مخلص ترین، مشتاق ترین، اور پرجوش ترین افراد اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے، ہمارے رضاکاروں کا یہ مجموعہ ہماری ایسی عظیم طاقت تھی جو ہر لمحہ میدان عمل میں موجود رہی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدلله رب العالمين والصّلاة والسّلام علي سيدنا ابي‌القاسم المصطفی محمد و علي اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين؛ سيما بقية الله في الارضين.

بسیجی (رضاکار) جوانوں کا گروہ ملک کے جس گوشے میں بھی اکٹھا ہو جاتا ہے عطر جہاد سے فضا معطر ہو جاتی ہے۔ بالخصوص یہ اجتماع اگر ایسی جگہ ہو جہاں سے شوق دیدار الہی سے سرشار دلوں کو جہاد کے لئے دستوں کی شکل میں روانہ کیا جاتا رہا ہو اور تاریخ جن کی شجاعت کے گن گاتی ہو۔ شیراز کا یہ مرکز اور یہ چھاونی ایسے ہی مقامات میں سے ایک ہے۔
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں تاریخ میں مرقوم ہے، حالانکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے جس طرح اسے رقم کیا گیا ہے کہ جس کی جانب میں اشارہ کروں گا، تاہم سب سے اہم بات ان حقائق کا ملکوتی کتاب، کتاب کرام الکاتبین میں درج ہونا ہے، صیدقین اور اللہ کے صالح بندوں کے صحیفے میں شرف ذکر پانا ہے۔ جس چیز کے لئے انسان کو اپنی زندگی کا ہر لمحہ استعمال کرنا چاہئے اور جس کے لئے اپنی جان لگا دینی چاہئے وہ وہی چیز ہے جس کی جانب حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے آخری لمحے میں اشارہ فرمایا کہ ولمثل ذالک فالیعمل العاملون اگر انسان کو کوشش ہی کرنی ہے تو کیا اچھا ہو کہ اس کوشش کا ہدف، یہ عظیم مقام اور مرتبہ ہو۔
البتہ تاریخ میں کسی چیز کا تذکرہ بھی اپنی جگہ پر کوئي کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اگر آپ اس قوم کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہی نظر آئے گا کہ اقتدار کی منتقلی میں کبھی عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ کبھی عوام نے اس سلسلے میں کوئی موثر رول ادا نہیں کیا۔ یہ صرف اسلامی انقلاب کا طرہ امتیاز ہے کہ جب ہمارے عظیم رہھبر کی صدائے انقلاب کانوں تک پہنچی تو قوم میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ معاشرے کے مخصوص افراد، کسی خاص جماعت اور بعض گروہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا ہو، ایک سمندر تھا جو متلاطم ہو اٹھا، انسانوں کا سمندر۔ جب مقدس دفاع کا مرحلہ آیا تب بھی صرف مسلح افواج نے ہی اپنے فریضے کی ادائگي کے لئے قدم نہیں بڑھائے بلکہ بچہ بچہ آگے آیا۔ جہاں بھی جوش و جذبہ تھا جہاں بھی گرمی ایمان تھی لوگ میدان کارزار میں اترے۔

اس عظیم قومی سرمائے کی جو شاخ شجرہ طیبہ کی طرح اس پاک و پاکیزہ سرزمین میں باقی رہی اور زندہ جاوید بن گئی یہی (بسیج) کا پاک و پاکیزہ درخت ہے۔ مخلص ترین، مشتاق ترین، اور پرجوش ترین افراد اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے، ہمارے رضاکاروں کا یہ مجموعہ ہماری ایسی عظیم طاقت تھی جو ہر لمحہ میدان عمل میں موجود رہی۔
بسیجی تنظیمیں، امام (خمینی رہ) کے ابتکار عمل کا ثمر ہے۔ بسیج، جو مقدس جذبات احساس ذمہ داری اور وفاداری کا مجموعہ تھا اسے ایک تنظیم کی شکل میں ڈھال دینا، ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کا کارنامہ تھا۔ ہم نے دیکھا کہ بعض مسلم ممالک کے سربراہوں نے اس سلسلے میں صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ یہ عظیم کارنامہ ہے۔ واقعی یہ ایک عظیم کارنامہ تھا جو امام (خمینی رہ) نے انجام دیا۔
یہی بسیجی، یعنی متشتاق دلوں کے مالک رضاکار تھے جو پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل میں کام آئے۔ یہ کہنا صحیح ہے کہ بسیج، در حقیقت پاسداران انقلاب فورس کی ہی ایک کڑی اور اسی میں ضم ادارہ ہے لیکن پاسداران انقلاب فورس ان لوگوں کی شمولیت سے معرض وجود میں آئی جو بسیج میں پیش قدم اور ممتاز تھے، جنہوں نے لبیک کہہ کر میدان عمل میں قدم رکھا۔ یہ شجرہ طیبہ ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ملک میں انجام پانے والے عظیم کارنامے یعنی مقدس دفاع میں ملک کو کبھی کمزوری کا احساس نہیں ہوا۔ حالانکہ فوجی طاقت، ساز و سامان اور روایتی وسائل کے لحاظ سے ہم اپنے مد مقابل دشمنوں سے بالکل الگ تھے ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ دشمن کے پاس موجود طاقت کے ایک چھوٹے سے حصے سے بھی کم تھا، لیکن ہمیں احساس ضعف نہیں ہونے پایا۔ مقدس دفاع کے پر محن اور کٹھن ایام میں جوش و جذبے سے سرشار جوان دلوں میں امید کی شعمیں روشن رکھتے تھے یہ بہت کارساز ثابت ہوئے بسیج ایسا ہی ایک شجرہ طیبہ ہے۔
آپ عزیز نوجوانوں میں شائد بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے مقدس دفاع کے حالات کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔ آپ اس وقت کچھ نہیں کر سکے۔ چونکہ آپ موجود ہی نہیں تھے کہ میدان عمل میں آتے۔ تو اب آپ سب سے پہلے ان دنوں کے مومن اور جاں نثار جوانوں کی خصوصیات سے آشنائي حاصل کیجئے یہ صرف آپ ہی نہیں ہر کسی کے لئے لازمی ہے کہ مقدس دفاع کے دوران بسیجیوں کی مجاہدانہ کوششوں اور مومنانہ جاں نثاری سے جو معجزات معرض وجود میں آئے ان سے آگاہ ہوں۔ تحریریں ہیں، اچھی کتابیں لکھی گئي ہیں میرا مشورہ ہے کہ نوجوان ان کتابوں کو ضرور پڑھیں جو بسیجیوں اور مقدس دفاع کے ابتدائي سالوں کے سخت ترین حالات کے سلسلے میں لکھی گئي ہیں۔ انقلاب کی تاریخ میں جو کچھ گزرا ہے اس کی معرفت سے خود کو سیراب کریں۔ بسیج کی ارزش بے انتہا ہے۔ بسیج میں سب سے پہلے ممتاز شخصیات شامل ہوئيں، سیاسی شخصیات بھی اور علمی شخصیات بھی۔ اس میں سماجی کارکنوں نے بھی شمولیت اختیار کی اور پاک و پاکیزہ دل والوں نے بھی خود کو اس کا جز قرار دیا۔ یہ ایسا پلیٹ فارم تھا جس پر طلبا بھی نظر آئے اور وہ سن رسیدہ افراد بھی حاضر ہوئے جن کی زندگی کا محنت و مشقت کا وقت بیت چکا تھا۔ ہر ایک کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ سیراب ہو رہا ہے۔ ان کی روحانی تشنگي، میدان کارزار میں جا پہنچنے سے دور ہوتی تھی۔ مقدس دفاع اور اس میں پر جوش شرکت کا یہ عالم تھا

بنا بریں ملک کی تاریخ کا یہ زندہ جاوید واقعہ ہے۔ بسیج (رضاکار فورس) کی تشکیل اور مقدس دفاع کے دوران اس تنظیم کا اہم ترین رول ادا کرنا،(بہت اہم کارنامہ تھا) البتہ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بسیج کا کردار معرکہ جنگ اور میدان کارزار تک محدود نہیں ہے۔ میدان جنگ، بسیج اور عوام کے کارناموں کا ایک مظہر اور ایک منظر ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے پاک و پاکیزہ اور پاکدامن و خلیق نوجوان بسیج کا حصہ ہیں اور بسیج انہی پر استوار ہے۔ اب جہاں بھی اسلام کو، اسلامی جمہوریہ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وہاں نظر آتے ہیں۔ خوش قسمتی سے علم و دانش کے شعبے میں بھی بسیجی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یہ نوجوان نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جہاں بھی جوش و جذبے سے سرشار فعال نوجوانوں کی ضرورت ہے بسیجی وہاں موجود ہیں۔
آج آپ نوجوانوں کو جو بسیج کا حصہ ہیں، اسلام کے سلسلے میں اپنی اس ذمہ داری کا احساس رہنا چاہئے کہ آپ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ عظیم تحریک کی سرعت میں اضافہ کر سکتے ہیں، آپ بہت سی گرہیں کھول سکتے ہیں۔ مختلف پہلؤوں سے جاری حملوں کا سد باب کر سکتے ہیں۔ وہ سیاسی یلغار ہو کہ تشہیراتی مہم، نفسیاتی جنگ ہو کہ فوجی کاروائي ہر مرحلے میں وطن کو، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو سرچشمہ ایمان سے خروشاں جوش و جذبے اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اسلامی انقلاب اور اس نظام نے الوہی عوامل پر تکیہ کیا ہے جن میں سب سے اہم ایمان ہے۔ ھو الذی ایدک بنصرہ و بالمومنین اللہ تعالی پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اللہ نے اپنی نصرت و مدد اور مومنین کے ذریعے آپ کی تائید و حمایت کی ہے۔ یعنی اللہ کی جانب سے نصرت و مدد اور غیبی امداد کی ایک شکل مومنین سے نصرت کروانا ہے۔
اسلامی جمہوری نظام کا اتکاء و توکل اللہ تعالی کی ذات پر ہے۔ ہمارا سفارتی شعبہ، ہماری حکومتوں کی گوناگوں سرگرمیاں عالمی سطح پر اور عالمی تعلقات کے میدان میں بہت موثر اور تیز رہی ہیں اس کا اعتراف دوسروں نے بھی کیا ہے۔ ہماری سرگرمیوں کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ہم (دنیا کی) کسی بھی طاقت پر انحصار نہیں کرتے۔ ہمارا تکیہ اپنی اندرونی صلاحیتوں پر ہے جس کا سرچشمہ اللہ تعالی سے رابطہ اور اس کی ذات پر توکل ہے۔ ہماری توجہ انسانوں کے اندر اللہ تعالی کی جانب سے قرار دی جانے والی صلاحیتوں اور توانائيوں کو منظم اورکسی ایک سمت میں مرکوز کرنے پر ہے تاکہ ان کی افادیت اور تاثیر میں کئي گنا اضافہ ہو جائے۔ آج اسلامی نظام کے دوش پر یہ عظیم ذمہ داری ہے، اس طرح ہمیں ہمیشہ بسیج کی ضرورت ہے۔ خواہ سیاسی، فوجی اور اقتصادی خطرات کا مرحلہ ہو خواہ معمول کے حالات ہوں۔ بحمد اللہ عوام کے تمام طبقات نے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے بھرپور تعاون کیا ہے۔ شہر، دیہات، قبائلی علاقے، یونیورسٹیاں ہر جگہ ہر طبقے اور ہر شعبے کے افراد نے طلبا، ملازمین، کسانوں اور مزدوروں ہر ایک نے بسیج کی دعوت پر لبیک کہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہی عزیز قبائلی لوگ ہیں۔ یہ صوبہ قبائلی بود و باش کا صوبہ ہے اور قبائلی بسیج بہت سرگرم اور فعال بسیجی شعبہ ہے۔
عموما دنیا کے ممالک میں فرقوں اور مذاہب کی زیادہ تعداد تشویش کا سبب اور فکرمندی کا موضوع سمجھی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں قبائل، تاریخ میں جہاں تک مجھے علم ہے دین و دینداروں اور علماء و دینی تحریکوں کے حامی و مددگار رہے ہیں۔ تاریخ پر جہاں تک نظر ڈالیں یہی انداز نظر آتا ہے، آج بھی ایسا ہی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں بھی صوبہ فارس کے قبائل نے استبداد کا مقابلہ کیا۔ قبائل کو مذہبی افراد کے خلاف اکسانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ (قبائل نے) انقلابی عناصر کی مدد کی اور جہاں مدد نہیں کر سکے ان کی نیک تمنائیں انقلابیوں کے ساتھ رہیں۔ ہمارے قبائل کچھ اس انداز کے ہیں۔ ہماری دوسری بستیوں میں بھی یہی فضا قائم ہے، یہ آمادگی اور یہ جذبہ ہمیشہ برقرار رہنا چاہئے۔
ہم نے بارہا اشارہ کیا ہے کہ اسلامی جمہوری نظام نے عالمی سطح پر عدل و انصاف اور مساوات کی بات کی ہے جس کے نتیجے میں خود بخود کچھ دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ عالمی میدان میں جو طاقتیں تسلط پسندی اور جارحیت و زبردستی کی بیساکھی پر کھڑی ہیں، اسلامی جمہوری نظام کے انصاف و مساوات کے نعرے کی مخالف ہیں، اس سے ناراض ہیں۔ اسی طرح قومی خود مختاری کے ہمارے نعرے کے خلاف بھی کچھ دشمن طاقتیں صف آرا ہیں۔ تمام تسلط پسند اور دوسروں کو اپنا دست نگر دیکھنے کی خواہاں طاقتیں جو ہماری قومی دولت کو ایک زمانے سے لوٹ رہی تھیں، جب ملک میں خود مختاری کی لہر چلی اور اغیار کو نکال باہر کیا گيا تو وہ ہمارے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ یہ خیال درست نہیں کہ ملک کی فلاں پالیسی، اور ہمارے ایک عہدہ دار کے فلاں بیان کے نتیجے میں دشمنیاں سامنے آ رہی ہیں۔ دشمنی کی بنیادی وجہ ہمارا نظام اور اس نظام کی ساخت ہے۔ انہیں تکلیف ہمارے نظام اور امام ( خمینی رہ) کے بنیادی اصولوں اور اصولی نعروں سے ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف قوموں کا عالم یہ ہے کہ وہ آپ کی گرویدہ ہیں۔ وہ ایرانی بسیجی نوجوان کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی ہیں۔ آپ کا نام، آپ کا تذکرہ، آپ کی روش عالم اسلام کے اندر اور اس کےباہر بھی لوگوں کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ (بڑی طاقتوں کی) یہ ساری دھمکیاں اسی بنا پر سامنے آ رہی ہیں۔ بہرحال عوامی تعاون اور بسیج ایک نا قابل انکار حقیقت ہے۔
تھوڑے تھوڑے وقفے سے اسلامی نظام کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کی جانب سے تشہیراتی لہر اٹھتی ہے۔ گویا بار بار مرمت کے بعد یہ مہم چلائی جاتی ہے۔ کبھی ایٹمی توانائی کے نام پر، کبھی انسانی حقوق کے نام پر اور کبھی کسی اور عنوان سے اسلامی نظام کے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ تشہیراتی مہم چلا کون لوگ رہے ہیں؟ اس مہم پر ان لوگوں کے ناموں کا داغ ہی مہم کی فرومايگی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے قوموں کے حقوق کو بے دردی سے پامال کیا ہے۔ انہوں نے قوموں کے ذخائر لوٹے ہیں۔ یہ ہیں اس تشہیراتی مہم کے کرتا دھرتا۔ بہرحال ملت ایران بھی غافل نہیں ہے، پوری طرح بیدار و ہوشیار ہے۔
آپ نوجوانوں کو ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی دینی اور انقلابی معرفت کو حتی المقدور وسعت بخشئے۔ خود کو زبر الحدید فولاد کے ٹکڑوں کی مانند کہ جو احادیث کی اصطلاح ہے، بنائیے جو دوسری چیزوں کو کاٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اسے کوئی دوسری چیز کاٹ نہیں سکتی۔ دشمن کے مقابلے میں آبدار تلوار اور آہنی ارادوں کے مالک بنئے۔
اگر آپ ایسی شخصیت کی تعمیر اور اس کے دوام کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ آئندہ آپ سے ملحق ہونے والی نسلیں بھی شجرہ طیبہ کی شاخوں کی مانند پھلتی پھولتی رہیں اور یہ مقدس تحریک لا زوال بن جائے تو آپ اپنی معرفتوں کے ستونوں کو مستحکم بنائیے۔ میری سفارش ہے کہ نوجوان طبقہ دینی تعلیمات اور علوم کے سلسلے میں خود کو بلند مقام پر پہنچائے جس کے بہترین طریقوں میں ایک شہید مطہری (عظیم الشان مسلم دانشور) کی تحریروں اور علمی میراث سے استفادہ کرنا ہے۔ ہمارے نعرے اصولی نعرے ہیں۔ ہمارے موقف اصولی موقف ہیں۔ ان میں مزید وسعت و گہرائي پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان شہید مطہری کی کتب کا مطالعہ کریں۔ بسیجی جاں نثاروں اور افسروں کی سوانح حیات ضرور پڑھیں۔ راہ حق کے ان شہیدوں کے حالات زندگی سے واقفیت، (لازمی ہے)۔ سب سے پہلے مرحلے میں سردار (اعلی بسیجی افسران) ہیں لیکن یہ خصوصیات سرداروں تک محدود نہیں ہیں۔ میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں پاسداران انقلاب فورس کے ایک بسیجی گروہ کے چند افراد کے بارے میں تفصیلات درج تھیں کہ انہوں نے میدان جنگ میں اپنی سرعت عمل، بلند ہمتی اور قوت ایمانی کے سہارے دشمن پر جو ضرب لگائي اور میدان کارزار میں جو نورانی مقام حاصل کیا ان کے بیانوں میں اور ان میں جو شہید ہو گئے ان کے وصیت ناموں میں وہ نورانی مقام اور وہ نورانیت صاف نظر آتی ہے۔ میں جب بھی اس طرح کی کوئی چیز پڑھتا ہوں مستفیض ہوتا ہوں۔ استفادے کا یہ راستہ آپ اپنے اوپر وا کیجئے۔ آپ نوجوان ملک کی امیدیں ہیں۔ ملک کے نوجوانوں میں جو زیادہ با ایمان اور جوش و خروش سے سرشار ہیں ان کے دم سے ملک و قوم کی امیدیں بڑھتی ہیں اور بلا شبہ بسیجی ایسے ہی نوجوان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ اس شجرہ طیبہ اور اس مشعل کو اس کی اسی نورانیت اور اسلامی انقلابی ماہیت کے ساتھ سرسبز و شاداب اور فروزاں رکھے۔
پروردگارا! ان عزیز نوجوانوں کے دلوں کو اپنی معرفت کے نور اور توکل کی عظیم نعمت سے منور و بہرہ مند فرما۔ اسلامی انقلاب کے اہداف اور مقاصد کی تکمیل کی راہ میں ان نوجوانوں کو ثابت قدم رکھ۔ خدایا! ہمارے شہدا کو اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرما۔ خدایا ہمیں موت آئے تو صرف اور صرف تیری راہ میں شہادت کی شکل میں۔ یا اللہ ہمارے کردار و رفتار و گفتار اور ہمارے اعضاء و جوارح کو الہی اہداف کی راہ میں قرار دے۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ