بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم

اسلامي ممالک سے تشريف لانے والے اپنے تما م مہمانوں کو آپ کے اپنے وطن ''ايران‘‘ميں خوش آمديد کہتا ہوں۔آج آپ اپنے گھر ميں اور اپنے بھائيوں کے درميان موجود ہيں۔ بين الاقوامي سطح پر اسلامي ممالک کي عدليہ کے سربراہوں کا اپني نوعيت کا حساس اور اہم ترين اجلاس ہماري نظر ميں ايک سنہری موقع ہے جس سے ہميں زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے۔اِس قسم کے اجلاسوں اور ملاقاتوں سے ہم اپنے مسلم بھائیوں سے متعارف ہوتے ہیں جو کہ بڑی اہم چیز ہے۔

مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايک دوسرے سے نا آشنا اور اجنبي!
اُمت ِ مسلمہ کے دشمن عرصہ دراز سے ہم مسلمانوں کي غفلت سے بہت فائد ہ اُٹھاتے رہے ہیں اوراُنہوں نے مختلف حربوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہميں ايک دوسرے سے دور اور جدا کر ديا ہے، ہمارے درميان جدائي اور فاصلے ڈال کر ہميں ايک دوسرے سے بے گانہ بنا ديا ہے اور ہميں ايک دوسرے کي بابت بدگمانی و غلطفہمی ميں مبتلا کرديا ہے۔ ہم وہ بھائي ہيں جو آپس میں غیروں اور بےگانوں کی طرح ملتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کے اندے ہماری اس حالت کا، دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ ہميں ہر حالت ميں اس کاسد باب کرنا چاہئے اور اِس قسم کے يہ اجلاس اِس راستے ميں سنگ ِميل ثابت ہوں گے۔

مسلمانوں کا اتحاد اُن کے مشترکہ اہداف تک رسائي کيلئے نا گزير ہے
امت ِ مسلمہ ايک بڑے اور زندہ پیکر کي مانند ہے، اِس کے اپنے اہداف، آرزوئيں اورامنگیں ہیں۔ يہ اہداف اور يہ آرزوئيں کسي ايک قوم یا کسي ايک اسلامي ملک سے مختص نہيں ہيں؛ بلکہ يہ پوري دنيائے اسلام کي مشترکہ آرزوئيں ہيں۔ اِن آرزوؤں کو پورا کرنے کيلئے ضروري ہے کہ ہم ايک دوسرے سے نزديک ہوں۔ اسلامي حکومتوں کي قربت اُن کي اقوام کي دوستی کا سبب بنے گي اور جب يہ اقوام ايک دوسرے کے نزديک ہو جائيں گي تو اُ س وقت اپنے تجربات، ہمت وحوصلے اور اپني اچھي اور پسنديدہ صفات کا ايک دوسرے سے تبادلہ کريں گي، نتيجتا امت ِمسلمہ کو جو چيزملے گي وہ بہت قيمتي ہو گي۔

اگرمسلمان فقہا کے مرتب کردہ قوانين ہمارا نقطہ اتحاد ہو تے!
آج ہم دنيائے اسلام کے پيکر واحد پر استعماري طاقتوں کي جانب سے مسلسل ضربوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں؛ يہ حملے کسي ايک ملک يا قوم پر نہيں بلکہ پوري امت ِ مسلمہ پر ہو رہے ہيں۔ ايک حملہ اسلامي قوانین اور اسلامي عدالتی نظام پر ہو رہاہے۔ اسلام بہترين اورترقی یافتہ ترين عدالتی قوانين کا حامل ہے اور اِسي طرح اسلام ميں بيا ن کيے گئے (حشرات وحيوانات کي سطح سے لے کر انسانوں اور اُس سے بھي بڑھ کے تمام موجودات کی سطح تک) تمام حقوق و قوانین، دنيا کے ترقی یافتہ اور عالي ترين قوانین سے بالا و برتر ہیں۔ اِس با ت کو سب اچھي طرح ديکھ سکتے ہيں۔ آپ تاريخ کے اوراق ميں اسلامي ممالک کے عدالتی اور قانونی مسائل، حدود وتعزيرات اور ديت وغيرہ کے مسائل اورعدليہ کے قوانين کو مرتب و مدوّن کرنے کے سلسلے ميں مسلمان فقہا و علما کی کوششوں کا جائزہ ليجئے۔ جب ہم اِن قوانين پر نگاہ ڈالتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ يہ بہت ہي قيمتي قوانين ہيں۔ اگر ہم مسلمان، تاريخ ميں مرتب کيے جانے والے اِ ن قوانين پر اپني توجہ مرکوز کرتے اوراِنہي کواپنا نقطہ اتحاد قرار ديتے تو ہم آج حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دنيائے اسلام ميں يہ کا م انجام نہ پا سکا۔ استعماري طاقتوں نے جس طرح امت ِ مسلمہ کي'' سياست اور اقتصاد‘‘ پرغلبہ پايا اُسي طرح اسلامي ممالک کے عدالتی نظام کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ ہماري عدليہ بغیر کسی وجہ کے مغربی عدلیہ میں تبدیل ہو گئی۔ يہ ہيں امت ِ مسلمہ کے درد اور مشکلات۔!
آج امت ِ مسلمہ کوخود اعتمادی اور خدا ئے وحدہ لا شریک لہ کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنے کي اشد ضرورت ہے؛ ہميں اپنی خوداعتمادی دوبارہ حاصل کرنا چاہئے۔جب ايک انسان دنيائے اسلام پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ ديکھتا ہے کہ ايک فقيہ فتويٰ دينے ميں خود اعتمادی کی کمی سے دوچار ہے، قاضي عدالت ميں آزادانہ فيصلے کرنے ميں ہچکچاتا ہے وہ مغرب کی تشہیراتی مہم سے گھبراتا ہے۔ آج پوري دنيائے اسلام کوخود اعتمادی کي ضرورت ہے۔ سیاسی میدان ہو ثقافتی میدان ہو اقتصادی میدان ہو یا عدالتی نظام ہر مرحلے پر خود اعتمادی کی ضرورت ہے ۔

قرآن و سنت کي حقيقي تعليمات سے عصر حاضر کے مسائل کا تصفیہ
ہم کبھي اِس چيز کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ ايک فقیہ ايک اسلامي حکم کو صراحت کے ساتھ بيان نہيں کرتا ہے یا اُس کا انکار کر تا ہے کيونکہ مغرب کے سياستدان اُسے پسند نہيں کرتے ہيں، يہ بہت ہي بري با ت ہے۔ ہر( چيز کے اچھے اوربر ے ہونے) کا ہمارے پا س ''معيار‘‘ موجود ہے اور وہ ''قرآن و سنت‘‘ ہے۔ يہ وہ معيار ہيں کہ جو آج اکيسويں صدي ميں بھی انساني زندگي کی صحيح سمت ميں راہنمائي کيلئے بہت مفيد اور کا رآمد ہيں۔ايسا نہيں ہے کہ ہم قرآن و سنت کے چودہ سو سال قبل بيا ن کيے جانے والے معياروں پر عمل پيرا ہونے کي وجہ سے دنيا سے پيچھے رہ گئے ہيں، اگر ہم اسلامي احکا مات کي جانب صحيح طور پر رجوع کريں اور اُنہيں نا فذ کريں تو ہم عصر حاضر کے انسان کي تمام ضرورتوں کو مغربي ثقافت سے زيادہ بہتر انداز سے پورا کر سکتے ہيں۔

دنيا پر مغربي ثقافت کے تسلط وغلبے کے نتائج!
آپ دنيا ميں مغربی ثقافت کے غلبے اور تسلط کا نتيجہ خود اپني آنکھوں سے دیکھ رہے ہيں؛ آج دنيا ميں عدل و انصاف عنقا ہے، امن و امان کا دور دور تک کو ئي نا م ونشان نہيں ہے، انسانوں کے درمیان سے اخوت و برادري اُٹھ گئي ہے اور اِس کے بر عکس ايک دو سرے سے دشمني، کينہ اورمنافقت کا بول بالا ہے، بے مہار استعماري طاقتوں کا تسلط اور قبضہ آپکو جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ دوستو! يہ سب مغربي ثقافت اور دنيا پر اُس کے تسلط و قبضے کے نتا ئج ہيں۔

غير مسلم اقليتوں سے اسلام کاسلوک!
آپ آزادي قلم وصحافت کادعويٰ کرنے والے ممالک ميں مسلمان اقليتوں سے اُن کے رويے اور سلوک کا جائزہ لیں اور اُ ن کے اِس رويے اور سلوک کا تاريخ کے مختلف حصوں ميں اسلامي ممالک ميں موجودغير مسلم اقليتوں سے اسلام کے برتاؤ سے موازنہ کريں۔ خلفائے راشدين کے زمانے ميں ہو نے والي فتوحات کے بعد مسلمان جس علاقے ميں بھي گئے ، اختمام جنگ کےبعد اُن کي حکومت و اقتدار کے زمانے ميں غير مسلموں سے اُن کا رويہ اور سلوک مہرباني اور رحمدلي سے لبریز تھا۔ مشرقي روم کے اِسي علاقے کو ہی لے ليجئے جہاں بہت سے يہودي زندگي بسر کرتے تھے۔اِن تمام واقعات کو تاريخ نے ذکر کيا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے تو يہوديوں نے قسم کھائي؛'' وَالتَّورَاۃِ لِعَدلِکُم اَحَبُّ اِلَينَا مِمَّا مَضيٰ عَلَينَا ‘‘؛''توریت کي قسم ، آپ مسلمانوں کا عدل و انصاف ہميں اپنے ماضي کے مقابلے میں بہت پسند ہے‘‘ وہ تقريباً اِسي قسم کے الفاظ سے مسلمانوں کے عدل وانصاف کوسراہتے تھے۔

ايران ميں غير مسلم اقليتوں کي آزادي!
آج آپ اسلامي جمہوریہ ایران پرنظر ڈاليے، ہمارے ملک میں يہودي، عيسائي اور آتش پرست آزادانہ زندگي بسر کر رہے ہيں، يہ اقليتيں انتخابات ميں آزادانہ طور پرحصہ لے کر اپنے نمائندے پارليمنٹ ميں بھيجتي ہيں اوراپنے مذہب پر بغير کسي روک ٹوک کے آزادانہ طور پر عمل کرتي ہيں۔ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہي صورتحال ہے ، يہ ہے اسلام ! آپ اِن اقليتوں سے اسلام کے سلوک کا آج کي مہذب اور بظاہر انساني حقوق کي طرفدار حکومتوں کے اس برتاؤ سے موازنہ کريں جو وہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےساتھ روا رکھتی ہیں۔

اسلام ہي عالمي سطح پر عدل وانصاف اور امن و امان کا ضامن بن سکتا ہے
آج دنيا عدل وانصاف کي پیاسی ہے، وہ امن و امان کي طالب ہے اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکا ر ہے؛ يہ اسلام ہي ہے جو اِن تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مغربي تہذیب و ثقافت نے يہ بات ثابت کر دي ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے عاجز کو قاصر ہے۔ آپ آج دنيا کي موجودہ حا لت پر ايک سرسری نگاہ ڈاليے، فلسطين کو ديکھئے، صہيوني صاحبان اقتدار کھلے عام اِس بات کا اظہار کر رہے ہيں کہ''اگر ہم صہيونيوں اور فلسطينيوں کے درميان غصب شدہ فلسطيني سرزمين برابر برابر تقسيم ہو جائے تو جو کچھ جنوبي افريقہ ميں وقوع پذير ہوا تھا وہي چيز ہميں بھي حاصل ہو جائے گي! يعني وہ اِس با ت کا اقرار کر رہے ہيں کہ وہ نسل پرستي کي ترويج و حمايت کر رہے ہيں گويا وہ طبقاتي نظام اور نسل پر ستي کا اعتراف کر رہے ہيں۔ دنيا اِن تمام واقعات کا اپني آنکھوں سے مشاہدہ کر رہي ہے، مغربي تہذیب و ثقافت کے پنجوں ميں جکڑي ہوئي دنيا يہ سب ديکھ رہي ہے ليکن اُس نے اپنی زبان پر تالے لگا ليے ہيں اور وہ اپنےفرائض کي انجام دہي سے گریز کر رہی ہے۔
يہ ہمارے لئے خطرے کي گھنٹي ہے اور ہم مسلمانوں انتباہ ہے کہ ہميں خود اعتمادی پيدا کر نا ہوگی، ہميں خدا وندعالم کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے اوراِس با ت کو اچھي طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ہم اپنے عقيدے، طرزفکر، تدبير، منصونہ بندي اوراتحاد کے ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے تو خدا وندعالم بھي ہماري مدد فرما ئے گا اور ہميں کاميابي سے ہمکنار کرے گا۔ ہميں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، خدا وند عالم قرآن کريم ميں ايسے لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اُس کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہيں:''وَيُعَذِّبُ المُنَا فِقِينَ وَالمُنَافِقَاتِ وَالمُشرِکِينَ وَالمُشرِکَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السّوئِ عَلَيھِم دَائِرَۃُ السُّوئِ وَغَضبَ اللّٰہُ عَلَيھِم وَلَعَنَھُم وَاَعَدَّلَھُم جَھَنَّمَ وَسَا ئت مَصِيراً‘‘ اللہ تعالي منافق مردوں عورتوں اورمشر ک مردوں و عورتوں کو عذاب دے تا ہےجو اللہ تعالي کے بارے ميں بدگمانی کا شکار ہیں، اِن پر خدا نےاپنا غضب نا زل کيا ہے اوراِن پر لعنت کي ہے اور اِن کيلئے جھنم تيا رکيا ہے۔لہذا ہميں خدا کي ذات پر بھروسہ و توکل رکھناچاہئے۔ ہم نے کب اور کہاں کوئي عمل انجام ديا اور کوئي اقدام کيا کہ جس میں خدا وند عالم نے ہماري مدد نہ کي ہو؟ ہميں وہیں مشکلات کا سامنا ہوا اور ہم وہیں کمزوري اور شکست سے دوچار ہوئے جہاں ہم نے عمل انجام نہيں ديا تھا اور اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے کنا رہ کشي اختيار کي، ليکن جہاں بھي ہم نے اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا خدا وند عالم نے وہاں ہماري مدد فرمائي اور يہ خدا کا وعدہ ہے؛''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ لَيَستَخلِفَنَّھُم فِي الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبلھِم‘‘؛ اور اِس طرح دوسری آيات میں بھی یہی بات کہی کئي ہے۔

مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام اور عدلیہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے
آج کے اِ س بين الاقوامي اجلاس میں جو با ت کہي جا سکتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم اسلامي عدليہ کے قوانين ميں اپني آرا و نظريات کی آزادی، خود اعتمادی اور قرآن ميں بيان کي گئي اسلامي تعليمات کي طرف واپس آئیں۔ اِس قسم کے اجلاس اور نشستيں اِس راہ ميں ہماري مدد کر سکتي ہيں۔ بہت خوشي کي با ت ہے کہ اسلامي ممالک نے اِس سلسلے ميں بہت اچھے تجربا ت حاصل کئے ہيں اور ہمارے پاس بھي اچھے تجربا ت موجود ہيں۔ اسلامي انقلاب کي کا ميابي کے بعد گزرنے والي اِن تين دہا ئيوں ميں ہمیں مفید تجربات حاصل ہوئے ہيں ليکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائيوں کے قيمتي تجربا ت سے بھي استفادہ کريں گے اور وہ ہمارے تجربا ت سے مستفيد ہوسکتے ہیں۔ ہم ايک دوسرے کي مدد کريں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تا کہ اسلامي عدالتی نظام اورعدليہ کو جو ايک عظيم الشان عمارت کي مانند ہے ، حقيقي معنيٰ ميں رفعت و بلندي حاصل ہو سکے۔
اِس اجلاس ميں شرکت کرنے والے مہمانوں اور ميزبا نوں کي جا نب سے بہت اچھي آرا وتجاويز سامنے آئي ہيں، ميں نے سب کو سنا ہے، يہ بہت اچھي تجاويز ہيں اور ہم اِن تجاويز کو عملي جامہ پہنانے کيلئے ايک بين الاقوامي کميٹي یا کميشن تشکيل دينے کي حمايت کرتے ہيں۔ ہميں ايک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ايک دوسرے کي مدد کرني چاہئے تا کہ موجودہ زمانے ميں اسلامي ممالک ترقي کر سکيں۔ اِس با ت کي طرف توجہ رہے کہ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے اور باہمی قربت سے بہت سی طاقتيں ناخوش ہيں اور وہ اِس با ت کو ہر گز پسند نہيں کريں گي۔ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے پر ہمارے مخالفين خاموش نہيں بيٹھے رہيں گے؛اِس کي طر ف بھي متوجہ رہيں۔ مل جل کر فيصلہ کريں اور اللہ تعالی کی مدد سے باہمی تعاون کےساتھ اپنے امور انجام دیں۔ اپنے اِس کا م کيلئے اللہ تعالی سے توفيق کی دعا کيجئے، اُ س سے مدد طلب کیجئے۔ اِ ن شائ اللہ اُميد رکھيں کہ خدا وند عالم ہماري مدد و اعانت فر مائے گا۔
مجھے اُميد ہے کہ تہران اور دوسرے مقامات پر آپ کا سفر اچھا گزرےگا اور آپ ايران سے اچھي ياديں اپنے ہمراہ لے کر جائيں۔

والسّلام عليکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ