ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ طلبا کا ماحول فیصلے پر عملدرآمد کا ماحول ہو کیونکہ یہ نہ تو طلبا کے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اس عمل کے سلسلے میں مناسب۔ طلبا کی فضا فیصلہ کرنے اور نظریہ قائم کرنے یعنی گفت و شنید کی فضا ہو
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ بڑا دلچسپ اور دل آویز اجتماع ہے۔ ایک تو یونیورسٹی کی فضا اور وہ بھی شہر شیراز کے اندر، شیراز تو خود ہی تاریخ میں دارالعلوم کی حیثیت سے معروف رہا ہے۔ شیراز میں یونیورسٹی یعنی دارالعلوم کے اندر دار العلوم، ایک مرکز کے قلب میں واقع مرکز، اس کے علاوہ طلبا کی جو یہ تعداد یہاں تشریف فرما ہے اور محترم اساتذہ جو محفل کی رونق میں چار چاند لگا رہے ہیں سب نے مل کر اس اجتماع کو حقیقی معنی میں ایک علمی، سیاسی اور سماجی محفل میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں خود بھی نوجوانوں کے اجتماعات بالخصوص طلبا کے درمیان، نوجوانی کے جذبے سے معمور اس فضا میں خود کو جوان محسوس کرنے لگتا ہوں۔سن رسیدہ افراد سبھی کا یہی عالم ہے۔ نوجوانوں کے درمیان جوانی اور جوش و خروش کا احساس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عزیز طلبا، خواہ وہ ممتازین ہوں یا طلبا یونیونوں کے نمایندگان ان کی باتیں سنتے ہوئے ہرگز تھکن کا احساس نہیں کرتا اسی طرح آپ کے درمیان بولنے سے بھی تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔ واحد مشکل کھلا آسمان اور شہر شیراز میں ماہ اردیبہشت (اپریل، مئی) کی تمازت آفتاب ہے کہ جسے برداشت کرنا ذرا سخت کام ہے۔ میں تو سائے میں بیھٹا ہوا ہوں لیکن یہاں بھی گرمی کا احساس ہو رہا ہے جبکہ آپ دھوپ میں تشریف فرما ہیں بالخصوص محترم خواتین جو چادریں بھی پہنے ہوئے ہیں اور گرمی کی شدت برداشت کر رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو میں نظر ڈالنا چاہوں گا ان باتوں پر جو ہمارے پیارے طلبا نے بیان کی ہیں۔ یہاں کچھ باتوں کا ذکر ضروری ہے، البتہ اکثر باتیں وہی ہیں جن کا میں خود بھی قائل ہوں اور یہی باتیں میں طلبا، اساتذہ، اور یونیورسٹیوں کے ذمہ داران کے درمیان عرض کر چکا ہوں تاہم جو باتیں ہمارے عزیزوں نے بیان کی ہیں ان میں سے کچھ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ بتایا گیا کہ ممتاز طلبا کی حمایت اور مدد کے سلسلے میں کوتاہی کی جاتی ہے، آپ کی توجہ اس نکتے پر بھی رہنا چاہئے کہ اس مسئلے سمیت تمام امور میں کچھ ضابطے کی کارروائیاں ہوتی ہیں کچھ دفتری مراحل ہوتے ہیں، یہ بیوروکریسی اور افسرشاہی نہیں بلکہ با قاعدہ نظم و نسق اور فکری مرکز اور ادارے کے وجود کی علامت ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں گزشتہ ایک دو سالوں میں یہ کام بنحو احسن انجام پایا ہے۔ یونیورسٹی کی ایک شخصیت کو نائب صدر کی سطح پر رکھا گيا ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے اور جہاں تک مجھے اطلاعات مل رہی ہیں، اس سلسلے میں بڑے اچھے اقدامات انجام پا رہے ہیں۔ البتہ آپ کی گفتگو میں جیسا کہ خود جوانی میں میں بھی کرتا تھا، فی الفور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر جگہ اس لفظ کی قید مناسب نہیں ہے۔ بعض کام ہوتے ہیں ایسے ہیں کہ ان میں سرعت نہیں اختیار کی جا سکتی۔ اگر اس میں سرعت آئي تو اپنے ساتھ کچھ خامیاں بھی لائے گي۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہر کام کو اس کی فطری شکل میں انجام پانے دیں۔
یہ نکتے کی جانب اسٹوڈنٹ بسیج (رضاکار فورس) کے نمائندے نے کہی جو کو خود میرا بھی مطالبہ ہے۔ گزشتہ ایک دو سال کے دوران ایرانی، اسلامی ترقی کے نمونے کی بات میں نے بھی کئی بار کہی، سوال ہوتا ہے کہ اس پر کس حد تک عمل ہوا؟ بالکل صحیح ہے، یہ سوال مناسب ہے۔ طلبا کے تحقیقاتی مرکز کی جو تجویز پیش کی گئي میرے خیال میں بہت مناسب ہے۔ بہتر ہوگا کہ اعلی تعلیم کی وزارتوں کے عہدہ داران اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں، یہ بڑا اچھا نظریہ ہے۔ طلبا کو یہ موقع ملے کہ اگر ان کے پاس وقت ہے اور ان کے لئے ممکن ہے تو تحقیقی مرکز اور تحقیقی فیکلٹی میں سرگرمیاں انجام دیں، اچھا خیال ہے اس پر کام کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے کی صلاحیت اور فیصلہ کرنے کے عمل کا تذکرہ ہوا۔ یہاں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قوت فیصلہ بہت اچھی چیز ہے تاہم اگر فیصلہ کرنے کا عمل ایک ایسی مشکل بھی ہے کہ جو اگر یونیورسٹی کی فضا میں داخل ہو گئي تو بہت سے اچھے امور درہم برہم ہو جائیں گے۔ یہ ہمارا تجربہ کہتا ہے۔ ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ طلبا کا ماحول فیصلے پر عملدرآمد کا ماحول ہو کیونکہ یہ نہ تو طلبا کے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اس عمل کے سلسلے میں مناسب۔ طلبا کی فضا فیصلہ کرنے اور نظریہ قائم کرنے یعنی گفت و شنید کی فضا ہو۔ دیکھئے جب میں نے سافٹ ویئر کی تحریک کا موضوع اٹھانا چاہا تو دس سال قبل میں نے یہ موضوع طلبا ہی کے درمیان اٹھایا۔ میں نے نہ تو اس پر وزآرت خانوں سے بات کی تھی، نہ ہی اس وقت کے صدر سے اس پر بات ہوئي تھی اور نہ ہی اساتذہ سے اس پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ سب سے پہلے امیر کبیر یونیورسٹی میں میں نے یہ موضوع چھیڑا تھا، آج آپ دیکھئے یہ ایک عمومی خیال اور عام مطالبہ ہے۔ یہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کا مطالبہ ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں طلبا کی زبان پر یہ مطالبہ نظر آتا ہے۔ اور کسی دوسرے مرحلے میں اساتذہ یا یونیورسٹی کے ذمہ داران کی زبانی اس پر عملدرآمد کی نوید سننے کو ملتی ہے۔ اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ یہی علمی اور سائنسی ایجادات بڑی حد تک اس نعرے سے وابستہ ہیں کہ فیصلے کی مقدمات فراہم کیجئے موضوع پر بھرپور بحث کیجئے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ذمہ دار افراد اور انتظامیہ فیصلہ کرنے کے لئے آگے آتے ہیں اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹریٹ کی طالبہ کے بیان میں ایک نکتہ میرے لئے بڑا دلچسپ یہ تھا کہ میڈیکل سائنس کی طالبہ نے بیسک سائنسز کے طلبا کی حمایت کی۔ یہ بہت مناسب بھی ہے۔ بیسک سائنسز پر خصوصی توجہ دئے جانے پر میں کئي برسوں سے تاکید کرتا آيا ہوں اور میں نے اس موضوع پر متعلقہ حکام سے متعدد بار گفتگو کی ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ بیسک سائنسز خزانے کا درجہ رکھتی ہیں۔ جبکہ فنکشنل سائنسز کی مثال جیب خرچ کے پیسوں ہے۔ اگر بیسک سائنسز نہ ہوں تو ہمارا سرمایہ ختم ہو جائے گا۔ میں اس طالبہ کے اس درس کو قابل غور سمجھتا ہوں جس پر طلبا کو توجہ دینا چاہئے۔ ان کی توجہ اس نکتے پر ہونی چاہئے کہ ملک کی ضروریات کیاں ہیں۔ میڈیکل سائنس کی یہ طالبہ بیسک سائنسز کی حمایت کرے یہ میرے لئے بہت دلچسپ ہے۔
شیراز یونیورسٹی کی اسلامی یونینوں کے نمائندے نے بھی اپنے بیان میں بڑے اہم نکات کا ذکر کیا یہ تو میرے اپنے دل کی باتیں ہیں۔ میں اس پر بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ دیکھئے آپ کہتے ہیں کہ ہم مساوات کی بات کرتے ہیں لیکن ایک اسٹوڈنٹ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن مساوات پر ضرب لگانے والے کا ہاتھ نہیں روکا جاتا، عدلیہ ایسی ہے یا فلاں ادارہ ویسا ہے، ٹھیک ہے ایسے میں آپ اپنی تیزی دکھائيں، عدل و مساوات کے مطالبےسے ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہ کریں۔ یہ آپ کی شان ہے۔ نوجوان، طالب علم اور مومن کی یہی شان ہے کہ عدال و انصاف کا مطالبہ کرے۔ اس نظرئے کی میں اپنے پورے وجود سے حمایت کروں گا۔ اللہ کا شکر ہےکہ آج نظام موجود ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کہیں کچھ خلاف ورزی بھی کی جائے لیکن آپ کا فن یہ ہے کہ مساوات کی نعرہ بلند کیجئے ہاں کسی کا نام اچھالنا اور کسی کی ذاتیات کو موضوع بحث بنانا درست نہیں ہے۔ اگر آپ نے کسی ایک شخص کو مد نظر رکھا تو ایک تو اس کا بھی امکان ہے کہ تشخیص کی غلطی ہوئي ہو میں تو دیکھ ہی رہا ہوں، یونیورسٹی نہیں بلکہ سماجی اداروں میں کہ بد عنوانی، سیاسی کجروی یا بے راہ روی کے نام پر کسی شخص کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے الگ سے بخوبی علم ہے کہ ایسا نہیں ہے جو لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ لہذا جب آپ کسی ایک شخص کا نام لیں گے تو ممکن ہے کہ آپ غلطی پر ہوں اور اس طرح آپ اس قانون شکن قانونداں کو کہ جس میں بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ قانون شکن قانون داں زیادہ خطرناک ہوتا ہے، کوئي ایسا بہانہ مل جائے گا جسے وہ آپ کے خلاف استعمال کر لے گا۔ آپ ایک جج سے کیا شکایت کر سکتے ہیں؟ اگر کسی نے کسی شخص کی شکایت کی کہ اس نے میرے خلاف الزام تراشی کی ہے تو اب یہ جج کا کام تو نہیں ہے کہ معاملے کی تحقیقات شروع کر دے؟ اگر الزام تراشی کی گئی ہے تو متعلقہ قانون جج پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ قانونی کارروائي کرے تو ہم اس جج کی شکایت نہیں کر سکتے۔ آپ عقلمندی دکھائیں کسی کا نام نہ لیں کسی خاص شخص پر وار نہ کریں۔ آپ پرچم بلند کریں۔ جب آپ پرچم بلند کریں گے تو مجریہ کا متعلقہ شعبہ اس جانب متوجہ ہوگا اور ضروری اقدامات انجام دے گا۔ ایسا ہونے پر اس شخص کو اطمینان حاصل ہوگا جس نے آواز بلند کی ہے اور معاملہ آگے بڑھ جائے گا۔ بنابریں میری نظر میں آپ کا کام اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ آپ باایمان نوجوان ہیں آپ سے یہی توقع ہے۔ جو بھی نعرہ بلند کیا جاتا ہے اس کے سلسلے میں اللہ تعالی کی ذات کے بعد کہ جس کے اختیار میں تمام دل، زبانیں اور ارادے ہیں، آپ پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ امیدیں آپ نوجوانوں سے وابستہ ہیں، آپ اس سے آگاہ رہیں۔ آپ نے اپنے ہم وطن کا شعر بھی پڑھاہے کہ،
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقت ما کافری است رنجیدن
تو آپ رنجیدہ نہ ہوں، کام کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ میں یہی بات میں اپنے اس عزیز برادر کی خدمت میں عرض کروں گا جہنوں نے اسلامی معاشرے کے نمائندے کی حیثیت سے بڑھے اچھے اور اہم نکات بیان فرمائے۔ یہ باتیں ہماری خواہش ہے تاہم ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ زمانے سے ہمارے یہ تجربہ ملا ہے کہ انسان کو تھوڑا تحمل سے کام لینا چاہئے۔ آپ تازہ تشریف لائے ہیں آپ میں جوش ہے جلدبازی اور بے صبری ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے سوائے اس بے صبری کے۔ البتہ اس کا کوئي حل نہیں ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ اسے آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم تو خود بھی آپ کے اس دور سے گزر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا خود اندازہ ہے تاہم میں آپ سے بس یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ نے جتنی بھی باتیں کہیں اور جن کے نعرے ملک میں گونجے انشاء اللہ خدا وند عالم کی مدد سے ان پر عملدرآمد ہوگا۔
پیام نور یونیورسٹی کے سلسلے میں بھی اس عزیز طالبہ نے ایک شکایت کی کہ جس پر عہدہ داران کی توجہ کی ضرورت ہے، اگر مدد کی ضرورت ہے تو مدد کی جانی چاہئے۔
اب یہاں میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا جو در حقیقت پہلے دن عوام کے اجتماع میں جو باتیں میں نے عرض کی تھیں انہی کی تھوڑی تفصیل ہے۔ ایک بات تو انقلاب پر وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت کا نکتہ ہے۔ ہم (انقلاب کے) چوتھے عشرے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ تقریبا تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر جب انقلاب جیسے عظیم واقعے پر نظر ڈالی جاتی ہے تو وہ کارکردگی پر ناقدانہ نظر ہوتی ہے۔ حالانکہ کی تیس سال گزرنے کے بعد انقلاب عنفوان جوانی کو پہنچا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انقلاب کی طاقت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، تاہم جب انسان پیچھے مڑ کر ان تیس برسوں پر نظر دوڑاتا ہے تو کارکردگی، افادیت اور ثمرات کے بارے میں کوئي نہ کوئي نتیجہ اس کے ذہن میں ضرور آتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرنے کے اس عمل میں ہمیں غلطی نہیں کرنا چاہئے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم انقلاب پر وسیع نظر ڈالیں۔
میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کروں گا یوں تو میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرنا چاہتا تھا تاہم تمازت آفتاب کو دیکھتے ہوئے میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اور نوجوانوں کو اس کا بخوبی علم ہے، آپ مجھے پہچانتے ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ قرآنی آیت نہیں ہے میری کہی بات کوئي وحی نہیں ہے ۔ میں اپنا نظریہ بیان کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اس پر طلبہ کے درمیان گفتگو ہو، میرا مقصد یہ ہے کہ اس پر گفت و شنید ہو۔ ممکن ہے کہ آخر تک میں اپنی بحث کو نہ سمیٹوں بلکہ یہ کام آپ کے حوالے کر دوں، آپ یونینوں اور اسٹوڈنٹ حلقوں کی سطح پر اس پر گفتگو کریں۔
اگر ہم وسیع نظر کے ساتھ انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ کی تشکیل پر توجہ دیں اور جزوی باتوں تک محدود نہ رہیں تو ہم کبھی بھی غلط نتیجے پر نہیں پہنچیں گے۔ جزوی باتوں تک محدود رہنے اور معاملے کو شروع سے آخر تک نہ دیکھنے کی صورت میں گمراہی کا اندیشہ رہتاہے۔ اس طرح کبھی کبھی انسان اپنا راستا اور منزل سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تفصیلات میں بالکل نہ جائيں، نہیں ایسا نہیں ہے تفصیلات میں جانا ہی تو در حقیقت منصوبہ بندی ہے اور میں اس کی اہمیت کا منکر نہیں ہوں۔ منصوبہ بندی میں تمام پہلوؤں اور مراحل پر نگاہ ڈالی جاتی ہے اسی کو جزوی باتوں کا جائزہ کہتے ہیں۔ میرے کہنے کا یہ مقصد ہے کہ جزوی باتوں اور تفصیلات میں اس طرح گم نہ ہو جائیں کہ بنیادی ہدف اور اصل منزل کی نظروں سے غائب ہو جائے۔ کیونکہ پورے مسئلے پر نظر رکھنا ہمارے لئے اہم ہے۔ ۔ ۔ ۔