بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج نبی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت کی سالگرہ ہے۔ در حقیقت آج کا دن امت مسلمہ کے لئے بہت بڑی عید ہے۔
سب سے پہلے تو میں عظیم امت مسلمہ، عزیز ملت ایران، اس اجتماع کے شرکاء بالخصوص غیر ملکی مہمانوں کو اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے تعلق سے ہم مسلمانوں کے پاس ایک دوسرے سے بیان کرنے اور بحث و تجزیہ کرنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عالم بشریت کے لئے تا ابد معلم عدل و انصاف، علم و معرفت، اخوت و محبت، تکامل و کاملیت ہیں۔ انسان اس زمانے کا تصور بھی کیسے کر سکتا ہے جو ان گہربار تعلیمات سے بے نیاز ہو؟ انسانیت کو ہمیشہ کی طرح آج بھی پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔
امت مسلمہ کی ان اہم شخصیات کے سامنے آج میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ اتحاد بین المسلمین کی بات ہے۔ آج عالم اسلام اور امت مسلمہ کو بے شمار مصیبتوں اور رنج و الم کا سامنا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان میں سے بیشتر مسائل خود ہمارے اندر سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم سے کوتاہی اور سستی ہوئي اور ہم نے اپنی خود غرضی اور جاہ طلبی کے زیر اثر انسانی کمال کے اوج کے سمت امت مسلمہ کے سفر کو جاری رکھنے میں کوتاہی کی لیکن اس میں بھی دو رای نہیں کہ تاریخ کے پچھلے کچھ ادوار میں ان مشکلات، مصیبتوں اور اس پسماندگی کا بڑا حصہ آج اورکل کے غیر منصفانہ عالمی نظام کی دین ہے۔ عالمی نظام طاقت کے استعمال کا نظام ہے۔ یہ انسانی زندگی کا نظام نہیں جنگل کی زندگي کا نظام ہے۔
آپ عالم اسلام کی حالت پر ایک نظر ڈالئے۔ ہم برسوں سے مسئلہ فلسطین کو پیکر امت مسلہ کے گہرے زخم کے طور پر یاد کرتے آئے ہیں اور آج عراق کا زخم بھی ہمارے سامنے ہے۔ دیکھئے تو سہی کہ سامراج طاقت کے استعمال سے کیا کر رہا ہے؟ طاقت، ہتھیار اور سیاسی و مالی قوت کی بنیاد پر غیر منطقی باتوں کو دنیا میں منطقی بات کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور ان پر عمل کیا جا رہا ہے۔ وہ جرائم جو دنیا کی تمام قوموں کی نظر میں مذموم ہیں آشکارہ انجام دئے جا رہے ہیں اور کبھی کبھی تو اس کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے اسے کسی نام سے معنون بھی کر دیا جاتا ہے۔ انہیں خوب اندازہ ہے کہ دنیا میں کوئي بھی ان باتوں کو قبول کرنے والا نہیں۔ کبھی تو وہ ان جرائم پر نقاب ڈالنے یا ان پر کوئي خوبصورت سا عنوان چسپاں کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ اعلانیہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ہے آج کے عالمی نظام کی حالت۔ دہشت گردی، جس کے خلاف لڑائی امریکہ کی سامراجی حکومت کے لئےطاقت کے استعمال کا بہانہ بن گئي ہے، امریکی حکومت کے لہجے اور صیہونی حکام کے طرز عمل میں مجسم ہوتی نظر آتی ہے اور یہ سب طاقت کے استعمال سے ہو رہا ہے۔ عراق پر فوجی قبضہ اور مہذب و عظیم ثقافت کی مالک قوم کی تحقیر و تذلیل عالمی جرم ہے۔ لیکن وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے دفاع کے نام پر کھلے عام اور آشکارہ اس جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ دنیا میں کسی کو بھی ان کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔ کیونکہ عراق میں قابضوں کا جو رویہ ہے وہ اس (جمہوریت و انسانی حقوق کے دفاع) کے بالکل بر عکس ہے۔ ان کے روئے سے واضح ہے کہ حکومت کے انتخاب کے تعلق سے عوام کا حق اور انسانی حقوق ان کے نزدیک در خور اعتناء نہیں ہیں۔ ان کی نظر میں ان باتوں کی کوئي وقعت نہیں ہے۔ خود منصوب کرتے ہیں، خود ہی حاکم معین کرتے ہیں، خود ہی قانون بناتے ہیں اور خود ہی بغیر قانونی کاروائي کے سزائیں دیتے ہیں اور وہ بھی قتل عام جیسی سزا۔ آپ غور تو کیجئے کہ عراق میں کیا ہو رہا ہے! یہ ہے امت مسلمہ کی موجودہ حالت۔
امت مسلمہ کو محض اس جرم میں کہ وہ دنیا کے انتہائي مالامال علاقے پر آباد ہے اور چونکہ موجودہ تہذیب و ثقافت کے پہئے کی گردش ان وسائل پر منحصر ہے جو دنیا کے اسی خطے میں بوفور پائے جاتے ہیں، اسے جارحیت اور حرص و طمع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کے خلاف ہر مجرمانہ اقدام روا رکھا جا رہا ہے۔ امت مسلہ کا آج یہ عالم ہے۔ کیا مسلم امہ ان جارحیتوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں بالکل قادر ہے۔ ہمارے پاس بے شمار وسائل ہیں جن سے ہم اپنے حق اور وجود کا دفاع کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت بڑی آبادی ہے۔ ہمارے پاس عظیم ثروت و دولت ہے۔ ہمارے پاس برجستہ شخصیات اور روحانی سرمایہ ہے جو ہماری قوموں کو تسلط پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے کی قوت و طاقت عطا کرتا ہے۔ ہمارے پاس قدیم ثقافت اور تہذیب ہے جس کی دنیا میں کوئي اور مثال بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ ہمارے پاس بے شمار وسائل ہیں۔ اس بنا پر ہم اپنے دفاع پر قادر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ کیوں عملی میدان میں ہم سے کچھ نہیں ہو پاتا؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد اور ایک نہیں ہیں۔ چونکہ مختلف بہانوں سے ہم کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گيا ہے۔ امت مسلمہ کے نام سے ہمارے پاس عظیم اور تمام وسائل سے لیس فوج موجود تو ہے لیکن اسے ایسے گروہوں میں تقسیم کر دیا گيا ہے جن کا سارا ھم و غم ایک دوسرے کے خلاف لڑنا، ایک دوسرے سے وحشت کھانا، ایک دوسرے پر جارحیت اور ایک دوسرے کو نوچنا کھسوٹنا ہی ہے۔ ان حالات میں تو طے ہے کہ یہ عظیم فوج بے اثر اور ناکارہ رہے گی۔ آب وقت آ گیا ہے کہ امت مسلمہ نظر ثانی کرے۔ اتحاد کے بارے میں غور کرے۔ اس وقت علاقے میں امریکہ کا خطرہ کسی ایک یا دو ملکوں کے لئے نہیں ہے۔ امریکی حکمراں گروہ کی پشت پر، موجود صیہونی سرمایہ دار خطے کے کسی ایک حصے کو نگل کر چپ نہیں بیٹھ جائيں گے بلکہ وہ پورے خطے کو ہضم کر جانے کی کوشش میں ہیں اور اب تو کھلے عام یہ بات کہی بھی جا رہی ہے۔
عظیم مشرق وسطی سے موسوم منصوبے کا اس کے علاوہ کوئي اور مقصد نہیں ہے۔ پچاس، پچپن سال قبل صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آئي اور تقریبا سو سال قبل سے یہ خیال مغربی اور یورپی حلقوں میں پیدا ہوا۔ اسی وقت سے اس علاقے کو ہڑپ لینے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہیں اس علاقے کی ضرورت ہے۔ سب کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جب سب کو دھمکایا جا رہا ہے تو عاقلانہ اور دانشمندانہ روش ہے کہ سب مل کر غور و فکر کریں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔ اسلامی حکومتوں اور مسلم اقوام کے لئے ہماری سفارش یہ ہے کہ اس نکتے پر غور کریں اور اقدام کریں۔ اس میں زحمتیں تو زیادہ ہیں، اس کی بہت سی تیاریاں ابھی مکمل ہونا باقی ہیں۔ ان تیاریوں کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ دشمن بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ تفرقہ انگیزی کے حربے استعمال کرتا رہے گا۔ ان موضوعات کے سلسلے میں اسلام نے کہا ہے کہ ان کو بہت زیادہ اہمیت نہ دی جائے ان کو بہت اچھالا جاتا ہے۔ اسلام نے تاکید کی ہے کہ نسل پرستی تشخص کا معیار نہیں ہونا چاہئے ان اکرمکم عند اللہ اتقا کم ۔ اسلام نے تاکید کی ہے کہ مسلمان بھائی ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ برتاؤ کریں۔ اسلام نے یہ نہیں کہا ہے سنی بھائیوں یا شیعہ بھائيوں کے ساتھ یہ برتاؤ کریں بلکہ تمام مسلمانوں کے تعلق سے کہا ہے کہ انما المومنون اخوۃ جو بھی اس کتاب، اس قرآن، اس دین اور اس قبلے پر عقیدہ رکھتا ہے وہ مومن ہے۔ یہ سب آپس میں بھائی ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے لیکن ہمارا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے سے گلے ملنے کے بجائے زور آزمائی کرتے ہیں۔ ویسے تو ہر شعبے میں غفلت برتنے والے افراد ہیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج امت مسلمہ کو اپنے وقار رفتہ کی بحالی اور اسلام کا پرچم لہرانے کے لئے اتحاد کی شدید ضرورت ہے۔ کون ہے جو اس اہم ترین مسئلے کا انکار کر سکتا ہے؟ اتحاد کو تمام ترجیحات پر اولیت حاصل ہے۔ یہ سب سے پہلی ترجیح ہے۔ ہم اتحاد بین المسلمین کی ضرورت کا احساس کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دوش پر بہت سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ یہ وقت بہت حساس وقت ہے۔ اگر دشمنوں نے طاقت کے ذریعے اس خطے پر قبضہ کر لیا تو عالم اسلام سو سالہ سامراجی دور کی مانند ایک بار پھر جدید صنعتی دنیا سے پچھڑتا چلا جائے گا۔ ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ آج ہم پر ذمہ داریاں ہیں۔ اس وقت تمام حکومتیں، اہم شخصیات، چنندہ افراد، ثقافتی اور دینی شعبے کے رہنما سب کے دوش پر فرائض ہیں، عالم اسلام کے اتحاد کے سلسلے میں ہم سب جوابدہ ہیں۔ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) کی زبان پر انقلاب کی کامیابی سے قبل کے زمانے سے لیکر زندگی کے آخری وقت تک امت مسلمہ کے اتحاد کی تاکید رہی۔ آج ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کتنی حکیمانہ بات تھی اور کتنا اچھا فیصلہ تھا؟
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ حضرت خاتم الانبیاء کی روح مطہرہ اور بنی نوع بشر کی اس بے مثال شخصیت اور بنی آدم کے افضل ترین انسان کی زحمتوں کے صدقے میں اور مسلمانوں کی جد و جہد، امام جعفر صادق علیہ السلام کی روح مطہرہ اور آپ کی زحمتوں کے صدقے میں، ہم سب کو خواب غفلت سے بیدار کر دے۔ صراط مستقیم کی جانب ہماری ہدایت فرمائے۔ ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ اور ان کی ادائگی پر قادر بنائے۔ دشمنوں کا شر انہیں کی جانب پلٹا دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ