بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي القاسم المصطفي محمّد و علی اله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيّة الله في الأرضين.

میری خوش قسمتی ہے کہ صوبہ فارس کے دورے میں ممسنی علاقے کے مخلص باایمان انقلابی حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے قبل کبھی یہ سعادت نصیب نہیں ہوئي۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج میں اس شہر، اس علاقے اور اس ضلعے کے بہن بھائیوں کے اس عظیم اجتماع میں موجود ہوں۔
ممسنی علاقے کے باشندوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اسلامی بنیادوں پر شروع ہونے والے انقلاب کے دل و جان سے گرویدہ ہو گئے۔ بے شک خاندان رسالت سے اس خطے کے باشندوں کی الفت و محبت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم ایام سے ہی ایسا تھا۔ انقلاب سے قبل طاغوتی دور حکومت میں بھی آیت اللہ شہید مدنی مرحوم نے جو اوائل انقلاب کے شہید محراب ہیں۔ کچھ عرصہ اسی دیار میں جلا وطنی کی زندگی بسر کی۔خطے کے عوام نے اس عالم جلیل القدر کا خیر مقدم کیا کہ جو انقلاب کے لئے ان کے خلوص اور خاندان پیغمبر پر ان کے ایمان کی نشانی ہے۔
مسلط کردہ جنگ کے دوران خطے کے غیور قبائلی، ان افراد میں تھے جنہوں نے میدان کارزار میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور اپنا خلوص ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی اور اپنے وجود کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام، انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی ایران کے دفاع کے لئے یہ جیالے جان بکف میدان میں موجود رہے۔ عظیم اہداف کے لئے یہ سچا عشق اس قوم کی قابل فخر خصوصیت ہے۔
ممسنی میں آباد عزیزوں کی ایک اور خصوصیت ہے، جس کا سرچشمہ خطے کی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ اگر کوئي سماجی امور کا بنظر غائر جائزہ لے تو اسے بڑی حیرت انگیز باتیں اور نکات دکھائي دیں گے۔ ایک تو یہی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ قبیلہ اور خاندان و عشیرہ، افراد کے درمیان خونی رشتے اور قریبی رشتہ داری کا مظہر ہے۔ اسلام نے اس پر تاکید کی ہے۔ اسلام میں رشتہ داری اور قرابت داری، رشتہ داروں کی احوال پرسی، مستحسن عمل ہے۔ یہ صلہ رحم ہے جس کا شمار واجبات میں ہوتا ہے جبکہ اس کی ضد قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لینا حرام ہے۔ صلہ رحم پر خصوصی تاکید اسی وجہ سے ہے۔ قبائلی آبادی میں رشتہ داری اور باہمی تعلقات، بڑی اہم خصوصیت ہے۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس رشتہ داری اور گھریلو رابطے کا مثبت پہلو بہت با ارزش ہے کہ جس کی جانب میں نے اشارہ کیا لیکن اس کا منفی پہلو بھی ہے یعنی وہ تعصب جو قبائل کے درمیان ٹکراؤ اور لڑائي کا باعث بنتا ہے اس کی نفی کی جانی چاہئے۔ اسلام کے نزیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ قبائلی تعلقات رشتہ داری اور رابطہ بہت ٹھیک ہے لیکن اس سے دوسروں کی نفی نہیں ہونی چاہئے۔ اسلامی اخوت تمام مومنین پر سایہ فگن ہے۔
انّکم من آدم و آدم من تراب ہمارے پیغمبر نے ان لوگوں سے جو قبائلی تعلقات کو متعصبانہ شکل میں اہمیت دیتے تھے اور باہر کے افراد کی نفی کرتے تھے اسی جملے سے جواب دیا۔ یعنی قبیلے کے اندرونی تعلقات اور انس و محبت قابل تعریف اور پسندیدہ چیز ہے گھریلو تعلقات اور رابطے کو اہمیت دینا مثبت بات ہے لیکن اس سے ان افراد کی نفی نہیں کی جانی چاہئے جو ہمارے اپنے خاندان یا قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے۔
میری گزارش ہے کہ قبیلے کی فضا میں آپ رشتہ داری اور باہمی تعلقات کی حفاظت و پاسداری کیجئے اس کی بڑی ارزش ہے لیکن مختلف عشائر اور قبائل ایک دوسرے کی نفی نہ کریں۔ ہم سب آپس میں بھائي ہیں۔ انّکم من آدم و آدم من تراب پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ آپ سب آدم کی اولادیں ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تو اے اللہ کے بندو! خاکساری کو اپنا شیوہ بناؤ۔ ذرا غور کیجئے کہ ہر سطح کے افراد کے لئے یہ اسلامی تعلیم کتنی اہم ہے۔
عزیزو! بھائيو بہنو! آپ امتحان کے مرحلے سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ آپ نے اسلام اور انقلاب سے اپنے والہانہ لگاؤ اور بھرپور حمایت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے ملک میں قبائل مایہ عز و افتخار ہیں۔ میں نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ بعض ممالک اپنی قوم کے فرقوں کے درمیان اختلافات سے فکرمند رہتے ہیں ہراساں رہتے ہیں لیکن ہم اپنے قبائل پر ناز کرتے ہیں ان کے وجود کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے قبائل جہاں بھی ہیں قوم کے پاسدار، دین کے محافظ، علما کے طرفدار، اسلامی اصولوں اور مقامی روایات کے پاسباں ہیں۔ ہمارا قومی جذبہ جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین و عقیدے سے آمیختہ ہے، ہر دور میں ان روایات اور طور طریقوں کی مدد سے باقی رہا ہے جو قبائلی علاقوں میں خاص طور پر رائج ہیں۔ بالخصوص یہ قبائل جو ملک کے وسطی علاقے فارس اور اصفہان میں آباد ہیں، تاریخ میں اہل بیت اطہار اور اسلامی تشخص کے طرفدار رہے ہیں۔
لہذا جب بھی طاغوتی حکومتوں کے دور میں علما اور ظالم نظام کے درمیان ٹکراؤ ہوا قبائل علما کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو گئے ۔ اسی صوبہ فارس میں قبائل نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی۔ قاجاریہ دور میں آيت اللہ سید عبد الحسین لاری کے قیام کے وقت ظالم بادشاہوں کا ان قبائل نے مقابلہ کیا۔ اس کےبعد رضاخان کے دور میں اور پھر علما کی تحریک کے دوران قبائل نے اپنی قبائلی غیرت اور دین پر اپنے ایمان راسخ کا ثبوت دیا۔ آپ اس چیز کی حفاظت کیجئے۔
عزیز قبائلی جوانو! یہ وہ دور ہے کہ جس میں کامیابی اسی قوم کی قسمت میں ہے جو پختہ بنیادوں پر استوار جذبہ ایمانی سے سرشار ہو۔ ایسے دور میں جب گوناگوں سامراجی پالیسیاں عوام کو بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی جانب دھکیل رہی ہیں، وہ مومن افراد جن کا عقیدہ محکم بنیادوں پر اسوار ہے اپنے ا یمان کی برکت سے دنیا میں چلنے والی آندھیوں پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں، جس طرح ہمارے جوانوں نے ان طوفانوں پر غلبہ حاصل کر لیا جن کا نشانہ اسلامی نظام تھا۔ سب سے پہلے انقلاب کی کامیابی اور پھر مقدس دفاع میں فتح اور اس کے بعد سے آج تک ہر موقع پر قوم کی استقامت اس کا ثبوت ہے۔
عزیز نوجوانو! اپنے اس ایمان کی حفاظت کرو۔ اپنے عقیدے کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرو۔ شہری، دیہی قبائلی یا کسی بھی دیگر علاقے میں بسنے والے افراد سب کو چاہئے کہ خطے پر حکم فرما خلوص و پاکیز گي کی فضا میں اپنے عقیدے اور ایمان کی بنیادوں کو مطالعے، قبائل کے درمیان درس و تدریس، صاحب فکر افراد اور مفکرین کی مدد سے مسحکم بنائيں۔
آپ کے علاقے کی ایک ہی بات سے مجھے دکھ اور تشویش ہے اور وہ ہے مختلف میدانوں میں اس خطے کی محرومی اور پسماندگی۔ افسوس کی بات ہے کہ صلاحیتوں سے سرشار یہ علاقہ مختلف شعبوں میں محرومی کا شکار ہے۔ حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں کچھ کوتاہیاں ہوئي ہیں جن کی اب جبکہ ایک محنتی حکومت بر سر اقتدار ہے تلافی کی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں میں کابینہ کے صوبائي دوروں سے بہت خوش ہوں۔ ملک کے اعلی عہدہ داروں کا مختلف اضلاع میں جاکر لوگوں سے براہ راست ملنا اور حالات کا رپورٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ بنفس نفیس نزدیک سے مشاہدہ کرنا مستحسن اقدام ہے۔          گزشتہ برسوں میں مختلف صوبوں کے دوروں میں میرا ایک اہم ہدف، جس کی جانب میں نے اپنی تقاریر میں اشارہ بھی کیا، یہ رہا کہ حکام کو ملک کے محروم اور پسماندہ علاقوں کی جانب متوجہ کروں۔ ان علاقوں کی جانب ان کی توجہ مبذول کراؤں۔ اب یہ مقصد پورا ہو رہا ہے یعنی عوام کی خدمت گزار حکومت کی ایک اہم حکمت عملی یہ ہے کہ ملک کے تمام گوشوں پر براہ راست نظر رکھے۔ بالخصوص یہ علاقہ اور یہ صوبہ جہاں بارش کی کمی کی وجہ سے کسانوں اور ان لوگوں کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کے کاروبار کا انحصار بارش پر ہے۔ مجھے اطلاع ہے، مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے خشکسالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کچھ مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کی ہے اور کچھ منصوبے بنائے گئے ہیں اسی طرح اس کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ حکومت نے حتی المقدور کوشش کرکے جو منصوبے تیار کئے ہیں ان پر بہترین انداز میں عملدرآمد ہو اور عوام کو ان کا فائدہ پہنچے۔ ہمارے ہاتھ دعا کے لئے آسمان کی جانب بھی اٹھے ہوئے ہیں اور ہم خشکسالی کا شکار اس سرزمین کے عوام کے لئے اللہ تعالی سے طلب رحمت و عنایت کرتے ہیں اور امید کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ضرور نوازے گا۔
سال نو کے آغاز پر میں نے قوم اور حکام سے خطاب کرتے ہوئے جو چیز بیان کی وہ یہی اقتصادی سرگرمیوں کے دائرے کو وسعت دینے کا مسئلہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ دشمن نے اسی پہلو پر نظریں مرکوز کر دی ہیں۔ عزیزو! اسلامی انقلاب کے دشمن نے گزشتو برسوں یعنی تقریبا تیس سال کے دوران ایرانی قوم کے عزم و ارادے کو مضمحل اور کمزور کر دینے کے لئے ہر ممکن حربہ آزمایا ہے۔ سیاسی سازش، فوجی بغاوت، آٹھ سالہ جنگ اور سامراجی و صیہونی چینلوں سے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کے خلاف مسلسل جاری منفی اور زہریلے پروپگنڈے، ہر حربے کا استعمال کر لینے کے بعد دشمن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ ایرانی قوم کو اقتصادی سازش میں پھنسا سکتا ہے۔ یہ کوئي نئي بات نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک اقتصادی پابندیاں اور محاصرہ مختلف شکلوں میں جاری رہا ہے دباؤ ڈالا گیا ہے لیکن ملت ایران کے پای ثبات میں لغزش نہ آئي ۔ اب بھی دشمن نے اس حربے کا استعمال جاری رکھا ہے اور قوم بھی اپنے موقف سے ہٹنے والی نہیں ہے۔ جس طرح گزشتہ تیس برسوں میں ہماری قوم اقتصادی محاصرے کی سازش کا سامنا کرتے ہوئے ہر شعبے میں ملک کو ترقی کی راہ پر لانے میں کامیاب ہوئی اسی طرح اس دفعہ بھی عالمی سامراجی طاقتوں کی بدنیتی اور سازشوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرے گی۔
مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ عوام باہمی سعی و کوشش سے ملک کو اقتصادی طور پر خود کفیل اور ناوابستہ بنا دیں۔ انقلاب نے ہم کو سیاسی خود مختاری عطا کر دی ہے۔ اقتصادی خود مختاری کی راہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام پائے ہیں تاہم ہر طبقے کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے جس کے سہارے ملک اقتصادی میدان میں وہ کارنامہ انجام دے کہ پھر ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور اس ملک کے اقتصادی محاصرے کی دھمکیاں بے معنی ہوکر رہ جائیں۔ میرا خطاب پوری قوم سے ہے۔ صرف ممسنی کے علاقے میں بسنے والوں سے نہیں۔ سب کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لینا ہے۔ ملک افرادی قوت کے عظیم سرمائے سے مالامال ہے ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ ضروری مقدار میں سرمایہ کاری، صحیح منصوبہ بندی اور محنت و مشقت اور سعی پیہم کے ذریعے ہم معینہ اہداف کے تحت ملک کو اس مقام پر پہنچا سکتے ہیں کہ جہاں عالمی اقتصادی میدان میں ایران کو اقتصادی پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کا ذرہ برابر خوف و ہراس باقی نہ رہے۔ یہ قومی فریضہ ہے اسے ہم کو انجام دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہر فرد کوئی موثر رول ادا کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس وسیع و عریض سر زمین اور بے پناہ وسائل موجود ہیں
ایرانی قوم نے گزشتہ تیس برسوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن بہرحال قومی وقار کے لئے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ کوئی بھی ملک قربانیاں دئے بغیر، قومی وقار، خودمختاری اور مایہ افتخار تشخص جیسے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ ہماری قوم نے یہ قیمت ادا کی اور آئندہ بھی بخوشی ادا کرتی رہے گی۔ میں ان بڑی طاقتوں اور ان کے مہروں سے جو اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے ہیں، کہنا چاہوں گا کہ آپ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے لفاظی، دھونس دھمکی اور چیخ پکار شروع کر دیتے ہیں۔ میں آپ سب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ دھمکیاں ایرانی قوم کو پسپا نہیں کر سکیں گی۔ دھمکیاں ہماری قوم کو اس راہ سے منحرف نہیں کر سکتیں جس کا اس نے انتخاب کیا ہے۔ کاملیت، عزت نفس، مکمل خو مختاری، تمام مسائل کا حل پیش کرنے والے دین اسلام کے احکامات اور تعلیمات پر عمل آوری کی راہ کا ایرانی قوم نے انتخاب کیا ہے اور اس راہ سے اسے کوئي ہٹا نہیں سکتا۔ دشمن دھمکیوں سے ہمیں ہراساں نہیں کر سکتا۔ آج کل پھر دھمکیاں سنائي دے رہی ہیں۔ امریکہ اور صیہونیوں اسی طرح ان کی پیرو بعض احمق یورپی حکومتوں نے کیا ملت ایران کو اب تک آزمایا نہیں ہے؟ کیا آپ نے اب تک اس عظیم اور شجاع قوم کو نہیں پہچانا؟ ہم اپنے راستے پر پوری ثابت قدمی سے گامزن رہیں گے اور سامراجی طاقتوں کو اس کا موقع ہرگز نہیں دیں گے وہ اس قوم کے حقوق پامال کریں۔
یہ ہمارا فریضہ، ہماری ذمہ داری اور اس عظیم قوم کا حق ہے، اپنی اپنی ذمہ داری کے مطابق ہمیں اس حق کا دفاع کرنا ہے۔ اور دشمن کو اس کا قطعا موقع نہیں دینا ہے کہ وہ گوناگوں چالوں، مختلف حیلوں اور نفسیاتی حربوں سے اس قوم کا حق پامال کرے۔ انشاء اللہ ہم ہرگز اس کا موقع نہیں دیں گے۔
عزیزو! آپ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری قوم اور اسی طرح تمام مسلم اقوام کی مشکلات اور مسائل سے نجات کا واحد راستہ اسلام ہے۔ اسلام ہی ہم کو نجات دلا سکتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے گزشتہ تیس برسوں میں بھی جس کے دوران اسلامی جمہوری نظام عنفوان شباب کو پہنچا ہے، جب بھی ہم نے اسلام پر پوری توجہ کے ساتھ عمل کیا ہے کامیابی نے ہمارے قدم چومے ہیں۔ اگر کبھی ہم ناکام ہوئے تو صرف اس لئے کہ ہم نے اس موقع پر اپنے اسلامی فریضے پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنا یہ فریضہ پورا کیا تو کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔ بحمد اللہ یہ قوم، شجاع و حوصلہ مند، زیرک و دانشمند اور ہر طرح سے آمادہ قوم ہے، اپنے حقوق سے باخبر اور ان کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔
خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے حکام کو قوم کی ہر فرد بالخصوص اس (صوبہ فارس کےممسنی) علاقے اور تمام محروم علاقوں کے تعلق سے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توفیق دے۔ ضروری کاموں کی انجام دہی کے لئے وسائل و اسباب فراہم کرے اور حکام آپ عزیز عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ پروردگارا ! اپنے ان بندوں پر رحمتیں نازل فرما۔ خدایا عوام کے با ایمان اور پاکیزہ دلوں کو اپنی ہدایت کے نور سے منور کر دے۔ پروردگارا ! اسلامی جمہوری نظام کو روز بروز مزید استحکام و مضبوطی عطا فرما۔ ہمیں ان فرائض کے انجام دہی کی طاقت دے جو قوم کے تعلق سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کر دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ