بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّیّۃ اللہ فی الارضین.
یہ جلسہ 13 آبان مطابق 4 نومبر کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے۔ 1964 میں حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی جلاوطنی اور 1978 میں طلبا کا قتل عام بھی اسی تاریخ کو ہوا لیکن اسی تاریخ کو رونما ہونے والا اہم ترین اور تاریخ ساز واقعہ تہران میں امریکی فوجی اڈے پر قبضے کا واقعہ ہے اور اس جلسے میں، میں اسی مسئلے پر گفتگو کروں گا لیکن قبل اس کے کہ اس موضوع پر اپنی گفتگو شروع کروں، چونکہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور اسی طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مبارک نام لئے گئے، اس لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ نوجوانوں سے یہ عرض کروں کہ ان ہستیوں کا نام لینے اور ان سے قلبی لگاؤ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ عملی طور پر حقیقی شیعہ بننے کی کوشش کریں۔
پہلا قدم یہ ہے کہ اس بات پر توجہ دیں کہ یہ دونوں ہستیاں اور سبھی معصومین خداوندعالم کے حضور کس طرح کھڑے ہوتے تھے۔ آپ جہاں بھی ہوں اپنے اطراف کے لوگوں میں یہ تبلیغ کریں کہ نماز اس طرح پڑھیں جس طرح خدا کے صالح بندے ادا کرتے تھے۔
اپنی عزیز بیٹیوں اور جلسے میں موجود خواتین سے عرض کروں گا کہ آپ کے اطراف میں جو لوگ ہیں ان کو اس طرف متوجہ کریں کہ حجاب کو ایک دینی، اسلامی، فاطمی اور زینبی مسئلہ جانیں۔
میں سبھی سے سفارش کروں گا کہ قرآن سے انسیت کو فراموش نہ کریں۔ ہر روز قرآن پڑھیں، آدھا صفحہ ہی صحیح ۔ کہیں سے بھی قرآن کھولیں اور آدھا صفحہ کی تلاوت کریں، ایک صفحہ پڑھیں، جتنا جی چاہے، اتنا پڑھیں۔ دینی اور روحانی باتوں سے اپنا رابطہ قائم رکھیں۔ آج کے دور میں جبکہ ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں، ہمارے نوجوان اس وقت حقیقی معنوں میں امریکا مردہ باد کہہ سکتے ہیں کہ جب باطنی، دینی، اعتقادی اور خداوند عالم نیز قدرت الہی پر اعتماد محکم ہو۔ نوجوان وقت کے فرعونوں کی طاقت، ہیبت اور گستاخیوں کے مقابلے میں ڈٹ سکتا ہے جب اس کا دل خدا کے ساتھ ہو، خدا سے اس کا رابطہ برقرار ہو۔ خدا سے رابطہ رکھیں، اس سے اپنا رابطہ محفوظ رکھیں۔ اس رابطے کی حفاظت کریں۔ یہ نوجوان جو یہاں ہیں، یہ چند ہزار نوجوان، آپ سبھی اور ملک کے سبھی نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے امور دنیا میں، ملک کے امور میں بھی اور دشمنوں سے مقابلے میں بھی زیادہ اور اچھی پیشرفت کریں گے۔
اب بات کرتے ہیں 13 آبان(4 نومبر) کی، 4 نومبر کے واقعے اور امریکی سفارت خانے پر یونیورسٹی طلبا کے قبضے کو دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے: ایک تاریخی اور دوسرا تشخص کے نقطہ نگاہ سے۔ ایک واقعہ ہے جو رونما ہوا، ہم اس کو بخوبی سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔
تاریخی نقطہ نگاہ سے بیشک، ملک کی آئندہ تاریخ میں، یہ دن قوم کے لئے کامیابی اور افتخار کا دن ہوگا، اس ميں شک نہیں ہے؛ یہ وہ دن ہے جب ہمارے نوجوان اس طاقت کے مقابلے پر، جس سے پوری دنیا ڈرتی تھی، اٹھے اور بے خوف ہوکر انھوں نے اس کے سفارتخانے پر حملہ کر دیا۔ اس کے لئے ان کا استدلال، دلیل اور علت میں بیان کروں گا۔ یہ کامیابی اور افتخار کا دن ہے۔ ہماری تاریخ میں کامیابی کے ایام رہے ہیں، کمزوری اور اضمحلال کے دن بھی رہے ہیں۔ دونوں کو ہی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب اپنی تاریخ کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد ایک ہزار سال یا دو ہزار سال کی تاریخ نہیں ہے۔ جب استعمار وجود میں آیا اور دنیا میں استعمار اور سامراج پھیلا تو ہمارا ملک بھی الگ نہیں رہا۔ ہمارے ملک میں کچھ واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے بعض واقعات ایرانی قوم کے لئے اہم، فتحمندانہ اور اس کی طاقت و توانائی کے مظہر تھے اور بعض حوادث تلخ تھے جن کا میں مختصرا ذکر کروں گا۔
خوشگوار واقعات کو بھی ہمیں یاد رکھنا اور ذہن میں انہیں دوہرانا چاہئے، اپنے ملی حافظے میں انہیں محفوظ رکھنا چاہئے اور ناگوار حوادث کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔
خوشگوار اور عروج کے ایام کو یاد کرتے ہیں تو خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، طاقت و توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم اس بات کو یاد کرتے ہیں کہ میرزائے شیرازی نے ملک میں تنباکو کے استعماری معاہدے کو کس طرح ناکام بنایا تھا تو طاقت اور توانائی کا احساس ہوتا ہے اور ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ہماری قوم اس دور کی برطانیہ جیسی بڑی طاقت پرغلبہ حاصل کر سکتی ہے۔ برطانیہ اس زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا۔ اسی طرح معاہدہ وثوق الدولہ کی منسوخی کا واقعہ ہے۔ معاہدہ وثوق الدولہ ایسا معاہدہ تھا جو ملک کی ہر چیز انگریزوں کے اختیار میں دے رہا تھا۔ ملک کے چند بڑے سیاستدانوں نے رشوت لے کر اس معاہدے پر دستخط کر دیئے تھے۔ سید حسن مدرس مرحوم اور ان کے ساتھیوں نے اس کو منسوخ کر دیا۔ اس معاہدے کی منسوخی کا دن، ایک خوشگوار دن ہے؛ اس دن انگریزوں کے سازشی منصوبے ناکام ہو گئے۔
ملی حافظے میں ان ایام کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔ اب ممکن ہے کہ آپ کو ان ایام کی صحیح شناخت حاصل نہ ہو۔ ممکن ہے کہ آپ نوجوانوں کو صحیح معلوم نہ ہو کہ وثوق الدولہ کا واقعہ یا تنباکو (حرام قرار دینے) کے بارے میں میرزائے شیرازی کے فتوے کا صحیح واقعہ کیا ہے؛ یونیورسٹیوں اور کالجوں اور اسکولوں کے طلبا و طالبات، بسیج (رضا کار فورس) کے جوانوں اور کتابوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے میری تاکید کے ساتھ سفارش یہ ہے کہ وہ ان واقعات کا مطالعہ کریں، ان پر بحث و مباحثہ کریں اور جانیں کہ ملک میں کیا ہوا ہے۔ یہ آپ سب سے تاکید کے ساتھ میری سفارش ہے۔
میں نے کہا کہ عروج کے واقعات، خوشگوار واقعات، پیشرفت و کامیابی کے واقعات کو محفوظ رکھیں؛ تلخ واقعات کو بھی اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھنا ضروری ہے، انہیں بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہوشیار رہیں کہ ہماری زندگی میں یہ واقعات دوہرائے نہ جائيں۔ تلخ واقعات جیسے؟ جیسے 1919 کی رضا خان کی بغاوت؛ انگریزوں نے رضا خان کے ذریعے ایران میں بغاوت کرائی اور اسی بغاوت کے نتیجے میں تین چار سال بعد ملک میں پہلوی بادشاہت کا دور، سختیوں، استبداد اور بے نظیر آمریت اور بیرونی تسلط کا دور شروع ہوا۔ یہ تلخ دور تھا۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے، یاد رہنا چاہئے اور معلوم ہونا چاہئے کہ اس دور میں کیا ہوا تھا، کون سے تمہیدی اقدامات اس پر منتج ہوئے۔ ان باتوں کو بھی ریکارڈ ميں محفوظ رکھیں۔
4 نومبر تاریخی نقطہ نگاہ سے ایسا ہی دن ہے؛ چار نومبر کو ہمارے طلبا اٹھے اور انھوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا ۔ یہ دن ان ایام میں ہے جنہیں ہمارے ملی حافظے میں محفوظ رہنا چاہئے۔ فراموش نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے عوام کو یہ معلوم ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ملک میں اطلاعات کے منابع موجود ہیں۔ اس دور کے بہت سے مسائل کو مختلف کتابوں میں اور ان کتابوں میں جو خاص طور پر اس واقعے پر لکھی گئی ہیں، پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ تاریخی پہلو ہے۔
لیکن تشخص کا پہلو اس سے زيادہ اہم۔ سفارت خانے پر قبضے سے ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کا حقیقی تشخص واضح ہوگیا۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی تحریک کی ذاتی پہچان اورحقیقی تشخص بھی واضح ہو گیا۔ اس واقعے کی تاثیر یہ ہے۔ البتہ ہم ایرانی، امریکا کی سامراجی ماہیت کو پہچانتے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ امریکا کیا ہے۔ میں، بعد میں اس کی وضاحت کروں گا، لیکن اس واقعہ نے اس مسئلے کو ہمارے لئے زيادہ واضح کر دیا۔ میری دلی خواہش ہے کہ آپ نوجوان اس مسئلے کی گہرائیوں کو سمجھیں اور پوری توجہ سے اس پر غور کریں۔
پہلے میں استکبار کے معنی کی وضاحت کر دوں کہ استکبار کا مطلب کیا ہے؟ جب ہم "عالمی استکبار" کہتے ہیں تو "استکبار" یعنی کیا؟ لفظ "استکبار" ایک قرآنی لفظ ہے۔ قرآن میں آیا ہے۔ جیسا کہ شمار کیا گیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے، "استکبار" اور اس سے بننے والے الفاظ قرآن میں تقریبا 50 بار استعمال ہوئے ہیں۔
"استکبار" یعنی خود کو بڑا سمجھنا۔ یہ استکبار کا مطلب ہے۔ (یعنی) کسی حکومت، یا انسان اور کسی گروہ میں اپنے برتر ہونے کا احساس پایا جائے۔ یہ بری صفت ہے لیکن دشمنی کا موجب نہیں ہے۔ پہلا مستکبر ابلیس تھا۔ جب خداوند عالم نے فرمایا کہ ہم آدم کو خلق کرنا چاہتے ہیں تو اس نے کہا کہ میں آدم سے برتر ہوں، آدم کو سجدہ نہیں کروں گا اور ہمیشہ کے لئے لعنت الہی کا مستحق ہو گیا۔ استکبار یعنی خود کو برتر سمجھنا؛ لیکن خود کو برتر سمجھنا دو طرح کا ہے: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا حکومت خود کو دوسروں سے برترسمجھتی ہے، لیکن اسے دوسروں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ صفت بھی اچھی نہيں ہے، استکبار بری چیز ہے، خود کو برترسمجھنا اچھی صفت نہیں ہے لیکن اس سے دشمنی اورعداوت پیدا نہيں ہوتی۔ صرف بری چیز ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت، کوئی شخص یا گروہ، دادا گیری کرنے والا، خود کو دوسروں سے برترسمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کو دوسروں کو دھکا دینے، ان کے حیاتی اہمیت کے مفادات پر دست درازی کرنے اور دوسروں کے فرائض معین کرنے کا حق حاصل ہے؛ استکبار کی یہ شکل بری ہے۔ کوئی حکومت، جیسے کسی دور میں برطانیہ کی حکومت تھی، آج امریکا ہے جو اپنا حق سمجھتا ہے کہ جس ملک کی حکومت مضبوط نہ ہو، عوام ہوشیار نہ ہوں، وہاں مثال کے طور پر دس فوجی اڈے بنا لے، اپنے لئے سہولتیں فراہم کر لے، ان کا تیل لوٹے، ان کے مفادات غارت کرے، زمین کے اندر موجود ان کی دولت و ثروت کی لوٹ مار کرے؛ یہ استکبار ہے؛ وہ استکبار جو ہمارے لئے برا ہے، ہم جس کی بات کرتے ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، وہ، یہ ہے۔
ہمارے ملک کو امریکی حکومت کے استکبار کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلےیہ دوسروں سے الجھنے والی حکومت نہیں تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد وہ مستکبرحکومت بن گئی۔ بالکل اسی معنی ميں جو ہم نے بیان کیا۔ ہر جگہ قبضہ، ہر جگہ دست درازی، ہر جگہ پہنچ جانا، ہر جگہ اپنے لئے مفادات کا قائل ہونا، ہر وسیلے سے، کبھی غصے اور تیوریاں چڑھا کر، کبھی مسکراکر، کـبھی طاقت کے ذریعے اور کبھی رشوت دے کر اپنے مفادات کو اقوام کے مفادات پر ترجیح دینا۔ یہ امریکا کی حالت ہے۔ یہ اتفاق سے اس دور میں، جس کے بارے ميں ہم بات کر رہے ہیں۔ 1979 میں اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ کو اس کا سامنا ہوا۔ البتہ ہم ایرانیوں کا امریکا سے سابقہ رہا ہے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ ہم امریکا کی استکباری خو کو نہ پہچانتے ہوں۔ ہم امریکا کو 19 اگست کے واقعے سے پہچانتے تھے۔
19 اگست کا واقعہ اہم ہے۔ دیکھئے میں 19 اگست (کے واقعے ) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا؛ ابھی بہت سے لوگ، 19 اگست کی بغاوت اور اس سے ایران پر لگنے والے کاری وار سے واقف نہیں ہیں، اس کی طرف متوجہ نہں ہیں، صرف 19 اگست کا نام جانتے ہیں کہ اس دن بغاوت ہوئی۔ ہمارا ملک آئینی تحریک کے بعد تقریبا چالیس سال تک خلفشار اور آشوب میں مبتلا رہا، بیرونی حکومتوں کی دست درازی اور رضا خان کی بے رحم پرتشدد آمریت اور استبداد سے دوچار رہا؛ تقریبا 42 برس۔ یعنی ایرانی قوم ان چند عشروں کے دوران اس صورتحال سے دوچار رہی 50-1949 میں
کچھ واقعات رونما ہوئے اور خدا نے بھی مدد کی کہ ملک میں پہلی بار قومی حکومت قائم ہوئی جو مصدق کی حکومت تھی۔ قومی حکومت تشکیل پائی جس نے انگریزوں کے مقابلے میں مزاحمت کی۔ برطانیہ اس وقت دنیا کا بادشاہ تھا؛ سب سے بڑی، برتر اور قوی طاقت تھا۔ ایران کا تیل تقریبا مفت انگریزوں کے اختیار میں تھا۔ اس حکومت نے یہ تیل انگریزوں سے واپس لیا اور قومی تحویل میں دے دیا اور ملک میں ایک ملی حکومت قائم ہوئی۔
1950 سے 53 تک برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے اس حکومت کو گرانے کے لئے بہت سازشیں کیں اور کافی دباؤ ڈالا۔ مصدق سے ایک سادہ لوحی ہوئی، غلفلت ہوئی کہ وہ برطانیہ کے شر سے بچنے کے لئے، امریکیوں کی طرف گئے اور ان سے مدد مانگی۔ امریکیوں نے بھی مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ البتہ ٹرومین کے منشور کی دفعہ چار اور ایسی ہی کچھ اور چیزیں تھیں جن کی بنا پر وہ سمھجھ رہے تھے کہ امریکا ان کی مدد کرے گا۔ امریکیوں نے مصدق کا مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا لیکن پیٹھ پیچھے، مصدق کی غفلت اور ان کی بے توجہی سے فائدہ اٹھاکرانگریزوں سے مل کر، بغاوت کی تیاری کی اور ملک میں چالیس برس بعد جو ملّی حکومت قائم ہوئی تھی، اس کو گرا دیا اور شاہ کو جو ملک سے بھاگ گیا تھا، دوبارہ واپس لائے۔ یہ بہت کاری وار تھا جو ملت ایران پر لگا تھا۔
19 اگست کا واقعہ یہ ہے کہ عوام کی منتخب ایک حکومت، جو برطانیہ اور بیرونی استعمارکے تسلط میں نہیں رہنا چاہتی تھی اور ایک قومی حکومت رہنا چاہتی تھی، اس حکومت کو امریکیوں نے مختلف حیلوں سے گرا دیا اور ختم کر دیا؛ امریکیوں نے ایرانی قوم پر بہت سخت وار لگایا۔ یہ 19 اگست کا واقعہ ہے۔ ایرانی قوم اسی وقت سے امریکا کو پہچانتی تھی۔ جانتی تھی کہ امریکا ملک کے لئے کتنا خطرناک ہے۔ بنابریں ہم امریکا کو 19 اگست سے پہچانتے تھے۔ ہمارے لئے یہ نیا نہیں تھا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب حکومت کا تختہ الٹا گیا اور محمد رضا کو جو بھاگ گیا تھا، ملک میں واپس لایا گیا اور اس نے 25 سال تک سخت آمریت اور تشدد آمیز ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ حکومت کی،ان سب میں، امریکا محمد رضا کا حامی، مددگار اور پشت پناہ تھا۔
ایرانی قوم کے اس حقیقی دشمن کا یہاں سفارت خانہ ہے؛ ایرانی عوام کے حقیقی دشمن کا۔ انقلاب آیا تو انقلاب کی پہلی مخالفت امریکیوں نے کی۔ امریکی سینیٹ میں ملت ایران اور اسلامی انقلاب کے خلاف ایک بل پاس کیا گیا۔ (1) اس کے بعد محمد رضا امریکا گیا، وہاں یہ کہہ کے کہ وہ علاج کے لئے یہاں آیا ہے، ایک اسپتال میں اس کو سکونت دی گئی لیکن اس سے سیاسی اور سیکورٹی اداروں کا رابطہ برقرار رہا۔ ایران کے عوام اس کو سمجھ گئے، برہم ہوکر سڑکوں پر نکل پڑے اور اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے محسوس کیا کہ 19 اگست کا واقعہ دوہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ محمد رضا کو اس لئے وہاں لے گئے ہیں کہ اس کو ان مختلف روشوں سے جن سے امریکی کام لیتے ہیں ایران واپس لانے کی تیاری کی جا سکے ۔
لوگ برہم ہوکر سڑکوں پر نکل پڑے ، انھوں نے مظاہرے کئے؛ اسی احتجاج کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ یونیورسٹی طلبا امریکی سفارت خانے پہنچ گئے اور اس پر قبضہ کرلیا۔ البتہ وہ سفارت خانے میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ یونیورسٹی طلبا کا سفارت خانے کے اندر باقی رہنے کا کوئی ارادہ نہيں تھا۔ وہ بس یہ چاہتے تھے کہ دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ امریکا میں شاہ کو داخل ہونے کی اجازت دیے جانے پر ایرانی عوام کتنے غصے میں ہیں اور بس۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہاں جائيں، دو تین دن رہ کے باہر آ جائيں۔ یونیورسٹی طلبا کا فیصلہ یہ تھا۔
لیکن جب وہ سفارت خانے میں گئے، وہاں دستاویزات ملیں تو انھوں نے دیکھا کہ معاملہ ان باتوں سے بہت زیادہ گہرا ہے۔ بات صرف امریکی سینیٹ کے ایک فیصلے کی نہیں ہے۔ بلکہ سفارت خانہ انقلاب کو ختم کرنے کی سازش اور منصوبہ بندی کا مرکز ہے؛ یعنی وہ اپنے سازشی منصوبوں کو عملی شکل دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ سفارت خانہ، سفارت خانہ نہیں رہا۔
سبھی سفارت خانوں میں انٹیلیجنس کا شعبہ ہوتا ہے جو اس ملک سے متعلق اطلاعات جمع کرتا ہے جہاں وہ سفارت خانہ ہوتا ہے اور وہ اطلاعات اپنے ملک بھیجتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن امریکی سفارت خانے کا مسئلہ یہ نہیں تھا۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایران کے خلاف سازشوں کا مرکز بن گیا تھا۔ وہاں لوگوں سے مل کر انہیں ورغلایا جا رہا تھا، تنظیمیں بنائی جا رہی تھیں، گزشتہ حکومت سے وابستہ افراد میں جو ناراضگی پائی جاتی تھی، اس کا رخ موڑ کر انقلاب کے خلاف اس سے استفادہ کرنے اور فوجیوں کو (اس انقلاب کے خلاف) جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ طلبا اس کو سمجھ گئے۔ جب یہ بات وہ سمجھ گئے تو سفارت خانے کے اندر جمے رہے۔
اب اگر ہم یہ کہیں کہ "سفارت خانے پر کیوں قبضہ کیا؟ اسی وجہ سے امریکا سے ہمارے اختلافات پیدا ہوئے۔" میری نظر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا سے ہمارے مسائل 4 نومبر کے واقعات سے وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ 19 اگست سے شروع ہوئے ہیں۔ ایرانی عوام کی جانب سے امریکا کی مخالفت اس وقت شروع ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ 4 نومبر کو درحقیقت انقلاب کے خلاف ایک بہت ہی خطرناک سازش کا پتہ چلا اور یہ عظیم کارنامہ ہمارے یونیورسٹی طلبا نے انجام دیا ۔ ہم ان کی قدردانی کرتے ہیں! بڑی محنت سے انھوں نے دستاویزات جمع کیں۔ انھوں (امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں) نے یہ دستاویزات مشین ميں ڈال کر ٹکڑے ٹکڑے کر دی تھیں۔ ان ٹکڑوں کو جمع کیا، ترتیب سے رکھا اور یہ معلوم کر لیا کہ سفارت خانہ میں کیا ہو رہا تھا۔
امریکا انقلاب کو برداشت نہیں کر رہا تھا۔ کیوں کہ انقلاب نے اس کی حلق سے تر نوالہ باہر نکال لیا تھا۔ ایران امریکا کے لئے بے نظیر شکار تھا، پوری طرح امریکا کے تسلط اور اختیار میں تھا۔ اس کا تیل لے جا رہے تھے، اس کے زیر زمین ذخائر کو لوٹ رہے تھے، اس کے وسائل لے جا رہے تھے، اس کی دولت لے جا رہے تھے، اپنا سامان، جس قیمت پر چاہتے تھے ایران کو بیچتے تھے۔ یہ صورتحال تھی۔ اب یہ سب اس سے چھین لیا گیا تھا۔ انقلاب، امریکا کے مقابلے پر آ گیا۔ امریکا آسانی سے ایران سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لہذا انھوں نے سازشیں شروع کر دیں۔ امریکا نے ابتدائے انقلاب سے ہی ایرانی عوام کے خلاف اقدامات شروع کر دیے تھے۔ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہی نہیں بلکہ ایرانی عوام کے خلاف بھی اقدامات انجام دیے۔ رابطہ منقطع کیا۔ رابطہ ختم کرنے کا آغاز امریکا کی طرف سے ہوا۔ اس کے بعد پابندیاں شروع ہو گئيں۔ اس کے بعد لگاتار مختلف طرح کے کام کئے گئے۔ واقعی اگر کوئي یاد رکھے اور فراموش نہ کرے کہ امریکا نے ان برسوں میں کیا کیا، تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی اس بات کو سمجھ سکے گا کہ جتنا ممکن ہو امریکا کے خلاف آواز بلند کرو۔(2)
ایران سے امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی۔ صرف پابندی لگانے تک نہیں تھی، بلکہ عملی دشمنی تھی۔ امریکیوں سے جہاں تک ہو سکا، جس حد تک ان کے لئے ممکن تھا، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سازش کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی جتنی مدد کر سکتے تھے، کی، ایران کے مفادات کو جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے، پہنچایا۔
امریکا کی استکباری ماہیت، انقلاب کی آزادی اور خودمختاری کی ماہیت سے سازگار نہیں تھی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امریکا سے ایران کا اختلاف صرف حکمت عملی کا اختلاف نہیں ہے، کسی ایک دومعاملے کا اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ ماہیت کا اختلاف ہے۔
جب امریکا کے لئے، ایران کے مسافر طیارے کو تین سو مسافروں کے ساتھ سمندر میں مارگرانا (3) ممکن ہوا تواس نے یہ کام کر دیا، جب اس کے لئے صدام جیسے فرد کے ذریعے، انواع و اقسام کی مدد کرکے، ایران پر حملہ کرا دینا ممکن ہوا تو کر دیا، جب اس کے لئے ایران پر براہ راست حملہ ممکن ہو گیا تو کر دیا، جب اس کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ مہم ممکن ہوتی ہے تو اس سے دریغ نہیں کرتا، ہر کام کرتا ہے۔ ایران سے امریکا کی دشمنی کی یہ حالت ہے۔
بعض لوگ الٹی تاریخ لکھتے ہیں؛ وہ اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکا کے اختلاف کی وجہ امریکا مردہ باد کے نعروں کو سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ ایرانی قوم اس طرح امریکا مردہ باد کے نعرے لگاتی ہے اس لئے امریکا اس طرح دشمنی کرتا ہے۔ جی نہیں، امریکا مردہ باد، اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ امریکی اس کی وجہ سے ایران کی مخالفت کریں۔ اس سے ٹکر لیں اور جنگ کریں ۔ یہ اختلاف، ماہیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ ایران اور امریکا دونوں کے مفادات کے تصادم کی بات ہے۔ ان کی تحریکوں کی ماہیت کی بات ہے۔
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جناب! ٹھیک ہے ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے؛ لیکن کیا امریکا سے ہمارا رابطہ تا ابد منقطع رہے گا؟ ہمیشہ امریکا کی مخالفت کریں گے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کی استکباری ماہیت ہمارے مکمل طور پر جھک جانے کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کرے گی۔ سبھی امریکی صدور کی یہی کوشش رہی ہے لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے، یہ موجودہ امریکی صدر اپنی زبان پر لایا ہے۔ (4) اس نے کہا کہ ایران کو جھکنا پڑے گا۔ اس نے درحقیقت امریکی باطن کو ظاہر کر دیا۔ ایران جس کے پاس اتنی دولت وثروت ہے، اتنا درخشاں فکری اور علمی ماضی ہے، اتنے ذہین اور مفکر نوجوان ہیں، کسی ایسے ملک کے جھک جانے کا کیا مطلب ہے؟
میں مستقبل بعید کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ بہت سے مسائل کا حل طاقتور ہونے میں ہے۔ ملک کو طاقتور بنانے میں ہے۔ حکومت مختلف شعبوں میں اپنا کام پوری طاقت سے انجام دے، عسکری قوتیں اپنا کام پوری قوت سے انجام دیں، ہمارے نوجوان حصول علم اور علمی میدان میں پوری طاقت سے پیشرفت جاری رکھیں ۔
ملک طاقتور ہو گیا اور دشمن کو یہ احساس ہو گیا کہ اس طاقتور قوم سے ٹکرانا بے فائدہ ہے اور اس تصادم میں اس کو نقصان پہنچے گا تو یقینا ملک محفوظ ہو جائے گا۔ اس میں شک نہیں ہے۔ فوجی طاقت ضروری ہے۔ علمی طاقت بھی ضروری ہے، ملک کو چلانے کی طاقت بھی لازمی ہے، یہ سبھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نوجوانوں میں جوش و جذبہ ضروری ہے۔ یعنی یہ جذبہ ختم نہ ہونے دیں۔ اس حوصلے اور ولولے کو محفوظ رکھیں ۔
امریکی کہتے ہیں، البتہ، ہمیشہ نہيں بلکہ بعض اوقات کہتے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ ملعون صیہونی حکومت کی مدد کے ساتھ ایران کے ساتھ تعاون ممکن نہیں ہے۔ ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون کی جو صورتحال حال ہی میں پوری دنیا نے دیکھی ہے، سب نے اس کو سمجھا ہے، اور سب نے اس کی مذمت کی ہے۔ امریکا صیہونی حکومت کی مدد کرتا ہے، اس کی پشت پناہی کرتا ہے، اس کی حمایت کرتا ہے، ان حالات میں ایران کے ساتھ چلنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ قابل قبول نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ صیہونی حکومت کی پشت پناہی بالکل بند کر دے، اس علاقے سے فوجی اڈے ہٹا لے اوراس خطے میں مداخلت نہ کرے تو مسائل کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس وقت نہیں اور مستقبل قریب میں بھی ممکن نہیں ہے۔
میں اپنے عزیز نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے تو ملک کے موجودہ، ماضی اور مستقبل کے بنیادی سیاسی مسائل کے بارے میں اپنی معلومات، واقفیت اور شناخت بڑھائيں۔ یہی شناخت اور معلومات جو میں نے عرض کیں، ملک کے ماضی کے بارے میں، ان حوادث کے بارے میں جو رونما ہوئے، جہاں ہم کو نقصان پہنچا، جہاں ہمیں فائدہ ہوا، جہاں ہم کمزور پڑے، جہاں ہم نے اپنی طاقت دکھائی، اور ان میں سے ہر ایک کے نتائج کا حقیقی معنی میں جائزہ لیں اور پھر ملک میں علمی پیشرفت ہونی چاہئے۔ چند برس قبل علمی میدان میں ہمارے آگے بڑھنے اور پیشرفت کی رفتار بہت اچھی تھی۔ (اب) تھوڑی سی گری ہے۔
میں ملک کی یونیورسٹیوں کے ذمہ داروں، محققین اور طلبا سے کہنا چاہتا ہوں کہ علمی پیشرفت کم نہ ہونے دیں۔ ترقی کی سرعت ہمارے لئے ضروری ہے۔ ملک کو علمی میدان میں آگے بڑھنا چاہئے؛ فوجی میدان میں بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ توفیق الہی سے ہمارے فوجی رات دن کام کر رہے ہیں۔ محنت کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ پیشرفت کریں گے۔ فضل الہی سے ملک ثابت کر دے گا کہ طاقتور ہے تو کوئی بھی طاقت اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاکر بھی ایرانی عوام کو نہیں جھکا سکتی۔ خداوند عالم اس قوم کی مدد کرے گا۔
اللہ سے اپنا رابطہ محکم کریں؛ نماز، قرآن، دینی حقائق سے انسیت پیدا کریں، نصرت الہی حاصل کریں اور ان شاء اللہ اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے اچھے مستقبل تیار کریں۔
والسّلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
1۔ قرارداد نمبر 164 کی طرف اشارہ جو 18 مئی 1979 کو ایران کے خلاف صادر ہوئی۔
2۔ صحیفہ امام ، جلد 11 صفجل 121 تہران میں پاسداران کے اجتماع سے خطاب 25 نومبر1979
3۔ 3 جولائی 1988 کو ایران کا مسافر طیارہ بندر عباس سے دبئی جارہا تھا کہ خلیج فارس میں امریکی جنگی بیڑے ونسنس سے داغے گئے ایک میزائل کا نشانہ بنا اور 66 بچوں نیز 53 خوتین سمیت اس طیارے کے 290 مسافر شہید ہوگئے۔ کچھ دن کے بعد امریکی حکومت نے ونسنس جنگی بیڑے کے کمانڈر ولیئم راجرز کو شجاعت کا ایوارڈ دیا۔
4۔ ڈونلڈ ٹرمپ