بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد لللہ رب العالمین والصلاۃ و والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
میں خدا وند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے نئے سال کے پہلے دن یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ جیسے با ایمان، خدا پرست، اور اہل بیت پیغمبر سے عقیدت رکھنے والے بھائي بہنوں کے ساتھ، فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ سب سے پہلے تو میں اپنے امام ہشتم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انشاء اللہ جذبہ شوق سے سرشار آپ کے دل بھی اس عظیم بارگاہ میں فیوض و نور الہی کے مستحق قرار پائيں گے۔
حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے
اس اجتماع میں جو شہر مشہد کے معزز عوام اور ديگر شہروں سے آنے والے زائروں سے سال نو کے موقع پر منعقد ہورہا ہے، کچھ ایسے موضوعات پر روشنی ڈالنی ہے جو ملک اور قوم و ملت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس پیغام پر بھی روشنی ڈالنی ہے جو سال نو کی مناسبت سے ایرانی قوم کی خدمت میں پیش کیا گيا اور اسی طرح دو دیگر موضوعات پر جن میں ایک مجوزہ صدارتی انتخابات ہیں اور دوسرے دشمنوں کی سازشوں اور چالوں کو نقش بر آب کرنا ہے جو وہ ہماری قوم کے خلاف آزما رہے ہیں۔
جہاں تک پیغام کا سوال ہے تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام شعبوں میں اور ہر اس میدان میں جو ایرانی قوم کے شایان شان ہے پیش رفت و ترقی کے لئے ہماری قوم کو یکجہتی اور عمومی تعاون و شراکت کی ضرورت ہے۔ ملک، عوام کا ہے مستقبل ایرانی قوم کی ملکیت ہے۔ حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے، لہذا اس سال کو قومی یکجہتی و عوامی مشارکت کا سال قرار دیا جانا تمام امور میں قوم کے اہم ترین مسائل کی جانب اشارہ ہے، یعنی تعاون، بھائی چارہ، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ، دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور اس سمت میں قدم بڑھانا جو قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے لازم ہے۔
حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو
ہر سال کو کسی عنوان سے منسوب کرنا اور ہر سال کے لئے کسی مخصوص نصب العین کا تعین اور اسی ساتھ نئے سال کا آغاز، محض رسم کی ادائگی نہیں ہے، البتہ ناموں کی اہمیت نہیں ہوتی اہمیت ان کے مفاہیم کی ہوتی ہے لیکن سال کو منسوب کرنے کا یہ سلسلہ ہمیں، ہماری قوم کو اور حکام کو یہ بتاتا ہے کہ ہمارے اہداف کیا ہیں ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ علوی کردار کا سال، ایرانی قوم کے عظیم مقصد اور حکام و عہدیداران کے عظیم فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ خدمت کا سال ہمیں اس عملی خاکے کی جانب متوجہ کرتا ہے جس پر ہم سب کو عمل پیرا ہونا چاہئے۔ یہ اہداف در حقیقت ہم عہدیداران سے عوام کے مطالبات ہیں۔ اگرسماجی انصاف کی بات ہوتی ہے یا نئے علوم کی تخلیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی عوامی تحریک کا تذکرہ ہوتا ہے یا آزاد فکر و بیان کی بات ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اور حکام یہ احساس کریں کہ اس شعبے میں ان کے کچھ فرائض ہیں۔ ملک کو ان اہداف کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ اہداف پورے طور پر عملی جامہ نہیں پہن سکے تاہم اس سمت میں کارہای نمایاں انجام پائے۔ ہر نیا سال، گزشتہ سال کے تجربات کے سہارے قوم اور حکومت کو بلند اہداف کی جانب لے جانے میں مددگار ثابت ہونا چاہئے اور ہمارے قدموں میں مزید استحکام و ثبات کا باعث بننا چاہئے۔
ہماری قوم اور ملک کی نگاہیں مسلسل علوی کردار اور سماجی انصاف کے قیام پر مرکوز رہی ہیں، اور ہونا بھی یہی چاہئے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری قوم کو اس بات کی ضرورت ہے کہ حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو ۔ ہماری قوم کی ضرورت یہ ہے کہ حکام اسے جواب دینے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہیں۔ عوام میں سوال اٹھانے کا جذبہ بیدار رہنا چاہئے۔ اہداف محض نعرے نہیں ہیں بلکہ یہ ہم عہدیداروں کے فرائض کے مختلف پہلوؤں اور اسی طرح عوامی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
تخریبی اقدامات، بد گمانیاں اور ناامیدی پیدا کرنے کے بجائے سعی و کوشش اور عوامی خدمت کے سلسلے میں مقابلہ ہونا چاہئے۔ بعض افراد ہیں جو عوام کے سلسلے میں اپنے فرائض کا دار و مدار قوم کی ضروریات اور اعلی اہداف کو قرار نہیں دیتے۔ ہماری عظیم، شجاع اور مومن قوم اسی وقت اپنے عظیم اہداف تک رسائي حاصل کر سکتی ہے جب اس میں نامیدی اور مایوسی پھیلانے کے بجائے نوجوانوں کے سامنے تابناک مستقبل کا خاکہ کھینچا جائے اور امید کی کرن پیدا کی جائے۔ حکام کے درمیان بد گمانی اور غلط فہمی کے بجائے، اخوت، اتحاد ، مساوات اور تعاون کو فروغ دیا جائے اور پھر حکام یہ جذبہ عوام میں پھیلائیں۔
ہماری قوم اسی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ سکتی ہے اور اپنے راستے کی گوناگوں مشکلات کو دور کر سکتی ہے کہ جب حکام کے درمیان ایمان و جہاد کو اقدار کا درجہ حاصل ہو جائےگا۔ اس جہاد سے مراد علمی جہاد ہے،سماجی انصاف کا جہاد ہے ، اقتصادی جہاد ہے اور انتظامی صلاحیتوں کا جہاد ہے۔ ملک کے عہدیداران اور ذمہ داران اور پھر ان کے بعد عوام جب ان اہداف پر توجہ دیں گے تو اعلی مقاصد کی جانب ملک پوری رفتار سے آگے بڑھے گا۔ اس سال خاص طور پر قومی یکجہتی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو صدارتی انتخابات کے لئے کہ جو ہمارے سامنے ہیں اور دوسرے اس لئے کہ ایرانی قوم اپنی یکجہتی اور وسیع مشارکت سے ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائے گي۔ صدارتی انتخابات میں تین مہینے سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں جو اس مدت میں عوام کے سامنے پیش کی جائيں گي۔
ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے
آج میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ صدارتی انتخابات میں کھلی آنکھوں کے ساتھ شرکت اور عوام کے دانشمندانہ انتخاب، ملک کے مستقبل میں عوامی مشارکت اور تعاون کے مترادف ہے۔ ہمارا ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے۔ گذشتہ چھبیس سال کے عرصے میں دشمن اور موقع پرست عناصر وطن عزیز کو نقصان اور گزند پہنچانے میں اس لئے ناکام رہے ہیں کہ مختلف میدانوں میں عوام بھرپور انداز میں موجود رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے جشن یا یوم قدس کے جلوسوں میں آپ کی وسیع شرکت اسی طرح گزشتہ برسوں کے انتخابات میں آپ کی فعالیت ملک کی سلامتی کی ضامن بن گئی۔ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں شرکت در اصل ملک کی قیادت میں عوامی کردار کا مقام رکھتی ہے اور ساتھ ہی بڑے بڑے دشمنوں کی طولانی مدت سازشیں بھی اس سے نقش بر آب ہو جاتی ہے۔
انتخابات حق بھی اور فریضہ بھی
دوسری بات یہ کہ انتخابات قوم کا حق بھی ہے اور ایک قومی فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے سامراجی طاقتوں کے مسلط کردہ نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا اور ملک کے نظام میں عوام کے کردار کو نمایاں کیا، تو یہ ہر فرد کا حق ہے کہ انتخاب کرے اور ملک کے سربراہ کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری جانب یہ ایک فریضہ بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس شراکت سے سماج میں جوش و ولولہ اور ذمہ داری کا احساس ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور دشمن مایوسی کے ساتھ عوامی جوش و خروش اور وسیع شرکت کو دیکھتے ہیں۔ لہذا انتخابات نہ تو صرف فریضہ ہے اور نہ ہی صرف حق بلکہ حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔
ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو رکاوٹوں کو دور کرے
ایک اور بات یہ ہے کہ اس سال کے صدارتی انتخابات دیگر صدارتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال سے ملک کا چوتھا ترقیاتی پروگرام شروع ہو رہا ہے۔ بیس سالہ منصوبے پر عملدرآمد کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اس وقت ہمارا ملک اللہ کے فضل و کرم سے اس پوزیشن میں پہنچ گیا ہے کہ ایران کی آئندہ بیس سالوں کی منصوبہ بندی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ بیس سالہ منصوبہ پانچ پانچ سالوں کے چار پروگراموں پر مشتمل ہے اور پہلا پروگرام اسی سال شروع ہو رہا ہے۔ منصوبے کے آغاز کے وقت ایک با صلاحیت اور جوش و جذبے سے سرشار مینیجمنٹ کی ضرورتی ہے جو اس منصوبے کی بنیادوں کو مضبوطی عطا کرے اور پوری کامیابی کے ساتھ اس کو عملی جامہ پہنائے۔ انتخابات کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ قوم کو ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو منصوبے پر عملدرآمد کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کر سکتا ہو۔ جیسے بلڈوزر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے راستہ ہموار کرتا ہے۔
ایک قابل، کام سے دلچسپی رکھنے والا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والا انسان بیس سالہ پروگرام کے تحت، جو اس سال سے شروع ہو رہا ہے، مطلوبہ اہداف کی جانب پوری خود اعتمادی اور توانائي کے ساتھ قدم بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات میں قوم جس شخص کی حمایت کرے گی وہ اس نئي مہم کا آغاز کرے گا اور ملک کو ایک نئے دور میں پہنچائےگا ملک کو ان اہداف کی سمت گامزن کرے گا جو ایرانی قوم کا نصب العین ہے۔ گزشتہ برسوں میں جنگ کے بعد ( 80 ۔ 1988 ) سے اب تک ملک میں بہت وسیع پیمانے پر کام ہوا، جو بھی اس بات کا انکار کرے در حقیقت نا انصافی سے کام لے رہا ہے۔ ملک کی بنیادی تنصیبات کی تعمیر، ترقیاتی کام، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی الغرض ہر شعبے میں اہم پیش رفت ہوئي ہے۔
آج جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس مدت میں جو عمارت تیار کی گئی ہے وہ اب عوام کی زندگی کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے اثرات دکھائے ، اس بند کے پیچھے جو عظیم آبی ذخیرہ ہے وہ عوامی زندگی کی کھیتی کو سیراب کرے۔ اور اس طولانی سعی و کوشش کے ثمرات عوامی زندگی اور ان کے دسترخوان پر نظر آئیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے اس کے لئے بہت سی رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے با صلاحیت شخص کا انتخاب عوام کا اس سال کا سب سے اہم کام ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صدر کا ہمارے نظام میں بڑا اہم مقام ہے۔ قانونی اور آئینی لحاظ سے اسے بڑے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ ملک کا پورا بجٹ صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ مختلف سطح کے عہدیداران اور اداروں کے سربراہ ،صدر کی ما تحتی میں کام کرتے ہیں۔ اس بنا پر صدر کے انتخاب کے معنی ایک ایسے سربراہ کے انتخاب کے ہیں کہ جو ملک کے بجٹ وسائل اور انتظامی امور میں اہم ترین کردار کا حامل ہو اور عوامی زندگی کے ہر شعبے میں ان وسائل کو اس انداز سے تقسیم کرے کہ اس عظیم ثروت کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل ہو۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کے پاس گذشتہ سالوں کی سعی پیہم کے نتیجے میں وسائل کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ آئندہ ملک چلانے والی انتظامیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس ثروت میں اضافہ کرے اور اسے صحیح طور پر بروئے کار لائے ، بد عنوانی کے خلاف حقیقی جد وجہد کرے۔ اگر ہماری قوم معاشرے میں بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ اسلامی انقلاب نے عوام کو کیا کیا عطا کیا ہے۔ اور کس طرح عوامی ضروریات کی تکمیل پر قادر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر جن کی جانب میں نے اشارہ کیا آئندہ انتخابات بہت اہم ہیں۔
عوام کو چاہئے کہ بہت ہوشیاری اور دانشمندی کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں اور مختلف امیدواروں میں سے اس شخص کا انتخاب کریں جو عوام کے نزدیک ان معیاروں پر پورا اترے۔ یہ ایک بڑا کام ہے اور یہ ملک کے عوام کا کام ہے۔ عوام کو چاہئے کہ اس میدان میں کھلی آنکھوں کے ساتھ قدم رکھیں۔ انشاء اللہ عوام کو الہی مدد حاصل ہوگی اور انہیں ہدایت ملے گي جس کی بنیاد پر وہ شجاع، مخلص ، عوام دوستی کے جذبے سے سرشار، انقلابی اقدار کے پابند، عوامی قوت پر اعتماد اور عوامی حقوق کا احترام کرنے والے شخص کا انتخاب کریں گے ۔ اس سال یہ سب سے اہم عوامی تعاون اور مشارکت ہے۔ ہر شعبے میں عوامی شراکت ضروری ہے اور یہ بھی ایسا ہی ایک موقع ہے۔
ابھی سے آپ ستائیس خرداد کی تاریخ کی تیاری میں رہیں جو انتخابات کی تاریخ ہے۔ابھی سے آپ تحقیق کا کام شروع کر دیں۔ ابھی حالانکہ با ضابطہ طور پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گيا ہے، اس کا اعلان مقررہ وقت پر ہوگا۔ ملک کے دور دراز کے کسی علاقے میں یا کہیں بھی رہنے والے ہر شخص کا یہ حق ہے کہ انتخابات میں اپنی مرضی کا اظہار کرے۔ دور دراز کے علاقے میں رہنے والے شخص کا حق دارالحکومت میں رہنے والے شخص کے حق کے برابر ہے، لہذا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے۔ انہیں افراد کے مجموعے سے ایرانی قوم کا عزم محکم اور ٹھوس ارادہ تشکیل پائے گا اور سامنے آئے گا۔ یہ وہی چیز ہے جو ملک کی ترقی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اہم ہے۔

دشمنوں کی دھمکیاں فرائض سے توجہ نہ ہٹانے پائیں
اب رہا دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کرنے کا سوال، تو یہ بھی عوامی شراکت اور قومی یکجہتی کی دین ہے کہ اس میں اب تک کامیابی حاصل ہوئي ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا ہیں۔
دشمن کا خطرہ ایک فطری چیز ہے۔ جو قوم بھی خود مختار رہنا چاہتی ہے اور عالمی طاقتوں کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اسے ان طاقتوں کی دھمکیوں اور ناراضگي کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہماری قوم ان دھمکیوں کی عادی ہو چکی ہے۔ چھبیس سال سے سامراجی طاقتیں امریکی قیادت میں ایرانی قوم سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کر رہی ہیں اور بار بار ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔ ہماری قوم کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہماری قوم دشمن کی ان دھمکیوں کو کوئي وقعت نہ دیتے ہوئے اپنے راستے پر گامزن ہے ،آج اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب سے تشکیل پانے والی حکومت کی توانائياں اور طاقت اس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں جب تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ آج ہماری قوم زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔ سائنسی، اقتصادی اور دفاعی اسی طرح دیگر شعبوں میں ہماری صلاحیت بہت بڑھ چکی ہے۔ دشمنوں کے خطرات بھی موجود ہیں۔
ملک کے حکام کے لئے میری سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیاں سن کر اپنی توجہ اپنے فرائض سے نہ ہٹنے دیں، اپنا کام جاری رکھیں۔ قوم اور حکومت کو چاہئے کہ ہر وقت آمادہ رہے ایک لمحے کے لئے بھی بیرونی خطرات سے غافل نہ ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دشمنوں کی دھمکیوں سے ملک کے حکام کے کام میں کوئي خلل آئے اور فرائض کی انجام دہی میں ان سے کوئي کوتاہی ہو۔
آج امریکی حکام جو شور شرابا کر رہے ہیں وہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات سے متعلق ہے۔ امریکی صدر اور دیگر حکام نے بارہا ایران میں بنائے جانے والے ایٹمی اسلحے کے خطرات کی بات کی ہے۔ خود ان کو بخوبی معلوم ہے کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ان کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ایران نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایرانی قوم کی پیش رفت کے مخالف ہیں، ورنہ انہیں بخوبی آگاہی ہے کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس حساس علاقے میں جہاں دنیا کے تیل کے ذخائر کا سب سے بڑا حصہ موجود ہے اور جسے دنیا کے حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، یعنی مشرق وسطی میں کوئي ایسا ملک ہو جو خود مختاری کے ساتھ اسلام کے پرچم تلے آگے بڑھے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہو۔ مغربی ممالک کی دلی تمنا یہی ہے کہ ایران سمیت خطے کے ممالک ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایٹمی بجلی گھر رکھنے سے کون روکتا ہے، ہاں یہ ہے کہ آپ ایٹمی ایندھن ہم سے حاصل کریں۔
میں نے چند سال قبل مشہد مقدس میں نوروز کے موقع پر کہا تھا کہ وہ تیل جو آج ہمارا ملک اور مشرق وسطی کا خطہ پیدا کر رہا ہے، یورپیوں اور مغربی ممالک کے پاس ہوتا اور ہمیں ان سے یہ تیل خریدنا ہوتا تو وہ یہ تیل اس قیمت سے کہیں زیادہ ہمیں فروخت کرتے جس قیمت پر وہ آج ہم سے خرید رہے ہیں، وہ ہمیں تیل دینے کو تیار نہ ہوتے۔ وہ ہر اس چیز سے تشویش میں مبتلا ہیں جو اس خطے کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے اور خود مختار بنا دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افرادی قوت اور زمین دوز ذخائر سے مالامال یہ خطہ ہمیشہ ان کے سامنے دست نیاز دراز رکھے۔ اسی لئے وہ ہماری ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں ہمارے نوجوانوں کے سائنسداں بننے کے مخالف ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ اس پر بھی احتجاج کریں کہ ہمارے پاس موجود تیل کے ذخائر کیوں موجود ہیں۔ وہ لوگ ایک زمانے میں خطے کے ممالک کے حکام کی نااہلی کا غلط فائدہ اٹھایا کرتے تھے، وہ تیل کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ سالوں تک ایران کے تیل کے ذخائر برطانیہ کے اختیار میں تھے۔ اس وقت مقامی حکومت کو تھوڑا بہت دے دلا کر خوش کر دیتے تھے اور سارا کا سارا تیل اٹھا لے جاتے تھے، بعد میں امریکہ اور دیگر ممالک بھی ٹوٹ پڑے اور بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہو گيا۔ وہ ایران سے یہی چاہتے ہیں، اس ایران سے جو ایٹمی بجلی گھر چلانے اس کا ایندھن خود تیار کرنے اور یورپی ممالک کے آگے دست نیاز دراز نہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے
ایٹمی توانائي ایک قیمتی ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے اور عوامی زندگي کے لئے بہت اہم بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے بجلی گھر ایٹمی توانائی سے چلتے ہیں، بجلی کی پیداوار ایٹمی ٹیکنالوجی کی ایک افادیت ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہر ملک کے لئے بڑے فخر کی بات بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کو یہ افتخار حاصل نہ ہو ۔سارا جھگڑا اسی بات پر ہے۔ البتہ وہ جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ ایران ایٹم بم بنا لے گا۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ ایٹمی اسلحہ ہمارے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ایرانی قوم کو بھی اس کا علم ہونا چاہئے نوجوانوں کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے۔
ایٹمی توانائي کے سلسلے میں مغربی بالخصوص امریکی تشہیراتی یلغار میں جو بات کہی جا رہی ہے اس کا ہدف یہ ہے کہ ایرانی قوم کو ایک اہم ترین پیش رفت اور ترقی سے محروم کر دیا جائے۔ یہ تو ہمارا حق ہے ہم کیوں محروم رہیں؟ بےشک یہ ایرانی قوم کا مسلمہ حق ہے۔ یہ علم بھی ہے ٹیکنالوجی بھی اور ماحولیات کے حفاظت کا اقدام بھی ہے۔ اس کے طبی فوائد بھی ہیں یہ ملک کے نوجوانوں کی ترقی کی ضمانت بھی ہے۔ تو یہ طے ہے کہ ہماری قوم کبھی بھی اس سے دست بردار نہیں ہوگي۔
سراپا نفاق جھوٹے امریکی سیاستداں اپنے مذموم عزائم کو پردہ راز میں رکھنے کے لئے ایران پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایٹمی وارہیڈ بنا رہا ہے تاکہ اسے اپنے بیلسٹک میزائلوں پر نصب کرے اور پھر اسے فائر کر دے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں فائر کر دے؟ ہم تو اپنے دشمنوں سے یہ برتاؤ نہیں کرتے، بے گناہ انسانوں کو نابود کر دینے کے لئے ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے۔ تاریخ میں صرف ایک امریکی حکومت ہی ہے جس نے یہ انسانیت سوز جرم انجام دیا ہے۔ مغربی ممالک نے ہی کیمیاوی ہتھیار بنائے، انہیں استعمال کیا اور آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران یہ ہتھیار بعثی حکومت اور صدامیوں کو دیئے گئے اور پھر ان اسلحوں کے استعمال سے جو انسانی المیہ رونما ہوا اس پر انہوں نے اپنے منہ پر تالے لگا لئے، انہوں نے صدام کی مدد کی۔ اسلام نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہم علم کا استعمال پیش رفت کے لئے کرتے ہیں، امریکی تو صرف بہانے تراشتے رہتے ہیں۔
البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ ملت ایران اس بات پر توجہ رکھے کہ بعض افراد جو یہ بے سر پیر کی بات کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی ٹکنالوجی کو لے کر کیوں بیٹھ گئے ہیں وہ در حقیقت قوم کے دشمنوں کے حق میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں بھی یہ جان لینا چاہئے کہ اس وقت ایران کے خلاف ہنگامہ آرائي کے لئے امریکہ کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ایک بہانہ ہے۔ تسلط پسند طاقتیں اپنی شان اسی میں سمجھتی ہیں کہ دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں، ایسی حکومتوں کا کام دھونس دھمکی سے ہی چلتا ہے۔ دنیا کی بہت سی قومیں اور حکومتیں بسا اوقات ان دھمکیوں سے متاثر بھی ہو جاتی ہیں نتیجتا ان طاقتوں کو ان پر مزید تسلط حاصل ہو جاتاہے۔ ان کا کام دھمکیاں دینا ہے اور آج ان دھمکیوں کے لئے ان کا بہانہ ایٹمی ٹیکنالوجی ہے، اگر ایٹمی ٹیکنالوجی نہ ہو تو وہ کوئي بہانہ تلاش کر لیں گے۔
عراق ، افغانستان ، امریکہ کے اندر واقع جیلیں امریکی جرائم کے گواہ
یہ وہ حکومتیں ہیں جو دہشت گردوں کی پرورش کرتی ہیں لیکن دہشت گردی کا الزام اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلمانوں پر لگاتی ہیں۔ امریکی فوجی اور سکیورٹی اہل کار عراق کے مقبوضہ علاقوں اور ابو غریب جیل میں بد ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا ایک نمونہ ابو غریب کے واقعات ہیں جبکہ دوسری لاتعداد مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ انسانوں کی توہین کرتے ہیں انہیں روند ڈالتے ہیں۔ عراق ہو، افغانستان ہو، امریکہ کے اندر واقع جیلیں ہوں یا پھر گوانتانامو، سب امریکی جرائم کے گواہ ہیں۔ اور عالم یہ ہے کہ دوسروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، دنیا کی کوئی بھی حکومت امریکی حکومت کے طرح انسانی حقوق کو پامال نہیں کرتی۔ میں حالیہ چند سالوں کے اعداد و شمار اور واقعات کا تجزیہ کرکے جو ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شائد ہی دنیا میں کوئي حکومت ہوگي جس نے امریکی حکومت کے جتنا انسانی حقوق کو پامال کیا ہو۔ یہ (بش) حکومت خود امریکہ کے اندر بھی انسانی حقوق کا مذاق اڑا رہی ہے۔ آج بھی ماضی کی طرح ہی سیاہ فام امریکی ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب امریکہ میں جارج بش سینیئر کی حکومت تھی، بعض امریکی ریاستوں میں سیاہ فام افراد کے خلاف جاری مظالم کے خلاف شورش ہوئي جسے پولس قابو میں نہیں کر سکی تو فوج کو بلایا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے دورے میں داؤدیان فرقے کے اسی سے زائد افراد جو امریکی حکومت کی پالیسیوں کے مخالف عیسائي تھے، ایک گھر میں جمع تھے، وہ لوگ پولس کے انتباہ پر باہر نہیں نکلے تو انہیں زندہ جلا دیا گيا۔ لیکن ان حکام کی پیشانی پر بل نہ پڑے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا یہ امریکی انداز ہے۔ موجودہ صدر(بش) کے زمانے میں شمالی افغانستان میں جب افغانستان پر قبضے کی کاروائي جاری تھی، عوام پر جو بم برسائے گئے اور شہروں میں جو مجرمانہ کاروائیاں ہوئیں ان کے علاوہ ایک جیل میں بند بڑی تعداد میں قیدیوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گيا۔ یہ خبر دنیا میں پھیلی لیکن ذرائع ابلاغ کے شعبے پر مسلط سامراجی طاقتوں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک عوام کے سامنے نہیں رہنے دیا، فوری طرح پر اس خبر کو دبا دیا گيا۔ لیکن یہی امریکی حکام ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ فلاں قیدی کی توہین کر دی گئي۔ مثال کے طور اگر کسی قیدی کو اچھی چپلیں نہیں دی گئيں تو کہا جائے گا کہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہو گئی۔ امریکہ میں جس انداز سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں امریکی جس طرح انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں اس کی کوئي اور مثال کہیں نہیں ملتی ، لیکن مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ایران کو اور ایران کےاسلامی نظام کو۔ انسانی حقوق کا پرچم ان لوگوں نے اٹھا رکھا ہے جو خود انسانی حقوق کو پامال کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی دھمکیاں ایٹمی مسئلے تک ہی محدود نہیں ہیں ایرانی حکام اور قوم کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیوں پر ہرگز توجہ نہ کریں اپنے راستے پر گامزن رہیں اپنا کام آگے بڑھاتے رہیں۔ البتہ متعلقہ حکام کو ہوشیار بھی رہنا چاہئے اور ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے
یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم امریکی حکام کی مانند جنگ پسند نہیں ہیں۔ وہ جنگ پسند ہیں، لیکن جب ملک اور قوم کے مفادات کی حفاظت کی بات آ جائے گي تو ہم جان پر کھیل جائیں گے۔ قربانی صرف عوام نہیں دیں گے حکام بھی اس میں شامل ہوں گے۔ جب گيارہ ستمبر کا واقعہ ہوا اور نیویارک میں جڑواں ٹاوروں کو نشانہ بنایا گيا تو دو تین دنوں تک کسی اعلی رتبہ امریکی عہدیدار کا کہیں کوئي پتہ نہیں تھا۔ ہم ایسے نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم کے لئے امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے اور جان کی بازی لگا دینے کے لئے آگے آئیں گے۔
خطرات کو پے اثر بنا دینے کا ایرانی قوم کا سب سے موثر حربہ قومی یکجہتی اور اخوت ہے۔ دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایرانی قوم کو ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے، آپ عوام کا اتحاد و یکجہتی اور ایمان و دین کی رسی سے آپ کا مضبوط رشتہ ہی ایران کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد سے گزشتہ چھبیس برسوں کے دوران ہر موقع پر مؤثر واقع ہوا ہے اور آئندہ بھی کارگر ثابت ہوتا رہے گا۔
آپ اپنے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھئے۔ دشمن نے عوام کے اتحاد کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ دشمن نے بڑے احمقانہ انداز میں اپنے ایجنٹوں سے امید باندھ رکھی ہے۔ یہ خام خیالی اور حماقت ہے۔
آج امریکی علی الاعلان اپنے عزائم کو بیان کر رہے ہیں۔ یہ بھی استبدادی طاقتوں پر خدا کی مار پڑنے کانتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں ہم ان لوگوں کی جو امریکی اہداف کی تکمیل کر رہے ہیں مالی مدد کریں گے۔ ان لوگوں نے ہماری قوم کو پہچانا ہی نہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم پیسے خرچ کرکے ایران میں اپوزیشن اور حزب اختلاف تشکیل دیں گے۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ جو کوئي بھی امریکی پیسے سے اور امریکی حکام کی حمایت سے امریکی اہداف کی تکمیل کی کوشش کرے گا اور خود کو اپوزیشن اور حزب اختلاف کے پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا، ایرانی قوم کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوگا۔ پوری ایرانی قوم، بالخصوص اہم شخصیات، نوجوان طبقہ، طلبا اور وہ افراد جو اپنے اطراف کے افراد پر اپنا اثر رکھتے ہیں، انہیں آگاہ ہو جانا چاہئے کہ آج تمام مسائل اور مشکلات کا حل صرف قومی یکجہتی اور عوامی مشارکت ہے۔
دلوں کو آپس میں قریب کیجئے۔ اللہ تعالی سے مدد مانگئے اور ہماری قوم کو اللہ تعالی نے جو توانائياں اور صلاحیتیں عطا فرمائي ہیں انہیں بروئے کار لائیے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ ایرانی قوم کا مستقبل ماضی کے مقابلے میں یقینی طور پر بہتر ہوگا۔ انشاء اللہ تعالی امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال ہوں گي۔ میں اللہ تعالی سے شہدا کی پاک ارواح اور حضرت امام خمینی (رہ) کے لئے رحمت و مغفرت و لطف و فیض کی دعا کرتا ہوں اور آپ سب کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ