بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم نے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا آپ حقیقتا میرے بیٹوں کی طرح ہیں آپ عزيز نوجوانوں سے یہ باتیں سننا واقعا لذت بخش ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں یہ خود آگاہی ملک کے نوجوانوں میں وسیع سطح پر روزبروز فروغ پارہی ہے۔یہ باتیں جو آپ نے یہاں بیان کی ہیں،ان میں سے ہر ایک _ چاہے وہ نیچرل سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقی تعلیم و تربیت کے شعبے سے،چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو یا دانشوروں اور باصلاحیت افراد کو وسائل و امکان فراہم کرنے سے _ یہ میری دیرینہ آرزوؤں میں شامل رہی ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران میں نے انہیں بیان کیا ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کہا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایک عوامی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛اس قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے اکثر کو قبول کرتا ہوں؛ان پر اعتقاد رکھتا ہوں اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کیا ہے،یہ باتیں اور جو باتیں خود کانفرنس میں بیان کی گئی ہیں،نوٹ کر لی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک پر توجہ دینی چاہیے اور عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہو گا۔
ممکن ہے مختلف عوامل ان آرزوؤں تک پہنچنے میں ہمیں تھوڑی تاخیر میں ڈال دیں؛لیکن جان لیجیے اس علمی تحریک ،اس جذبے اور شکوفائی اور رشدونمو کو اب روکا نہیں جا سکتا اور یہ توفیق الہی سے آگے بڑھے گا،یہ کسی شخص پر قائم اور منحصر نہیں ہے۔یہ تحریک ملک میں شروع ہو چکی ہے؛ یہ آگاہی پیدا ہو چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اپنی منزل پر بھی پہنچے گی۔
ہماری آج کی نشست کے میری نظر میں دو اہداف و مقاصد ہیں؛ایک،قومی اور عام سطح پر علامتی ہدف و مقصد،کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں _ ملک کی رائے عامہ کی سطح پر _ یہ خیال وجود میں آئے کہ ملک میں علمی تحریک سنجیدگی سے جاری ہے۔ملکی حکام اسے چاہتے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عمل کر رہے ہیں اور وہ علم،علم کے متلاشی اور علمی شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں؛یہ آج یہاں پر ہمارے علامتی اجتماع اور علامتی اقدام کے معنی ہیں ۔
اور دوسرا مقصد ملکی حکام _ سرکاری حکام،مختلف شعبوں کے عہدیداروں _ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ جان لیں اس خواہش پر عمل کرنا ہے۔بڑی پالیسیوں اور انتظامی پالیسیوں میں ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کو قطعی اور حتمی پروگرام شمار کرنا چاہیے اور اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ دو ہدف و مقصد انشاءاللہ حاصل ہو گئے ہیں۔
میں صرف چند نکات بیان کروں گا؛بہت سی اچھی باتیں خود آپ لوگوں نے بیان کر دی ہیں۔ایک نکتہ جو نیا بھی نہیں ہے،یہ ہے کہ:ہمارے ملک کے لیے علمی تحریک ایک دوچندا ضرورت ہے؛ایک دوچندا اور حتمی ضرورت ہے۔ضرورت ہے؛کیوں؟اس لیے کہ علم ، کسی بھی قوم کی عزت و طاقت اور سلامتی کا باعث ہے _ اس کی میں مختصر وضاحت کروں گا _ دوچندا اور حتمی ہے؛ کیوں؟اس لیے کہ اس فریضہ پر بہترین زمانے کے سو سال کے دوران عمل نہیں ہوا؛قاجاری دور کے اواسط سے کہ جب دنیا کی علمی اور صنعتی تحریک نے عروج حاصل کیا اور پھلی پھولی تھی _ انیسویں صدی کے نصف دوم کے اواسط سے _ اور علم نے استعمار کی شکل میں خود کو دکھایا تھا؛مغرب علم کے وسیلے کو حاصل کر کے دنیا کو لوٹنے اور اس کے استثمار میں مشغول ہو گيا تھا۔اس دن سے لے کر _ تقریبا سو سال یا اس سے زیادہ _ کہ جو ہماری بیداری اور ہوشیاری کا دور تھا،اس عظیم فریضے،ملک کی علمی ترقی کے فریضے پر مختلف وجوہات کی بنا پر عمل درآمد رک گيا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھی ( اور وہ یہ تھی )استبداد کی حاکمیت،طاغوتوں کی حاکمیت،کٹھ پتلی،کمزور اور ناتواں بادشاہوں کی حاکمیت، یہ پسماندگي ہمیں وراثت میں ملی ہے۔لہذا ہماری کوشش دوچند ہونی چاہیے۔پس،ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دوچندا اور حتمی ہے۔
اس بارے میں علم ضرورت ہے،آپ لوگ جانتے ہیں،لیکن مناسب ہے میں ایک بار پھر بیان کر دوں کہ حقیقتا جس ملک کا ہاتھ علم کی جانب سے تنگ ہے ،اسے عزت،آزادی و خودمختاری،تشخص،شخصیت،سلامتی اور رفاہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔انسانی زندگی کی فطرت اور زندگی کے امور اسی طرح ہیں۔علم عزت دیتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جملہ ہے کہ جملہ بہت ہی بامعنی ہے۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں(( العلم سلطان )) علم اقتدار ہے۔سلطان یعنی اقتدار،قدرت۔(( العلم سلطان من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ )) ؛ علم اقتدار ہے۔جو اس اقتدار کو حاصل کر لے ،وہ حکومت کر سکتا ہے؛ جو اس اقتدار کو حاصل نہ کرے (( صیل علیہ )) اس پر غلبہ ہو جائے گا؛ دوسرے اس پر تسلط اور غلبہ پا لیتے ہیں؛ اس پر حکم چلاتے ہیں۔اس حقیقت کو ایرانی قوم نے ایک طویل دور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ہم پر انہوں ( اغیار) نے حکم چلایا؛زور و زبردستی سے کام لیا؛ہمارے وسائل و ذخائر کو لوٹا؛ہماری قوم کو رفاہ سے محروم کیا۔ہمارے ملک کی اس سو سالہ دور کی تلخ اور محنت بار تاریخ ہے کہ جس کے نتا‏ئج ہم اس وقت بھگت رہے ہیں؛ہم نے تحریک شروع کی؛انقلاب نے حالات کو تبدیل کر دیا؛ورق کو الٹ دیا۔آج ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے کہ جو سیاسی و بین الاقوامی (سطح پر ) عزت کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہے؛اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔قوم بیدار ہو گئی ہے۔بہادر ہے۔ملک تشخص اور شخصیت کا حامل ہے؛لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہم سے سو دو سو سال پہلے علم حاصل کیا اور ہم سے چند میدان آگے حرکت کی اور آگے نکل گئے اور علم کی برکتیں حاصل کر لیں،اب زور و زبردستی کی زبان بول رہے ہیں۔یہی ایٹمی توانائی،سائنسی طاقت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ،اس کا ایک نمونہ ہے۔(( آپ کے پاس نہیں ہونا چاہیے؛آپ پر اطمینان نہیں ہے ))؛ زور و زبردستی کی بات۔کون لوگ ہمیں کہتے ہیں:آپ پر اطمینان نہیں ہے؟ ! وہی لوگ جنہوں نے بیس سال کے دوران دو عالمی جنگیں شروع کیں اور پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جلا دیا؛یورپیوں نے۔
جو ہم سے کہتے ہیں کہ آپ پر اطمینان نہیں ہے،کہ جہاں پر بھی ان کا ہاتھ پہنچا انہوں نے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس کی زندہ مثال عراق ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں؛اس کا قدیمی تر اور دردناک تر نمونہ فلسطین ہے؛اس کا ایک اور نمونہ افغانستان ہے؛اس کا ایک اور نمونہ کوسوو ہے؛اس کا ایک اور نمونہ دنیا کے مختلف علاقے ہیں؛اس کا ایک نمونہ ہیروشیما ہے۔
یہ لوگ ( یورپی مغربی ممالک ) کہ صنعتی دور میں دنیا کی اہم فتنہ انگیزی ان کی طرف سے ہوئی ہے ملت ایران کو کہ اب تک ان برسوں کے دوران ایک بار بھی _ منجملہ انقلاب کے بعد کے دور میں _ اس ملک ( ایران ) کی طرف سے کسی ہمسایہ اور غیر ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا مشاہدہ نہیں کیا گيا _ ہم اسلامی جمہوریہ حکومت کی بات کر رہے ہیں؛اس سے پہلے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ کے دور میں ہمارے ملک کی طرف سے ابتدائی طور پر گولہ بھی کسی ہمسائے پر فائر نہیں ہوا ہے؛اس بات کو سب قبول کرتے ہیں _ کہتے ہیں:ہمیں آپ پر اطمینان نہیں ہے ! یہ یعنی زور و زبردستی۔اب شمالی افریقہ کے کسی ملک کی مانند ملک ( لیبیا ) کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اپنے تمام وسا‏ئل اور سازوسامان اکٹھا کرتا ہے بحری جہاز پر لادتا ہے اور کہتا ہے لے جائیے !
ملت ایران ڈٹی ہے اور ڈٹی رہے گی؛نہ صرف اس معاملے میں بلکہ ہم بہت سے دیگر معاملوں میں اسی طرح ڈٹے ہیں؛اب یہ معاملہ عوامی سطح پر لے جایا گیا ہے۔اول انقلاب سے لے کر آج تک دسیوں معاملوں میں ہم نے زور و زبردستیوں،بدمعاشیوں،ہٹ دھرمیوں اور دھمکیوں کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا؛وہ جان چکے ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔لیکن یہ زور و زبردستی ہے۔یہ زور و زبردستی کس بنا پر ہے ؟ اس لیے کہ مقابل فریق علم سے مسلح ہے۔دیکھیے یہ آپ نوجوانوں کے لیے بہت عبرت انگیز ہے۔
امریکی حکومت کی مانند اخلاق سے عاری،معنویت سے عاری اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی برتنے والی حکومت چونکہ علم کی حامل ہے اور اس نے علم کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اپنی زندگي میں اس کا استعمال کیا،وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح زور و زبردستی کرے۔(( من وجد صال )) جس کے پاس علم ہو،دوسروں پر حکم چلا سکتا ہے _ (( و من لم یجدہ صیل علیہ )) _ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ پر حکم چلاتے ہیں۔دیکھیے،ضرورت یہاں ہے۔
ہر انسان کا ضمیر،وہ انسان جو اپنی ذات،اپنے تشخص،اپنے خاندان،اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل،اپنی قومیت،ملک اور اپنے قومی و ملی تشخص میں دلچسپی رکھتا ہے،اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔میں جو برسوں سے علمی تحریک پر زور دے رہا ہوں،اصرار کر رہا ہوں اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
علم، سائنسی ترقی و پیشرفت،ہمارف ملک کی اولین ضرورت ہے؛البتہ تمام علوم _ ابھی عرض کروں گا _ صرف تجربی علوم نہیں بلکہ تمام علوم کو اپنے مقام پر حاصل کرنا چاہیے اور ہمارا ملک ایسا کر سکتا ہے۔بنابریں پہلے نکتے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جو ملک کے دانشوروں کے عظیم ذخیرے کا ایک حصہ ہیں،قومی قوت و طاقت پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ملک دانشوروں کی تربیت کی استعداد اور دانشوروں کا حامل ہونے کے لحاظ سے متوسط سطح سے بالاتر ہے۔حساب کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے۔میں نے ایک مرتبہ اسی مقام پر(حسینیہ میں) ملکی حکام کے اجتماع میں _ آج سے چند سال قبل _ کہا تھا ہمارے ملکی کی جغرافیائی سطح دنیا کی آباد جغرافیائی سطح کا تقریبا ایک فیصد ہے،ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا سات کروڑ ہے کہ جو انسانی آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے۔بنابریں متوسط طور پر دنیا کے زیرزمین ذخائر میں ہمارا حق ایک فیصد بنتا ہے؛لیکن ہمارے پاس اہم ترین زیرزمین ذخائر ایک فیصد سے زیادہ ہیں: دھاتیں،فولاد،تانبا،سیسہ اور بہت سی دیگر معدنیات؛یہ تمام دنیا کے کل ذخائر کا تین فیصد،دو فیصد اور چار فیصد ہمارے ملک میں ہیں۔تیل،اس کی صورت حال تو آپ کو پتہ ہی ہے اور ہمارے پاس مشرق وسطی اور خلیج فارس کے تیل سے مالامال علاقے میں تیل کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔گیس،ہمارے پاس دنیا میں گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔آپ دیکھیے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے پاس انسانی آبادی کے فی کس سے کئی گنا زیادہ قدرتی ذخائر ہیں۔
میں اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی نسبت کا اضافہ افرادی قوت کے سلسلے میں بھی ہے۔یعنی ہمارے ملک کے پاس دنیا کی دانشور افرادی قوت کا ایک فیصد نہیں ہے ،ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ہم اعداد و شمار نہیں دے سکتے؛اس لیے کہ اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔قدرتی ذخائر کے بارے میں میں نے جو کہا ہے اس کا اندازہ لگایا گیا ہے۔اس کا ہم نے اندازہ اور حساب کتاب نہیں لگایا ہے؛انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی کام ہو گا۔لیکن قرائن یہ ظاہر کرتے ہیں۔دنیا کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے جہاں دیدہ افراد سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں،سب اسی کی تائید کرتی ہیں۔میں نے بہت سے افراد سے سنا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایرانی دانشوروں کی تعداد کہ جہاں ایرانی ہیں دوسرے ملکوں سے دوگنا اور تین گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر چمران مرحوم حقا اور انصافا خود ایک سائنسدان تھے _ اب ان کا علمی پہلو ان کے فوجی پہلو،جدوجہد،فداکاری اور شہادت کے پیچھے چھپ گيا ہے _ اور انہوں نے امریکہ کی اعلی ترین اور جدید ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔وہ مجھے بتا رہے تھے اس مرکز میں دوسرے ملکوں کے دانشور بھی موجود تھے ؛لیکن یونیورسٹی کے اکثر شعبوں میں اور دوسری یونیورسٹیوں میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ ذہین اور ممتاز تھے۔۔۔۔ میں نے متعدد افراد سے یہ سنا ہے اور میرے پاس اس سلسلے میں متعدد رپورٹیں بھی موجود ہیں۔پس ہم مستقبل میں افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہمارا ماضی بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔افسوس ہم ماضی سے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ہمارے نوجوان ہماری علمی تاریخ کو نہیں جانتے ہیں۔یہ ہماری ایک کمزوری ہے کہ البتہ تاکید کی گئی ہے اور کہا گيا ہے کہ اس شعبہ میں ایران میں علم کی تاریخ کے میدان میں _ کام کیا جائے؛اور کام ہو بھی رہا ہے اور اچھا کام بھی ہوا ہے۔کہ انشاءاللہ اس کے بعد مزید زیادہ کام ہو گا۔
ان تمام صدیوں میں ہمارے ملک میں ممتاز علمی شخصیات موجود تھیں کہ البتہ حالیہ صدیوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔نالائق بادشاہوں اور مختلف داخلی جنگوں نے ( یہ کام) نہ ہونے دیا؛ورنہ مختلف ادوار میں اور دنیا کے رائج علوم کے مختلف میدانوں میں ہم دانشور پرور رہے ہیں۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں _ یعنی دسویں اور گيارہویں صدی عیسوی کہ جو یورپ کے قرون وسطی کا دور ہے؛یعنی جہالت کا تاریک دور _ ہمارے پاس ابن سینا(بوعلی سینا) تھے،محمد بن زکریا رازی تھے۔یورپ والے جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں،تو وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام دنیا قرون وسطی میں تھی! تاریخ بھی انہوں نے ہی لکھی ہے!افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تاریخیں بھی ہمارے ملک میں ترجمہ ہوئی ہیں اور ان کی ترویج ہوئی ہے۔یورپ کا قرون وسطی کا دور یعنی انتہائی تاریکی،ظلمت اور بےخبری کا دور؛یہ وہ دور ہے جب ہمارے پاس فارابی تھے،ابن سینا تھے،خوارزمی تھے۔دیکھیے فاصلہ کتنا ہے!
میں نے ایک مرتبہ نوجوانوں کے اجتماع میں(( جارج سارٹن کی تاریخ علم )) یا دیگر علوم کی تاریخ سے - اس وقت اس کے مؤلف کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔یہ سب فرنگی(یورپی) ہیں؛میں ان کا نام دہرانا نہیں چاہتا - اس دور میں مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کی صورت حال کے بارے میں باتیں بیان کی تھیں۔
بنابریں ہم دانشور افرادی قوت کے لحاظ سے مشکل اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں؛نہ آج اور نہ ہی انشاءاللہ آئندہ۔روزبروز اسے بڑھنا چاہیے؛دانشوروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ: دیکھیے میرے عزیزو،ہم ملک کو علمی بنانا چاہتے ہیں؛لیکن ملک کے علمی بننے کا ہدف و مقصد یہ نہیں ہے کہ ملک کو مغربی بنائیں۔اشتباہ نہ ہو۔مغرب والے علم رکھتے ہیں۔لیکن اس علم و دانش کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن سے گریز کرتے ہیں۔ہم مغربی ہونا نہیں چاہتے؛ہم عالم ( دانشور) ہونا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا کا علم کو جو عالم سمجھا جاتا ہے،انسان کے لیے ایک خطرناک علم ہے۔علم کو انہوں نے جنگ،تشدد،فحاشی و سیکس،منشیات،دوسری قوموں پر جارحیت،استعمار،اور جنگ و خونریزی کے لیے قرار دے رکھا ہے۔ایسا علم ہم نہیں چاہتے؛ہم ایسا عالم بننا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ علم انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔انصاف کی خدمت کے لیے ہو،امن و سلامتی کی خدمت کے لیے ہو۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں۔اسلام ہم کو ایسے علم کی سفارش و ہدایت کرتا ہے۔
اس دن کہ جب اسلامی ممالک خصوصا ہمارا اسلامی ایران علم کے لحاظ سے دنیا میں آگے اور سربلند تھا،اس دن ہم نے کسی ملک کو نہیں لوٹا،کسی قوم کے خلاف جارحیت نہیں کی،کسی ملت سے زور و زبردستی نہیں کی۔اسلام علم کو ایمان،کتاب و سنت،اخلاقی تہذیب اور اخلاق و معنویت کے ساتھ چاہتا ہے۔میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے سے جو اس بچی نے اپنی تقریر میں پڑھا،کتنی محظوظ ہوا :(( الہی ھب لی قلبا یدنیہ منک شوقہ و لسانا یرفع الیک ذکرہ )) یا (( صدقہ و نظرا یقربہ منک حقہ)) ؛ خدایا مجھے ایسا دل عطا کر کہ شوق و عشق اسے تجھ سے قریب کر دے۔مسلمان عالم ( دانشور) یہ چاہتا ہے؛خدا سے قربت،معنویت،اخلاص اور پاکیزگی۔اس وقت یہ علم ،یہ عظیم ذخیرہ،یہ عظیم ہتھیار انسانیت کے دفاع کے لیے استعمال ہوتا ہے؛انسانوں کی سلامتی،انسانوں میں انصاف،انسانوں اور انسانی معاشروں میں صلح صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد بنائیے۔
آپ آج ان کا لب و لہجہ دیکھیے جو سیاسی کرسیوں پر براجمان ہیں کہ جن کے پائے دولت اور منحرف علم - سرمایہ داری - پر استوار ہیں۔مغربی حکومتیں اس وقت ایسی ہیں۔اب مغربی طاقتوں کی چوٹی پر امریکہ ہے۔اس کی طاقت کی کرسی کے پا‏ئے سرمایہ داروں کی کمپنیوں کے پایوں پر ہیں اور اس کا حربہ اور وسیلہ علم ہے۔علم کے ذریعہ ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں؛اطلاعات و معلومات کی جاسوسی اور چوری کے لیے علم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛دنیا کے مختلف علاقوں میں قیدوبند کے لیے علم کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آپ دیکھیے کہ اس قسم کے ممالک کے سربراہوں کا کہ جن کے پاس اس قسم کا منحرف اور گمراہ کن علم ہے، ان کا لب و لہجہ کیسا ہے؟ آپ نے چند روز قبل امریکی صدر ( جارج بش) کی تقریر سنی کہ کتنی نفرت انگیز،کتنی تشدد پسندانہ اور متکبرانہ تھی۔یہی غرور و تکبر انہیں روز بروز گرداب میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔آج آپ یہ جان لیں - میں اب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔آپ وہ دن دیکھیں گے؛اس دن ہم نہیں ہوں گے،لیکن آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے - کہ یہ غلط بنیادوں پر بنایا گيا تمدن،گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے؛ہر لمحہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور سقوط کر جائے گا؛بلاشبہ یہی غرور،یہی احمقانہ تکبر اسی سقوط کے عوامل میں سے ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے۔یہ سقوط کر جائیں گے۔آج یہ اترا رہے ہیں؛لیکن پستی کی جانب حرکت کر رہے ہیں،خود بھی متوجہ نہیں ہیں؛البتہ ان کے ہوشیار اور باخبر افراد متوجہ ہیں جو برسوں سے فریاد کر رہے ہیں؛خبردار کر رہے ہیں؛خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں !لیکن کون ہے جو ان کی بات سنے؛مست ہی مست ہیں۔نشے میں ہیں۔
سکران سکر ھوی سکر مدامہ انّا یفیق فتی بہ سکران
ان میں دو نشے ہیں؛ہوس پرستی کا نشہ،طاقت کا نشہ۔جو آدمی ایک نشے کا شکار ہو اس کے ذہن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جا سکتی؛جب کوئی دو نشوں میں مبتلا ہو تو پھر واویلا ہے!مثلا کوئی شراب بھی پئیے اور نشے کی گولی بھی کھائے انہوں نے دونوں کام کیے ہیں! اب علم کی تلوار بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ہنر مندی سے اور عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور زمین پر گرانا چاہیے؛اور انشاءاللہ ہم ان کو چت کر کے رہیں گے۔
توجہ رکھیے کہ ہم اس علم کے پیچھے نہیں ہیں۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں جو ہمیں معنویت،انسانیت،خدا اور بہشت سے قریب کرے۔آپ نوجوانوں کے دل پاک ہیں۔میں یہ باتیں کر رہا ہوں لیکن جو دل ان باتوں سے بننے اور شکل اختیار کرنے پر آمادہ ہے وہ آپ کا دل ہے۔آپ ہیں جو اپنے جوان دلوں اور اپنے شاداب و تروتازہ جذبات کے ساتھ اس راستے کو طے کر سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے:دانشوروں کے سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومت کی ہے،ایک ذمہ داری دانشوروں کی ہے۔حکومت کی ذمہ داری وہی چیزیں ہیں جو - ہمارے عزیز صدر ( احمدی نژاد ) کے محترم نائب - جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کی ہیں۔یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں،انہیں انجام دیا جانا چاہیے،میں بھی تاکید کرتا ہوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لوں گا انشاءاللہ۔خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔یہ جو آپ نے کہا ہے کہ دانشوروں کو دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور مختلف مراکز میں ہونا چاہیے،یقینا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔اب بھی میں کہنا چاہتا ہوں ایسا ہی ہے۔یہی افراد جو آج دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور اس علمی ادارے کا انتظام چلا رہے ہیں،ہمارے نوجوان دانشوروں میں سے ہیں۔ان کا آپ سے عمر کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے اور انہی دانشوروں کا حصہ ہیں کہ جو اب سرکاری عہدوں پر آگے آئے ہیں اور صدر کے نائب،علمی ادارے اور دانشوروں کی فاؤنڈیشن کی تشکیل تک اوپر آئے ہیں اور یہ عظیم کام درحقیقت آپ نوجوان دانشور ہی ہیں جو انجام دے رہے ہیں۔بعد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
لیکن خود دانشور۔یہ آپ سے جو یہاں موجود ہیں،عرض کر رہا ہوں؛لیکن خطاب ملک کے تمام دانشوروں سے ہے۔ہمارے دانشور صرف آپ نہیں ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے ہزاروں،لاکھوں،شاید کروڑوں دانشور موجود ہیں کہ البتہ ان کو تلاش کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیے غرور کا شکار نہ ہوئيے۔ غرور،خود کو بڑاسمجھنا اور اپنا حق جتانا یہ صحیح نہیں ہے ؛ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے ۔آپ اس گھر کے فرزند ہیں؛اس سرزمین کے فرزند ہیں۔آپ کے ماں باپ اس ملک میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی صرف کی کہ اس عمارت کو تعمیر کریں تا کہ آپ اس عمارت میں آسائش سے زندگی گزار سکیں۔ان کے حقوق ہیں۔ہوشیار رہیے بزرگوں پر حکم نہ چلایا جائے،ان کی توہین نہ ہو،بے اعتنائي نہ ہو،ملک و قوم پ اپنا حق نہ جتایا جائے ۔البتہ میں نے کہا ہے کہ حکومت کے فرائض اور ان کے فرائض جو غیرسرکاری شعبوں میں توانائی رکھتے ہیں،معلوم ہیں؛ان کی ذمہ داری معین ہے؛لیکن آپ بھی اس طرف سے اس نکتے پر توجہ کریں۔
آپ عزیزوں کے لیے میری دوسری نصیحت:آپ اپنے لیے ایک تاریخی اور قومی کردار کی تعریف کیجیے،نہ کہ ایک ذاتی کردار کی۔جب انسان اپنے لیے ایک ذاتی کردار کی تعریف کرتا ہے - ایک بااستعداد آدمی - تو اس کا ہدف و مقصد یہ ہو جاتا ہے کہ دولت و ثروت حاصل کر لے،شہرت حاصل کر لے،سب اس کو پہچانیں،سب اس کا احترام کریں؛یہ ہو جاتا ہے ہدف و مقصد۔ان چیزوں کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے کوئی کام نہیں ہوتا،اس کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا؛لیکن جب انسان اپنے لیے ایک قومی کردار،ایک تاریخی کردار کی تعریف کرتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔آپ ملک کے مستقبل اور تاریخ کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ قوم کو کہاں پہنچنا چاہیے اور آپ آج اس راستے میں کہاں پر ہیں۔آج آپ کو کون سا کردار ادا کرنا ہے تا کہ اس روز یہ قوم وہاں پر پہنچ سکے۔ایسا ہدف و مقصد اپنے لیے تعریف اور وضع کیجیے؛ہدف و مقصد کو اعلیٰ بنائیے ۔
میری تیسری نصیحت یہ ہے کہ اپنی ہمت بلند رکھیے۔میں نے نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماع میں کئی بار یہ بات کہی ہے۔ہمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی خاص ٹیکنالوجی کہ جسے دوسروں نے بنایا ہے اور ہم ہمیشہ اسے خریدتے اور درآمد کرتے تھے،اب فرض کیجیے ہم خود یہاں بنا سکتے ہیں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔البتہ چیز ہے،کم اہمیت نہیں ہے؛لیکن وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے پیچھے ہیں۔آپ ہدف و مقصد یہ بنائیے کہ آپ کا ملک اور قوم ایک زمانے میں پوری دنیا میں علم و ٹیکنالوجی کا مرکز ہو۔میں نے ایک بارنوجوان دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا :آپ ایسا کام کیجیے کہ ایک وقت میں - اب ممکن ہے یہ وقت پچاس سال بعد یا چالیس سال بعد کا ہو - اگر کوئی دانشور تازہ ترین علمی و سائنسی نتائج حاصل کرنا چاہے تو وہ مجبور ہو کہ فارسی زبان سیکھے کہ آپ نے اپنی تحقیق فارسی زبان میں لکھی ہے؛جس طرح کہ آج آپ کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں تا کہ آپ اصل کتاب حاصل کر کے اسے پڑھ سکیں۔آپ ایسا کام کیجیے کہ مستقبل میں آپ کے ملک کی صورت حال ایسی ہی ہو؛آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ایک دن ایسا ہی تھا؛ایرانی دانشوروں کی کتابیں وہ ( یورپی ) اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے،یا اس ( فارسی ) زبان کو سیکھتے تھے تا کہ سمجھ سکیں۔یہ بھی برا نہیں ہے آپ جان لیجیے کہ طب کے موضوع پر لکھی گئی ابن سینا کی کتاب قانون کا گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران - میری صدارت کے دور میں - فارسی میں ترجمہ ہوا! میں اس کام کے پیچھے پڑا؛بعض افراد کو ذمہ داری سونپی،بعد میں میں نے سنا کہ ایک صاحب ذوق خوش قلم کرد مترجم نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا کہ آج اس کا فارسی ترجمہ موجود ہے۔اس وقت تک کتاب قانون کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا - ابن سینا نے یہ کتاب عربی میں لکھی ہے - اور اس کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا؛جب کہ کئی سو سال پہلے اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا تھا ! یعنی جن کے لیے یہ کتاب ضروری تھی وہ اسے لے گئے تھے اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔دیکھیے،یہ ہے علمی مرجعیت؛وہ مجبور ہیں کہ آپ کی کتاب کا ترجمہ کریں یا آپ کی زبان سیکھیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد قرار دیں۔اپنی ہمت بلند رکھیے۔علم و دانش کے میدان میں ترقی اور علم کی سرحدوں کو ختم کرنے اور توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے البتہ اس سلسلے میں میرے پاس اور باتیں بھی ہیں لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اور میں مجبور ہوں کہ آخری نکتہ بیان کروں۔
ہمیں ملک کےلیے ایک جامع علمی وژن تیار کرنا چاہیے۔یہ بات میں نے گزشتہ سال بھی اس علمی مجموعہ میں کہی تھی،اس وقت بھی ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے،لیکن یہ کام زیادہ سے زیادہ سنجیدگي سے ہونا چاہیے۔ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ملک کا جامع علمی وژن کیا ہے۔اس وژن میں کس علم کا کتنا اور کہاں پر مقام ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ایکسرسائز کرنے والے کی مانند ہوں کہ جو صرف بازوؤں کی ورزش کرتا ہے اور اس کے بازو موٹے ہو جاتے ہیں،جب کہ اس کی ٹانگیں اور شانے ایک کمزور آدمی جیسے ہوں! اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک ورزش کرنے والا صرف چھاتی کی ورزش کرے اور اس کے بقیہ بدن کے اعضاء میں کوئی طاقت نہ ہو،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔،کام متناسب ہونا چاہیے۔ان عزیز نوجوانوں میں سے بعض نے نچرل سائنسز کے بارے میں بات کی ہے۔ہم نیچرل سائنسز کے بعض مضامین میں دنیا سے صدیوں آگے ہیں۔ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں جو آج اس مضمون میں دنیا میں سر فہرست ہیں۔ہم ان پر کام کیوں نہ کریں؟نیچرل سائنسز کے مختلف شعبوں میں؛ادب،فلسفہ،تاریخ اور ہنر میں ہمارا قدیم ماضی ہے۔نیچرل سائنسز کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو اگرچہ مغرب سے آئے ہیں،لیکن اگر ہم صحیح غور کریں تو اس کی بنیاد اور اصل کہ جو عقلانیت اور تجربے سے عبارت ہے،ایرانی - اسلامی روح اور فکر و سوچ سے ہے۔خرافاتی یورپ ،جیالوجی،اقتصاد،مدیریت(مینجمنٹ)،نفسیات اور سوشیالوجی کو اس شکل میں مرتب نہیں کر سکتا تھا۔یہ مشرق خصوصا ایران اسلامی کی علم دوستی اور تجربہ کرنے کی سوچ کی سوغات تھی کہ جو وہاں گئی اور اس تبدیلی کا باعث بنی۔بہرحال جن چیزوں میں ہم پیچھے ہیں ان میں ہمیں خود کو آگے لے جانا چاہیے اور ہم خود ایجاد کریں؛ترجمہ نہ کریں( دوسروں کے نظریات کی کاپی نہ کریں) یہ ہمارے لیے بہت زیادہ نقصان ہے۔
بنابریں جامع علمی وژن ایک لازمی چیز ہے۔مختلف علوم،ان میں سے ہر ایک علم،طلبہ کی تعداد،طلبہ کی جنسیت _ لڑکا،لڑکی _ مختلف علاقوں کا مقام و مرتبہ واضح ہونا چاہیے؛ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام البتہ شروع ہو چکے ہیں،لیکن ان میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیجیے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیجیے۔
تحقیقات اور ایجادات کو کام میں لانے اور مفید بنانے کا مسئلہ - کہ اتفاقا بعض نوجوانوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے - ان چیزوں میں سے ہے کہ جن پر میں زور دیتا ہوں۔ممکن ہے ہم تحقیقات انجام دیں،ایک تشہیراتی منصوبے میں ہمارا محقق اچھے مقام پر پہنچے؛لیکن اس کا ملک کی صورت حال، ملک کی ترقی و پیشرفت میں کوئی کردار نہ ہو؛یعنی یہ قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے علم کو قومی دولت میں تبدیل کرنا چاہیے۔اس کے لیے کوشش ضروری ہے،منصوبہ بندی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے - کہ جو اسی جامع علمی وژن کے دائرے میں آتا ہے - کہ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا چاہیے،کہ بعض مقامات پر یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے،تاکہ حقیقی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو اور علم تمام جہات سے اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔
ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد آپ کا شوق،آپ کی ہمت،آپ کی دلچسپی اور متعلقہ افراد کی کوشش ہے مجھے امید ہے کہ خدا مدد کرے گا۔انشاءاللہ یہ کوشش کیجیے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بحمداللہ ( کوشش ) شروع ہو گئی ہے؛یہ علمی تحریک شروع ہو گئی ہے اور انشاءاللہ نتائج تک پہنچے گی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات ملک اور قوم کے اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد دے گی۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ