بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن شیراز کے عزیز عوام سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔
صوبہ فارس سے تعلق رکھنے والے احباب اور شیرازی دوستوں کی ایک مدت سے شکایت تھی کہ ایک عرصے سے صوبہ فارس کا دورہ انجام نہیں پایا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آپ عزیزوں سے ملاقات، آپ کے دلکش شہر کے نظارے اور آپ کے مایہ فخر اور پر برکت صوبے کے دورے کا میں بھی آپ ہی کی طرح مشتاق تھا۔ یہ فرزانہ شخصیات کا گہوارہ اور علم و ادب اور ذوق و فن کاری کا شہر ہے۔ یہ تاریخی اور شہرہ آفاق چہروں کا شہر ہے۔ شہر شیراز اور صوبہ فارس کو ملک کے شہروں اور صوبوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مختلف شہروں کے دوروں اور مقامی عوام سے ملاقاتوں کے دوران یہ میرا وتیرہ رہا ہے کہ متعلقہ شہر کی تاریخی حیثیت اور دیگر خصوصیات کا تذکرہ کرتا ہوں اس سے میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس عظیم سر زمین کے ہر خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے سامنے اپنے علاقے کے تشخص اور تاریخ کی واضح تصویر آ جائے تاہم شہر شیراز اور صوبہ فارس کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کے شہر اور صوبے کی عظیم شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا ایسا شہرہ ہے کہ شیراز کے تعارف اور یہاں کی تاریخ کے تذکرے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ میں ایک خاص نتیجے پر پہنچا ہوں، جس کے تحت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران تمام علمی شعبوں میں شیراز کے باسیوں نے اپنی انسانی استعداد اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح سماجی اور دینی شعبوں اور اس اہم چیز کے سلسلے میں جس پر قوموں کی تقدیر کا انحصار ہوتا ہے یعنی قومی عزم و ارادہ، صوبہ فارس اور شہر شیراز کی بڑی تابناک تاریخ ہے۔ آپ کی تاریخ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس خطے اور یہاں کہ عوام کی عظمت کے نئے نئےپہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ دینی پہلو کا جہاں تک سوال ہے کہ جس کے بارے میں میں بعد میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے حضرت احمد بن موسی اور آپ کے بھائیوں اور دیگر امام زادوں کی قبور، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرزندان رسول نے فارس کے علاقے اور یہاں کے عوام کو اپنا مخاطب اور اپنی منزل کے طور پر منتخب فرمایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بالخصوص جناب احمد بن موسی جو خاندان رسالت کی بڑی برجستہ شخصیت تھی ان کے بارے میں نقل کیا گيا ہے، و کان احمد بن موسی کریما جلیلا ورعا و کان ابوالحسن علیہ السلام یحبہ و یقدمہ، آپ کے والد گرامی اپنی اولادوں میں آپ کو خاص درجہ دیتے تھے اور آپ سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ سخی، پرہیزگار اور بڑے عظیم المرتبت انسان تھے۔ خاندان رسالت کے اس چشم و چراغ اور دیگر شخصیات کی نگاہ انتخاب شیراز پر ٹھہری وہ آئے اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان عظیم شخصیات کی برکتیں آج بھی ملک کے اس اہم علاقے اور اس صوبے میں جاری و ساری ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں دیکھا جائے تو سعدی و حافظ زبان فارسی اور فارسی ادب کی پیشانی کے دو درخشاں ستارے ہیں۔ کون ہے جو اس سے آگاہ نہ ہو۔ علم و ادب کے مختلف شعبوں میں اس خطے سے عظیم شخصیات سامنے آئي ہیں جو اپنے اپنے دور میں یکتائے زمانہ تصور کی جاتی تھیں۔ فلسفہ، فقہ، ادبیات، فن و ہنر، تفسیر و لغت، نجوم، فزکس اور طب جیسے شعبوں کی عظیم شخصیات جو مختلف علوم کے نقطہ کمال پر فائز تھیں اور زمانے کے سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں ان کا فردا فردا تعارف کرانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اس کے لئے ایک الگ قسم کی محفل اور اجتماع کی ضروت ہے۔ یہاں تو بس سرسری تذکرہ ہی کافی ہے۔
سماجی امور اور آپ عزیزوں کی غیرت دینی اور جرئت اقدام کے سنہری صفحات تاریخ میں موجود ہیں۔ ملک کی دینی علوم کی تاریخ میں جتنے مجاہد علما اس صوبے سے نکلے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی اور صوبے میں مل پانا مشکل ہے۔ مرزا شیرازی سے سب واقف ہیں، سید علی اکبر فال اسیری مرحوم نے انگریزوں اور غیر ملکیوں کے خلاف اسی شہر سے قیام کیا اور اپنی مخالفت کا اعلان فرمایا۔ انہیں گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا لیکن ان کی تحریک کے اثرات باقی رہے۔ یہی جگہ حافظیہ جہاں اس وقت آپ حضرات تشریف فرما ہیں اس کے بارے میں لکھا گيا ہےکہ سید علی اکبر فال اسیری حافظیہ کے نزدیک زیارت عاشورا پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک دبش پڑی اور آپ کو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا۔ مرزا شیرازی اسی طرح مرزا دوم مرزا محمد تقی شیرازی کہ جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ کے حملے اور قبضے کے خلاف عراقی عوام کی جد وجہد کی روح رواں تھے۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم بھی ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت تھی جس نے اسی صوبہ فارس کے غیور اور شجاع قبائل کی مدد سے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی اور آئینی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جد و جہد فرمائي۔ اس مجاہد شخصیت نےتقریبا سو سال قبل اپنی جد و جہد شروع کی۔
صوبے میں ایسے علما بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہیں صوبہ فارس کے قبائل اور شہروں بالخصوص شیراز سے تعلق رکھنے والے مومن و غیور عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سید نور الدین حسینی مرحوم نے اسی شہر شیراز میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کے اہلکار کو جس نے دینی مقدسات کی بے حرمتی کی تھی حد الہی جاری کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کوڑے لگائے۔ آپ نے ظالم نظام کے خلاف شجاعانہ انداز میں سیاسی اور سماجی جد و جہد کی۔ اس کے بعد بھی علما کے جہاد کے زمانے میں آیت اللہ شہید دستغیب، آیت اللہ محلاتی مرحوم اور دیگر علما نے شیراز کی جامع مسجد عتیق کو اپنی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ شیراز کے علما کی تحریک کا شہرہ اور اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے آیت اللہ دستغیب مرحوم کی شعلہ تقاریر گوشے گوشے تک پہنچیں۔ میں اس وقت قم میں تھا۔ شہید دستغیب کی تقریر کی کیسٹ طلبا کے درمیان گشت کر رہی تھی۔ ہم نے اسی وقت شیراز کے مجاہد علما کے موقف سے آگاہی حاصل کی۔
عہد حاضر میں بھی خواہ وہ انقلاب کے بعد کا زمانہ ہو، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سے اب تک کے ایام، آپ عزیزوں، نوجوانوں، برجستہ شخصیات اور مومنین نے خود کو ہر مرحلے پر ممتاز مقام پر رکھا ہے اور صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ اپنے عمل سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کے تشخص کی پاسداری کی ہے۔ اس وقت بھی سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و خلاقیت اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہ صوبہ زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے سائنسداں اور دانشور آج عالمی سطح کی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، الیکٹرانک انڈسٹری، پیٹرو کیمیکل انڈسٹری، سائنس کے مختلف شعبوں اور انجینئرنگ میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔ شیراز یونیورسٹی کئی نئے موضوعات اور اسپشلائیزیشنس میں پیش قدم رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور میدانوں میں آپ نوجوانوں اور لوگوں کا تعاون بہت نمایاں ہے۔ اس شہر میں تعینات فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں نے مقدس دفاع کے دوران بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح ماضی میں دین و ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے، علمی کوششوں کے زاوئے سے دفاعی سرگرمیوں کی رو سے اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اور دیگر متعدد امور میں اس صوبے اور شہر نے ایسی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو قابل صد ستائش ہے۔ اس نکتےپر کہ یہ انسانی صلاحیتوں کا عظیم سرچشمہ ہے حکام کے کی توجہ بھی مرکوز رہنی چاہئے اور خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ہر فرد میں یہ صلاحیت ہے کہ اس سرزمین اور پوے خطے کو اپنے فیض سے سیراب کرے اس وضاحت سے میرا مقصد یہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ صوبہ فارس بالخصوص شہر شیراز کے عوام کے گہرے ایمان و عقیدے کی بابت صرف دعوا نہیں ہے بلکہ تمام پہلؤوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ مذہبی تشخص کی درخشاں تاریخ اور گزشتہ برسوں کے دوران اہم سرگرمیاں انجام دینے والے مجاہد علما کے اس شہر کے خلاف، دینی رجحان کو ختم کر دینے کے لئے دو سمتوں سے حملے ہوئے ایک تو طاغوتی حکومت کے دربار کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ شہر شیراز کو صد فیصد مغرب زدہ شہر کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اس کا سلسلہ انیس سو پچاس کے عشرے سے شروع ہوکر انقلاب کی کامیابی تک بیس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ سن ستاون اٹھاون کی بات ہے کہ ہم نے اسی شہر شیراز میں بے راہ روی کے مناظر دیکھے جس کے لئے با قاعدہ منظم طور پر کوششیں کی گئیں۔ نوجوانوں کو اخلاقی انحطاط اور دین سے بیزاری کی طرف لے جایا گيا۔ یہ سلسلہ اسی طرح سن ستر اکہتر تک جاری رہا۔ جشن ہنر شیراز اور کچھ دیگر معاملے جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں البتہ شائد ہمارے کچھ نوجوانوں کے اس کا علم نہ ہو، یہ سب کچھ منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک اور فکری انحراف کہ جس کی شیراز میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ترویج کی جا رہی تھی الحادی مکتب فکر تھا، اس کی ترویج ایک گروہ بڑے شد و مد سے کر رہا تھا۔ خاص طور سے سید نور الدین مرحوم کے زمانے میں جو بڑے شجاع، حالات سے آگاہ اور بہت فعال و زیرک عالم دین تھے، جب یہ دیکھا گيا کہ شیراز میں علما کا خاص اثر و رسوخ ہے تو دربار اور مارکسسٹوں نے ایک قینچی کی دو بلیڈوں کی طرح عوام اور نوجوانوں کے دین و ایمان کو نابود کر دینے کی کوششیں کیں لیکن جب سن باسٹھ ترسٹھ ع میں اسلامی تحریک شروع ہوئي تو انہی علما اور نوجوانوں نے اس شہر میں بڑے اہم اور فیصلہ کن اقدامات انجام دئے یعنی قومی سطح پر قم، تہران، شیراز، تبریز اور مشہد صف اول کے شہروں میں تھے، شیراز انہیں صف اول کے شہروں میں ایک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیراز کی برجستہ علمی شخصیات کو گرفتار کرکے تہران لے جایا گيا تھا۔
عوام کو دین سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئي لیکن عوام کا جواب دو ٹوک تھا۔ عوام نے اپنے عمل اور اپنی استقامت سے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی طاغوتی حکومت کے اقتدار کے آخری برسوں یعنی ستتر اٹھہتر میں شیراز کے عوام نےملک کے تمام شہروں کے لئے خود کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا۔
میں نے یہ جو باتیں عرض کی ہیں انہیں آپ مقدمہ سخن نہ سمجھئے یہ تکلفات کی باتیں نہیں ہیں، خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے، یہ کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہے۔ اب میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کروں گا جو انقلاب کے امور سے متعلق ہے اور جس کا ان باتوں سے تعلق ہے۔
اپنے ملک کی تاریخ میں ہم جتنا غور کرتے ہیں اور ماضی میں جتنا بھی دور تک پلٹ کر دیکھتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کوئي نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ میں اس کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں، ہمارے ملک کی تاریخ میں، جنگ پسندوں کی کوششوں، لشکر کشی، کودتا یا بغاوت اور ٹکراؤ کے ذریعے اقتدار کی چھین جھپٹ ہمیشہ رہی ہے تاہم اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا، کئي خاندان اقتدار میں آئے اور گئے۔ آپ غور فرمائیں کہ اسی شہر شیراز اور صوبہ فارس میں مثال کے طور پر زندیہ بادشاہوں کی حکومت رہی پھر قاجاریہ خاندان آیا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، دو فوجوں اور دو اقتدار پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ دونوں فوجی طاقتیں تھیں۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں خواہ وہ اسلام سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا آج تک اقتدار کی منتقلی اسی طرز پر انجام پائي۔ ماضی میں صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے جس کے بارے میں میں ابھی وضاحت کروں گا، اس کے علاوہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ، لشکر کشی، فوجی چڑھائی سے ہوا۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ عوام میں اس کے لئے کوئي دلچسپی ہی نہیں تھی، خواہ ایک سلسلہ حکومت سے دوسرے سلسلہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہو یا ایک ہی سلسلہ حکومت کے اندر کشمکش کا واقعہ ہو۔ اس سلسلے میں قاجاریہ دور اقتدار کی ایک مثال آپ کے شہر کی ہی ہے کہ فتح علی شاہ قاجار کی موت کے بعد فتح علی شاہ کے ایک بیٹے حسین علی مرزا کی شیراز میں حکومت تھی، وہ تہران کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا، فتح علی شاہ کے پوتے محمد شاہ کو بادشاہت مل گئي تھی دونوں میں اسی بات پر جنگ ہو گئی۔ اسی شہر شیراز کے دروازے کے باہر دو فوجوں کے درمیان جنگ ہوئي۔ البتہ ان جنگوں میں پستے تھے عوام انہیں بھی نقصان پہنچتا تھا، ان کی کھیتیاں برباد ہو جایا کرتی تھیں ان کی جان و مال کے لئے خطرے پیدا ہو جاتے تھے۔ تاہم ان جنگوں میں ان کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے تاہم تاریخی لحاظ سے اس میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور کچھ افسانے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک لوہار کاوہ کا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عوام کی پشتپناہی سے اس نے ضحاک کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ تاریخ میں کوئي اور مثال نہیں ہے۔ البتہ پہلوی دور کے آغاز کے بعد کی جو تاریخ یورپیوں نے مرتب کی ہے اس میں فریدون، ضحاک اور کاوہ لوہار کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا۔انہوں نے الگ ہی نہج پر تاریخ لکھی ہے کہ جوایک الگ موضوع ہے جس پر اس وقت میں گفتگو نہیں کروں گا۔ اگر صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ تاریخ میں ہے اور بس۔
اسلامی انقلاب ہماری تاریخ میں اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے شہنشاہی نظام کو عوامی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو عوامی قوت سے انجام پائی۔ اس واقعے میں دو حکومتوں کا ٹکراؤ اور لڑائي نہیں تھی۔ عوام باہر آئے انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا اور عظیم الہی قوت کے ذریعے بادشاہوں، طاغوتی طاقتوں اور نفس پرست ظالموں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت عوامی حکومت بن گئي ۔ جہاں تک ہم نے غور کیا اور سمجھا ہے یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ تو یہ واقعہ ایسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر مختلف پہلؤوں سے غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صرورت ہے۔ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس واقعے کے بنیادی امور پر ایک نظر ڈالیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جانے اور چھوٹے موٹے واقعات کا جائزہ لینے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اس سے کسی بات کی پوری وضاحت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پورے واقعے پر ایک وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت ہے البتہ ہمارے دانشوروں اور علمی شخصیات نے اس واقعے کا اسی انداز سے جائزہ لیا ہے تاہم عوامی سطح پر بھی اس واقعے کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
دنیا کے کسی بھی واقعے کے سلسلے میں چندعناصر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ پہلا عنصر واقعے کے اتبدائي عوامل ہیں یعنی، اہداف، تاریخی حالات، جغرافیائي صورت حال اور سیاسی ماحول یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ دوسرا عنصر واقعے کے علمبردار ہیں۔ ہمارے انقلاب میں پہلا عنصر یہی عوام کا ایمان، حریت پسندانہ جد و جہد اور اس تحریک کی وہ چنگاری ہے جو آئینی انقلاب، مرزا شیرازی کی طرف سے تمباکو کو حرام قرار دئے جانے کے واقعے، دیگر بہت سے واقعات اور تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے واقعے سے پیدا ہوئی۔ اس طرح حالات بنے اور مجاہد علما اور خود امام (خمینی رہ) نے اس سے استفادہ کیا اور اس تحریک کو سمت عطا کی۔ یہ رہا پہلا عنصر۔
دوسرا عنصر یعنی واقعے کے علمبردار، ہمارے عوام تھے۔ تاریخ کے بے نظیر واقعے عظیم اسلامی انقلاب میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آج جو نام نہاد روشن فکرانہ نظرئے میں عوام کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس سے بے اعتنائي برتی جاتی ہے، غلط ہے۔ جب عوام کا رجحان کسی سمت بڑھتاہے اور کچھ لوگ اسے اپنے لئے نفع بخش نہیں دیکھتے تو اس کی اہمیت کو کم کرنے لگتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ عوامی ارادے اور عوامی تعاون سے ہی اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
ملت ایران نے اپنے ایمان، اپنے جذبات، اپنی قومی حمیت، اپنی پر افتخار تاریخ و ثقافت کے ذریعے یہ عظیم تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم کے ہدف کے بارے میں جس سے بھی سوال ہوتا تھا وہ اپنی زبان میں اس ہدف کو بیان کرتا تھا۔ اس طرح اسلام کے پرچم تلے، آزادی اور خود مختاری حاصل ہوئي۔ انقلاب کے دوران رائج نعرہ :استقلال (خود مختاری)، آزادی ، جمہوری اسلامی در حقیقت عوام کی دلی خواہش اور ان کے ما فی الضمیر کا آئينہ دار تھا۔ عوام کی یہی خواہش تھی۔ عوام دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے کہ اس عظیم مملکت کے حکام اور ذمہ دار افراد فکری طور پر غلام بنے ہوئے تھے۔ اغیار کے تابع تھے، سامراجی طاقتوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں پہنے اس پر نازاں تھے۔ ان کے سامنے تو بھیگي بلی بنے رہتے لیکن عوام کے ساتھ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ فرعون بھی شرمندہ ہو جائے۔ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ عوام کو کسی طرح کے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل تک کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عوام ، شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ ووٹ ڈالیں اور کسی کا انتخاب کریں اس کا کوئي تصور ہی نہیں تھا۔ حکومت موروثی، حکام اغیار کی ہدایت پر منصوب کردہ آئينی انقلاب سے وجود میں آنے والی پارلیمان مجلس شورا غیر منتخب پارلیمان اور عوام، اس غیر ذمہ دار ادارے کے فیصلوں کی قربانی تھے۔ عوام نے خود مختاری چاہی آزادی کی للک ان میں پیدا ہوئی قومی وقار کی چاہت ان میں جاگی، مادی آسائش اور روحانی و اخروی سر بلندی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا جس نے عوام کو میدان عمل میں پہنچایا۔ تو یہ رہا اس واقعے کا دوسرا عنصر۔
تیسرا عنصر وہ رکاوٹیں اور مخالف طاقتیں ہیں جو واقعے کو رونما نہیں ہونے دینا چاہتیں جن کی وجہ سے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ عنصر ابتدا سے ہی سامنے رہا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایرانی قوم نے سعی و کوشش اور جی توڑ محنت سے خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہے اور قوم یہ قیمت ادا کر بھی رہی ہے۔ اگر کوئي قوم یا شخص اپنے مطلوبہ ہدف اور مقصد کی تکمیل تو چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئي قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اس کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ کوئي رسک نہ لینے اور سعی و کوشش سے کنارہ کشی کی صورت میں ہدف تک رسائي کا تصور خام خیالی ہے۔ قوموں کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہی قوم عزت و سربلندی حاصل کرتی ہے جو پوری شجاعت سے میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اپنے ہدف کی جانب بڑھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پوری آگاہی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ایرانی قوم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایران نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی شکل میں قیمت ادا کی ہے۔ یہ قیمت ہے حریت پسندی اور آزادی کی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری سیاسی و اقتصادی قوت سے اور اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہیں کہ شائد ایرانی قوم کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ صرف ایٹمی حق سے نہیں، ایٹمی حق تو قوم کے حقوق کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے حق سے، آزادی و خود مختاری کے حق سے، خود ارادی کے حق سے، سائنسی ترقی کے حق سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ ایرانی قوم جو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دو صدیوں کی پسماندگی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ طاقتیں سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ایرانی قوم جو دنیا کے اس اہم ترین خطے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہے یہ کامیابیاں حاصل کرے۔ لہذا دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ایرانی قوم کے بے مثال ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے۔
۔۔۔۔۔ حاضرین کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ پر پاندیاں عائد کر دیں گے۔ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیں گے۔ اچھا تو آپ نے ان تیس برسوں میں ایرانی قوم کا کبھی سخت تو کبھی نرم اقتصادی محاصرہ جاری رکھا، اس سے کس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ایرانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے پابندیوں سے اپنی پیش رفت کے لئے زمین ہموار کی۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم آپ کے فوجی ساز و سامان کے محتاج تھے۔آپ معمولی ترین فوجی ساز و سامان ہمیں فروخت نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ صاحب آپ پر پابندیاں ہیں۔ ہم نے انہی پابندیوں سے استفادہ کیا۔ آج ایرانی قوم نے ایسی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں کہ کل ہم پر پابندیاں عائد کرنے والے آج بوکھلائے ہوئے ہیں کہ ایران تو علاقے کی سب بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تو یہ نکلا پابندیوں کا نتیجہ۔ پابندیوں نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے اسے سنہری موقع میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں مغرب کی پابندیوں کا خوف نہیں۔ ایرانی قوم ہر پابندی اور اقتصادی محاصرے کے سامنے سعی پیہم کی ایک ایسی مثال پیش کرے گی جس سے اس کی ترقی میں اور بھی چار چاند لگ جائيں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حاضرین کے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب پر اس زاوئے سے غور و فکر، یعنی اس کے پس پردہ کارفرما جذبات، اس کے حالات، عوامل اور نظام کی تشکیل اسی طرح اس میں بنیادی کردار کے حامل عوام اور ان کے ایمان کے بارے میں غور و فکر اور ان کی قربانیوں کا جائزہ لیں تو ہم جس مقام اور جس جگہ پر بھی ہوں گے اپنے معمولی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ہماری نظریں انقلاب کی عظمت اور تیس برسوں میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے جاری انقلابی سفر اس نکتے پر مرکوز رہیں گی کہ ایرانی قوم دشمنوں کی سازشوں میں شدت کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئےہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کے اللہ و اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی قوم کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس قوم کے عزم و ارادے کے کمزور کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا استعمال کریں، یہاں تک کہ قدرتی آفات، زلزلے، خشکسالی، اور دنیا کے عام مسائل جیسے مہنگائی جیسے مسائل۔ اگر آپ آج غیر ملکی نشریات کے تبصرے سنیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دشمن اپنے پروپگنڈے میں اقتصادی مسائل کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملت ایران کے پختہ ارادے کو کمزور کر دیں۔ ایرانی عوام اپنے حکام سے آشنا ہیں۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائي کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام اور محکمے بے اعتنائي برت رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ ہرگز بے اعتنائي نہیں برت رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آج مغربی ممالک دوسروں سے زیادہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ خود انہیں کے بقول، جو اقتصادی بحران امریکہ سے اٹھا ہے رفتہ رفتہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور دوسرے بھی بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک اس صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں غذائي اشیاء کے بحران کا اعلان کیا ہے۔ ملت ایران کی مشکلات بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان ممالک میں بہتوں سے کم ہیں۔ البتہ عوام اور حکام کی محنت اور کوشش سے ان مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے۔
مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سارے شعبوں کے حکام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اپنی جگہ پر عوام کا بھی فریضہ ہے کہ کوشش کریں۔ میں نے آپ کے صوبے اور شہر کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاحیتیں اور توانائیاں ملک اور انقلاب کے مستقبل کے لئے استعمال کی جائیں، لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہم میں سے ہر شخص جس جگہ پر بھی ہو اسے ملک کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طالب علم، استاد، کسان، صنعت کار اور سرمایہ کار کو مختلف صنعتی اور زراعتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو محسوس کرنا چاہئے۔ جب سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں گے اور حکومتی ادارے، پارلیمان اور عدلیہ کی جانب سے صحیح رہنمائي ہوگی تو قوم، مسائل مسلط کرنے کی دشمنوں کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گي اور اپنی صلاحیتوں اور حکیمانہ طرز فکر سے ایسا معاشرہ تشکیل دے گي جو اسلام چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ یہ سال ہماری قوم کی لئے خلاقیت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ خلاقیت کسی ایک شعبے سے مختص نہیں ہے۔ تجربہ گاہیں ہوں کہ تحقیقاتی مراکز، دینی تعلیمی مرکز ہوں کہ یونیورسٹیاں، ادارے ہوں کہ صنعتی کارخانے، زراعت ہو کہ باغبانی ہر جگہ اور ہر میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک ایک اہم موڑ سے آگے بڑھے۔
میں نے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اس سال کے آغاز میں بھی اور گزشتہ سال کی ابتدا میں بھی عوام اور حکام دونوں کو یاددہانی کرائي کہ دشمن کی نگاہیں حساس ترین نقطے یعنی معیشت پر مرکوز ہیں اور ملک کو اقتصادی میدان میں مسائل سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں اور جو ان کے بس کے باہر ہے اس کا اپنی تشہیراتی مہم میں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دشمن کی تشہیراتی مہم کے تحت مختلف شکلوں میں ہم پر جو وار کئے جا رہے ہیں اس کا توڑ، مالی نظم و نسق ہے، کفایات شعاری ہے، صارف کلچر کے سلسلے میں محتاط انداز اختیار کرنا ہے ۔ میں اپنے عزیز شہریوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسراف کی حد تک پہنچ جانے والا صارف کلچر کسی بھی قوم کی بڑی خطرناک بیماری ہے۔ ہم کسی حد تک اس بیماری سے دوچار ہیں۔ پانی کی کمی کی مشکل کے بارے میں جس کا صوبہ فارس سمیت کئي صوبوں کو سامنا ہے، سب سے پہلے میری اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ باران رحمت نازل فرمائے ساتھ ہی میں آپ سے بھی عرض کروں گا کہ اسراف کی ایک مثال پانی کی فضول خرچی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر پانی گرانا ہی پانی کا اسراف نہیں ہے بلکہ زراعت کی آبیاری میں بھی فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔ اس شعبے کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ اس نکتے پر خاص توجہ کریں۔ اسراف کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ پانی کے سلسلے میں بھی اور دیگر امور کے سلسلے میں بھی۔
قوم بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اور بھاری قیمتیں ادا کرتے ہوئے، جو کہ واقعی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی اور ایرانی قوم نے شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ یہ قیمت ادا کی، آج بہت سے منزلیں طے کر چکی ہے اور دشوار گزار مراحل کو عبور کر چکی ہے اور اللہ تعالی کے فضل کرم سے آج اس مقام پر کھڑی ہے تاہم اب بھی ہم ابتدائي منزلوں میں ہیں۔
ہماری قوم اپنے عزم راسخ سے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے تہہ در تہہ جمع ان توانائيوں سے انشاء اللہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ انشاء اللہ ان تدابیر سے کہ جن کے بارے میں میں صوبے میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں وضاحت کروں گا اور موقع کی مناسبت سے جن پر روشنی ڈالوں گا انشاء اللہ عوام اپنا یہ سفر سربلندی و سرفرازی کے ساتھ مکمل کریں گے۔
میں آپ با ذوق، مہربان، مخلص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور خوش گفتار دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک ایرانی قوم کی بہت سی قابل ستائش خصوصیات شیرازی شہریوں اور صوبہ فارس کے عوام میں نمایاں ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کو خاص جوش و جذبے سے نوازا ہے۔ روز بروز یہ جوش و جذبہ بڑھے اور اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ