بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج درسی گفتگو سے زیادہ اہم ایک مسئلہ جو میں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا، نجف اشرف اور کربلائے معلی کے حالیہ واقعات ہیں۔ یہ بہت اہم واقعات ہیں۔ ایسے واقعات پر ایک شیعہ اور مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا۔ پچھلے دو دنوں سے جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے میری حالت غیر ہے۔ مجھے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ان بے عقل اور قسی القلب امریکیوں نے جو اقدامات کئے ہیں وہ خود ان کے لئے بھی معمولی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور وہ سمجھ نہیں رہے ہیں۔
امام حسین اور حضرت امیر المومنین علیھما السلام سے صرف شیعوں کو عقیدت نہیں بلکہ تمام مسلمانان عالم ان ہستیوں اور ان کے روضہ ہای اقدس کے لئے خاص عقیدت رکتھے ہیں۔ با ایمان مسلمانوں کے لئے یہ ہرگز قابل برداشت نہیں کہ کربلا میں توپیں اور ٹینک داخل کر دئے جائیں یا روضہ امیرالمومنین علیہ السلام کے گنبد کی توہین کی جائے اس پرگولیاں چلائی جائیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکی حد سے گزر چکے ہیں اور بڑی بے شرمی کے ساتھ گستاخانہ انداز میں احقمانہ حرکتیں انہوں نے شروع کر دی ہیں۔ لوگوں کے مقدس مقامات پر حملہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ تعجب یہ ہے کہ ان تمام گستاخیوں کے باوجود وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ یہ وہ بے شرمی ہے جو ان کے وجود کا حصہ بن چکی ہے اور واقعی حیرت انگیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان بالخصوص شیعہ ہمارے ملک میں بھی عراق کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں بھی امریکیوں کی اس گستاخانہ حرکت پر آواز اٹھائیں گے۔ امریکی سمجھیں یا نہ سمجھیں، اعتراف کریں یہ نہ کریں، عراق میں انہیں شکست ہو چکی ہے۔ عراق میں امریکیوں نے جو حالات پیدا کئے اور نفرت کا جو بیج بویا ہے دسیوں سال تک عراق ہی نہیں پوے خطے میں وہ اس کی فصل کاٹتے رہیں گے۔ یہ لوگ جس خیال میں ہیں وہ ممکن نہیں کہ عراق میں موجود رہیں گے، عراقی عوام پر ان کا غلبہ قائم رہے گا اور بغیر کسی درد سر کے وہ حکومت کرتے، عراق کا تیل لوٹتے اور عراقی عوام کی توہین کرتے رہیں گے۔
ابو غریب جیل کا جو مسئلہ حال ہی میں سامنے آیا ہے اور یہ ماجرا ابو غریب جیل سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ عراق میں امریکہ کی تمام یا اکثر جیلوں میں عراقیوں کے ساتھ یہی برتاؤ ہو رہا ہے، یہ مسئلہ امریکیوں کی پیشانی پر بد نما داغ ہے۔ یہ داغ آسانی سے مٹنے والا نہیں ہے۔ ادھر امریکی حکام، امریکہ کا حکمراں گروہ اور اس کے سرغنہ کا کہنا ہے کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہیں تھی۔ وہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ انہیں تو اطلاع ہی نہیں تھی، ہم نے صدام کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ اچھا، تو عوام کے لئے اس میں کیا فرق ہے کہ انہیں آپ ایذائیں دے رہے ہیں یا صدام؟ ایذا رسانی تو پھر ایذا رسانی ہے۔ آپ نے صدام کی ایجاد کردہ شکنجہ گاہیں بند نہیں کی ہیں بلکہ صدام کا کام آپ نے خود شروع کر دیا ہے۔ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ہمیں اطلاع نہیں تھی، پہلی بات تویہ کہ یہ سراسر جھوٹ ہے، کیونکہ ریڈ کراس نے واضح لفظوں میں اعلان کیا ہےکہ اس نے مدتوں پہلے اعلی امریکی فوجی افسران اور امریکی حکام کو اس صورت حال سے آگآہ کر دیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سلسلہ مدتوں سے جاری تھا، اب جاکر بات منظر عام پر آئي ہے۔ اس لئے انہیں خبر ضرور تھی اور اگر نہیں تھی تو یہ چیز بھی اپنی جگہ پر جرم ہے۔ تو کیا صدام شکنجہ گاہوں میں خود جاکر ایذائيں دیتا تھا؟ صدام کے بھی افراد یہ کام کرتے تھے اور اب آپ کے افراد وہی کر رہے ہیں۔
آپ کا سسٹم، نفرت، ظلم، بے حسی اور انسانوں کی توہین کا سسٹم ہے۔ آپ کیوں عراق میں گھسے؟ آپ نے کیوں ایک آزاد ملک کو اپنے فوجیوں کے بوٹوں سے روند ڈالا؟ کیوں عراقی عوام کے وقار کو نظر اندازکیا گيا؟ اب اقتدار کی منتقلی کے لئے منصوبہ بندی کرنے چلے ہیں! ایسی منتقلی کہ اقتدار در حقیقت امریکیوں کے اختیار میں باقی رہے۔ عراقی سیاستدانوں اور شخصیات کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ عراق میں جو حکومت بھی تشکیل پائي اگر وہ امریکیوں کی پٹھو حکومت سمجھی گئي تو عراقی عوام اس سے بھی ویسی ہی نفرت کریں گے جیسی وہ امریکہ سے کرتے ہیں۔ عراقی عوام اس بات کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ صدام کے بعد امریکہ اور اس کے مہروں کا تسلط برداشت کریں۔ اقتدار کی منتقلی کا مطلب یہ ہے کہ عراقی عوام کو اقتدار منتقل کیا جائے، انتخابات ہوں، عوام خود منتخب کریں۔ نہ یہ کہ امریکی آکر ایک منصوبہ پیش کر دیں اور عواقی سیاستداں اسی کو قبول کر لیں۔
عراق میں امریکہ کا داخلہ غلط تھا، اس کا وہاں باقی رہنا غلط ہے، عوام کےساتھ اس کا سلوک غلط ہے۔ عراقی عوام کے سر پر امریکی حاکم کا مسلط کیا جانا غلط ہے۔ ان کا کربلا اور نجف جانا غلط ہے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے جو حرکتیں کی ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عالم اسلام بالخصوص اہل تشیع اس پر چپ نہیں رہیں گے۔ عالم اسلام میں حضرت امیرالمومنین اور حضرت امام حسین علیھما السلام، نورانی ہستیاں ہیں جن کا مقام لوگوں کے دلوں میں ہے۔ ایسے میں وہ (امریکی فوجی) شہر کربلا اور نجف میں داخل ہوں اور وادی السلام میں جو انبیاء و اولیاء و اوصیاء کا مدفن ہے فوجی داخل ہوں اور نجف و کربلا کے درجنوں افراد کا قتل عام کیا جائے!
جن جرائم کا یہ ارتکاب کر رہے ہیں بہت بھیانک جرائم ہیں۔ عالم اسلام اور ملت ایران اور پوری دنیا کے شیعوں کی نظر میں یہ جرائم قابل مذمت ہیں۔ یہ طے ہے کہ امریکی یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ وہ اس طرح کی جتنی حرکتیں کریں گے اس دلدل میں اور بھی ڈوبتے جائیں گے جو خود انہوں نے ایجاد کی ہے۔ وہ جتنی جلد اس دلدل سے نجات حاصل کر لیں ان کےلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ویسے امریکی پھنس چکے ہیں اور اب وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ موجودہ سلسلہ جاری رکھنے میں بھی شکست ہے، باہر نکل جانے میں بھی شکست ہے لیکن پھر بھی موجودہ صورت حال کو جاری رکھنے سے انہیں بہت بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ آج وہ (امریکی) عراق میں اور صیہونی فلسطین میں بہت بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس سے دنیا یہ سمجھ سکتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے جو نعرے بلند کئے ہیں وہ برحق ہے۔ یورپی حکومتیں اگر واقعی انسانی حقوق کے اپنے بلند بانگ دعوؤں میں سچی ہیں تو انہیں چاہئے کہ امریکیوں کی اس حرکت کے حلاف کھل کر اقدام کریں۔ صرف لفاظی سے کیا فائدہ؟ یورپی ممالک کو چاہئے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، سلامتی کونسل میں نہیں جہاں انہیں (امریکیوں کو) ویٹو پاور حاصل ہے، قرارداد پیش کریں اور امریکہ کی اس غیر انسانی حرکت کی مذمت کریں تاکہ ان کی صداقت ثابت ہو سکے۔ ورنہ انسانی حقوق کے بڑے بڑے دعوؤں کی، قوموں کی نظر میں کوئي وقعت نہیں ہے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ