بسم‏ اللَّه ‏الرّحمن ‏الرّحيم

الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين؛ سيّما بقيّةاللَّه فى الارضين.

 

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے حقیر کو اس سفر میں کازرون کے مومن اور انقلابی عوام کے اس اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ در حقیقت کازرون کے عوام کا مجھ پر یہ حق رہ گیا تھا۔ اپنی صدارت کے دوران جب میں نے صوبہ فارس کا دورہ کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ توفیق حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اس دفعہ توفیق دی کہ اس شہر کی زیارت کروں، جو اپنی درخشاں تاریخ اور انقلاب کی اہم ترین اور عظیم نشانیوں کے لحاظ سے صوبہ فارس بلکہ ملک کا اہم ترین شہر تصور کیا جاتا ہے، اور آپ عزیز بہن بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہوؤں۔ یہ اجتماع بھی بحمد اللہ شوق و عشق، معنویت و روحانیت اور انقلابی جذبات و دینی عقیدے کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے آپ کے لئے خاص عنایت ہے کہ جو تاریخ میں راہ خدا میں آپ کی طویل جد و جہد کی جزا ہے۔
کازرون عصری تاریخ میں ایک نمایاں اور بہت اہم شہر رہا ہے۔ خلیج فارس پر برطانوی سامراج کی جارحیت کے وقت کازرون کے جوانوں نے استقامت کی راہ میں خود کو بلند مقام پر پہنچایا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک اور آیت اللہ کاشانی رضوان اللہ علیہ کی حمایت میں یہاں کے عوام نے سنہری تاریخ رقم کی ہے۔ پندرہ خرداد (چار جون) کے موقع پر کازرون ان شہروں میں شامل تھا جہاں کے عوام نے بہت شجاعت مندانہ اقدام کیا۔ انقلاب کی تحریک کے آخری سال میں بھی کازرونی نوجوانوں اور اس خطے کے غیور عوام نے طاغوتی حکومت کے خلاف ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس وقت جن گيارہ شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا ان میں ایک کازرون بھی تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر بھی کازرون نے شہدا کی شکل میں نذرانہ پیش کیا تھا۔
علم و ادب کے میدان کی ممتاز شخصیات کی پرورش کے لحاظ سے بھی کازرون کی تاریخ بڑی تابناک اور درخشاں ہے۔ تاریخ اسلام کی عظیم اور زندہ جاوید شخصیت حضرت سلمان فارسی کی کازرون سے نسبت، اس خطے کے لئے مایہ افتخار ہے۔ البتہ حضرت سلمان فارسی کا تعلق تمام ایرانیوں سے ہے سارے ایرانی عوام اور سارے فارسی زبان اور فارس کے وہ سارے لوگ جن کی پیغمبر اسلام نے تعریف فرمائي ہے حضرت سلمان فارسی پر نازاں ہیں۔ حضرت سلمان کی نسبت ہمارے پورے ملک سے ہے آپ کا پوری قوم سے تعلق ہے۔ کازرون کے عوام اس علاقے کو اس جلیل القدر صحابی کی جائے ولادت قرار دیتے ہیں، اصفہان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے اصفہان میں نشو نما پائي، دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے۔ شہر شیراز، صوبہ اصفہان شہر کازرون، دشت ارژنہ جو حضرت سلمان فارسی کے مبارک نام کو خود سے منسوب کرتے ہیں اور ان کو اس کا حق بھی حاصل ہے اسی طرح اصفہان کے لوگ جو کہتے ہیں کہ اس الہی شخصیت نے اصفہان میں نشو نما پائی، اور انہیں ایسا کہنے کا حق بھی ہے۔ ان کے علاوہ ایران کے ہر گوشے میں آباد مسلمان حضرت سلمان فارسی کی ذات پر فخر کرتے ہیں۔
‏ قالوا ابوالصّقر من شيبان قلت لهم
كلاّ و لكن لعمرى منه شيبانُ
یہ نہیں کہنا چاہئے کہ سلمان فارسی فارس یا ایران سے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ فارس اور ایران سلمان فارسی سے ہے۔ مقام ایمان، مقام معرفت، مقام جہاد فی سبیل اللہ اور حقیقت کے پاکیزہ سرچشمے تک رسائی کی سعی پیہم کسی انسان کو اس منزل پر پہنچا دیتی ہے کہ پیغمبر کا ارشاد ہوتا ہے کہ سلمان منا اھل البیت،آپ کو اپنے اہل بیت کا جز قرار دیا۔ حضرت ابو ذر، عمار ، مقداد اور دیگر عظیم صحابائے کرام علو درجات کے لحاظ سے حضرت سلمان فارسی کے بعد آتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یعنی حقیقت کی جستجو میں ڈوب جانا اور اسے حاصل کرکے اس پر ثابت قدم ہو جانا وہ کیمیا ہے جس نے سلمان کو سلمان بنا دیا۔ اسی طرح استقامت، خلوص اور اس حق پر عقیدہ جو آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے، کازرون کے عوام کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے مین کازرون کےعوام کانام اس شہر کا نام ملک کی تقدیر اور مستقبل سے لگاؤ رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گيا ہے۔ یہ ہیں حقیقی فضیلتیں۔ اسلامی اقدار کے تعین میں ہم اس قسم کی اقدار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کازرونی زن و مرد، اور نوجوانوں کو اسلام میں اپنی سربلندی اور قدر و منزلت کی حفاظت کے لئے ان فضائل پر توجہ دینا ہوگی۔ اس حق بات پر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کی انہیں شناخت ہو چکی ہے، جس سے انہیں قلبی لگاؤ اور جس کی انہوں نے پیروی کی ہے۔ یہ باعث عز و شرف ہے۔ اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل لوگ دولتمندوں اور اہم منصب پر فائز افراد کا شمار امرا اور شرفا میں کرتے ہیں لیکن اسلام میں شرفا کے لئے معیار ذرا مختلف ہے۔ جو راہ خدا میں زیادہ تندہی سے جد و جہد کرتا ہے، جو الہی اصولوں سے متمسک ہے، جو اس راہ میں سچآئي اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اللہ تعالی کے نزدیک اس کا شمار شرفا میں ہوتا ہے۔
کازرون کے عزیز شہریوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ ملک کے حکام اور اس حقیر سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمارے دل بھی آپ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے کازرونی عوام کی انقلابی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا۔ صرف اسی بنیاد پر طاغوتی حکومت کے زمانے میں کازرون بلکہ ایک لحاظ سے پورا صوبہ فارس شاہی غیظ و غظب کا نشانہ تھا۔ آپ شیراز کے بارے میں پڑھئے اور اس طاغوتی حکومت کے دور میں نیا کلچر رائج کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیجئے۔ اب آپ اس کا جائزہ لیجئے کہ ایک حکومت کسی صوبے کی ترقی و پیش رفت کے لئے کیا کام انجام دیتی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر کوئي توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ صوبے کی سڑکیں ٹھیک نہیں تھیں۔ صوبے میں پانی کی سپلائی میں مسائل تھے، بند کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر اور صوبے میں بڑی بڑی صنعتیں لگانے سے گریز کیا گیا۔ ملک کے قلب میں واقع صوبہ جو اس عظیم تاریخ کا مالک ہے مواصلاتی لحاظ سے ملک کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہے۔ اس لئے کہ اس کی ترقی سے دلچسپی نہیں تھی۔ طاغوتی حکومت کے دور میں اس صوبے بلکہ پورے ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں حکام میں دلچسپی، ہمدردی اور سنجیدگی تھی ہی نہیں۔ زاویہ نگاہ مختلف تھا، کچھ الگ ہی حساب کتاب تھا۔
آپ غور کریں کہ جب ملک میں ریل گاڑی آئی تو سب کے ذہنوں میں خیال آیا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے مرکز کو ریل پٹری کے ذریعے وسطی صوبوں یعنی فارس اور اصفہان سے گزر کر خلیج فارس سے متصل کر دیا جائے گا۔ یہ بالکل فطری بات نظر آتی تھی۔ لیکن یہ کام نہیں کیا گيا۔ برطانیہ کا وہ سیاسی مصنف جو خود ایک سیاستداں اور ملک کے ساتھ خیانت کرنے والے سامراجی نظام سے وابستہ ہے، اپنی ایک کتاب میں جس کا فارسی ترجمہ ایران و قضیہ ایران کے عنوان سے شائع ہوا ہے اعتراف کرتا ہے کہ ایران کی ریل سروس تہران سے شروع ہوکر ملک کے وسطی علاقوں صوبہ اصفہان اور صوبہ فارس سے گزرتی ہوئی خلیج فارس تک پہنچنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گيا۔ طاغوتی دور میں جب رضاخان کی حکومت تھی ریل پٹری اس ملک کی دشمن تصور کی جانے والی طاقتوں یعنی برطانیہ اور روس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بچھائي گئی اور اس کا نام قومی ریل پٹری رکھ دیا گیا! سراسر غلط کہاں کی قومی ریل پٹری؟ ان دنوں برطانیہ اور روس کو ایران کی دو سمتوں میں ہتھیار اور فوجی ساز و سامان منتقل کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے، ان کے لئے تیل کی دولت لوٹنے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیج فارس سے وہ بھی خاصے فاصلے کے بعد سے تہران تک ایک ریل پٹری بچھائی گئي۔ وہاں سے کیسپین سی کے بعض علاقوں تک رسائي کے مسئلے پر توجہ دی گئی تاکہ برطانیہ اور روس کے درمیان رابطہ آسان رہے۔ یعنی ایک ملک کی ترقی کے پروجکٹ یعنی ریل پٹری بچھانے میں اس حد تک سامراجی طاقتوں کا اثر و رسوخ رہتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے ملک کے قلب میں واقع شیراز ریل کی پٹری سے محروم رہا۔ لیکن اللہ تعالی کی مدد سے انقلاب کے ان ابتدائي برسوں میں ہی، مواصلاتی میدان میں اس علاقے میں کافی کام ہوا ہے۔ اسی طرح اس خطے کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زمانے میں ریل کی پٹری بچھائي جائيگي۔ یہ کام انجام دیا جائےگا یہ صوبہ فارس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔ بالخصوص ان برسوں میں تمام شعبوں میں حوصلہ افزا کام ہوئے ہیں صنعتی میدان میں بند بنانے کی ٹکنالوجی میں اسی طرح دیگر میدانوں میں دیگر صوبوں کی مانند صوبہ فارس کے بھی شایان شان اقدامات کئے جائيں یہ عوام کا حق ہے جو حکومتیں انہیں دلائيں گي اور انشاء اللہ تعالی یہ حق انہیں ملے گا۔               ملت ایران نے اس عظیم ہدف اور مقصد کےحصول کے لئے اپنا پورا وجود داؤں پر لگا دیا۔ اسلامی انقلاب کے دوران قوم کو اپنے تشخص کا احساس ہوا۔ اس قوم کے دشمن ہمیشہ یہ چاہتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ اس قوم کا تشخص مٹا دیں۔ کیونکہ جب ایک قوم سے اس کا تشخص چھن جائے گا تو اسے بآسانی زیر کیا جا سکے گا۔ دشمن اس کے لئے اس قوم کے ماضی اور اس کے پاس موجود بے پناہ وسائل کی نفی کرتے تھے اس کے اندر موجزن صلاحیتوں کا انکار کرتے تھے کیوں؟ تاکہ اس قوم اور اس ملک کو آسانی سے اپنا دست نگر بنا لیں۔ یہ کام ثقافتی زوال کے دور یعنی پہلوی دور اقتدار میں انجام پا رہا تھا اور روز بروز اس عمل میں شدت آتی جا رہی تھی۔
اسلامی جمہوریہ نے سمت اور رخ کو ایک سو اسی درجہ تبدیل کر دیا۔ ملت ایران کو اپنے تشخص کی فکرہونے لگی، اسے اپنے اسلامی تشخص کا احساس ہوا کہ جو اس کے ایرانی تشخص کا بھی سرچشمہ ہے۔ اسے احساس ہو گیا کہ اپنے گمشدہ یا گم کردہ ایرانی، اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور اسی کی بنیاد پر اپنی منزلیں اور اہداف طے کرنا ہے، منصوبہ بندی کرنا ہے اور اسی تناظر میں سعی پیہم انجام دینا ہے۔ یہ کام ہماری قوم نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے اور کر رہی ہے۔ میں ناامیدی اور مایوسی کی باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔ میں ایسے نظریات کا منکر ہوں۔ میں ملک کے گوناگوں مسائل اور عظیم الشان ملت ایران کی صورت حال کےپیش نظر کہتا ہوں کہ یہ قوم اور اس قوم کے نوجوان تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد انقلابی اقدار کے زیادہ گرویدہ اور اس راہ کے تجربہ کار سپاہی بن چکے ہیں، ان کے ارادوں میں زیادہ استحکام پیدا ہوا ہے۔
انقلاب کا جوش کسی شعلے کی مانند بلند ہوتا ہے، ممکن ہے آگے چل کر اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن اگر اس کے ساتھ سلیقے سے رکھی گئی لکڑیوں میں بھی اس کی حرارت منتقل ہو رہی ہے تو یہ آگ شعلہ ور رہے گی، یہ آگ زیادہ طاقتور بنے گی، اس کی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ وہ پہلی آگ ممکن ہے اب باقی نہ رہے لیکن اس سے وجود میں آنے والے شعلوں میں پائداری ہوگی۔ اس کا دائرہ روز بروز بڑھےگا۔
آج ملت ایران کے دشمن سراسیمگی کا شکار ہیں، ملت ایران کی مسلسل پیش قدمی سے مضطرب ہیں۔ میں کازرون میں بسنے والے تمام دوستوں اور اس اجتماع میں موجود بھائي بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوری نظام کا دشمن یعنی عالمی سامراجی نیٹ ورک، جس میں امریکہ ہی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی نیٹ ورک کے مالکان، جو آج دنیا میں حکومتیں لاتے اور سرنگوں کرتے ہیں، خود ان ملکوں میں جہاں انہیں جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ خود امریکہ اور ان ممالک میں جو صیہونزم کی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں کا سکہ چلتا ہے، وہ ہیں ملت ایران کے دشمن۔ اسی طرح اس عالمی سامراجی نیٹ ورک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حکومتیں، یہ سب اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے سامنے اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے دشمن۔ اس دشمن نے ملت ایران کے مقابلے میں تمام وسائل اور ہر ممکن طریقے کا استعمال کیا لیکن پشیمانی کے سوا کچھ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ان تیس برسوں میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف اس لئے کہ نفع و نقصان کے حساب کتاب میں انہیں یہ لگا کہ ایسا کرنا فائدےمند نہیں ہے۔ اس میں نقصان زیادہ ہے۔ ورنہ انہوں نے اس قوم کے خلاف ہر وہ اقدام جو ان کے لئے ممکن تھا اور جس میں ان کا بڑا نقصان نہیں تھا، کیا ہے۔ انہوں نے اقتصادی محاصرہ کیا ہے، فوجی حملہ کیا ہے، فوجی بغاوت شروع کروائي ہے۔ ملک کے اندر سے اپنے لئے مہرے تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں، ایسے عناصر کو تلاش کرکے انہیں انقلاب کے خلاف پروپگنڈہ کرنے اور منفی فضا قائم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ حتی انہوں نے ملک کے کمیونسٹوں سے ساز باز کی ہے۔
امریکی سامراج جو کسی زمانے میں مارکسزم اور کمیونزم کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا، ملت ایران کے مقابلے میں اسی سامراج نے ادھر ادھر ناکارہ پڑے کمیونسٹوں کو تلاش کرکے ان سے سازباز کر لی کہ شائد ملت ایران پر کوئي کاری ضرب لگائی جا سکے لیکن ناکامی، سامراجی طاقتوں کے گلے کا طوق بن گئی، ملت ایران نے انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔
ہمیں اس کا علم ہونا ضروری ہے کہ اس شکست خودہ دشمن کی ہمارے خلاف کیا سازشیں ہیں۔ ہمیں پوری طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس اگر آپ کو حالات کا علم ہے، دشمن کی پہچان ہے، اس کی سازشوں کی خبر ہے تو آپ کبھی بھی غافل نہیں ہوں گے۔ ایرانی قوم کو یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے، یونیورسٹیوں اور دینی مراکز میں بڑی تعداد روشن فکروں، دانشوروں اور آگاہ افراد کی ہے جو عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان قابل تعریف ترقی کر چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے عوام اور ہمارے بسیجی (رضاکار) نوجوان علم و دانش، تجربہ و مہارت اور سائنس و ٹکنالوجی کے پیچیدہ مراحل میں بہت آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہماری قوم اس طرح کی قوم ہے۔ بہرحال حالات سے با خبررہنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آج دشمن جس چیز پر سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ تقرقہ اندازی ہے۔ سیاسی نظریات میں تنوع، صوبائي اختلاف رای اور مذاہب کا تنوع اس تفرقہ انگیزی کے بہانے ہیں۔ عالم اسلام کی سطح پر بھی یہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک رپورٹ دیکھی ہے، ابھی کچھ ہی ہفتوں قبل برطانوی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالم اسلام کے ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور پھر ان کو بنیاد قرار دیکر اختلافات کو ہوا دی جائے فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے۔
ایک حربہ نوجوانوں کو ورغلانے کا ہے۔ میں نے کئي سال قبل بھی ملک کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ ملک آپ کا ہے۔ آپ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی سمت بڑھئے۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اس پر عمل بھی کیا۔ تجربہ کار اساتذہ نے شب و روز کی تر خلوص محنت سے علمی کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دس، پندرہ سال قبل کے مقابلے میں ملک کی سائنسی ترقی بہت نمایاں نظر آ رہی ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ نوجوانوں کو عبث اور بے سود کاموں اور لہوو لعب میں مصروف کر دینا اور انہیں ملت ایران کی انقلابی زندگی کے راستے سے منحرف کر دینا دشمنوں کا بہت بڑا ہدف ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی پاکدامنی اور تقوا و پرہیزگاری سے آراستہ ان کی زندگی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اس کے مقابلے میں ہمیں اپنا تحفظ کرنا ہوگا۔ ملت ایران اپنے اتحاد و یکجہتی، سعی و کوشش اور کاملیت کے اوج کی سمت پیش قدمی کی تحریک کے ذریعے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالی ہم کو دشمن پر فتح حاصل ہوگی۔
اللہ تعالی نے ان تیس برسوں میں ہر آن ہماری مدد فرمائی ہے۔ مختلف مواقع اور مراحل پر اس قوم کے لئے غیبی امداد اور توفیق الہی کا مشاہدہ کیا گيا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہی ہے کہ آج جو حکومت سامراج کا مظہر ہے یعنی امریکی حکومت وہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ امریکہ کی ناکامیاں معمولی نہیں ہیں۔ آپ گزشتہ سات، آٹھ برسوں پر ایک نظر ڈالیں، اسے فلسطین میں شکست ملی، قوموں کے اذہان سے فلسطین کا نام مٹا دینے کی کوششوں میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی، عراقی عوام کی تقدیر و مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکہ، عراق میں جو پٹھو حکومت لانا چاہتا تھا وہ اقتدار میں نہیں پہنچ سکی۔ ابھی دو، تین دن قبل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار نے اعلان کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کا حملہ مشرق وسطی کی تیل کی دولت کے لئے کیا گيا۔ اس امیدوار کے بیان سے امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں زلزلہ سا آگیا ہے۔ یہ بات تو ہم نے شروع ہی میں کہی تھی۔ جب امریکہ عراق پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا ہم نے اسی وقت اعلانیہ کہا تھا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ عراقی عوام کو آزادی دلانے آئے ہیں۔ بالکل نہیں، آپ تو عراقی عوام کو اسیر بنانے کے لئے آئے ہیں۔ چو دیدم عاقب گرگرم تو بودی صدام امریکی افواج کے مقابلے میں کمزور بھیڑیا تھا۔ امریکی آئے، ہم نے کہہ دیا کہ تیل کے لئے آئے ہیں۔ عراق ہی نہیں پورے خطے کی تیل کی دولت کے لئے ان کا آنا ہوا ہے۔ اس آمد کا مقصد خلیج فارس میں سیاست نہیں بلکہ طاقت کے بل پر ایک مرکز قائم کرنا ہے۔ امریکی اس نیت کے ساتھ آئے تھے۔ اب امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار صریحی طور پر اعتراف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ایک منصوبہ ہے جو امریکہ کو مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر سے بے نیاز کر دےگا اور امریکہ اپنے جوانوں کو میدان جنگ میں بھیجنے کے لئے مجبور نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام اپنی حکومت کی حکمت عملی سے، جنگ عراق اور عراق پر غاصبانہ قبضے سے اس درجہ متنفر ہیں کہ صدارتی امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسی بات کو موضوع اور اشو قرار دے رہا ہے۔
تو کیا یہ امریکی حکومت کی ناکامی نہیں ہے؟ اس سے بھی بڑی شکست ہو سکتی ہے؟ فلسطین میں انہیں ہزیمت ہوئی۔ عراق میں ناکامی ہوئی۔ کمزور سے ملک افغانستان پر بھی تو وہ تسلط قائم نہیں کر پائے۔ لبنان میں ان کی سازشیں شکست سے دوچار ہوئيں۔ البتہ ان کی دریدہ دہنی جاری ہے، دھمکیاں دئے چلے جا رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں دوسروں پر رعب جمانے کے لئے مسلسل دھمکیوں کا سہارا لیتی ہیں۔ ملت ایران کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے۔ یہ قوم امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں اور عالمی غنڈوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی کبھی لائے گی۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے عزیزو! کازرون کے بلند ہمت نوجوانو! با ایمان جیالو! ملک بھر کے نوجوانو! مرعوب نہ ہونا بہت اچھی صفت ہے۔ شجاعت بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے آشانائی اور آگاہی بہت ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ یہ سب لازمی چیزیں ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کو کوشش کرنا ہوگی۔ حکومت اور عوام کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ملک اسلامی ملک کے قابل اتباع نمونے میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں پر عوام ، حکام اور نوجوانوں کی پوری توجہ ہونی چاہئے۔ ہر کسی کو ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے صحیح معنی میں عہدہ برآ ہوں اور حکام، عوام کے تعاون سے ملک کو اس مقام تک پہنچائیں جو اسلام کے مبارک نام کے شایان شان ہے تو راستہ یہی ہے کہ عوام کے درمیان اور عوام و حکام کے مابین رابطہ براہ راست، مضبوط اور دوستانہ ہو جس طرح آج نظر رہا ہے۔ جو بھی قوم کو تفرقے کی سمت لے جائے جو بھی قوم اور حکام کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہے، جو بھی اختلافات کو ہوا دے وہ در حقیقت ملت اور قوم کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ وہ خواہ کوئي بھی ہو۔
باہمی اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن کی نعمت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ لولا اذ سمعتمواہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا(سورہ نور/62) ایک دوسرے سے دل صاف رکھئے۔ شانہ بشانہ آگے بڑھئے اور یقین رکھئے کہ اللہ تعالی ایسی قوم کو، ایسے پاکیزہ قلوب کو، اس بلند ہمتی کو اپنی توفیقات اور عنایات کا سہارا دےگا۔ بحمد اللہ خدا وند عالم کے فضل و کرم سے قوم پوری طرح آمادہ ہے، ملک کے عہدہ داران آمادہ ہیں، عوام کی خدمت پر کمربستہ ہیں۔ یہ قوم اور یہ حکام تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دشمن کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عمر اتنے برس کی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ سارے کے سارے دشمن اسلامی جمہوریہ کے زوال کی تمنا اپنی قبر میں لے جائیں گے اور ملت ایران سربلندی و سرفرازی اور عزت و سرخروئی کےساتھ روز بروز ترقی کی نئی نئي منزلیں طے کرے گی۔ ممکن ہے اس دن ہم نہ رہیں لیکن یہ نوجوان طبقہ موجود ہوگا۔ آپ یاد رکھیں کہ کامیابی کا راستہ وہ ہے جس پر اسلام اور خدا نے چلنے کو کہا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ با برکت ملک اور تہذیب و ثقافت کا یہ گہوارہ اپنے اصلی مقام پر پہنچے اور دیگر ممالک کے لئے نمونہ عمل بنے تو راہ اسلام اور اس راہ سے تمسک کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ عزیزوں کے شامل حال ہوں۔
میں آپ کی نوازشوں، اس اجتماع، اجتماعی طور پر پورے جوش وجذبے کے ساتھ پڑھے گئے ترانے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیشہ کازرون کے عوام اور پورے صوبہ فارس پر اپنی رحمتوں، برکتوں اور عنایات کا سایہ رکھے گا اور اپنے الطاف کو آپ کے شامل حال کرے گا۔
خدایا! ان عزیز نوجوانوں، ان عزیز حاضرین اور بہن بھائيوں کے قلوب کو اپنی ہدایت سے منور فرما۔ ملت ایران کو سربلند و سرفراز کر۔ دشمنوں پر فتح سے ہمکنار کر، دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کے اعوان و انصار میں قرار دے، شہدا اور شہیدوں کے امام (امام خمینی رہ) کے درجات میں روز بروز اضافہ کر۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏