بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارا یہ سالانہ جلسہ ایک تو آپ سب لوگوں سے ملاقات کا اچھا موقع ہے، دوسرے اس جلسے کے توسط سے میں آپ کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار اور آپ کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرسکتا ہوں۔ میں ثقافتی کونسل کے تمام کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی باتیں سننے کے لئے بھی تیار ہوں اور کچھ باتیں آپ سے کہنا بھی چاہتا ہوں۔ جو باتیں آج کرنا چاہتا ہوں وہ وہی پرانی باتیں ہیں ملک میں اس کونسل اور ثقافت کی اہمیت پر میں نے بارہا تاکید کی ہے۔ آپ نے بھی یہ کہا ہے اور دیگر دوستوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔ لیکن یہ احساس ہورہا ہے کہ ان باتوں کی تکرار ہم سب کے لئے ، میرے کے لئے ، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں ، آپ سب کے لئے جو کونسل کے اراکین ہیں اور ملک کے ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہے ۔
میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، تقریبا دوتین برس قبل ہمارے ایک بڑے اچھے دوست نے جو اس کونسل میں بھی سرگرم عمل تھے ، میرے ساتھ ملک کے عام کلچرل، تربیتی امور اور معاشرے میں پیش آنے والے بعض مسائل کے بارے میں گفتگو کی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سلسلے میں جو کچھ کررہا ہوں بس وہی کرسکتا ہوں یعنی قومی ثقافتی کونسل کی تشکیل اور اس میں اہل فکر و نظر افراد کی شمولیت جو ملک کی تہذیب و تمدن کے بارے میں منصوبہ بندی کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں اس کونسل کی قانونی مدد اور حمایت بھی کرسکتا ہوں۔ میں اتنا کام کرسکتا ہوں یہ میری ذمہ داری ہے لیکن اس کے بعد آپ کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں خدا کے سامنے آپ کی شکایت کروں گا اور خدا سے کہوں گا کہ میں نے اپنی دانست میں بہترین افراد کو اس کونسل میں اکٹھا کیا اب آپ کو بھی خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ جو کچھ کہنا ہے خدا سے کہئے اور اس کی فکر میں رہئے ۔ اب میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کونسل کی ذمہ داری علم و ثقافت کی اہمیت کے پیش نظر نہایت سنگین ہے۔ البتہ یہاں زیادہ اہمیت ثقافت کو حاصل ہے کیونکہ خود تعلیم و تربیت اور متعلقہ موثر پالیسیاں اور حکمت عملی سب کچھ معاشرے کی ثقافت کے تحت آتی ہیں ۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ انقلاب کی جڑیں اس سرزمین کے عوام کے دینی عقائد میں پیوست ہیں انہیں ہیجانات اور سطحی اور مختلف طرح کے ہتکھنڈوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا ۔ ہم ملک میں ایسے نواجوان طبقے کے طلوع کا نظارہ کر رہے ہیں جو باایمان اور انقلاب کے سلسلے میں حساس ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماہرین بھی سامنے آرہے ہیں یہ قابل انکار نہیں ہے۔ یہ طبقے ہماری یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز میں سے نکل رہے ہیں لیکن اگر سطحی بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو وہ بدن کی گہرائیوں میں سرایت کرجائیں گی اگر دانت کی سطح پر موجود کیڑوں کو نہ نکالا جائے تو وہ دانت کو سڑا دیں گے نتیجے میں دانت نکالنا پڑے گا ۔
ہمارے ملک میں یہ نئی صورتحال جو وجود میں آئی ہے اور حکومت اور عوام میں جو ر جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے یہ امید جاگتی ہے کہ غلط فیصلوں کےاثرات کم کرنے کے لئے ماحول مناسب ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں پہلے سے قطعی نظریات قائم کرلیں۔ نہیں یہ مناسب نہیں، بہت سے کام بتدریج انجام پاتے ہیں۔ بہرحال ماحول مناسب ہے، کیونکہ اب ایسے نعرے سننے میں آرہے ہیں جو انقلاب کے بنیادی اہداف سے ہماہنگ ہیں اور عوام نے ان نعروں کا مثبت جواب دیا ہے، میں نے یہ بات بارہا کہی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے جو انتخابات ہوئے تھے ان میں عوام کی اکثریت نے انقلابی اقدار کو ووٹ دیا۔ لوگوں نے جناب رفسنجانی کو ووٹ دئے اور جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے لیکن یہ ووٹ دراصل انقلابی اقدار کو دئے گئے۔ جناب رفسنجانی بھی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں میں ایک ہیں۔ وہ ایک عالم دین ہیں۔ بہت سے لوگوں نے جو انہیں ووٹ دیا ہے در اصل انقلابی اقدار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ تصور نہ کیا جائے کہ سترہ ملین افراد نے جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے ہیں اور دس ملین نے نہیں دئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ان انتخابات میں عوام کی اکثریت نے دین کی پابندی، انقلابی اقدار کی پائیداری اور امام خمینی (رہ) سے محبت کو ثابت کیا ہے اور اسی اساس پر نئي حکومت تشکیل پائي ہے اور یہ حکومت بھی ان ہی نعروں کو دوہرا رہی ہے اور ان پر عمل پیرا ہے۔ عوام بھی خیر مقدم کررہے ہیں اور بھرپور طرح سے ان باتوں کو تسلیم کررہے ہیں۔ یہ ایک بڑے اچھے ماحول کی علامتیں ہیں ہمیں اس ماحول سے استفادہ کرنا چاہئے۔ نئي فضا میں، اس کونسل کی دلجمعی، نشاط ،جدت پسندی اور کام کا جذبہ سب دگنا ہوجانا چاہئے۔ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ہماری اعلی قومی ثقافتی کونسل، جو ملک کے کلچرل مسائل کوحل کرنے کا اہم ترین اور بنیادی مرکز ہے، جمود کا شکار ہوجائے ۔میں اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ ثقافتی چیلنج ہمیشہ رہیں گے اور کوئی ملک ان سے نہیں بچ سکتا ۔
اس کونسل کا سربراہ ملک کا صدر ہے یعنی مجریہ کا سربراہ ہے، اور قانونی مدد کے لئے مقننہ یا پارلیمنٹ کے سربراہ اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی موجود ہیں لہذا کسی چیز کی کمی نہیں ہے ایسے عالم میں اہداف کا حصول یقینی ہونا چاہئے۔ در اصل مقننہ اور مجریہ کےسربراہوں کی رکنیت کا فلسفہ یہی ہے ورنہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک کونسل جو قومی سطح پر منصوبہ سازی کرتی ہے اس میں صدر اور اسپیکر و غیرہ زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔ ایسی کونسل میں مختلف شعبوں کو وقت دینا چاہئے اور مسائل کا جائزہ لینا چاہئے۔ بنابریں صدر، اسپیکر، پلیننگ کمیشن کے سربراہ اور دیگر اعلی حکام جو یہاں موجود ہیں ان کی اس کونسل میں رکنیت کا ہدف یہی ہے کہ اس کونسل کے فیصلے محض کاغذ کی زینت بن کرنہ رہ جائيں بلکہ ان پر عمل درآمد ہو ۔
امام خمینی (رہ) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ثقافتی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے اور میں نے بھی ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجلاس میں کہا تھا کہ ملک کی تہذیب و ثقافت کی ذمہ داری اس کونسل پر ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یہ کونسل تہذیب و ثقافت کا مرکزي ہیڈکوارٹر ہے جبکہ دیگر ذیل کونسلیں یا کمیٹیاں، مثلا ماہرین کی کمیٹیاں اور بہت سے دیگر ادارے آپ کے معاون ہیں، آپ کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ادارے وزارت تعلیم، وزارت ہدایت و ارشاد اور دیگر متعلقہ ادارے ہیں۔ آپ سب نے اسی ذمہ داری کو قبول کیا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم نے یہ باتیں کہی ہوں اور بعد میں ہمیں یہ معلوم ہوا ہو کہ آپ نے انکار کردیا ہے کہ آپ ملک کی تہذیب و ثقافت پر نگرانی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے یا یہ کہ یہ کونسل اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتی، ایسا نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ اجلاس کے بعد حاضرین جلسہ نے گفتگو کی، ان کے نظریات سے مجھے آگاہ کیا گيا سب نے اپنی ذمہ داریاں قبول کیں اور یہی صحیح بھی ہے۔ بہرحال اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تہذیب و ثقافت سے متعلق منصوبے آپ کی میز پر آمادہ رہیں۔ ان پر کافی تبادلۂ خیال ہوچکا ہو۔ کام ہوچکا ہو۔ فیصلے کئے جاچکے ہوں، قومی سطح کی منصوبہ بندی عملدرآمد کے واضح طریقوں کی نشاندہی کے ساتھ آمادہ ہو صرف نیک تمناؤں اور خواہشات کے اظہار پر اکتفا نہ کر لیا گيا ہو۔
مجھے اس اجلاس سے خصوصی دلچسپی ہے کیونکہ یہ کونسل واقعا ایک کلچرل کونسل ہے آپ جانتے ہیں کہ میں نے سات آٹھ سال تک ہر ہفتے اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کی ہے اور صدارت کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہر سال ایک بار یا اس سے زیادہ اس اجلاس میں شرکت کی ہے۔ میں اس اجلاس میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ یہ کونسل ملک کی ثقافت و کلچر کے تعلق سے بنیادی کونسل ہے اور آپ سب ہمیں عزيز ہیں اس کونسل کے بعض اراکین پرانے ہیں جن میں کچھ لوگوں کے ہم نے نام لئے بعض لوگ جیسے ڈاکٹر فاضل اس کونسل کے بڑے بزرگ اراکین میں سے ہیں۔ جب وہ وزارت میں تھے تو ہم ان کے ساتھ کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے، ان کا نام ہم نے نہیں لیا تھا کچھ اور بھی لوگ ہونگے جن کے نام ہم نے نہیں لئے ہیں کچھ لوگ کئی برسوں سے اس کونسل میں ہیں اور کچھ لوگوں کو دو یا تین برس ہوئے ہیں اور کچھ لوگ نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ اس کونسل میں شرکت کررہے ہیں اور چونکہ اس اجلاس میں مخلص افراد شامل ہیں اس لئے میں اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا جو میں نے کہہ دی۔ یہ بڑا سنگین کام ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے۔ یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ اب ممکن ہے کسی کے پاس وقت نہ ہو، کام زیادہ ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ بہرحال ان تجربہ کار افراد سے ذیلی کمیٹیوں اور ماہرین کی کمیٹیوں میں فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔
علم و سائنس کے تعلق سے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یعنی عمل درآمد شروع ہو اور کام کا مطالبہ کیا جائے۔ فرض کریں اگر آپ کو علم و سائنس کے تعلق سے یونیورسٹیوں سے کام ہے تو متعلقہ شخصیت کو ذمہ داری سونپی جائے۔ ٹائم فریم تیار کیا جائے اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ آپ نے اس مدت میں کیا کام کیا ہے اور وہ کونسل کو رپورٹ دیں۔ اگر آپ کو ان کا کام پسند نہیں آیا تو آپ کمیوں کی نشاندہی کریں، اور اگر کام پسند آیا تو پھر اگلا قدم اٹھائیں۔
ثقافتی کونسل کو ایک متحرک، فعال، حساس اور جد و جہد کے عمل میں پیش پیش ہونا چاہئے اور ملک کے تہذیبی اور ثقافتی مسائل پر اس کی گہری نظر رہنی چاہئے۔ اس بات پر میں بنیادی طور پر تاکید کرتا آیا ہوں۔ ہم نے بارہا اسے دوہرایا ہے اور بعض اوقات کچھ چیزوں کو دہرانا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ نماز میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ صبح کی نماز میں آپ سورۂ حمد اور رکوع و سجود کے ذکر بڑھتے ہیں اور یہی چیزيں تمام نمازوں میں دہراتے ہیں۔ ظہر و عصر و مغرب و عشا میں ان کی تکرار کرتے ہیں کیونکہ ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس کی تکرار ہونا ضروری ہے تا کہ انسان کا ذہن ان حقائق سے بخوبی آشنا ہوجائے اور انسان حرکت میں آجائے ۔
میں نے ملک کے ثقافتی مسائل ، تعلیمی امور اور خود کونسل کے مسائل کے بارے میں کچھ نکات لکھے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا ۔
خود کونسل کے بارے میں بتایا گیا کہ متعلقہ لوگوں کو کونسل کے فیصلوں سے مطلع کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں اطلاع رسانی مسلسل اور ہر وقت ہونی چاہئے۔ خاص طور سے یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز کی علمی شخصیتوں کو بر وقت مطلع کیا جانا چاہئے۔ آپ کو اطلاع رسانی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ ملک کی علمی شخصیات یہ احساس کریں کہ وہ ذہنی و فکری لحاظ سے کونسل سے جڑی ہوئی ہیں، اس کام میں ان کا تعاون حاصل کریں۔ یعنی جب ملک کی علمی شخصیتوں کو خواہ یونیورسٹی کی ہوں یا دینی تعلیمی مراکز کی، یہ معلوم ہوتا رہے کہ کونسل کون سے مسائل پر کام کررہی ہے تو وہ خود ان مسائل کے بارے میں سوچیں گے اور کام بھی کریں گے۔ کونسل کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی بات اور نکتہ آئے جس سے کونسل کو فائدہ پہنچے۔ علمی شخصیتیں آپ کو ان مسائل سے آگاہ کریں گي، بنابریں اطلاع رسانی علمی شخصیتوں کے تعاون کا سبب بنے گی۔ اس کے علاوہ ملک کی علمی شخصیتوں کو یہ نہیں لگنا چاہئے کہ آپ لوگ ایک ادارے میں بیٹھے ہیں اور ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ بھی کونسل کے رکن ہیں۔ وہ بھی کونسل کے کاموں میں دخیل ہیں لہذا اطلاع رسانی کا مسئلہ میری نظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
دوسرا نکتہ ملک کے پرانے نظام تعلیم میں اصلاح اور اس کی پھر سے تدوین ہے۔ اس بات کی طرف ڈاکٹر شریعتمداری نے بھی اشارہ کیا۔ البتہ ان کی تاکید دوسرے پہلو پر ہے، متعدد اجلاسوں میں جو ملک کے تعلیمی اور ثقافتی مسائل کے بارے میں یہاں منعقد ہوئے ہیں، خیرخواہ افراد نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کا قدیم نظام تعلیم بدل کر اسے دنیا کے جدید اور ماڈرن نظام تعلیم میں ڈھالنا چاہئے۔ آج دنیا میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے لئے نئے نظام آچکے ہیں۔ اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا جدید نظام لانے کے لئے ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں چھ دھائیوں سے وہی پرانا نظام تعلیم جاری ہے۔ ہمیں اس میں اصلاح و تبدیلیاں کرنا ہونگی یا اسے پوری طرح بدلنا ہوگا یا تدریجا اس میں تبدیلیاں لانی ہونگی ۔ اس سلسلے میں غور و خوض کرنے اور فیصلہ کرنے والے آپ لوگ ہیں۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے ۔ ایک اور مسئلہ ملک میں علمی اور سائنسی سطح پر ترقی کا ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی مشکلات کا حل علمی اور سائنسی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمارے لئے کئی دھائیوں کی پسماندگي کو ختم کرنا ناگزير ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم و سائنس اجارہ داری قائم کر لینے والے ممالک کس طرح زور زبردستی کی بات کررہے ہیں۔ علم وسائنس ہی کے استعمال سے وہ باطل کو حق بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ آپ آج مشاہدہ کررہے ہیں کہ عدالت کی اجازت کے بغیر عوام کی ٹیلیفونی گفتگو کا سنا جانا، گوانتانامو میں قیدیوں کو جسمانی ایذائیں دینا، قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی، حکومتوں اور سکیورٹی سروس کو اعتماد میں لئے بغیر کسی بھی یورپی ملک سے لوگوں کا اغوا، دوسرے ملک پر حملے کرکے اس کےتیل کی دولت اور دیگر اثاثوں کو لوٹنا، لوگوں کا قتل عام یہ سارے کام ایک طاقت انجام دے رہی ہے اور یہ سب کچھ آشاکارہ ہو انجام پا رہا ہےدنیا چیختی چلاتی رہ جاتی ہے اور طاقتیں اپنا کام پورے سکون سے انجام دیتی رہتی ہیں۔کیوں ؟ اس لئے کہ علم و سائنس وہ مالامال ہے جنگی اور سیاسی وسائل سے لیس ہے، اگر ہم چاہیں کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم بھی اس مقام پر پہونچ جائے کہ اپنی حق بات کو بہادری سے دنیا کے سامنے کہہ سکے تو اس کے لئے علم و سائنس درکار ہے ۔ یہ صرف ہمیں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے اسلامی ملکوں کا یہی حال ہے۔ ہمیں علم و سائنس کے میدانوں میں، اسلامی ملکوں کا پیشرو ہونا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری تھی۔ یہ ہم جو امید و ایمان کی نعمت سے مالامال ہیں۔ ہمارے پاس توانائي ہے اور اس کام کے وسائل بھی ہیں۔ ہماری قوم اور ملک با صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس باصلاحیت افرادی قوت ہے۔ ہمیں ایک بڑا قدم اٹھانا ہوگا اور علم و سائنس کے میدانوں میں بنیادی اور ٹھوس کام انجام دینا ہوگا۔ اپنی قوم ہی نہیں تمام مسلم اقوام کو اپنے تجربات اور علمی ترقی سے فائدہ پہنچانا ہمارا نصب العین ہونا چاہئے۔
علمی میدان میں ترقی اور علم کی ترویج آپ کا بنیادی کام ہے۔ میں صدر مملکت سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ کونسل کی مالی مدد کریں تا کہ کونسل کام کرسکے۔ انشاء اللہ آپ ان کی مدد کریں، اس بارے میں سوچیں، تا کہ یہ کونسل اپنا کام کرسکے۔ یہ کام الفاظ اور آرزؤں کی حدود تک محدود ہوکر نہ رہ جائے۔ بعض اوقات کچھ عہدیدار ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں یہ کام کرنا چاہئے وہ کام کرنا چاہئے۔ میں ان سے کہتا ہوں بھائی کام اور ذمہ داری کا تعین میں کروں گا، آپ لوگ یہ بتائیں آپ کیا کررہے ہیں کیا کیا ہے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ محض یہ کہنا کہ یہ کام ہونا چاہئے کافی نہیں ہے۔ اگر ہمارے اجلاس میں صرف یہ طے کر دیا جائے کہ کونسل کو فلاں فلاں کام انجام دینے چاہیں تو یہ کوئي بڑا کارنامہ نہیں ہے ضرورت ہے عملی اقدامات کی۔
ہم اگر دنیا کے ملکوں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے ان کی ترقی ریاضیات، فزکس، کمسٹری اور بائیولوجی کی مرہون منت ہے۔ ہمیں ان علوم میں ترقی کرنی ہوگی ۔گرچہ ڈاکٹر، انجینئر اور بڑی تعداد میں قانونداں فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور ملک کو پانی اور ہوا کی طرح ان مہارتوں کی ضرورت ہے لیکن اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ معاشرے کو مستقل طور پر طبیب، انجینئر قانونداں اور اساتذہ کی ضرورت رہتی ہے لیکن ہماری ضرورتیں یہیں پر ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ اس کے علاوہ ہمیں سائنس دانوں اور محققین کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے مستقبل کی ضمانت دے سکیں۔ انجینیئر آج ہماری ضرورت پوری کر سکتا ہے اور اگر ہمارے پاس ڈاکٹر کافی تعداد میں نہ ہوں تو سابق طاغوتی حکومت کی طرح ہمیں باہر سے ماہرین کو بلانا پڑے گا یہی بات انجینیئروں کے بارے میں بھی صادق آتی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ آج ہم نے سڑکوں، بندوں اور اہم عمارتوں کے سلسلے میں عظیم منصوبے مکمل کئے ہیں۔ خود ہمارے انجینیئروں نے منصوبوں پر کام کیا ہے اور ہمارے ملک میں بہت سے اطباء بھی ہیں جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں۔ ایسے کارنامے کہ ان کے بارے میں ہمارے ملک میں خواب میں بھی نہیں سوچا جاتا تھا، یہ اچھا سرمایہ ہے لیکن اسے خرچ کرنے کے بجائے ہمیں سرمایہ کاری کے پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس سرمائے سے دوسرا عظیم سرمایہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں سائنس و ٹکنالوجی پر خاص توجہ دیں۔ ہیومن سائنسز کے بارے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے دوسروں کے آگے دست نیاز دراز کر رکھا ہے۔ سماجیات ،نفسیات، تاریخ یہاں تک کہ فسلفے اور ادب کے موضوعات پر جو نئے نظریات باہر سے آرہے ہیں۔ ہمیں ان علوم کے سلسلے میں بنیادی کام کرنا ہوگا یہ کوئی نکئی بات نہیں ہے بلکہ برسوں سے کہی جا رہی ہے اب اس پر عمل ہونا چاہئے، یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آپ ہی لوگوں پر عائد ہوتی ۔ ایک اور مسئلہ ان موضوعات میں طلبہ کا داخلہ اور فارغ التحصیل ہونا ہے ۔ طلباء کا داخلہ لیتے وقت
یہ جائیزہ لینا ضروری ہے کہ کون کس موضوع کا انتخاب کررہا ہے اور یونیورسٹیوں سے کون سے موضوعات میں طلباء فارغ التحصیل ہونے چاہئیں اور کن امور کے ماہرین کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ضرورت عارضی ضرورت بھی ہوسکتی ہے اور مستقل ضرورت بھی ہوسکتی ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قدم اٹھایا جائے۔ ایک اور نکتہ دانشوروں کے فاونڈیشن کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ فاونڈیشن ڈاکٹر عارف کی ہمت سے قائم ہوا اس کا منشور لکھا گیا اور دیگر بہت سے کام ہوئے۔ ہمارے پاس بھی یہ ساری چیزيں بھیجی گئیں کہ ہم بھی اپنی رای دیں۔ میں نے جو باتیں ملک کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں ابتدا میں عرض کیں ان کے تناظر میں جب میں دانشوروں کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کا جائیزہ لینا چاہتا ہوں تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال دو تین بار ممتاز طلبہ اور عالمی علمی مقابلوں میں انعام پانے والے مجھ سے ملاقات کرتے ہیں، میں بھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کا موقع دیتا ہوں۔ مجموعی طور پر ان لوگوں کی باتوں سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ دانشوروں کے لئے عملا کچھ نہیں کیا گيا ہے۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ دانشوروں کے لئے سنجیدگي سے کام کیا جائے، ایک کام یہ ہوسکتا ہے کہ دانشوروں کو زیادہ مواقع دئے جائيں۔ یہ کام اسی فاونڈیشن میں ہونا چاہئے۔ دوسرا کام دانشوروں کا پتہ لگا کر ان کے صحیح اعداد و شمار تیار کرکے ان کے امور کو منظم کرنا ہے تا کہ ملک کی ترقی کے لئے ان کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکے۔ اس وقت ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جہاں نوجوان سائنس دان اور دانشور اچھا خاصہ کام کرسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ کس کو کون سی جگہ پر بٹھانا ہے۔ وہ منصوبہ جو ڈاکٹر احمدی نژاد کے ذہن میں تھا یعنی وزارتوں میں جوانوں کی خدمات حاصل کرنے کا پتہ نہیں اس میں کتنی پیشرفت ہوئي ہے البتہ یہ ایک بڑا اچھا منصوبہ ہے اور تمام شرایط کا خیال رکھتے ہوئے لاگو ہونا چاہئے۔ بہرحال جو لوگ اس منصوبے پر عمل درآمد میں مدد کرسکتے ہیں خود سائنس داں اور دانشور ہیں۔ ہمیں کوشش کرکے اپنے دانشوروں کو تلاش کرنا ہوگا اور ان کے امور منظم کرنے ہونگے۔ ہمارے لئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کون سا آدمی کس کام کے لئے مناسب ہے۔ یہ ان کاموں میں ہے جو دانشوروں کے فاونڈیشن میں انجام پانا چاہئے۔ اس کے بعد کا مسئلہ دانشوروں اور سائنس دانوں کو تحقیقات میں در پیش مسائل کا حل کیاجانا ہے، اس امر پر دانشوروں کے فاؤنڈیشن کے منصوبے میں بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح دانشوروں کی ذاتی ضرورتیں بھی پوری کی جانی چاہئیں، اس طرح دانشوروں کی ترغیب ہوگی اور انہیں دوسرے ملکوں میں پناہ لینے سے روکا جا سکے گا۔ یہ بار بار سننے میں آتا ہے کہ ہمارے دانشور چلے گئے اور واپس نہیں آتے، یا چلے گئے اور پھر آگئے البتہ اس میں ذرا مبالغے سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ میں نے جو باتیں کہیں ہیں ان کے ذریعے ہی دانشوروں کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں ان کی دلچسپی کے اسباب فراہم ہونے چاہئیں۔ البتہ ان کاموں میں یونیورسٹی کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور میں نے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے اور اب بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں خیال رکھیں ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ امتیازي سلوک کیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے تکمیلی کورس، ڈاکٹریٹ اور اسکالرشپ دینے میں ہرگز امتیازی سلوک نہ ہو۔ اگر ہمارے جوان سائنس دان یہ احساس کریں کہ ملک میں ان کے علم و دانش اور ان مہارتوں کی قدر نہیں کی جا رہی ہے تو اس سے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے، میں اس چیز کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔
ایک بات ذیلی کمیٹیوں کے بارے میں بھی کہنا چاہتا ہوں، مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ بعض ذیلی کمیٹیاں اچھا کام کررہی ہیں مثال کے طور پر خواتین کی کمیٹی اور بعض کم کام کررہی ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ذیلی کمیٹیوں کو بھر پور طرح سے فعال بنائیں۔ ان کمیٹیوں میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو زیادہ وقت کمیٹیوں کو دے سکیں۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی کی رپورٹ تیار کی جائے۔ ان رپورٹوں سے استفادہ کیا جائے۔ یہ رپورٹیں قومی کونسل کے لئے مفید ثابت ہوتی ہیں۔
امید کہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق عنایت کرے گا اور اس سنگین ذمہ داری کو نبھانے میں آپ کی مدد کرے گا یہ مبارک ذمہ داری ہے ، خدا آپ کے ان کاموں میں برکت دے اور آپ بخوبی عمل کرسکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ