سنہ 1901 میں، ویلیم ناکس ڈارسی نے ایک معاہدے کے ذریعے شمال مشرق سے جنوب مغرب تک ایران کے بہت سارے علاقوں سے ساٹھ سال تک تیل نکالنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ اس نے کچھ نقد رقم ادا کرنے کے بعد، ہر سال کمپنی کے منافع کا سولہ فیصد حصہ ایران کو دینے کا وعدہ کیا۔ 8 سال بعد، اپریل 1909 میں، ایران کے مغرب اور جنوب مغرب کی آئل فیلڈز سے تیل نکلنے کے ایک سال بعد لندن میں بیس لاکھ پاؤنڈ کے سرمائے سے اینگلو-ایرانین آئل کمپنی کے نام سے ایک بڑی کمپنی قائم ہوئی جس کے حصص برطانوی حکومت کے پاس تھے۔ یہ کمپنی، جس نے بعد میں کئی بار اپنا نام بدلا، آخرکار دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنیوں میں سے ایک برٹش پیٹرولیم (BP) کی بنیاد بنی۔

یہ کمپنی اتنی بڑی ہو گئی کہ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اور برطانیہ اور فرانس کی جانب سے مغربی ایشیا کے علاقے کو کیک کی طرح آپس میں تقسیم کر لیے جانے کے بعد، برطانیہ نے اسی کمپنی کے وسائل اور توانائیوں کے ذریعے عراق کے تیل سے بھرپور صوبوں بغداد، بصرہ اور پھر موصل کے کچھ حصوں کو اپنے چنگل میں لے لیا۔

لیکن دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی برطانوی سامراج کمزور پڑنے لگا اور آہستہ آہستہ اس کی جگہ امریکا نے لے لی۔

وراثت اکٹھا کرنے کا وقت

جیسے ہی امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے تسلط پسندی پر مبنی ایک عالمی نظام قائم کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جنگ کے خاتمے اور یورپی طاقتوں کے کمزور پڑنے کے بعد، یہ امریکا تھا جس نے فوجی اڈوں کے جال بچھا کر اور اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک وغیرہ جیسے بین الاقوامی ادارے قائم کر کے پوری دنیا کے معاشی اور سیکورٹی سسٹمز پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس قانونی چہرے کے پیچھے غیرقانونی سازشیں، بغاوتیں، جارحانہ جنگیں اور مجرمانہ حرکتیں چھپی ہوئی تھیں۔ آزادی کی ہر تحریک یا تو مشرقی بلاک کا حصہ بنتی تھی یا پھر امریکی تسلط کی پالیسیوں کے تابع ہو جاتی تھی۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایران بھی ان ممالک میں سے تھا جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے دور میں اپنے چھین لیے گئے حقوق کی بازیابی اور آزادی کی تحریک چلی لیکن جلد ہی اسے دنیا کی نئی حقیقت کا سامنا ہوا: پرانا سامراج (برطانیہ) کمزور ہو چکا تھا اور نیا سامراج (امریکا) وراثت بٹورنے کے درپے تھا۔

ایران کا معاملہ

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے کچھ ہی عرصے بعد، ایرانی عوام نے علماء اور قوم پرست تحریکوں کی قیادت میں تیل کی صنعت کو قومی بنانے اور اسے انگریزوں کے قبضے سے نکالنے کے لیے اقدام کیا۔ محمد مصدق کو وزیراعظم بنانے کے لیے ایران کے جوان حکمراں پر دباؤ کام کر گیا اور مارچ 1951 میں ایران نے ایک قانون منظور کیا جس نے ایرانی تیل کی دریافت، تیل باہر نکالنے اور اس سے استفادے کے تمام حقوق انگریزی کمپنی سے چھین لیے۔ اس قانون کی منظوری کے فورا بعد، برطانیہ نے ہیگ کی عالمی عدالت میں ایران کے خلاف مقدمہ کر دیا لیکن چونکہ برطانوی تیل کمپنی ایک پرائیویٹ کمپنی تھی، اس لیے عدالت نے فیصلہ سنانے سے انکار کر دیا اور ایران کو سزا نہیں ہوئی۔ اس کے بعد، برطانیہ نے دوسرے مغربی ممالک کی مدد سے ایرانی تیل کی صنعت پر مختلف پابندیاں عائد کیں۔ اب اس معاملے میں نئے سامراج یعنی امریکا کے داخل ہونے کا بہترین موقع تھا۔

ایران میں تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کے معاملے نے امریکا کو دکھا دیا کہ ایرانی قوم آزادی و خودمختاری حاصل کرنے اور اغیار کے تسلط سے نکلنے کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے کو تیار ہے۔ اس جذبے اور سوچ کو کچلنا ضروری تھا اور امریکا نے موقع کو مناسب پایا۔

ایران میں ایک عوامی حکومت کے ذریعے تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے مسئلے نے، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو بہت طاقت دی۔ وہ شاہ سے ٹکرا گئے اور آمریت مخالف جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کی سرگرمیاں بھی زیادہ نمایاں ہو گئیں۔ ان جماعتوں اور اخبارات میں سوویت یونین کی طرف مائل دھڑوں کی موجودگی نے امریکیوں کو ایک اچھا بہانہ عطا کر دیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کر کے خطے میں اپنی موجودگی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کریں۔

شاہ اور مصدق کے درمیان ٹکراؤ اور اس کے بعد شاہ کے ایران سے فرار نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے اس بات کی زمین ہموار کر دی کہ وہ سلطنت پرست جرنیلوں پر پیسے لٹا کر مصدق کی حکومت کو گرا دیں۔ 19 اگست 1953 کو ایران میں آپریشن ایجکس کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ اس بغاوت کے دوران بہت سے لوگ مارے گئے اور مصدق کو گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ شاہ۔ واپس ایران لوٹ آیا اور اس نے اپنی 25 سالہ آمریت کے دور کا آغاز کیا۔ یہ وہ آمریت تھی جو امریکا کی مرہون منت تھی اور شاہ نے شروعات سے ہی تیل کی صنعت میں امریکی کمپنیوں کے لیے 40 فیصد حصص مختص کر کے اس کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی پوری کوشش کی۔

کٹھ پتلی، چودھری اور تسلط پسندوں کا استحکام کا جزیرہ

بغاوت سے لے کر اسلامی انقلاب کی کامیابی تک کے 25 سال کے عرصے نے ایران کو امریکا کی نظر میں اتنا ہی عزیز بنا دیا جتنا وہ چرچل کی نظروں میں تھا۔ سرد جنگ کے دور میں اور عرب دنیا میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کے درمیان، امریکا کے چنگل میں اب خطے کے دو اہم کھلاڑی ایران اور سعودی عرب تھے۔

پہلوی ایران اب ایک کٹھ پتلی تھا جو امریکا کے علاقائی اور عالمی منصوبوں کو آگے بڑھا رہا تھا۔ جب عرب ممالک اور اسرائیل کی جنگ میں، محاصرے کا تنگ حلقہ صیہونی حکومت کا گلا گھونٹ رہا تھا، تو یہ پہلوی حکومت ہی تھی جس نے صیہونیوں کے لیے تیل کی لائنیں کھلی رکھیں اور اسرائیل کو بکھرنے سے بچایا۔ جب عراق میں بعث پارٹی سوویت یونین کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کر رہی تھی، تو شاہی حکومت نے سرحد کے کرد گروہوں کو مسلح کر کے اس حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جب ویتنام کی خونریز جنگ میں امریکا کو رسد اور فوجی امداد میں مشکلات کا سامنا تھا، تو امریکا میں تربیت یافتہ ایرانی پائلٹ اور جنگی طیارے ہی تھے جو ویتنام کے عوام پر بمباری کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ، سوویت یونین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایران میں مختلف فوجی اڈے قائم کیے گئے اور 25,000 سے زیادہ امریکی فوجیوں نے "مشیر" کی حیثیت سے ایران میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔

یہ تمام مراعات جو شاہ ایران نے امریکا کو دیں اور اسی کے ساتھ وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کی خریداری، مغربی صنعتوں اور منڈیوں میں ایران کی سرمایہ کاری اور ایرانی معاشرے سے مذہبی ثقافت کو مٹانے کی کوششیں، ان سب نے مل کر ایران کو خطے میں "استحکام کا جزیرہ" بنا دیا تھا۔ استحکام کا یہ جزیرہ درحقیقت خطے پر امریکا کی بالادستی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے تھا۔

پرندہ پنجرے سے نکل گیا

سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب امریکا کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ معاشی مفادات کے علاوہ جو امریکا کے ہاتھ سے نکل گئے، وہ اپنے  ایک اہم علاقائی پٹھو سے بھی محروم ہو گیا۔ امریکا، ایران کی مدد سے صیہونی ریاست کو بڑے خطرات سے بچا رہا تھا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیل کے خلاف سب سے آگے چلنے والا عرب ملک (مصر) اس جنگ سے بالکل ہی نکل چکا تھا۔ تاہم اب ایران کا اسلامی انقلاب تھا جس نے فلسطینی کاز میں ایک نئی روح پھونک دی۔ نہ صرف یہ کہ علاقائی مسائل پر ایران کا رویہ یکسر بدل گیا بلکہ اسلامی انقلاب نے مسلمان اور حریت پسند قوموں کے سامنے ایک تیسرا راستہ کھول دیا۔ اب آزادی کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا اور جبری طور پر مشرقی و مغربی بلاک میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونا ضروری نہیں رہ گیا تھا۔ یہی وہ تیسرا راستہ اور یہی وہ نظریہ تھا جو خطے میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی بنیاد بنا اور اس نے مغربی ایشیا میں امریکی منصوبوں کے وجود کو چیلنج کر دیا۔ اسی نئے افق کے باعث امریکا کو چار دہائیاں لگ گئیں کہ وہ کچھ علاقائی حکومتوں کو صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی لائن پر لوٹا سکے اور اس بار اسرائيل سے تعلقات قائم کرنے والی حکومتوں کے خلاف عوامی نفرت پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ ان کے سامنے اسلامی انقلاب اور مزاحمتی محاذ کا آئیڈیل موجود ہے۔

شاید اب زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکا، اسلامی انقلاب کے پہلے دن سے ہی اسے راہ سے منحرف یا ختم کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔ جیسا کہ امام خامنہ ای نے 8 جنوری 2025 کو کہا تھا: "امریکا نے یہاں قبضہ کر رکھا تھا لیکن یہ اس کے ہاتھ سے اور اس کے قبضے سے نکال لیا گیا۔ لہذا اس ملک اور انقلاب کے لیے اس کا کینہ، اونٹ کے کینے کی طرح ہے! وہ آسانی سے اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ امریکا کو ایران میں شکست ہوئی ہے اور وہ اس شکست کی تلافی کے درپے ہے۔"

ایران، ایک ایسا خزانہ ہے جسے چرچل اپنی زندگی کے سخت ترین دنوں میں امریکا سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے، ایک ایسا خزانہ ہے جو 25 سال تک امریکیوں کے ہاتھ میں تھا اور اب خود ایران کے مسلم عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ شاید یہی امریکا کی اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں ایرانی عوام سے دشمنی کی بنیادی وجہ ہے: ایران برطانیہ کی سامراجی وراثت تھی جسے ایرانی عوام نے امریکا کے چنگل سے نکال لیا۔

 https://johnwight1.medium.com/a-brief-history-of-us-imperialism-from-the-end-of-wwi-to-suez-838d0d7dfc2