خلاف ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا یہ عظیم مظہر ملک میں موجود نہ رہے۔ ہمارے دشمن کون ہیں جو اس نظرئے کی ترویج کر رہے ہیں؟ دشمنوں کے نام کا ذکر کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ فلاں شخص دشمن ہے اور فلاں دشمن نہیں ہے۔ جو بھی اسلامی نظام کے سلسلے میں یہ تصور رکھتا ہو، ہمارا دشمن ہے۔ اس بنا پر جس چیز کی جانب آپ نے اشارہ کیا جمہوری نظام سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ دنیا کے جمہوریت نواز لوگ ، دنیا کی کسی بھی حصے میں جمہوریت کا مشاہدہ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ آج خوش قسمتی سے مغرب والوں میں بھی خواہ وہ امریکہ ہو یا یورپ، بہت سے آزاد خیال اور غیر جانبدار عناصر موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں اور اس کے معترف ہیں کہ کم از کم ہمارے خطے میں اسلامی جمہوری نظام کی مانند مضبوط وسیع اور مناسب کوئی اور جمہوری نظام نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔