نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین اور خدام سے اپنے خطاب میں اہم ترین دینی، سیاسی، اقتصادی، علمی و ثقافتی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آغاز سال کے موقع پر ایک دفعہ پھر حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے جوار میں آپ عزیز زائرین اور خدام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع مرحمت فرمایا۔ میں عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور عید ولادت با سعادت حضرت امام صادق علیہ السلام اور اسی طرح ہماری ملت کے لئے قومی تہوار اور علامتی عید کا درجہ رکھنے والی عید نوروز کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ایک بات نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ وحدانیت و یکتا پرستی، عدل و انصاف، دانائی و بصیرت اور طہارت و پاکیزگی کے علمبردار کی ولادت ہے۔ ( ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ) ان ساری صفات کا مظہر خود آپ کا وجود مقدس ہے۔ ولادت سے بعثت تک یعنی چالیس سال کے عرصے میں ہمارے پیغمبر نے پاکیزگی، امانتداری، شجاعت اور صداقت کا کامیاب امتحان دیا۔ اس دور میں دوست اور دشمن، قبائل کے سردار اور عام افراد، مکہ آنے والے مسافرین اور پیغمبر اسلام کے ساتھ تجارتی سفر کرنے والے لوگ سب کے سب اس کے معترف اور گواہ تھے کہ یہ عظیم انسان پاکیزگی، امانتداری، صداقت و اخلاق حسنہ کا مجسم نمونہ ہے۔
ان چالیس برسوں میں اس عظیم شخصیت میں کہیں کوئي نقطہ ضعف اور لوچ نہیں دیکھا گيا۔ اس کی زبان سے کوئي غلط بات نہیں سنی گئي۔ کبھی کسی کا کوئي حق نہیں مارا پورا معاشرہ اس کا گواہ اور معترف تھا۔ چالیس سال تک لوگوں نے پیغمبر اسلام کو انہی صفات سے یاد کیا۔
چالیس سال گزر جانے کے بعد جب پیغمبر اسلام نے دعوت دین شروع کر دی تو انہی لوگوں کی جانب سے دشمنی، کینہ توزی، تہمت و الزام تراشی کا ایک سیلاب پیغمبر اسلام کے خلاف جاری ہو گیا۔ وہی لوگ جو بعثت سے قبل اس عظیم انسان کی طہارت و پاکیزگی اور صداقت و دانائی کے گن گاتے تھے بعثت کے بعد آپ کو ساحر و مجنوں اور کاذب و دروغگو کہنے لگے۔ قرآن میں ان تہمتوں کا تذکرہ موجود ہے۔ تو معلوم ہوا کہ دشمنوں کو پیغمبر اسلام کی ذات سے کوئي تکلیف نہیں تھی۔ انہیں تکلیف پیغمبر اسلام کے پیغام سے تھی۔ جن افراد نے پیغمبر اسلام کے خلاف متحد ہوکر محاذ قائم کیا وہ آپ کے پیغام توحید، پیغام عدل اور آپ کی تعلیمات کے دشمن تھے۔ان چودہ سو سالوں میں یہی مسئلہ سامنے رہا ہے۔ اگر آج بعض مغربی ممالک میں سیاست زدہ قلم و زبان سے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے تو یہاں بھی دور جاہلیت والا ہی مسئلہ در پیش ہے۔ آج کچھ لوگ پیغمبر اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور آپ کے نام و ذکر کی توہین کرتے ہیں تو اس لئے کرتے ہیں کہ وہ آپ کے پیغام توحید، پیغام عدل، اور انسانوں کے لئے آپ کے پیغام آزادی کے مخالف و دشمن ہیں۔ جو افراد ظلم و ستم، مکر و فریب، زور زبردستی، انسانوں کی توہین و تحقیر اور انسانوں کو غلام بنا لینے کے لئے زر اندوزی کرتے رہے ہیں وہ اس عظیم شخصیت کے پیغام کے دشمن ہیں، وہ پیغام توحید کے مخالف ہیں۔ وہ پیغام توحید جو انسانوں کو خداے یکتا کی پرستش کی دعوت دیتا ہے۔ جو بھی خداے وحدہ و لا شریک کا بندہ ہو گیا وہ کبھی بھی دولت و تمکنت اور قوت و نخوت کے خداؤں کا بندہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جن افراد نے قوموں اور انسانوں کے درمیان امتیاز و تفریق کی بنیاد پر اپنی زندگی اور شان و شوکت محل تعمیر کیا ہے وہ عدل و انصاف کے پیغام کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ وہ ہمیشہ اس کی مخالفت کریں گے۔ یہ دشمنی اس دور میں بھی کمزوری اور خوف و ہراس کی علامت تھی اور آج بھی کمزوری اور خوف و ہراس کی علامت ہے۔ جو افراد پیغمبر اسلام اور آپ کے پیغام دین کے مخالف تھے، کینہ رکھتے تھے بد تمیزیاں کرتے تھے وہ در حقیقت اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ حرکتیں کرتے تھے، اس وجہ سے نہیں کہ وہ بڑے طاقتور تھے۔ اس دور میں بھی ان پر پیغمبر اسلام کے پیغام توحید و عدل و مساوات سے دہشت طاری ہو گئي تھی اور وہ خود کو خطرے میں محسوس کر رہے تھے اور آج بھی جب انسانی معاشرے کے افراد روحانیت و معنویت کے پیاسے اور بڑی طاقتوں کی دیدہ دلیری سے پریشان ہیں تو اس دین اسلام کو خطرے کو طور پر دیکھا جا رہا ہے جو انصاف و مساوات کا علمبردار ہے، جو دنیا میں معنویت و روحانیت اور عبادت و بندگی پروردگار کا پیغام عام کر رہا ہے اور جو دنیا پرست نظاموں سے تھک چکے انسانی معاشرے کو اپنی جانب بلا رہا ہے۔ آج بھی سامراجی طاقتیں اور ان کے کارندے خوف و دہشت کے مارے، پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر اتر آئے ہیں۔ یہ ان کی شکست کی علامت ہے قدرت و طاقت کی نہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ ان امور میں صرف سلمان رشدی جیسے خود فروش مصنف یا قلمی مزدوری کرنے والے کارٹونسٹ ہی، جنہوں نے بعض یورپی ممالک میں گھٹیا حرکتیں کی ہیں، اسلام کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ یہ روسیاہ عالمی سامراج کے بد بخت نظاموں کے مہرے ہیں۔ اس مسئلے میں، سیاست کارفرما ہے۔ مقابلے پر دنیا کا سامراجی نیٹ ورک یعنی غدار و خونخوار صیہونی اور ان کے زیر نگیں سیاستداں ہیں۔ یہی وجہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ یورپی یونین کا ایک عہدہ دار آشکارہ کہتا ہے کہ سبھی مغربی ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کریں، یہ اپنی کرتوت سے پردہ ہٹانا اور خود کو ذلیل کرنا ہی تو ہے۔ صاف پتہ چل رہا ہے کہ اسلام نے دنیا بھر میں انسانوں کے دلوں کو مسخر کرکے سامراجیوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔ اب وہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ تعالی اس دور میں بھی مسلمان انہیں شکست دیں گے۔
چند جملے قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے سلسلے میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ ہمارے اس امام کو اپنی حیات طیبہ میں تعلیمات اہلبیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ و ترویج اور تشنگان علم و معرفت کو سیراب کرنے کے لئے ہمارے دیگر اماموں سے زیادہ موقع ملا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی محفل میں زانوے ادب تہ کرکے علم و معرفت کے گوہر چننے والے ہزاروں افراد صرف شیعہ اور آپ کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے تھے تو وہ غلطفہمی میں ہے۔ بہت سے افراد تھے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو شیعہ عیقدے کے مطابق امام نہیں مانتے تھے لیکن آپ کے علم و دانش اور اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہونے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ ہمارے سامنے بہت سی روایتیں ہیں جن کے راوی اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایتیں نقل کی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آج بھی دنیاے اسلام اور امت مسلمہ کو امام جعفر صادق اور اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے۔ عالم اسلام کو ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ کے تمام طبقوں کو چاہئے کہ اس میدان میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائي کریں تاکہ اسلامی علوم و معرفت کی سطح بلند ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان فرقوں کے درمیان بغض و عناد، فرقہ واریت و تعصب سے کنارہ کشی کر لی جائے۔ اسی کو وحدت اسلامی اور اسلامی اتحاد کہتے ہیں۔ ہفتہ اتحاد نزدیک ہے۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران شیعوں یا اہل سنت سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اپنا مکتب فکر چھوڑ کے دوسرے کے مکتب فکر کو اپنا لیں۔ اسلامی جمہوریہ یہ دعوت دیتا ہے کہ مسلمان فرقوں کے درمیان موجود مشترکات کو سانے لایا جائے اور اسلام دشمن طاقتوں کی بنائي ہوئی دیواریں ان فرقوں کے درمیان سے مٹا دی جائیں، بغض و عناد ختم کر دیا جائے، علوم اہلبیت کے زیر سایہ سب کے سب جمع ہوں۔ دشمن ان دیواروں ، ان فاصلوں اور بغض و عناد کے جذبات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مسلمان بھائيوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہا ہے۔
امریکیوں، صیہونیوں اور دنیا کی سامراجی طاقتوں کو اہل تشیع سے کوئی دلچسپی ہے نہ اہل سنت سے۔ وہ دونوں کے دشمن ہیں۔ کیونکہ مسلمان اللہ تعالی کے نام اور اسلام پر ایمان کے ساتھ ان کی زور زبردستیوں کی راہ میں حائل ہے۔ اس لئے وہ تمام مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ آپ غور کیجئے کہ یہ لوگ لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ سے ویسی ہی دشمنی رکھتے ہیں جیسی کہ فلسطین میں سنی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی سے۔ ایران میں طاغوتی دور میں گمراہ اور ضمیر فروش شاہی نظام سے، جس پر شیعہ کا نام چسپاں تھا، ان کی ویسی ہی دوستی تھی جیسی اس زمانے کی نام نہاد سنی حکومتوں سے۔ معلوم ہوا کہ وہ سرے سے اس اسلام کے مخالف ہیں جو ظلم و جور، سامراج اور قوموں کی دولت کی لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور قوموں کے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے لئے شیعہ سنی کے کوئي معنی نہیں ہیں۔ وہ صرف امت مسلمہ کو ایک آواز ہوکر اپنا موقف پیش کرنے سے روکنے کے لئے مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ شیعہ سنی اختلاف اسی طرح شیعہ فرقوں اور سنی فرقوں کے درمیان بھی آپسی اختلافات کو ہوا دینے کے در پے ہیں۔ ان کا کام اختلاف پیدا کرنا ہے۔ یہ بات ذمہ دار شخصیات اور عوام کو سمجھنا چاہئے۔ ہم مکتب اہل بیت کے پیروکار ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہم امامت امیر المومنین اور آپ کی خلافت بلا فصل کا عقیدہ رکھتے ہیں، ہمیں اس پر ناز ہے۔ لیکن اس موضوع پر بحث کی جگہ گلی کوچے نہیں ہیں، یہ موضوع اہل فن اور متعلقہ ماہرین کی نشست و بحث کا موضوع ہے۔ ان موضوعات کے سلسلے میں منطقی بحث کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے میں ایک دوسرے کے سلسلے میں بد کلامی، الزام تراشی، فحشیات کا استعمال، شمشیر بکف ہو جانا، در حقیقت دشمن اسلام کی خدمت و مدد ہے جو شیعہ اور سنی دونوں کے خون کا پیاسا ہے۔ ہم نے یہ بات اسلامی انقلاب کے تحت اسلامی اتحاد کا پرچم بلند کرکے واضح کر دی ہے۔ ملت ایران کا مطمح نظر یہی ہے، اس کا پیغام یہی ہے۔
اور اب نوروز کے سلسلے میں بھی چند جملے، نوروز خلاقیت و پیش رفت کا موسم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سال خلاقیت و پیش رفت کا سال ہے۔ موسم بہار، خلاقیت و پیش رفت کا موسم ہے۔ دنیا اور قدرت لباس نو سے آراستہ ہوتے ہیں، قدرتی مناظر میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ پورا سال شروع سے آخر تک بہار، خلاقیت اور پیش رفت کا سال رہے۔ اس سال ہم نے خلاقیت اور پیش رفت کا نعرہ کیوں تجویز کیا ہے؟
اسلامی انقلاب بجاے خود خلاقیت کا ایک تاریخی نمونہ ہے ملت ایران نے اپنی اور دنیا کی تاریخ میں یہ سنہری باب جوڑا ہے۔ انقلاب، خلاقیت کا نمونہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ خلاقیت کا نمونہ ہے۔ سامراج کے آغاز کے بعد سے دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ تسلط پسند طاقتوں کا تھا اور دوسرے حصے میں تسلط کا نشانہ بننے والے ممالک قرار پائے۔ بڑی طاقتوں نے سائنس، فوجی ساز و سامان اور مکر و فریب کا سہارا لیکر دیگر ممالک پر قبضہ کر لیا۔ یہ طاقتیں تسلط پسند سامراجی طاقتیں بن گئيں اور قومیں تسلط پسندی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ دنیا اس تقسیم کی عادی ہو گئي اور یہ روایت چل نکلی کہ کچھ ممالک سامراجی طاقت بن کر دیگر اقوام پر غلبہ حاصل کریں۔ ایسے میں اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا طلوع ہوتا ہے اور اس تقسیم بندی پر خط بطلان کھینچ دیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام نے اعلان کر دیا کہ وہ تسلط پسندی کو تسلیم نہیں کر سکتا اور توانائي و قوت ہونے کی صورت میں بھی کبھی کسی پر اپنا تسلط قائم کرنا پسند نہیں کرے گا۔ نہ تو دیگر اقوام پر تسلط قائم کیا جائے گا اور نہ ہی ملک کے حکام اپنے عوام پر اپنی مرضی مسلط کریں گے۔ یہ نظام تسلط پسندی کا مخالف تو ہے ہی تسلط پسندی کے سامنے جھک جانے کا اور بھی شدت سے مخالف ہے۔ تسلط پسندی کے سامنے جھک جانا تسلط پسندی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ جو قوم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی ہے اور اس کے ذخائراور مستقبل پر اغیار کا قبضہ رہتا ہے در حقیقت تسلط پسندی کو بڑھاوا دیتی ہے اور اپنے ہاتھوں اپنی قبر تیار کرتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے دیکھا جائے تو سامراج اور استحصال، کسی ملک پر ظالمانہ قبضہ در حقیقت ایک قوم کی توہین اور اس کے تشخص کو نابود کرنا ہے۔ جب قوموں پر دوسروں کا تسلط قائم ہو جاتا ہے تو ان کی ثقافت اور ان کی پہچان رفتہ رفتہ مٹتی جاتی ہے۔ ان کی قومی حمیت و غیرت سلب ہو جاتی ہے۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے تسلط پسندی کے معنی کسی قوم کی تقدیر اور مستقبل پر غلبہ حاصل کر لینے کے ہیں۔ جس طرح طاغوتی دور میں امریکیوں اور صیہونیوں نے ہمارے ملک پر غلبہ حاصل کر لیا تھا، قوم حاشئے پر چلی گئي تھی اس قوم کے داخلی امور میں آشکارہ مداخلتیں ہو رہی تھیں۔ تقرریاں ہوتی تھیں سبکدوشیاں ہوتی تھی۔حکومت کے لئے سمت کا تعین کیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم منصوب کئے جاتےتھے وزیر اعظم کو معزول کیا جاتا تھا ۔ وزیروں اور کمانڈروں کی تقرریوں میں بھی اغیار مداخلت کرتے تھے۔ اقتصادی لحاظ سے تسلط پسند کے معنی کسی ملک کے ذخائر کو لوٹنے یا ناقابل استعمال بنا دینے کے ہیں۔ تو یہ ہیں تسلط پسندی۔
اسلامی انقلاب آیا اور اس نے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ تقریبا تیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران اینے نمایاں تاریخی موقف کے ساتھ پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھنے والے سامراجی عناصر کا مقابلہ کر رہا ہے۔ خطے میں امریکا دراہ پھرتا تھا۔ مشرق وسطی امریکی حکام کی ملکیت کے مانند تھا۔ ایران جو مشرق وسطی کا نگینہ اور جغرافیائي مرکز تھا مکمل طور پر ان کے قبضے میں تھا۔ انقلاب نے آکر سب کچھ بدل دیا اسلامی جمہوری نظام، شجاعت کے ساتھ ڈٹ گیا اور حالات تبدیل ہو گئے۔ آج آپ خود مشاہدہ فرما رہے ہیں کہ مشرق وسطی کا علاقہ امریکا کی ناکامیوں اور شکستوں کی نمائش گاہ بن گیا ہے۔ ان برسوں میں اسلامی جمہوری نظام کی ترقی و پیش رفت کو روکنے کے لئے جو کچھ بن پڑا کیا گيا۔ اگر کوئي یہ سمجھتا ہےکہ سامراجی طاقتیں اس نظام کو نقصان پہنچا سکتی تھیں لیکن انہوں نے نہیں پہنچایا تو وہ غلطفہمی میں ہے۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا انہوں نے کیا، اگر کچھ نہیں کر پائی ہیں تو صرف اس لئے کہ وہ ان کے بس سے باہر تھا۔ مسلط کردہ جنگ، خفیہ حملے، اقتصادی پابندیاں، نفسیاتی جنگ، تشہیراتی مہم، ہنگامہ آرائياں غرضیکہ ہر حربہ اسلامی جمہوری نظام کےخلاف آزمایا گیا لیکن اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام اپنی عظیم و با شعور قوم کی حمایت اور پشتپناہی کے ذریعے ڈٹا رہا اور نہ صرف یہ کہ اس نے اپنا دفاع کیا اور خود کو نابودی سے بچا لیا بلکہ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
آج اسلامی انقلاب کا پیغام، سطح پر تو پھیل ہی رہا ہے گہرائیوں میں بھی اس کی جڑیں پیوست ہو چکی ہیں۔ آج ایرانی قوم کو تحسین آمیز اور حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھنے والوں میں صرف ہمسایہ قومیں نہیں ہیں، اسلامی جمہوری نظام کے قائدین اور ہمارے حکام و عہدہ داروں کی عزت و تعظیم کرنے والی قومیں قرب و جوار تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسلامی انقلاب، ملت ایران کی استقامت، اور اصولوں و قدروں کی پابندی کا شہرہ دنیا کے بیشتر خطوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ تو رہی سطح کی وسعت۔ گہرائی کا جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ اسلامی جمہوری نظام نے علم و دانش، سائنس و ٹکنالوجی اور سماجی میدانوں اور خدمات بہم پہنچانے کے سلسلے میں بھی بہت پیش رفت کی ہے۔ گزشتہ انتیس، تیس سالوں میں حکومتوں نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس کے مقابلے میں طاغوتی دور میں اس مدت میں انجام پانے والے کام ہیچ ہیں۔ ملک میں اقتصادی، سیاسی اور سماجی بیداری و شادابی نظر آنے لگی ہے۔ آج ہمارا قومی وقار زباں زد خاص و عام ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں شمار کیا جانے والا ایران آج بہت سے سائنسی میدانوں میں صف اول میں کھڑا ہے۔ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ فلاں شعبے میں ایران دنیا کے آٹھ ملکوں میں، نو ملکوں میں اور دس ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔ بعض شعبوں میں ان ملکوں سے بھی ایران آگے یا ان کے مساوی ہے۔ علمی ترقی کی جو منزلیں طویل عرصے میں طے ہوتی تھیں ایرانی قوم نے اپنے نوجوانوں کی بلند ہمتوں او حوصلوں کے سہارے برق رفتاری سے طے کر لی ہیں۔ ہمارا مستقبل تابناک اور واضح ہے۔ یہ ایرانی قوم کی بڑی ترقی و پیش رفت ہے۔ ہم چوتھے عشرے میں قدم رکھنے جا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے چوتھے عشرے میں ہمیں اپنی زندگی کا بغور جائزہ لینا اور نقائص اور کمیوں کا تعین کرنا چاہئے۔ بہت سی کمیاں ہیں، میں نے قوم کے نام اپنے آج کے پیغام میں عرض کیا ہے کہ مختلف شعبے ایسے ہیں جن میں طاغوتی دور حکومت کی سو سالہ پسماندگی ہمیں وراثت میں ملی اور ہم بہت سے شعبوں میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ آگے بڑھیں اور انسانی معاشرے کی صف اول میں اپنی جگہ بنائیں۔ ہم آگے بڑھ رہے ہیں تو دیگر قومیں بھی پیش رفت و پیش قدمی میں مصروف ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی رفتار اور پیش رفت کی روش کو ایسا بنانا ہوگا کہ ہم ہراول دستے تک جا پہنچیں۔ ورنہ اگر ہم معمولی رفتار سے جسے عموما قومیں اپناتی ہیں، آگے بڑھے تو ہم انہیں مسماندہ منزلوں تک محدود رہیں گے۔ جب ہم اس نئے عشرے اور آئندہ دس برسوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں دو ایسے اہداف نظر آتے ہیں جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ ایک ہے پیش رفت اور دوسرے انصاف و مساوات۔ ہم دنیا کے بعض دیگر ممالک کی ترقی کو اپنے لئے نمونہ نہیں بنا سکتے۔ ہم ایسی ترقی کے خواہاں ہے جو عدل و انصاف پر استوار ہو۔ بہت سے ممالک نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے، ان کی اقتصادی ترقی کی شرح قابل رشک محسوس ہوتی ہے فی کس آمدنی بہت زیادہ دکھائي دیتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فی کس آمدنی معاشرے میں کس طرح تقسیم کی جا رہی ہے؟ یہ وہ نقطہ ہے جس پر دینی اقدار سے بے بہرہ اور سامراجی نسخے پر چلنے والے نظام کوئی توجہ نہیں دیتے لیکن ہم تو اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ہر لحاظ سے، علمی، اقتصادی، سیاسی اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں ہمہ گیر ترقی کرے۔ عوام فلاح و بہبود کی منزل تک پہنچیں البتہ اس کے ساتھ ہی ہماری خواہش یہ ہے کہ ملک کا نظم و نسق عدل و مساوات کی بنیاد پر چلے۔ یہ بہت اہم اور ضروری ہے۔ نہ پیش رفت سے خالی عدل و مساوات پسندیدہ ہے اور ن ہی عدل و مساوات سے خالی پیش رفت قابل ستائش ہے۔ پیش رفت کے بغیر عدل و مساوات کا مطلب ہے غربت و افلاس میں مساوات، ظاہر ہے کہ اسے مقصد و ہدف نہیں بنایا جا سکتا۔ اسی طرح عدل و مساوات سے عاری پیش رفت بھی ہمارا مطلوبہ ہدف نہیں ہے۔ عدل و مساوات پر استوار پیش رفت کا مطلب یہ ہے کہ طبقاتی فاصلہ کم ہو۔ صلاحیت مند اور با استعداد افراد کو مساوی طور پر مواقع فراہم کئے جائیں۔ اگر کوئي سستی اور لاپروائی سے کام لیتا ہے تو قصوروار وہ خود ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کے بعض علاقوں میں سائنسی اور اقتصادی پیش رفت کے مواقع ہی نہیں ہوں اور بعض علاقوں کے لوگ ملک کے تمام وسائل سے بھرپور استفادہ کریں۔ یہ کوئي قابل تعریف بات نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے زمام مملکت سنھالنے والی حکومتوں، پارلیمانوں اور عدلیہ سے قوم کا مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ پورا ملک ترقی کرے۔ دولت و سرمائے کی پیداوار میں ترقی، بارآوری میں ترقی ، قومی عزم و ارادے میں استحکام، قومی اتحاد، مختلف طبقات کے درمیان فاصلوں میں کمی، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی، اخلاقیات و معنویت میں ترقی، مختلف طبقات کے تعلقات میں استحکام، رفاہ عامہ کے وسائل و امکانات میں اضافہ، سماجی نظم و نسق میں بہتری، معاشرے کے تمام افراد میں فرض شناسی کے جذبے کی بیداری، اخلاقی بلندی میں اضافہ، سیاسی آگاہی میں اضافہ، قومی خود اعتمادی میں اضافہ، جیسا کہ میں چند ماہ قبل بھی عرض کر چکا ہوں کہ قوم میں خود اعتمادی لازمی ہے، اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ توانائيوں سے سرشار ہے۔ یعنی ہمارا وہ جذبہ جسے دشمن برسوں سے دباتا آیا تھا۔ تو ان سبھی میدانوں میں ترقی لازمی ہے لیکن یہ ساری ترقیاں عدل و مساوات کے دائرے میں ہونی چاہئیں۔
ممکن ہے کہ بعض ماہرین اور اقتصادی تھنک ٹینک کہیں کہ جناب یہ نہیں ہو سکتا اگر آپ کو اقتصادی ترقی مقصود ہے تو طبقاتی فاصلوں کو قبول کرنا آپ کی مجبوری ہے۔ ایسے ہی مواقع پر میں خلاقیت کی ضرورت پر تاکید کرتا ہوں۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مغرب کا اقتصادی نسخہ ہی انسانی ذہن کی پرواز کی آخری حد ہے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے جو کچھ عرصے کے لئے کارآمد ثابت ہوا ہے اس کا دور ختم ہو جائے گا تو پھر کوئی اور نظریہ سامنے آئے گا۔ تو آئیے اس نئے نظرئے کو تلاش کریں۔ معیار یہ ہونا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خوشحالی آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری عام ہو۔ ہمارے ملک میں دولتمند بہت ہیں یہ لوگ سودمند اور نفع بخش سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اس سے خود ان کو بھی فائدہ ہوگا اور عوام کے حالات میں بھی بہتری آئے گی اس سے اللہ تعالی کی خوشنودی بھی انہیں حاصل ہوگی۔ ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری جن سے ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھے اور قومی مصنوعات میں اضافہ ہو ثواب کا کام اور عبادت ہے۔ یہ میدان کھلا ہوا ہے، اس میں سرمایہ دار افراد سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ سرمایے میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ملکی انتظامیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو فائدہ پہنچے۔ کمزور طبقات کو بھی مواقع حاصل ہوں تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سب کے سب توانگری سے بہرہ مند ہوں۔ ان تیس برسوں میں ہم بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب تک ہمارا دشمن ہم سے مغلوب رہا ہے۔ اب تک ملت ایران کے دشمن یعنی صیہونزم کا عالمی نیٹ ورک اور سامراجی امریکی حکومت، ملت ایران سے ہزیمت اٹھاتے رہے ہیں۔ آج امریکا عالمی رای عامہ کے نزدیک نفرت انگیز ملک ہے۔ان کے نعرے عوام کے درمیان بے رنگ ہوکر رہ گئے ہیں ان پر کان دھرنے والا کوئي نہیں ہے۔ کون یقین کرتا ہے کہ امریکا انسانی حقوق اور جمہوریت کا حامی ہے؟ امریکی انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے تو، گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے ملک کے اندر تین کروڑ بیس لاکھ افراد سے باز پرس کی ہے۔ یہ اعداد و شمار وہ ہیں جن کا خود انہوں نے اعلان کیا ہے۔ عوام کی ٹیلی فونی گفتگو کنٹرول کی گئی۔ قیدخانوں میں ایذائیں دی گئيں، کانگریس میں ایذا رسانی کے خلاف قانون منظور ہوا لیکن موجودہ امریکی صدر نے اسے ویٹو کر دیا۔ یعنی ایذا رسانی ممنوع نہیں ہے! انسانی حقوق کے معنی یہ کیا جانیں؟ دنیا میں امریکا کی تقریبا دو سو خفیہ جیلیں ہیں۔ ان میں بہت سی جیلیں یورپی ممالک میں ہیں۔ وہی یورپ جس نے انسانی حقوق کے نعرے کو اپنا تکیہ کلام بنا رکھا ہے۔ جب بھی کوئی موقع آیا جھٹ پٹ آپ نے انسانی حقوق کی باتیں شروع کر دیں کہ صاحب ہم تو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں؟ اگر کوئی شخص ہولوکاسٹ کے سلسلے میں کوئی سوال اٹھاتا ہے تو اس کے خلاف سب کے سب صف آرا ہو جاتے ہیں۔ ان کی عدالتیں، ان کی حکومتیں، ان کے ذرائع ابلاغ۔ لیکن جب پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو اعتراض کرنا تو دور، گستاخانہ حرکت کی حمایت کی جاتی ہے! یہ انسانی حقوق کی پاسداری ہے؟ یہ انسانیت کا اکرام و تعظیم ہے؟ یہ انسانوں کی عظمت کا اعتراف ہے؟ کہتے ہیں ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن جہاں بھی عوامی رای ان کے مفادات کے خلاف گئی وہاں بڑی بے رحمی سے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے۔ منتخب عوامی حکومت پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اس کی مثال فلسطین کی حماس حکومت ہے۔ کیا یہ عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں ہے؟ اس کی دوسری مثال اسلامی جمہوریہ ایران کو دی جانے والی کھوکھلی اور احمقانہ دھمکیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایسی وسیع البنیاد جمہوریت کا مالک ہے جس کی خطے ہی نہیں دنیا کے بڑے حصے میں کوئي مثال ملنا مشکل ہے۔ تیس سال سے کم عرصے میں اس ملک میں تقریبا تیس انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن وہ ہیں کہ ایران کے خلاف مہمل و بے معنی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ پابندیوں کی دھمکی دی جا رہی ہے ، لشکر کشی کی دھمکی دی جا رہی ہے ! کیا آپ نے پابندیاں عائد نہیں کیں؟ کیا فوجی حملہ نہیں کیا؟ کیا کبھی آپ نے ملت ایران کے ساتھ کوئي اچھا برتاؤ کیا؟ اس قوم کے پاس آج جو کچھ ہے اس کی اپنی استقامت و شجاعت و پائداری کا نتیجہ و ثمر ہے۔ اس کی قوت و طاقت کا سرچشمہ اس کی اپنی ذات ہے۔ دعوے تو انسانی حقوق کی پاسداری کے ہیں اور حمایت کی جا رہی ہے خونخوار و انسان دشمن صیہونی حکومت کی۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ بعض یورپی حکومتیں امریکی حکومت کے انجام سے عبرت کیوں نہیں لیتیں؟ جبکہ وہ دیکھ رہی ہیں کہ یہ حکومت دنیا میں کتنی نفرت انگیز بن گئي ہے۔ بعض حکام تو صیہونی سرمایہ داروں کی خوشامد و چاپلوسی میں مقبوضہ فلسطین جاتے ہیں اور غیر قانونی صیہونی حکومت کی پارلیمان میں کھڑے ہوکر ایران کے خلاف بیان دیتے ہیں، ایران کی مذمت کرتے ہیں تاکہ ان سرمایہ داروں کے دل جیت لیں۔ یہ لوگ عبرت کیوں نہیں لیتے؟ آج اسرائیلی حکومت سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔ اس کا حامی امریکا دنیا بھر کی اقوام کی نظروں میں ذلیل و منفور ہے۔ انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ دنیا کی ساری قومیں اور حکومتیں امریکا اور اس ملک پر مسلط صیہونیوں کے خلاف متحدہ مخاذ قائم کریں، اس میدان میں ملت ایران شجاعت و بلندی ہمتی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔
ہم اپنی قوم کے اس عزم راسخ اور نیت خالص کے ساتھ، اپنی حکومت، عہدہ داروں، تاز دم پارلیمان اور اس کے اراکین کی آمادگی کے ساتھ کہ جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اسلامی اقدار کی سمت رواں دواں ہیں، اس قوم کی حمایت اور بلند حوصلوں کے ساتھ ملک کو اور بھی آگے لے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حکام اور ذمہ دار شخصیات خلاقیت اور ابتکار عمل کو اپنا فریضہ سمجھیں اور کوشش کریں کہ ان تیس برسوں میں جو اہم اقدامات کئے گئے ہیں یا جو منصوبے ادھورے رہ گئے ہیں، بار آور ہوں۔ میں حکومت اور پارلیمان مجلس شورای اسلامی کو تاکید کرتا ہوں کہ بہت پہلے شروع کئے جانے والے منصوبوں کو جو ادھورے رہ گئے ہیں اور بارآوری کی منزل تک نہیں پہنچ سکے ہیں، مکمل کرنے پر کمربستہ ہو جائیں۔ قومی ذخائر کو بڑی باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ استعمال کریں۔ انشاء اللہ ملت ایران، ہمارے نوجوان، ہمارے حکام، روز بروز اس ملک کی ترقی کا مشاہدہ کریں گے۔ دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالی کی توفیقات اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کی دعاؤں کی برکت سے ہماری قوم اس سال کے آخر تک اس سے بہت بہتر ایام اور حالات کا مشاہدہ کرے جو آج اس کے سامنے ہیں۔
خدایا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما۔ ہمیں اسلام و مسلمین اور ملک و قوم کی خدمت میں کامیاب فرما۔ پروردگارا ہمارے بزرگوار امام اور عظیم المرتبت شہدا کے درجات بلند فرما ، ملت ایران کو روز بروز سرفرازی و سربلندی عطا فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ