بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين.
اگرچہ اسلامی انقلاب کے دوران رونما ہونے والے تعجب خیز بے نظیر واقعات کم نہیں ہیں اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے آغاز سے ، جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی، اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک، جدوجہد اور انقلاب کے دوران رونما ہونے ہونے والے حیرت انگیز اور عدیم المثال واقعات یکے بعد دیگرے آنکھوں اور دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم ان حیرت انگیز واقعات کے دوران شہید کا مسئلہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جو بات بھی شہید کے نورانی وجود سے متعلق ہے وہ ایک تعجب خیز بات ہے۔ جہاد کی جانب بڑھنے میں اس کا محرک اور یہ کہ آج کی مادی دنیا میں اور اتنی بڑی تعداد میں رنگارنگ محرکات کے درمیان ایک نوجوان اٹھے اور اللہ کے لیے قیام کرے اور جہاد کے میدان کی جانب بڑھے، یہ خود ایک حیرت انگیز بات ہے۔ اس کے بعد اس کی جدوجہد، میدان جنگ میں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا، مختلف میدانوں میں اس کے اہم کام اور اس کے شجاعانہ اور بہادرانہ کارنامے بھی کہ جن کی ہر سطر ایک جاوید اور نورانی سرمشق بن سکتی ہے، ایک حیرت انگیز کام ہے۔ اس کے بعد شہادت کے عظیم شوق تک پہنچنا، مادی حجابوں کا ہٹ جانا، معشوق اور محبوب کے چہرے کا دیدار بھی ایک تعجب خیز بات ہے کہ جو شہداء کے افعال، اقوال اور شہادت کے قریب کے ایام میں ہمیشہ نظر آتی رہی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے واقعات بھی موجود ہیں۔ آپ شیرازیوں اور اہل فارس کے عزیر شہداء میں سے ایک شہید کے وصیت نامے میں میں نے پڑھا کہ اس نے لکھا تھا: میں بے قرار ہوں، بے قرار ہوں۔ میرے دل میں ایک آگ ہے کہ جس نے مجھے بے تاب کر رکھا ہے۔ اے خدائے عزیز! مجھے تیرے وصال کے علاوہ کسی اور چیز سے قرار نہیں ملے گا۔ یہ ایک جوان کی باتیں ہیں۔ یہ وہی بات ہے جس تک ایک عارف اور سالک الی اللہ برسوں کے مجاہدے اور مراقبے کے بعد پہنچتا ہے لیکن ایک نوجوان پر میدان جنگ اور جہاد کے میدان میں اس طرح سے خدا کا فضل و کرم ہوتا ہے کہ وہ سیکڑوں برسوں کی اس راہ کو پلک جھپکتے میں طے کر لیتا ہے اور اس کی اس بے قراری اور اس جذبۂ شوق کا خداوند متعال کی جانب سے مناسب جواب ملتا ہے۔ اس کا یہ جذبۂ شوق بھی خداوند عالم کا لطف و کرم ہے۔ یہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ اس کے بعد شہید کا خون ہے۔ شہید کے اہل خانہ، شہید کی ماں، شہید کا باپ، شہید کے بیوی بچے، شہید کے بھائی بہن اور شہید کے اعزہ اور دوست احباب شہید کے اس خون کے مقابلے میں اس طرح کے صبر و تحمل، متانت اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسان متحیر رہ جاتا ہے لیکن اگر یہی نوجوان اپنی فطری موت کے سبب اس دنیا سے رخصت ہوا ہوتا تو یہ لوگ بالکل بھی صبر نہیں کر پاتے اور اپنے گریبانوں کو چاک کر دیتے۔ دو شہیدوں کی ایک ماں نے مجھ سے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کو خود دفن کیا اور خود انہیں قبر میں رکھا لیکن میرے ہاتھوں میں لرزش نہیں ہوئي۔ کئی شہیدوں کے ایک باپ نے مجھ سے کہا کہ اگر میرے ان سے کئی گنا زیادہ بچے بھی ہوتے تو میں انہیں خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیاررہتا۔ یہ کون سا عنصر ہے؟ یہ کون سا جوہر ہے؟ یہ کیسی درخشاں بجلی ہے جو خداوند متعال نے شہادت کے قلب میں رکھی ہے کہ جو اس طرح تاریک دنیا کو منور کر دیتی ہے؟ آٹھ برسوں تک ایرانی قوم اپنے مرد وزن کے دلوں میں اس درخشاں بجلی کے ساتھ رہی ہے۔ اور خدا نے دستگیری کی؛ خدا نے مدد کی۔
شہدا پیشرو اور علمبردار تھے اور دوسرا محاذ، شہیدوں کے اہل خانہ اور دیگر ایثار پیشہ افراد ہیں۔ یہ لوگ آگے بڑھے اور راستے میں موجود رکاوٹوں کو ختم کر دیا اور ایک ایسی قوم کو جسے صدیوں تک تسلط پسندوں کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرنے کی عادت ڈال دی گئي تھی، ایک با نشاط، سرفراز، با افتخار اور عزم مصمم اور عزم راسخ والی قوم میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کام ہمارے شہیدوں نے کیا؛ یہ کام میدان کارزار میں لڑنے والے ہمارے جوانوں نے کیا؛ یہ کام جنگ میں زخمی ہونے والے ہمارے جانبازوں نے کیا؛ یہ کام دشمن کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہمارے جیالوں نے کیا اور یہ کام آپ شہیدوں کے اہل خانہ نے کیا۔ ایران اور ایرانی پر تا ابد آپ کا احسان باقی رہے گا اور ایران کی تاریخ کو شہدا کے اہل خانہ کے سلسلے میں اپنا حق ادا کرنا چاہیے۔ صوبۂ فارس اور شیراز شہر سے ساڑھے چودہ ہزار سے زائد شہید! یہ مذاق ہے؟ وہ شیراز جسے سامراجی پالیسیوں نے بے راہروی اور دینی اصول و اقدار سے لاپرواہی کا مظہر بنانے کا فیصلہ کیا تھا؛ وہ شیراز جس کے بارے میں یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ اس میں انحطاط پذیر حیوانی جلووں کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دے اور اس میں مذہبی اصالت کی کوئی بات ہی نہ ہو۔ اس کام کے لیے پالیسیاں وضع کی گئیں اور کام بھی کئے گئے تاہم شیراز کے لوگوں اور صوبۂ فارس کے لوگوں کا جواب اور دشمن کے چہرے پر آپ کا گھونسہ تھا: ساڑھے چودہ ہزار شہید، جنگ میں زخمی ہونے والے چونتیس ہزار سے زائد جانباز اور دشمن کی جیلوں میں رہ چکے ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد! سلام ہو آپ پر! خدا کی رحمت ہو آپ پر!

شیراز عظیم امامزادوں کے لیے پناہ گاہ رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی علاقے میں فارس صوبے جتنے امامزادوں کے مقبرے نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امامزادے یا معصومین کی اولاد جہاں کہیں سے بھی خلفاء کے مظالم سے فرار ہو جاتی یا پھر عوامی امداد کی امید میں حرکت کرتی تو شیراز شہر یا فارس صوبے کے دیگر شہروں کا رخ کرتی۔ وہ معنویت، جس کا ایک مظہر شہید آیۃ اللہ دستغیب شیرازی مرحوم تھے، اس کا سرچشمہ اہل بیت علیہم السلام کا یہی لامتناہی فیض ہے۔ اس سے دینی محرکات کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ نورانیت شہید دستغیب جیسی شخصیت تیار کرکے اس کی پرورش کرتی ہے اور اس عزیز شہید کا فیض اس علاقے میں اتنے سارے نوجوانوں اور حقیقت کے متلاشی افراد کو معنویت کا شیدا بنا دیتا ہے؛ یہ وہی نوجوان دل ہیں جنہوں نے پہلے ہی دن سے میدان کارزار میں قدم رکھ دیا تھا۔ میں نے کل شیراز میں تعینات فوجیوں کے اجتماع میں کہا تھا کہ انقلاب کے شروع میں مسلط کردہ جنگ کے اوائل میں، اس وقت جب ہر طرف سے محاذ انتہائي سخت تھے اور خرمشہر کا بڑا حصہ غاصبوں کے قبضے میں تھا، میں آبادان اور خرمشہر کے اس حصے میں گیا؛ کچھ مخلص، نورانی اور بااشتیاق نوجوان بالکل معمولی اسلحوں کے ساتھ وہاں جنگ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ میں نے پوچھا۔ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ شیراز سے۔ پوری مسلط کردہ جنگ کے دوران صوبۂ فارس کے افراد کی موجودگی مؤثر اور نمایاں رہی ہے؛ چاہے وہ فجر بریگیڈ میں ہو، چاہے المہدی بریگیڈ میں ہو یا پھر فوج کی مختلف یونٹس میں جو شیراز میں تعینات ہیں جن کے بہت زیادہ اہلکار شیراز یا پھر فارس صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس چیز نے اتنے سارے نوجوانوں کو اسلام کے دفاع، قومی خودمختاری کے دفاع، ملک کے دفاع اور سب سے بڑھ کر ہماری تاریخ کے سب سے بڑے واقعے یعنی اسلامی انقلاب کے دفاع کے لیے اس طرح سے میدان جنگ کی جانب کھینچا وہ آیۃ اللہ دستغیب شیرازی اور ان جیسے دیگر افراد کی کشش اور سب سے بڑھ کر امام خمینی (رہ) کی پشتپناہی تھی۔ یہ ہمارے انقلاب کی انتہائی اہم حیرت انگیز باتوں میں سے ایک ہے۔
عزیزو! آج اس وقت کو برسوں بیت چکے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے نوجوانوں نے مقدس دفاع کے زمانے کو نہیں دیکھا ہے اور بعض کے ذہنوں میں اس زمانے کی ایک مبہم سی تصویر ہے۔ وقت، واقعات کو انسان سے لمحہ بہ لمحہ دور کرتا جاتا ہے۔ بعض واقعات بھلا دیئے جاتے ہیں؛ اس کمزور موج کی مانند جو پانی کے ایک بڑے حوض میں ایک پتھر ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے۔ موج تو ہے لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی جاتی ہے، زیادہ کمزور ہوتی جاتی ہے اور کچھ ہی دیر میں معدوم ہو جاتی ہے۔ لیکن بعض واقعات اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں اور وقت انہیں کمزور نہیں کر پاتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال واقعۂ کربلا ہے۔ عاشورا کے دن کسی کی سمجھ میں نہیں آيا کہ کیا ہو گيا ہے۔ اس واقعے کی عظمت، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جگر گوشے اور ان کے ساتھیوں کے جہاد کی عظمت اور اسی طرح پیغمبر کے فرزندوں اور نورچشموں کے قتل کے المیے کی تاثیر کسی پر واضح نہیں تھی۔ وہاں پر موجود اکثر لوگ بھی سمجھ نہیں سکے۔ جو لوگ دشمن کے محاذ میں تھے وہ اتنے مست اور غافل اور اپنے آپ سے اتنے بیگانہ تھے کہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ کیا ہو گيا ہے۔ دنیا پر فریفتہ، غرور میں مست اور شہوت و غضب اور حیوانیت میں چور افراد یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ انسانیت کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ جی ہاں! حضرت زینب اچھی طرح سمجھ گئي تھیں، حضرت سکینہ بخوبی سمجھ گئي تھیں، وہ مظلوم خواتین اور بچیاں اچھی طرح سمجھ گئی تھیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ باتیں عاشورا کے دن کی ہیں۔ لیکن وقت جیسے جیسے آگے بڑھا؛ بارہویں محرم کو کوفے میں، کچھ ہفتے بعد شام میں، اس کے کچھ ہفتے بعد مدینے میں اور اس کے کچھ عرصے بعد پورے عالم اسلام میں اس واقعے نے بجلی کی سرعت سے اپنی عظمت اور اہمیت کو نمایاں کر دیا۔ ابھی اس واقعے کو دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ فرعون صفت باغی جو اس واقعے کا ذمہ دار تھا ہلاک ہو گيا اور کچھ برس بھی نہیں گزرے تھے کہ اس کا پورا خاندان تباہ ہو گیا۔ بنی امیہ کا ایک دوسرا خاندان برسراقتدار آيا۔ کچھ عشروں کے بعد وہ خاندان بھی تباہ ہو کر ختم ہو گيا۔ عالم اسلام روزبروز اہلبیت علیھم السلام کے مکتب کے زیادہ قریب، زیادہ شیدا اور زیادہ مشتاق ہوتا گيا اور اس واقعے نے پوری تاریخ میں اسلامی عقائد اور اسلامی مکتب کو استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اگر واقعۂ کربلا نہ ہوتا تو آج ہم اسلام کے اصولوں اور بنیادی باتوں سے چنداں آگاہ نہ ہوتے اور شاید صرف اسلام کا نام ہمارے کانوں تک پہنچتا۔ یہ مقدس خون اور یہ عظیم واقعہ نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوا، کم رنگ نہیں ہوا بلکہ روز بروز زیادہ مضبوط، نمایاں اور مؤثر ہوتا چلا گيا۔ یہ ایک واضح اور نمایاں نمونہ ہے۔ آپ کا انقلاب اور آپ کے شہیدوں کی شہادت بھی اسی قبیل کی ہے۔ شروع میں واقعہ زلزلے کی مانند تھا۔ بہت سے افراد نے تجزیہ کیا کہ یہ ایک زلزلہ ہے، آ کر چلا جائے گا اور بھلا دیا جائے گا! لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف ہوا۔ آج مسلمان اقوام کے دلوں کی گہرائيوں میں اسلامی انقلاب کے مفاہیم روز بروز زیادہ اثر و رسوخ اور جگہ پیدا کرتے جا رہے ہیں؛ اور یہ میری بات نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے تجزیوں کا نتیجہ ہے جو ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وہ لوگ یہ کہتے ہیں؛ وہ لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں، اور یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ دھمکیاں دیتے ہیں اور ایرانی قوم کے خلاف چنگھاڑتے ہیں تو انہیں تجزیوں کے سبب ہے؛ وہ خوفزدہ ہیں! وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دبا نہیں ہے؛ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ موج کمزور نہیں پڑی ہے بلکہ مسلسل زیادہ نمایاں اور زیادہ وسیع ہو رہی ہے اور اس کی طاقت اور گیرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے؛ لہذا وہ ڈر رہے ہیں۔
ایک زمانے میں انہوں نے یہ سوچا کہ اس ملک میں انقلاب کا خاتمہ ہو گيا ہے؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ غافل اور نادان افراد نے یا تو کہا کہ انقلاب ختم ہو گیا، یا کہا کہ اب شہداء کا نام نہ لیا جائے، یا کہا کہ امام خمینی (رہ) کو اب تاریخ کے میوزیم کے حوالے کر دینا چاہیے اور اسی طرح کی دیگر باتیں! ان بیوقوفوں نے جو اس قسم کی باتوں سے اپنی پالیسیوں کے لیے تجزیے تیار کرنا چاہتے تھے، ان باتوں پر یقین کر لیا۔انہوں نے سوچا کہ انقلاب ختم ہو گيا۔ آج جب انسان دیکھتا ہے تو ان کی باتوں میں ان تجزیوں کے سلسلے میں مایوسی کی جھلک دکھائی پڑتی ہے۔ وہ، ایرانی قوم، ایران کی عظمت، ایران کی خودمختاری اور ایران کے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے خوف محسوس کر رہے ہیں۔ کیوں ایک قوم اور ایک ملک کی سائنسی ترقی و پیشرفت دنیا میں کسی گروہ کی نظر میں خطرناک ہے؟ کیوں؟! کیونکہ وہ اجارہ داری کے خواہاں ہیں؛ تسلط پسند ہیں؛ کیونکہ انہوں نے ایران کو تر نوالہ سمجھ لیا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اس ملک کے اس کے تمام تر وسائل اور نمایاں جغرافیائي پوزیشن کے ساتھ ایک ہی دفعہ میں نگل لیا جائے۔ ایرانی قوم کی بیداری، ایرانی نوجوان کی بیداری اور ایرانی نوجوان کی صلاحیتیں اور علمی پیشرفت اس کی راہ کی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے آپ کی ٹیکنالوجی کی ترقی، آپ کی ایٹمی توانائی اور آپ کی دیگر سائنسی پیشرفت انہیں غصے میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جی ہاں، اگر ایرانی قوم بے فکر اور ایرانی نوجوان لاپرواہ ہو اور علم، کام، پیداوار اور جدت طرازی کی فکر میں نہ ہو اور اسی طرح عیش و نوش میں زندگی گزارے تو وہ بہت خوش ہوں گے۔ وہ یہی چاہتے ہیں؛ وہ یہ نہیں چاہتے کہ شیراز شہر ایک ایسا مرکز بنے جس میں سائنسی پیشرفت ہو، میں نے عرض کیا کہ آپ کا شیراز، صنعتی ترقی کے لحاظ سے ملک کے شہروں اور صوبوں میں پہلی صف میں ہے اور بعض سائنسی شعبوں میں آپ کے مردوں اور عورتوں نے پوری دنیا میں ڈنکا بجا دیا ہے، وہ یہی نہیں چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہماری یونیورسٹیوں، ہمارے دینی تعلیمی مراکز، ہماری تجربہ گاہوں اور ہمارے پیداواری مراکز میں رونق رہے۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کا اختلاط اور ان کی شہوانی آمیزش نیز غفلت اور عیش و عشرت لوگوں کی زندگی پر چھائی رہے؛ وہ یہ چاہتے ہیں۔ آپ نے اس کے برخلاف کام کیا ہے۔ امریکہ اور صیہونیوں کے غصے اور اتنے سارے پروپیگینڈوں کی وجہ یہی ہے۔
بعض افراد کہتے ہیں کہ جناب آپ امریکہ سے دشمنی کو کیوں ہوا دیتے ہیں؟ تو اگر ہم امریکہ سے دشمنی کو ہوا نہ دیں تو ہمیں جا کر سو جانا چاہیے۔ سارا کام کاج چھوڑ دینا چاہیے اور اپنے افتخارات کو بھلا دینا چاہیے۔ ایسی حالت میں امریکہ ہمارا شکر گزار ہوگا؛ امریکہ یہ ہے۔ کیا ایرانی قوم اس بات پر راضی ہے؟! وہ اس وجہ سے ہمارے دشمن نہیں ہیں کہ ملک کے فلاں عہدیدار نے فلاں بات کہی ہے یا ہماری پالیسی فلاں سمت میں جا رہی ہے؛ نہیں، وہ ایرانی قوم کی بیداری کی وجہ سے ہمارے دشمن ہیں۔ جس جگہ بیداری کا مرکز ہوتا ہے وہاں دشمن کے حملے بھی زیادہ مضبوط اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ جس جگہ سے بیداری شروع ہوتی ہے اور جس جگہ سے قوم کے نوجوانوں کی ہوشیاری، آمادگی اور محرکات زیادہ سامنے آتے ہیں، اس جگہ کے دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔ شہدا کے اہل خانہ کے دشمن ہیں۔
الحمد للہ شیراز کے شہدا کے اہل خانہ ایسے ہی ہیں؛ آپ دیکھیے کہ کس قسم کے جذبات اور فخر کے احساس نے اس فضا اور ماحول کا احاطہ کر رکھا ہے! صحیح بھی یہی ہے؛ فخر کیجیے۔ حقیقت میں فخر کی بات ہے کہ انسان اپنے عزیز اور اپنے نوجوان کو خدا کی راہ میں دے دے اور یہ جانے کہ اس نے اپنے اس کام سے خداوند متعال کو مسرور کیا ہے؛ صبرا و احتسابا اسے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ اس نے جس عزیز کو خدا کی راہ میں دیا ہے وہ ایک محاذ تھا جسے اس قوم کی عزت و خودمختاری کے دشمنوں کے حملے کے مقابلے کے لیے قائم کیا گيا تھا۔ ہمارے شہدا میں ہر ایک محاذ ہے؛ یہ فخر کی بات ہے؛ جنگ میں اپنے اعضاء کا نذرانہ پیش کرنے والے جانباز بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ بھی زندہ شہید ہیں۔ جنگ میں معذور ہونے والے آپ معززین بھی شہدا کی مانند ہیں۔ شہید بھی وہی ضرب پرداشت کرتا ہے جو جانباز برداشت کرتا ہے۔اُس کی قسمت پرواز اور رحلت ہے، اِس کی قسمت فی الحال رکے رہنا ہے۔ شہداء کے اہل خانہ، شہید کے والدین، شہید کی بیوی، شہید کے بچّے اور شہید کے بھائیوں، بہنوں، رشتہ داروں اور جنگ میں اپنے اعضاء کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں کے والدین، بہنوں اور بیویوں کو فخر کرنا چاہیے۔ ایک بات جسے میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں، جانبازوں کی بیویوں کا احترام ہے۔ ان میں سے بعض معزز خواتین نے ان جانبازوں کو ان کی اسی حالت میں قبول کیا ہے۔آفرین ہے ان پر! بعض دیگر نے کسی جوان رعنا کے ساتھ شادی کی تھی لیکن انہوں نے اچانک ہی دیکھا کہ وہ نوجوان ایک معذور شخص میں تبدیل ہو گيا؛ لیکن انہوں نے اسے قبول کیا اور خیر مقدم کیا؛ آفرین ہے ان پر! جنگ میں معذور ہونے والے افراد کی بیویاں بہت زیادہ لائق احترام ہیں، شہدا کی بیویاں لائق صد احترام ہیں جنہوں نے عزیز جوانوں کی تربیت کی ہے۔ میں نے شیراز کے شہداء کے حالات میں دیکھا کہ شیراز اور صوبۂ فارس کے بہت سے شہداء کے بچوں نے سائنسی اور تحقیقاتی میدان میں بہت اعلی مقام حاصل کیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟! یہ اس ماں کے جہاد کے سبب ممکن ہوا ہے۔ وہ شہید کی بیوی، وہ شیر دل خاتون اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والی جس کا جہاد ہے؛ حسن التبعل؛ حسن التبعل کا مطلب یہی ہے۔ یعنی اپنے شوہر کی عزت کا تحفظ کرنا؛ یہ حسن التبعل ہے؛ اس کا ایک نمونہ یہی ہے کہ شوہر راہ خدا میں چلا گيا؛ اس کے بچوں اور نونہالوں کو اپنی آغوش میں اور اپنی تربیت کے ذریعے اتنا بڑا کردیں کہ وہ فخر محسوس کریں اور شہید کی راہ کو جاری رکھیں۔
آپ لوگوں سے میں آخری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عزیزو! اگر عزیز شہدا جو سب سے زیادہ عزیز ہیں اگر ہمارے لیے معزز ہیں کہ در حقیقت وہ سب سے معزز ہیں تو ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے راستے پر چلتے رہیں گے اور ان کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ان کے راستے پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف کو اور اسلامی اقدار کو، جو مستحکم ستون اور نمایاں معیارات ہیں اور اس قوم کو دین اور دنیا میں فخر کی چوٹیوں تک پہنچا سکتے ہیں، اپنے مدنظر رکھیں اور انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس سلسلے میں خواتین اور مرد یکساں ہیں؛ شہید کے بیٹے اور بیٹیاں، شہید کے بھائی اور بہن اور وہ لوگ جو شہید سے کوئی نسبت رکھتے ہیں اس سلسلے میں سب یکساں ہیں۔ آپ شہید سے جتنا زیادہ نزدیک ہیں آپ کا افتخار زیادہ اور ذمہ داری زیادہ بھاری ہے۔ ملک آپ کا ہے؛ ملک جوانوں کا ہے؛ مستقبل آپ کا ہے۔ جو لوگ چلے گئے وہ چلے گئے اور راستوں کو کھولتے ہوئے گئے؛ ہم اور آپ جو رہ گئے ہیں انہیں ان کھلے ہوئے راستوں پر چلنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ ورنہ اگر وہ راستہ کھول دیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یوں ہی بیٹھے رہیں تو قدرناشناسی اور نمک ناشناسی ہوگي۔ شہدا کے سلسلے میں نمک شناسی یہ ہے کہ جب انہوں نے راستہ کھول دیا تو ہم اس راستے پر چلتے اور آگے بڑھتے جائيں۔ آج یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ایرانی قوم اپنی اس ذمہ داری کو پورا کر رہی ہے اور بحمد اللہ ملک کے حکام بھی اس ذمہ داری پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور اسلامی نعرے اور اسلامی اصول ان کے لیے سب سے اصلی نعرے اور پرچم ہیں۔ ان شاء اللہ یہ قوم اس عزم کے ساتھ، ان جذبات کے ساتھ، ان نوجوانوں کے ساتھ اور ان فروزاں مشعلوں کے ساتھ جو شہیدوں کے خون سے روشن ہیں اور پوری فضا کو منور کر رہی ہیں، اپنی اعلی ترین اور مشکل ترین آرزوؤں کو بھی حاصل کر کے رہے گی۔
خدایا! اپنی رحمت اور مغفرت شہیدوں پر نازل کر۔ خدایا! اپنی رحمت اور لطف و کرم کو شہدا کے اہل خانہ پر نازل فرما۔خدایا! ہمیں شہیدوں کے ساتھ محشور کر۔ خدایا! ہمیں اپنی راہ میں شہادت کی توفیق عنایت فرما۔ خدایا! امام خمینی کی دعا، شہیدوں کی دعا، شہید دستغیب کی دعا اور سب سے بڑھ کر حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعا کو ہمارے شامل حال کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ