بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں فضائیہ کے جوانوں، افسران اور اسی طرح ملت ایران کو اس عظیم دن کی مبارکباد پیش کرتاہوں۔
جو واقعہ انیس بہمن تیرہ سو ستاون کو رونما ہوا بلا شبہ ایک اہم ترین موڑ تھا۔ فضائیہ کے جوانوں اور عہدیداروں نے ایک سچے باطنی جذبے کے تحت جو ان جوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا آئينہ دار تھا ایسا کارنامہ انجام دیا جو طاغوتی شاہی حکومت کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ انتہائي شجاعانہ اورساتھ ہی دانشمندانہ اقدام تھا۔ ایسے واقعات جو بر وقت اور بر محل رونما ہوتے ہیں کبھی کبھی ایک قوم کی قسمت بدل دیتے ہیں یا پھر اس قوم کی قسمت سنوارنے کے عمل میں نئي روح ڈال دیتے ہیں۔ فضائیہ نے اس دن ایسا ہی کارنامہ کر دکھایا۔بڑا فیصلہ کن اقدام تھا، اس سے عوام کے لئے راستے کھل گئے۔ جیسا کہ اس دلنشیں ترانے میں جو ابھی ہمارے عزیزوں نے پیش کیا کہا گیا ہے کہ اولینم کہ دل دادم بہ رہبر واقعی ایسا ہی ہوا۔ یہ بہت نپا تلا اقدام تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ذہن میں ایک خیال آیا اور فوری طور پر اقدام کر دیا گيا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ نتیجہ اور مظہر تھا فضائیہ کے جوانوں اور افسران کے احساسات، افکار اور ذہنی کیفیت کا جو بر وقت سامنے آیا، لہذا یہ بہت اہم اور بڑا مبارک دن ہے۔
بنیادی طور پر تاریخی واقعات کا جائزہ اس لئے لیا جاتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی عبرت اور درس آئندہ نسلوں کے لئے باقی رہے۔ ایرانی قوم کے لئے اس واقعے سے ملنے والا درس ہر دور کے لئے تیر بہ ہدف ہے۔ یہ ایک شجاعانہ، قدرتمندانہ، صحیح تدبر اور سچے ایمان پر مبنی اقدام تھا۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ ہمارا انقلاب شروع سے آخر تک ایسے ہی حقائق کا مجموعہ ہے۔ صحیح اور دانشمندانہ فکر، سچا ایمان، پیش قدمی کی جرئت اور حق کی راہ میں انجام سے ہراساں نہ ہونا، کسی بھی قوم کو بلندیوں تک لے جانے والے بنیادی عناصر ہیں جبکہ ان کا فقدان کسی بھی قوم کو ذلت و رسوائی سے دوچار کر سکتا ہے۔
ملت ایران نے شاہ کے طاغوتی دور میں بڑی سختیاں برداشت کیں۔ اپنے درخشاں اور پر وقار ماضی کے باوجود غیروں کے ہاتھوں اس کی تحقیر کی جاتی رہی۔ فوج کی تحقیر کی جاتی تھی، قوم کی تحقیر کی جاتی تھی، ملک کے حکام خواہ وہ اعلی رتبہ حکام ہی کیوں نہ ہوں ان کی توہین کی جاتی تھی، معاشرے کی ممتاز ش‍خصیات کی توہین کی جاتی تھی ایسے عناصر کے ہاتھوں جو خود کو سب سے ارفع و اعلی تصور کرتے تھے اور ایران کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے کہ جو چاہیں لے لیں، جیسے چاہیں آئیں جائیں۔ ایرانی قوم ان کے مقابلے پر آ گئی۔
اسلامی انقلاب نے اغیار کے ہاتھوں تحقیر کی جگہ عزت، طاغوتی دور کے تلخ و ذلت آمیز انحصار کی جگہ خود مختاری اور غیروں کے مقابلے میں سراپا تسلیم ہو جانے کی جگہ ایرانی قوم کو استقامت و قدرت عطا کی۔ اس دور میں ہمارے ملک کے اعلی رتبہ حکام مختلف سطح پر ملک کے بنیادی اور اہم ترین امور کے سلسلے میں بھی اغیار کی مرضی کے پابند تھے۔ پہلے برطانیہ اور پھر کئي عشروں پر محیط امریکہ کے غلبے کے زمانے میں، اغیار جو بھی ارادہ کرتے وہ ایران میں، جہاں تک مقامی حکام کےاختیار میں ہوتا، بہ آسانی پورا ہو جاتا تھا۔ قوم یہ سب برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ اسلامی انقلاب نے اس سراپا تسلیم کی حالت کی جگہ قوت و استقامت عطا کی۔ انحصار کی جگہ خود کفائی عطا کی۔ اس تحقیر کی جگہ وقار بخشا۔ پوری طرح موروثی اور نا قابل قبول حکومت کی جگہ عوامی حکومت اور جمہوریت عطا کی۔ انقلاب نے انسانی اقدار کو مٹا دینے والی ان تباہ کن فکری بنیادوں کو مٹا دیا جن کو مستحکم کرنے کے لئے شاہ کی طاغوتی حکومت برسہا برس سے کوششیں کرتی آئي تھی۔ انقلاب نے نئی بنیاد رکھی اور ملک کو نئي پہچان حاصل ہوئی۔
فوج کو بھی نئي پہچان ملی۔ فوج کی آج کی پہچان شاہ کے طاغوتی دور کی فوج کے تشخص سے بالکل متفاوت ہے۔ آج آپ عوام کے مفادات کے محافظ ہے۔ اس دور میں فوج کا فریضہ، دربار کے مفادات، اس ملک پر مسلط طاغوتی حکومت اور اس سے وابستہ عناصر کی حفاظت کرنا تھا۔ آج آپ دشمن کے سامنے عزت و سربلندی کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ خود نئی ایجادات کر رہے ہیں، جدید علوم سے آشنائي حاصل کر رہے ہیں، خود تحقیق کر رہے ہیں، اس دور میں مجبور تھے کہ جو کچھ غیروں سے مل جائے آنکھیں بند کرکے قبول کر لیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں حاصل کر لینےوالی قوم ترقی و سربلندی کے اوج پر جا پہنچتی ہے۔ ایرانی قوم نے ترقی و پیش رفت کا راستہ تلاش کر لیا ہے اور اس پر گامزن ہے۔ ہم نے اس کی قیمت بھی ادا کی ہے۔ اس قوم کو پہلے بھی علم تھا اور اب بھی ہے کہ امنگوں اور عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ قربانیوں کے بغیر اوج پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ ہم نے قیمت ادا کی اور توفیق الہی کے نتیجے میں کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔
آج ایرانی قوم کا اپنا ایک وقار ہے۔ وہ نمونہ عمل بن گئی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام ایک مستحکم نظام حکومت کے طور پر شہرت حاصل کر چکا ہے۔ مختلف علاقائي اور بیرونی ممالک اور طاقتیں ایرانی قوم کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں اور اس کی معترف بھی ہیں۔ اس قوم نے ہر شعبے میں اپنی قوت اور توانائيوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ میں فرائض کی انجام دہی میں مشغول میرے جوانو! فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ان اصولوں کا خیال رکھو اور ان کی پیروی کرو۔ فضائيہ کو ترقی و پیش رفت کرنا چاہئے، اس وقار کو جو آج اس کے پاس ہے چار چاند لگانا چاہئے۔ مقدس دفاع کے دوران فضائیہ نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، دفاع مقدس کے بعد بھی فضائیہ نے کارہای نمایاں انجام دئے۔ آپ اس عمل کو جاری رکھئے۔ کاملیت کا عمل کبھی نہیں رکتا اور اس کا دارومدار فضائیہ میں مختلف سطح پر سرگرم عمل جوانوں پر ہے۔ مستقبل آپ کا ہے، ملک آپ کا ہے، فضائیہ اور فوج آپ جوانوں کی ہے۔ آپ کی پیش رفت قوم کی پیش رفت ہے، ملک کی پیش رفت ہے۔ اپنی توانائیوں میں اضافہ کیجئے، طاقت، مادی وسائل تک محدود نہیں ہے۔ ایمان کی طاقت، عزم و ارادے کی طاقت اور پیش رفت کے لئے ضروری قوت ارادی میں اضافہ کیجئے ان چیزوں کی اپنے اندر تقویت کیجئے مسلسل آگے بڑھتے رہئے۔
خوش قسمتی سے ہماری قوم اس سلسلے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ قوم کے ارادے کو متزلزل کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے گئے لیکن لا حاصل رہے۔ سب سے اہم اور امید افزا نکتہ یہ ہے کہ ان اٹھائیس انتیس برسوں میں ہم مسلسل آگے بڑھے ہیں، کہیں رکے نہیں۔ سیاسی جد و جہد، گوناگوں کوششیں مختلف ادوار میں مختلف ذمہ داریوں کی ادائگی یہ سب کچھ بلندیوں کی جانب ملت ایران کی منظم پیش قدمی سے عبارت ہے۔ یہ عمل یونہی جا رہے گا۔ دشمن پیش رفت کے اس عمل کو روکنے کی جی توڑ کوشش کر رہا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی کبھی ملنے والی ہے۔ اس کا آج وہ خود بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ اگر آپ عالمی خبروں پر نظر رکھئے تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ دنیا کے سیاسی حلقوں، پالیسی ساز اداروں اور عالمی طاقتوں کی جانب سے ایرانی قوم کی تعریف و ستائش ہو رہی ہے۔ البتہ کچھ لوگ بغض و حسد اور کینے کے ساتھ تعریفیں کر رہے ہیں اور کچھ دیگر رشک اور خوشی سے تعریف کر رہے ہیں، یہ تو سیاستدانوں اور حکام کا عالم ہے اور جہاں تک قوموں کا سوال ہے، عام طور پر قومیں، ایرانی قوم کی دلدادہ ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام جب مسلم اقوام اور حتی غیر مسلم قوموں میں جاتے ہیں تو اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ سب ایرانی قوم کی استقامت کا ثمرہ ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ہماری قوم انقلاب کا جو جشن مناتی ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ انقلاب کی یاد یہ پیغام دینے کے لئے منائی جاتی ہے کہ عزت و وقار کے راستے پر ایرانی قوم کو گامزن کرنے والا جذبہ ہمارے عوام کے دلوں میں زندہ و پائندہ ہے۔ بائيس بہمن کے مظاہروں کا وقت نزدیک ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہماری پیاری قوم اس سال بھی گذشتہ برسوں کی مانند اور حتی اس سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ نکلے گی۔ بائیس بہمن کے مظاہروں میں عوام کی شرکت کو معمولی بات نہیں تصور کرنا چاہئے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ آپ دیگر ممالک کے انقلابوں اور قومی دنوں کی سالگرہ کا موازنہ ہماری قوم کے جشن سے کیجئے۔ ہمارے انقلاب کی سالگرہ رسمی طور پر نہیں منائی جاتی، یہ صد فیصد عوامی تقریب اور جشن ہے۔ شدید سردی ہو یا گرمی، لوگ جس حال میں بھی ہوں، ضرورت پڑتی ہے تو باہر آتے ہیں۔ ہر سال بائيس بہمن کے دن عوام اس موقع کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے گھروں سے نکل کر دشمنوں اور مخالفین کو شرمسار کرتےہیں۔ اس پر پوری دنیا کی نظر رہتی ہے۔ ممکن ہے مختلف زبانوں میں اسے الگ الگ انداز سے پیش کیا جائے مظاہرین کی تعداد کم کرکے بیان کی جائے دسیوں لاکھ کی تعداد کو ہزاروں کی تعداد قرار دیا جائے۔ ایسا تشہیراتی مہم میں ہوتا ہے لیکن جنہیں یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ ایرانی قوم کس جوش و خروش سے سرشار ہے وہ وہ سمجھ جاتے ہیں۔ وہ حقائق کو دیکھتے ہیں۔ عوام کی شرکت، قوم کا عزم راسخ، انقلاب سے عوام کا والہانہ لگاؤ اور انقلاب کے اہداف و مشمولات کے تئیں عوام کی وفاداری کا احساس ان کو ہو جاتا ہے۔
بائس بہمن کا دن اور اس دن کے مظاہرے قومی اقتدار اعلی کے آئینہ دار ہیں۔ یہ قومی عزم و ارادہ اور بھرپور عوامی شرکت ہی تو ہے کہ مرد عورت پیر و جواں سب، جس حال میں بھی ہوں سڑکوں پر آتے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظریں ملک بھر میں ان مظاہروں کو دیکھتی ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
ملک کے مسائل کے سلسلے میں ایک بات اور اسی طرح عالم اسلام میں موضوع بحث قرار پانے والے مسئلے کے سلسلے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔
ملک کے مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے اہم مس‍ئلہ انتخابات کا مسئلہ ہے۔ انتخابات بہت حساس اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ مختلف مواقع پر ملک میں ہونے والے انتخابات کو دیکھا جائے اور ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دفعہ کے انتخابات خواہ پارلیمانی انتخابات ہوں، صدارتی انتخابات ہوں یا دیگر انتخابات، عالمی سامراج کی معاندانہ تشہیراتی مہم کے ذمہ داروں کی یہی کوشش رہی کہ عوام کے جوش و ولولے اور شرکت کو کم کر دیں، ان کے بلند حوصلے کو متاثر کر دیں، انتخابات کے سلسلے میں انہیں مایوس کر دیں یا ان کی امید کم کر دیں لیکن اللہ کا کرم ہوا کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سے انتخابات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو افراد جمہوریت ، ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور عوامی نظام کا دم بھرتے ہیں اور انہیں بہانوں سے توسیع پسندانہ اہداف کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں، قتل عام کرتے ہیں، انسانی المیہ پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ ملت ایران کی جمہوریت کےسامنے لاچار ہو گئے ہیں۔یہ ان کے لئے لا ینحل مسئلہ ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کریں کیا اور کہیں کیا؟ وہ کودتا سے بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ پوری طرح موروثی حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں، ان ممالک میں حکومت کی تشکیل کے عمل کی حمایت کرتے ہیں جہاں کبھی بھی رای عامہ کو کوئي وقعت نہیں دی جاتی، تو پھر وہ لوگ ایرانی قوم کے سلسلے میں لب کشائی کی کیسے جرئت کر سکتے ہیں جو آزادانہ وارد عمل ہوکر قانون ساز اداروں کے اراکین، انتظامیہ کے عہدیداران اور بنیادی ذمہ داریاں سنبھالنے والے افراد کا انتخاب کرتی ہے۔ دنیا والوں کے سامنے وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آزادی نہیں ہے یا عوام نے شرکت نہیں کی۔ ایک موقع پر بعض فریب خوردہ عناصر کے توسط سے انہوں نے انتخابات کو رکوانے کی کوشش بھی کی تھی، کہ انتخابات منعقد ہی نہ ہو پائیں۔ لیکن توفیق الہی ہمارے شامل حال رہی کہ وہ اس ناپاک ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ سکے۔ البتہ ان کی کوشش تو یہی تھی۔ اس سے انتخابات کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
انتخابات میں انتہائي اہم بات، عوام کی شرکت ہے۔ سب کو انتخابات میں شرکت کرنا چاہئے۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے۔ کوئي ایسی چیز نہیں ہے جو مختلف دھڑوں کے بر سر اقتدار آنے اور حکومتیں بدلنے سے تبدیل ہو جائے۔ انتخابات میں شرکت ایک فریضہ ہے۔ سب کو یہ فریضہ ادا کرنا چاہئے، ہر شخص انتخابات میں شرکت کو لازمی امر تصور کرے۔ بہانہ تراشی سے گریز کیا جائے۔ بعض باتیں صرف بہانہ تراشی ہے۔ کبھی واقعی کوئي عذر ہوتا ہے لیکن کبھی بہانہ تراشی عوام میں مایوسی پھیلانے کے لئے کی جاتی ہے۔ دنیا میں جو انتخابات ہو رہے ہیں اور جن کی خبریں ہمیں موصول ہوتی ہیں اگر ان سے ایران کے انتخابات کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے یہاں ہونے والے انتخابات شفاف ترین اور سب سے زیادہ قابل قبول انتخابات قرار پائيں گے۔
میں نے انتخابی عہدیداران کو ہدایت کر دی ہے اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ قوانین کی پاسداری کی جائے۔ معیار اور کسوٹی قانون ہے۔ قانون کا احترام اور قانون کی بالادستی کو قبول کرنا ضروری ہے۔ قانون، حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ قوم اور حکام کے عمل میں قانون کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا خیال رکھا جانا چاہئے الحمد للہ قانون کی پاسداری ہو بھی رہی ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ مزید توجہ کے ساتھ قانون کی پاسداری کی جائے۔ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہونے پائے، کسی کا حق مارا نہ جائے۔ عوام کی اس طرح حق تلفی نہ ہو کہ نا اہل شخص کو اہل ظاہر کیا جائے۔ نیک اور صلاحیت مند افراد اپنے حق سے محروم نہ رہیں۔ نا اہل افراد نامزد نہ ہونے پائيں۔ ان باتوں کا خیال سبھی کو رکھنا چاہئے۔ جو بات سب سے اہم ہے وہ انتخابات میں عوام کی شرکت ہے۔ انتخابات میں شرکت سب کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے۔ البتہ ابھی انتخابات میں وقت ہے اس وقت تک میں قوم کے سامنے اور باتیں بھی عرض کروں گا۔ اس وقت میں نے اس لئے یہ موضوع اٹھایا کہ جو افراد انتخابات کے سلسلے میں منصوبہ سازی اور پالیسی سازی کر رہے ہیں، پھر ان پالیسیوں کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا کام کریں۔
عالم اسلام کے مسائل میں اس وقت فلسطین کا مسئلہ اور غزہ کے حالات ایک ایسا مسئلہ ہے جس کاتعلق سب سے ہے۔ یہ مسئلہ اسی علاقے کے عوام تک محدود نہیں ہے۔ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ یہ مشرق وسطی کا مسئلہ ہے اور ایک طرح سے تمام اقوام عالم کا مسئلہ ہے۔
مشرق وسطی کے سلسلے میں امریکی حکومت کی ایک سراپا جرم اور غلط پالیسی ہے۔ اس کی مشرق وسطی سے متعلق پالیسی کا سارا دارومدار، خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ پر ہے۔ خطے کی اقوام کا جو بھی انجام ہو جائے یعنی اس علاقے میں جو لاکھوں اور کروڑوں انسان آباد ہیں ان کے مفادات کی کوئي وقعت نہیں۔ پامال ہوتے ہیں تو ہو جائیں، ان کی تحقیر ہوتی ہے تو ہو، ان کا قتل عام ہوتا ہے تو ہو جائے، ان کے دل غموں کی آماجگا بنتے ہیں تو بن جائیں، شدید دباؤ کے نتیجے میں ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے تو ہو جائے، بس خطے میں امریکی مفادات اور اہداف کو کوئي آنچ نہ آنے پائے۔ یہ ہے مشرق وسطی میں امریکی سیاست کی بنیاد۔ البتہ یہ کوئي نئي چیز نہیں ہے۔ قومیں بھی یہ جانتی ہیں اور حکومتیں بھی اس سے آگاہ ہیں لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ اس سیاست کے مقابلے میں جو موقف اختیار کیا جانا چاہئے اختیار نہیں کیا جا رہا ہے، کوتاہی برتی جا رہی ہے۔
غزہ کے عوام، فلسطینی قوم اس وقت اپنی پوری قوت سے ڈٹ گئی ہے۔ یہ قابل ستائش ہے۔ اس قوم کی تعریف کرنی چاہئے۔ کیوں کہ ایک طرف شدید اقتصادی دباؤ اور دوسری طرف حملے، قتل عام، انسانی المیہ، تخریبی کاروائیاں اور بچوں اور عورتوں پرگولیوں کی بوچھار، لیکن یہ قوم سیسہ پلائي ہوئي دیوار بن گئي ہے۔ دشمنوں کی سازش ہے کہ فلسطینی قوم اور منتخب حکومت کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیں اور پھر جو دل چاہے کریں، جو پالیسیاں چاہیں نافذ کریں۔ انہوں نے خطے کے لئے نہایت شرمناک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ امریکا اور غاصب صیہونیوں کی بزم میں شریک ہونے اور خطے کے سلسلے میں صلاح و مشورہ اور فیصلہ کرنے کا نتیجہ یہی ہے۔ خطے میں امریکی صدر کے قدم پڑے نہیں کہ غزہ کے عوام، عورتوں اور بچوں پر یہ افتاد پڑی، یہ محاصرہ یہ قتل عام سامنے ہے۔
جب علاقے کے سلسلے میں ان کے اہداف آشکارا ہیں تو ان سے مذاکرات کا کیا فائدہ ہے؟ مسلم حکومتوں کو چاہئے کہ آگے آئيں، غزہ کے محاصرے کو توڑ دیں۔ اس سلسلے میں مصر کی حکومت اور عوام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ تمام مسلم اقوام اس فریضے کی ادائگی میں مصر کی حکومت اور قوم کی مدد کریں۔ پندرہ لاکھ کی آبادی والے خطے کو جیل میں تبدیل کر دیا جائے، عورتیں بچے بھوک اور پیاس سے ایندھن کے فقدان سے، شدید سردی سے جاں بلب ہو جائيں، ان کی فصلیں تباہ کر دی جائیں، باغات نابود کر دئے جائيں، ان کی تجارت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یہی نہیں ان پر زمین او فضا سے حملے کئے جائیں، یہ برداشت کے قابل ہے؟ غاصبوں اور ان کے حامیوں کو یہ موقع نہیں ملنا چاہئے کہ وہ فلسطینی عناصر کو مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف استعمال کریں۔ اگر ایسا ہوا تو ان عناصر کی پیشانی پر ہمیشہ کے لئے کلنک کا ٹیکا لگ جائے گا۔ اس سلسلے میں دشمن، عرب حکومتوں کو استعمال نہ کرنے پائے۔ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔
فلسطینی قوم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہی صحیح راستا ہے، یعنی مزاحمت اور استقامت کا راستا۔ یہی وہ راستا ہے جو ایک دن فلسطینی قوم کو فتح سے ہمکنار کرےگا۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ ہم سب کو ہمارے فرائض سے آگاہ فرمائے۔ مسلم اقوام کو صحیح راستے کی ہدایت کرے اور ان کی مدد کرے۔ مسلم حکومتوں کو راہ راست کی ہدایت دے۔ ہم اللہ تعالی کی مرضی سے مسلمانوں کے مسائل خود ہی حل کرنے میں کامیاب ہوں، باہمی اتحاد، ہم آہنگی اور تعاون سے دشمن کو ناکام بنا دیں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہدا کو صدر اسلام کے شہدا، پیغمبر اسلام اور سید الشہدا علیھم السلام کے ساتھ محشور فرمائے اور ہمارے بزرگوار امام کے اپنے اولیا کے ساتھ محشور کرے۔