بسم اللہ الرحمن الرحیم

 میں قرب و جوار اور دور دراز کے علاقوں سے تشریف لانے والے تمام بھائیوں اور بہنوں بالخصوص شہدا کے اہل خانہ اور راہ خدا میں اپنے جسم کے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا وند عالم اس پر مسرت دن، اور اس عید کو مسلم امہ کے ہر فرد اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں بالخصوص ہماری قوم کے لئے مبارک قرار کرے اور برکتوں سے معمور یہ دن، مسلم امہ کے ہر فرد کے لئے خوشیوں کا پیغام لائے۔
 امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام شیعوں یا عام مسلمانوں ہی نہیں پوری انسانیت کے لئے تحفہ الہی ہیں۔ پوری انسانیت آپ کی عظمتوں کے سامنے سر تعظیم خم کرتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو حقیقت سے ناواقف اور بصیرت سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے مداحوں میں آپ کو صرف مسلمان ہی نظر نہیں آئیں گے بلکہ عیسائي اور دیگر ادیان کے پیروکار بھی ان کی مدح سرائی کرتے دکھائي دیں گے۔ صرف شیعہ ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے قصیدہ خواں نہیں، اہل سنت بھی آپ کو دنیا کے ہر گوشے میں مل جائیں گے جن کو صدر اسلام کی عظیم شخصیات میں حضرت علی علیہ السلام سے خاص عقیدت ہے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ اس آفاقی شخصیت کی عظمت ہے۔ وہ عظمت جسے آپ کی زندگی میں اور شہادت کے بعد کئی صدیوں تک چھپانے کی منصوبہ بند کوششیں کی گئيں لیکن بھلا آفتاب کی روشنی کو چھپایا جا سکتا ہے؟ آفتاب تو پھر آفتاب ہے ضو فشانی کرتا ہے ساری کائنات کو منور کر دیتا ہے، کیا اس کا انکار بھی ممکن ہے؟!
 جو صفات حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات میں نظر آئیں اور جو عظمت اور وقار آپ کا خاصہ تھا۔ وہ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ اس کی تفصیلات کیاں ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے سلسلے میں معصوم (ع) کے علاوہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے صحیح طور پر ان کا جواب حاصل کر لیا ہے۔ کیونکہ ان فضائل کے بعض ایسے پہلو ہیں جو اب بھی پردہ راز میں ہیں۔ یہ تو ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ انسان سمندر میں طوفان، موجیں اور حیرت انگیز موجودات کا نظارہ کرتا ہے، سمندر کی گہرائيوں کو وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جو اس کی تہہ میں اتر گئے۔ سمندر کی سی گہرائيوں والی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات کو ان ہستیوں کے سوا جو علم غیب کی حامل اور اللہ تعالی کے فیوض خاص سے بہرہ مند ہیں کوئی نہیں سمجھ سکا، اور کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا۔ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ ظاہری پہلو ہے، علامتیں ہیں۔ اور ان علامتوں کو بھی ہر کوئي نہیں دیکھ سکتا۔ نہج البلاغہ میں جو حکمت آمیز تعلیمات ہیں، جو پندو نصیحت ہے اسے ہر انسان نہیں سمجھ سکتا۔ یہ صاحبان علم و معرفت ہی ہیں جو اس کے ادراک پر قادر ہیں۔ جب ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات پر نظر ڈلتے ہیں تو ہمیں شجاعت، بندگي، سخاوت، حلال و حرام کی پابندی، جہاد،ایثار، قربانی، زمانے کے ہر نشیب و فراز کا علم، انسان کے تمام پہلوؤں اور کوائف سے آگاہی، غربا و فقرا کے سلسلے میں رحمدلی، مروت، ظالموں اور سرکشوں کے مقابلے میں بے باکی، عوام کے درمیان عدل و انصاف پر تاکید، ظلم و جور سے آپ کے خلاف اعلان جنگ، اور ایسی ہی دیگر صفات نظر آتی ہیں لیکن یہ تو اس بحر بیکراں کی سطح پر نظر آنے والی چیزیں ہیں۔ آپ دیکھئے یہی سامنے والی چیزیں اور صفات کتنی حیرت انگيز ہیں۔ کہاں ایسی شخصیت ملے گی جس میں یہ ساری صفات جمع ہوں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات ان صفات کی مالک ہے۔ یہ صرف شیعہ نہیں کہتے بلکہ یہ تو تاریخ کے مسلمہ حقائق ہیں حتی آپ کے دشمنوں نے بھی اس کا اقرار کیا ہے۔ معاویہ کے دربار میں کسی شخص نے تملق کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے سلسلے میں کوئي نا مناسب بات کہہ دی۔ معاویہ کو غصہ آگيا اور اس نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی مدح میں ایک جملہ کہا۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے اصحاب اگر کہیں معاویہ کو نظر آ جاتے تھے تو وہ ان سے کہتا تھا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے سلسلے میں گفتگو کریں، وہ لوگ فضائل بیان کرتے تھے۔ روایت میں ہے کہ کبھی کبھی معاویہ پر گریہ طاری ہوجاتا تھا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حیرت انگیز خصوصیات اس انداز کی ہیں۔ آپ سے معاویہ کی دشمنی ہر خاص و عام جانتا ہے، اس سے سب آگاہ ہیں۔
 عبد اللہ ابن زبیر کے بیٹوں یا پوتوں میں سے کسی ایک نے اس سے سوال کیا کہ علی (ع) کے خاندان کی عظمت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے وجہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں یہ صحیح بات ہے کہ علی کے دشمنوں نے ان کے فضائل پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ گوہر آبدار کی مانند جگمگاتے رہے۔ ان کے دشمنوں نے اپنے لئے نئي نئي فضیلتیں گھڑنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ کسی مردار کی مانند اور زیادہ نفرت انگیز ہوتے گئے جس کی بدبو مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دشمن بھی آپ کے فضایل پڑھتے ہیں۔ آج بھی آپ شیعہ اور سنی کتب میں فضائل علی کا لا متناہی سلسلہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
 آپ زندگی کے ہر دور کے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔ دس سالہ، بارہ سالہ اور تیرہ سالہ لڑکے بھی علی(ع) کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے سب سے پہلے صرف دس گیارہ سال کی عمر میں کلمہ پڑھا اور پیغمبر اسلام (ص) کے پیروکار بن گئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ایسے ماحول میں جہاں پیغمبر اسلام کے خلاف بغض و عناد اپنے عروج پر تھا، آپ کی شان میں گستاخیاں کی جا رہی تھیں، دس گيارہ سال کی عمر کا ایک بچہ راہ حق کا صحیح ادراک کرکے اس کی نصرت و مدد کے لئے سینہ سپر ہو جائے۔ بیس، بائیس اور پچیس سالہ نوجوان بھی آپ کو اپنا نمونہ عمل قرار دے سکتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ آپ جب تیئیس سال کے تھے اور پیغمبر اسلام (ص) نے مکے سے مدینے کی جانب ہجرت فرمائی تو حضرت علی علیہ السلام کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ آ گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے خاندان کی اہم ترین شخصیات یعنی خواتین کو ان کے سپرد کیا تاکہ وہ ان خواتین کو اپنے ساتھ مکہ سے مدینہ لے جائیں۔ پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو اپنا وصی منتخب کیا اور لوگوں کی امانتیں لوٹانے کی ذمہ داری آپ کو سونپی۔ آپ کو مامور کیا کہ تمام کام مکمل کرکے مکہ سے مدینہ پہنچ جائيں۔ جس شب کفار نے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر پر حملہ آور ہوکر آپ کو شہید کر دینے کا منصوبہ تیار کیا تھا اس شب حضرت علی (ع) بےخوف ہوکر پیغمبر اسلام (ص) کےبستر پر سوئے۔ آپ اس شخصیت پر غور تو کریں اس کی عظمتوں کا ادراک کرنے کی کوشش کریں اس کو کہتے ہیں نمونہ عمل۔
 جب پیغمبر اسلام (ص) نے شہر مدینہ میں حکومت قائم کی تو حضرت علی علیہ السلام ان کے جانباز سپاہی بن گئے تیئيس سال سے تینتیس سال کی عمر تک جہاں بھی اور جب بھی پیغمبر اسلام کو کوئی مسئلہ در پیش ہوا حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نظر آئے۔ جنگوں میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جنگ کی مشکل گھڑی آن پڑی تو علی(ع) کی تلوار مشکل کشا بن گئی، لوگ پسپا ہو جاتے تھے لیکن علی (ع) کے پای ثبات میں کوئي تزلزل نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اپنی ذات کے لئے کبھی کوئي خواہش نہ کی، ہر لمحہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اور پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گذارا۔
 پیغمبر اسلام (ص) نے رحلت فرمائي تو حضرت علی علیہ السلام نے خلافت سنھالنے کے لئے اقدام کیا، وہ خلافت کو اپنا حق جانتے تھے۔ اس موضوع پر آپ نے بات بھی کی، دعوت بیعت بھی دی۔ لیکن دیکھا کہ اس طرح خلافت حاصل نہیں ہوگی، آپ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر دعوت بیعت جاری رکھی تو اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائےگا، آپ نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ فصبرت و فی العین قذی و فی الخلق شجا حضرت علی علیہ السلام پچیس سال تک امت مسلمہ کی یکجہتی، اسلامی معاشرے کو انتشار سے بچانے اور اسلامی حکومت کی عزت و وقار کے لئے، اپنے حق کو نظر انداز کرتے رہے۔ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن خاموش رہے۔ یہ کوئي معمولی بات ہے؟ یہ آسان کام ہے؟ یہی خصوصیات ہیں جو انسان کو معراج کرا دیتی ہیں اور وہ افق انسانیت پر آفتاب بن کر جلوہ فگن ہوتا ہے۔ یہ خصوصیات ایک انسان کو تاریخ انسانیت کی زینت بنا دیتی ہیں۔ پچیس سال گذر گئے اور اب حضرت علی علیہ السلام کا سن مبارک ستاون سال کا تھا یعنی آپ بڑھاپے کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ لوگوں نے آکر اصرار کیا، التماس کیا کہ خلافت قبول کر لیجئے، جب تک آپ قبول نہیں کریں گے ہم اصرار کرتے رہیں گے۔ حضرت علی علیہ السلام پہلے تو تیار نہیں ہوئے لیکن جب دیکھا کہ مصر، عراق، خود مدینہ الغرض یہ کہ عالم اسلام کے مختلف خطوں سے لوگ آکر اصرار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے علی آپ کے سوا کوئی نہیں ہے جو اسلامی معاشرے کی قیادت اور در پیش مسائل کو حل کر سکے، تب حضرت علی علیہ السلام نے خلافت قبول کی اور جس لمحے سے یہ ذمہ داری سنبھالی اس وقت سے لیکر محراب عبادت میں فرق اقدس کے شگافتہ ہو جانے تک ایک لمحے کے لئے بھی آپ نے اسلامی احکام کے نفاذ سے غفلت نہ کی۔ نہ کسی کو بے جا رعایت، نہ خوف، نہ کوئی تزلزل، نہ کوئی ہچکچاہٹ، فرض کی ادائگي میں کچھ بھی علی کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا ۔
لیقوم الناس بالقسط انبیا کو عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے مبعوث کیا گيا۔ انہیں اس لئے بھیجا گیا کہ لوگوں کو اللہ تعالی سے نزدیک کریں، لوگوں کے درمیان احکام الہی کو رائج کریں۔ پیغمبر اسلام (ص) کے وصی اور خلیفہ کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام کی ذمہ داری بھی یہی تھی اور آپ نے ایک لمحے کے لئے بھی کہیں کوئی پس وپیش نہیں کیا۔ پرانے احباب ناراض ہو گئے، بڑے فائدوں کی توقع رکھنے والے افراد چڑھ گئے، آپ کے خلاف جنگ کے لئے کمربستہ ہو گئے، جو لوگ کل تک آپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے آپ کا عدل و انصاف دیکھا تو آپ کے دشمن ہو گئے۔ لیکن ملامت کرنے والوں کی ملامت کا حضرت امیر المومنین علیہ السلام پر کوئي اثر نہ ہوا لا تاخذہ فی اللہ لومۃ لائم آپ نے پامردی کے ساتھ فرائض کی ادائگي جاری رکھی اور اسی راستے میں جام شہادت نوش فرمایا۔ قتل فی محراب عبادتہ لشدۃ عدلہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت اور آپ کی ذات کا وہ پہلو جو ہمیں دکھائي دیتا ہے، یہ ہے۔ آپ غور کریں، یہ ظاہری پہلو بھی کتنا حیرت انگیز ہے۔ اس ایک ذات میں کیا کیا خصوصیات جمع ہیں۔
 ہم علی(ع) کے چاہنے والے اور علی (ع) کے شیعہ کہلاتے ہیں، اگر ہم زبان سے تو علی علی کرتے رہیں لیکن ان کے راستے پر نہ چلیں تو کیا فائدہ؟ آپ کے زمانے میں بھی ایسے افراد تھے جو عقیدت کا اظہار کرتے تھے لیکن آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے سے گریزاں تھے، حضرت علی علیہ السلام ایسے افراد کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ انہوں نے فسق و فجور انجام دیا تو ان پر حد جاری فرمائی۔ کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے تو آپ کی تلوار ان کے خلاف نیام سے باہر آ گئي۔ کچھ لوگوں نے یہ عظمت و جلالت دیکھی تو ان کا وہی حال ہوا جو ہم جیسے معمولی انسانوں کا ہوتا ہے۔ انگشت بدنداں رہ گئے اور یہ کہنے لگے کہ یہ خدا ہیں۔ ہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ اللہ تعالی اتنی عظیم شخصیت کی تخلیق کر سکتا ہے۔ نتیجے میں ہم غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں بھی بعض افراد نے یہی غلطی کی اور وہ کہنے لگے کہ علی خدا ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ان سب کو قتل کر دینے کا حکم جاری کیا، ان پر کوئی رحم نہیں کیا، ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ یہ خیال نہ کیا کہ یہ تو ہمارے چاہنے والے ہیں اور ہمارے سلسلے میں مبالغہ کر رہے ہیں، نہیں ہرگز نہیں ان افراد نے توحید کا راستا اور شرک کے خلاف جنگ کا راستہ ترک کر دیا، یہ مرتد ہو گئے، انہوں نے توبہ بھی نہ کی۔ حضرت علی علیہ السلام نے ان پر حد جاری کی اور انہیں قتل کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت ایسی ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی زبانی تعریفیں کرتے رہیں اور اللہ تعالی کی محبت ہمارے دل میں رہے تو اللہ تعالی اور حضرت علی علیہ السلام ہمارے گناہوں اور ہماری برائيوں کو نظر انداز کر دیں گےتو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت علی علیہ السلام کی روش یہ نہیں ہے۔ آپ کی روش، اللہ تعالی سے تمسک ہے۔ شیعہ وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلے، اب اگر کسی سے کوئي غلطی، کوئي لغزش ہو گئی تو یہ الگ بات ہے اسے چاہئے کہ توبہ کرے۔ لیکن یہ کہ حضرت علی علیہ السلام سے تمسک ہے تو اللہ تعالی کی نافرمانی کریں، یہ حضرت علی علیہ السلام کے نزدیک کسی بھی صورت میں قابل برداشت اور قابل معافی نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے مفادات اور لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں کیا کہ حق اور عدل کو نظر انداز کر دیں۔
 آج ہم اگر حضرت علی علیہ السلام کی اس روش کا کوئي مصداق تلاش کرنا چاہیں تو ناقص ہی صحیح لیکن ایک مصداق اسلامی جمہوری حکومت اور اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔ حضرت علی (ع) کی راہ پر چلنے کا مطلب ہے گمراہی، کفرو شرک اور طاغوتی طاقتوں کے مظالم کے خلاف ڈٹ جانا۔ اسلامی جمہوری نظام کا وجود اور اس کی پہچان ہی ظلم و ستم کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ آپ دیکھئے، آج دنیا کا نظام کس کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ دیکھئے، دنیاوی طاقتوں کے ہاتھوں کیسے کیسے بھیانک جرائم انجام پا رہے ہیں۔ یہ طاقتیں انسانیت کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہیں اور وہ بھی دلکش ساتھ ۔ انسانی حقوق کے نام پر، جمہوریت کے نام پراور آزادی کےنام پر انسان کے ساتھ کیا مذاق کیا جا رہا ہے۔
 اس وقت امریکہ، میری مراد امریکی حکومت ہے، انسانیت کے خلاف ظلم و استبداد کا مظہر ہے۔ وہ خود امریکی عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ صیہونزم کا طاغوتی نیٹ ورک آج دنیا میں فساد، اخلاقی برائیوں اور انسانی نسلوں کی تباہی کا باعث ہے۔ آج دنیا پر جن طاقتوں کا تسلط قائم ہے وہ ظالم اور ستمگر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اسلامی جمہوری نظام حضرت علی علیہ السلام کے پیغام عدل کا مظہر ہے۔ ایرانی قوم اور حکام کی ذمہ داری یہ ہے کہ حتی الامکان اس نظام کو اس ملک میں عدل و انصاف کے قیام کو پوری سنجیدگی سے لیں۔ دینداری کے شعار کو سنجیدگی سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تعلیمات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو ایرانی قوم کی آرزوؤں کو پورا کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی پیش رفت اور زندگي کے لئے جو ضروری خصوصیات امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں تھیں وہ حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات کا اقتباس تھیں تھیں۔ البتہ اس فاصلے کے ساتھ، جو انسانیت کے افق کے ان دونوں ستاروں میں ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ بھی حق و انصاف کے مسئلے میں کسی رو رعایت کے قائل نہیں تھے۔ وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کو لا تستوحشوا فی طریق الھدی لقلۃ اہلہ پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی ہراساں نہ ہوئے۔وہ اس سے کبھی بھی نہیں گھبرائے کہ یک و تنہا رہ جائیں گے۔ جب وہ حق کے ساتھ ہیں تو اللہ بھی ان کے ساتھ ہے۔ وہ مجاہدانہ انداز میں آگے بڑھے۔ اللہ تعالی نے ایرانی قوم اور مسلم اقوام کو دل و جان سے ان کے ساتھ کر دیا۔ آپ نے دیکھا کہ کیسی عظیم لہر اٹھی۔ امام خمینی (رہ) کی شخصیت ایسی تھی۔
 آج اگر ہمارے حکام اور عوام ملک کو عزت و وقار کے اوج پر لے جانا چاہتے ہیں جو ایرانی قوم کی دیرینہ آرزو بھی رہی ہے تو اسی راہ پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پوری شجاعت و بہادری، آگاہی و بصیرت کے ساتھ ستمگروں کا سامنا کرتے ہوئے اس راستے پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے۔ فتح، ثابت قدمی میں مضمر ہے۔
 ایرانی قوم کا سب سے بڑا دشمن، عالمی صیہونزم، صیہونی اور امریکی حکومتیں ہے۔ بالخصوص یہ (صیہونی ) گروہ آج کل امریکا کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ ایرانی قوم اور اس راہ کے دشمن ہیں جس پر ہماری قوم گامزن ہے۔ ہمارے یہ دشمن روز بروز دنیا میں بدنام ہو رہے ہیں اور مسلم اقوام میں ہی نہیں غیر مسلم قوموں کے درمیان بھی وہ الگ تھلگ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے نفرت انگیز ملک بن گیا ہے۔ جہاں بھی سروے کیا جاتا ہے یہی نتیجہ سامنے آتاہے، جبکہ اسلامی جمہوریۂ ایران، قوم کی ثابت قدمی، حق پسندی اور انسان دوستی کے باعث مسلم اقوام کے درمیان با وقار اور قابل احترام بن گیا ہے۔ ہمارے حکام کا مشاہد اس کی بات کی تائيد کرتا ہے۔ مسلم قوموں نے اس راستے کو پسند کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکا ہے اس راستے پر چلنے کی کوشش بھی کی ہے البتہ مختلف اقوام کے حالات مختلف ہیں۔ آپ اگر ہمارے خطے کی مسلم اقوام پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ ان اقوام نے اسلامی جمہوریۂ ایران اور ایرانی قوم کی حمایت کی ہے۔ اس کی حمایت میں اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے ۔اسے سراہا ہے اور اس راہ میں قدم بھی بڑھائے ہیں، پیش روی کی ہے۔ اسی چیز سے عالمی سامراج کو تشویش لاحق ہے۔ فتح کا راز بھی ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہنے میں مضمر ہے۔ آپ سب اسے گرہ میں باندھ لیجئے کہ راہ نجات، راہ کامرانی اور کسی قوم کی اعلی اہداف تک رسائي کہ جو ہمہ گیر قومی و ثقافتی عزت و وقار اور سربلندی کی ضمانت ہے،اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ قوم اپنے دشمنوں سے ہرا‎ساں نہ ہو، اپنے راستے کا صحیح تعین کرے اور اس پر پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ آگے بڑھے۔
 میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران اور سبھی مسلم اقوام پر اپنے لطف و کرم کا سایہ کرے۔ مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس ایرانی قوم کی سعی و کوشش اور مومن نوجوانوں کی جد و جہد سے خوش ہو۔ اور ہم سب حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حجت ارواحنا فداہ کی دعائے خیر کے مستحق قرار پائیں، اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور شہدا کی ارواح مقدسہ ہم سے راضی ہوں۔

والسلام علیکم وہ رحمۃ اللہ و برکاتہ