بسم ‏الله ‏الرّحمن‏ الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين والصّلاة والسّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي‏القاسم المصطفي محمّد و علي اله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيةالله في‏الأرضين. قال‏الله تعالي: «و جعلنا منهم ائمّة يهدون بأمرنا لمّا صبروا و کانوا باياتنا يوقنون۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی برقراری کو پچیس سال اور رہبر انقلاب و اسلامی جمہوری نظام کے بانی کی وفات کو پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی ہمارے وطن اور انقلاب کے دشمنوں کی زہریلی تشہیراتی مہم ہمارے عظیم رہبرکی دشمنی پر مرکوز ہے۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے پچیس سال بعد بھی ان کا سب سے بڑا ھم و غم یہ ہے کہ بانی انقلاب اسلامی کی درخشاں شخصیت پر کسی طرح سوالیہ نشان لگایا جا سکے، اس کے لئے صیہونی اور سامراجی حقلوں کی جانب سے جاری سیکڑوں ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات کے ذریعے ہر ماہ مجموعی طور پر ہزاروں گھنٹے کے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں اور زہرافشانی کی جاتی ہے۔ البتہ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اسلامی نظام کے دشمنوں کے پاس اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران سے مقابلے کا کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ قابل فخر راہ میں ملت ایران کی ثابت قدمی اور پائداری کا سب سے اہم راز امام (خمینی رہ) کا سیاسی فلسفہ اور سیاسی مکتب فکر ہے۔ امام (خمینی رہ) کی زندہ جاوید شخصیت اور آپ کے مکتب فکر سے دشمنی نکالی جا رہی ہے تاکہ ملت ایران کو اس راہ سے ہٹایا جا سکےاور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔ امام (خمینی رہ) نے اپنے سیاسی مکتب فکر کے ذریعے ہی اس ملک میں برسوں سے قائم استبداد کے طلسم کو توڑا۔ اپنے سیاسی مکتب فکر کے ذریعے ہی امام (خمینی رہ) نے لٹیروں کو ملک سے باہر نکالا۔ وہ لٹیرے جو مطلق العنان آمروں کے ساتھ مل کر ایران کو اپنے اڈے میں تبدیل کر چکے تھے۔ انہیں امید تھی کہ ایران کو خام مال تیار کرنے والے اور تیل کے ذخائر سے مالامال ملک کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے قبضے میں رکھ سکیں گے۔ میں امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر پر گفتگو کرنا چاہوں گا۔ آپ کا سیاسی مکتب فکر آپ کی جاذب شخصیت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ امام (خمینی رہ) کی کامیابی کا راز اسی مکتب فکر میں پنہاں ہے جو آپ نے پیش کیا اور اسے مجسم کرکے ایک نظام کی شکل میں دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور ملت ایران نے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کی وسعت کا لوہا منوایا لیکن یہ ملت، امام (خمینی رہ) کی قیادت اور آپ کے سیاسی مکتب فکر کے بغیر یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتی تھی۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر نے ایک نیا باب وا کیا جس کا دائرہ اسلامی نظام کی تشکیل سے زیادہ وسیع ہے۔ امام (خمینی رہ) نے جو سیاسی مکتب فکر پیش کیا اور جس کے لئے آپ نے جد وجہد فرمائی اور پھر اسے مجسم کرکے دنیا کی نظروں کے سامنے رکھا، اس میں دنیا والوں کو نئي باتوں اور نئے راستے سے روشناس کرایا گيا ہے کہ بشریت جس کی مدتوں سے متلاشی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مکتب فکر پرانا نہیں ہوتا۔ جو لوگ امام (خمینی رہ) کو ماضی اور تاریخ کا حصہ بن چکی شخصیت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ امام (خمینی رہ) اپنے سیاسی مکتب فکر کے پیرائے میں آج بھی زندہ ہیں اور جب تک یہ مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امت مسلمہ بلکہ عالم بشریت کے لئے امام (خمینی رہ) کا وجود زندہ جاوید اور عظیم اثرات کا سرچشمہ بنا رہے گا۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کی چند خصوصیتیں ہیں۔ آج میں اس مکتب فکر کی چند نمایاں خصوصیتیں پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ مکتب فکر روحانیت و سیاست کا آمیزہ ہے۔ اس مکتب فکر میں سیاست، روحانیت سے جدا نہیں ہے۔ سیاست و عرفان، سیاست و اخلاق ایک ساتھ ہیں۔ امام (خمینی رہ) اپنے سیاسی مکتب فکر کا مجسم نمونہ تھے، آپ کی ذات میں روحانیت و سیاست بیک وقت مجتمع تھیں اور آپ اسی راستے پر گامزن تھے۔ سیاسی جد و جہد میں بھی امام (خمینی رہ) کے طرز عمل کا محور روحانیت و معنویت ہی ہوتی تھی۔ امام (خمینی رہ) کی ہر حکمت عملی اور ہر موقف اللہ تعالی اور روحانیت کے محور کے گرد گھومتا تھا۔ آپ کو اللہ تعالی کے ارادہ تشریعی پر پورا عقیدہ اور ارادہ تکوینی پر پورا اعتماد تھا یعنی آپ یقین کامل رکھتے تھے کہ جو شخص اللہ تعالی کی شریعت کے نفاذ کی راہ پر چلے گا حالات قدرتی طور پر اس کے لئے سازگار ہو جائیں گے۔ آپ کا ماننا تھا کہ وللہ جنود السموات والارض و کان اللہ عزیزا حکیما امام (خمینی رہ) شریعت کے قوانین کو اپنی سرگرمیوں کا میدان سمجھتے تھے اور ان قوانین کو رہنما علامتیں مانتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالی کی جانب سے عائد کردہ فرائض امام (خمینی رہ) کے نزدیک سعادت و خوش بختی کی کنجی اور بلند اہداف تک رسائي کے راستے کا درجہ رکھتے تھے۔ امام (خمینی رہ) کا یہ جملہ معروف ہے اور ہم سب نے سنا ہے کہ ہم فریضے کی ادائگي کے لئے عمل کرتے ہیں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امام (خمینی رہ) کو فتح سے کوئي دلچسپی نہیں تھی، اس میں تو دو رای نہیں کہ تمام عظیم اہداف کے سلسلے میں فتح امام (خمینی رہ) کی آرزو تھی۔ کامیابی و فتح تو نعمت الہی ہے۔ امام (خمینی رہ) کو فتح سے دلچسپی تھی لیکن آپ کو ان اہداف کی سمت جو چیز لے جاتی تھی وہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرائض پر عمل کا جذبہ تھا اللہ کے لئے قدم بڑھانے کا جذبہ تھا۔ چونکہ آپ اس جذبے کے تحت کام کرتے تھے اس لئے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ کبھی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ کبھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے تھے، کبھی تھکتے نہیں تھے۔ یہ فرائض کی ادائگي اور اللہ کی راہ میں عمل کرنے کی خصوصیت ہے۔ جو شخص فرائض کی ادائگي کے جذبے سے کام کرتا ہے تزلزل اور شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتا، خوفزدہ اور خستہ حال نہیں ہوتا، کبھی پسپائي اختیار نہیں کرتا اور کبھی ذاتی اغراض و مقاصد اور مصلحت کوشی کے تحت فیصلہ نہیں کرتا۔ جو شخص سیاست کو عرفان کے ساتھ ملا دیتا ہے اور اپنی زندگي کے منصوبے میں سیاسی اقدامات کو روحانیت سے جوڑ دیتا ہے اسے موت سے کوئی خوف نہیں رہ جاتا نہ ہی اسے شکست کا خوف ستاتا ہے۔ یہ چیز مغرب کی دقیانوسی اور بے رنگ سیاست کے بالکل بر عکس ہے جسے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے جدید سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا لب لباب دین اور سیاست کی جدائي، حکومت کو روحانیت و معنویت سے الگ رکھنا ہے۔ مغربی تہذیب روحانیت دشمنی پر استوار ہے۔ یہ ان لوگوں کی بہت بڑی غلطی ہے جنہوں نے یورپ میں سائنسی اور صنعتی تحریک کا آغاز کیا۔ انہوں نے علم و دانش کو اہمیت دی، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن روحانیت و معنویت کے خلاف جو بر سر پیکار ہو گئے یہ غلط قدم تھا۔ نتیجے میں یہ دنیا پرست تہذیب آج جتنی ترقی کرے گي اس کی گمراہی اور حق سے انحراف اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ انہوں نے اپنے ساتھ ہی پوری انسانیت کو زہر الود کر دیا۔ سامراج کی لعنت جس نے برسوں تک دسیوں لاکھ انسانوں کو دشوار ترین حالات سے دوچار رکھا، وہ بھی ایک نتیجہ ہے روحانیت سے دین اور اخلاقیات سے حکومت کی جدائي کا جو یورپ میں رونما ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی اسی اقدام کا تلخ نتیجہ تھیں، کمیونزم اور گھٹن کی فضا پیدا کر دینے والی مارکسسٹ حکومتیں بھی علمی و صنعتی تحریک کی روحانیت و معنویت سے دوری کا نتیجہ تھیں۔ کنبے کے نام سے موسوم اہم ترین سماجی اکائي کا بکھر جانا، جنسی بد عنوانیوں کا سیلاب، تمام ضوابط سے آزاد سرمایہ دارانہ نظام سب اسی علاحدگی کے نتائج ہیں۔ روحانیت سے دوری کی بد ترین شکل آج ابو غریب جیل اور عراق کی دیگر جیلوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جن افراد کی نگرانی میں یہ جیلیں چل رہی ہیں، ان کا تو یہ دعوی ہے کہ انسانی تہذیب کے لحاظ سے وہ بڑے پیش رفتہ ہیں۔ دنیا نے عراق کی جیلوں سے متعلق تصاویر اور ویڈیو کلپس کے ذریعے اس پیش رفت کا نتیجہ ملاحظہ کیا۔ ملت عراق اور اس سے قبل افغان عوام کے لئے جو المیہ پیش آیا صرف انہی باتوں تک محدود نہیں۔ دو تین سال قبل افغانستان میں بارات پر بمباری ہوئي اور کچھ ماہ قبل عراق میں شادی کا جشن، مجلس عزا میں تبدیل کر دیا گيا، عراقی نوجوانوں کی توہین اور تحقیر، عراقیوں کو ایذا رسانی، ان کی ناموس کے بے حرمتی، رہائشی مکانات میں درانہ گھس جانا، عراقیوں پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دینا یہ سب اسی غلط فکر کے فطری نتائج ہیں جن سے مفر نہیں۔ سیاسی شعبے سے روحانیت کی چھٹی کر دی گئي۔ ماضی میں بھی مشرق و مغرب میں ظالم و آمر حاکم ایسے کام کیا کرتے تھے لیکن جب یورپیوں کو انسانی حقوق، آزادی بیان اور انسانی رای جیسے نعروں سے آشنائی ہوئي اور انہوں نے علم کے میدان میں قدم رکھا تو معنویت و روحانیت سے چونکہ دور تھے اس لئے یہ اقدار انسانیت کے لئے مفید اور بارآور نہیں بن سکیں بلکہ یہی نعرے فتنہ و فساد اور بد عنوانیوں کا موجب بن گئے۔ اب امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کا پیغام یہ ہے کہ سیاسی طاقت کی تمام منصوبہ بندیوں میں سیاست کو روحانیت اور طاقت کو اخلاقیات کے ساتھ رکھا جائے اور اخلاقی قدروں کا لحاظ کیا جائے۔ یہ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کا پہلا اصول ہے۔
دوسرا اصول عوام کے کردار کے سلسلے میں سچا یقین اور بھروسہ ہے۔ انسان کے بلند مقام اور عوامی ارادے کے فیصلہ کن کردار پر یقین۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص کے لئے خاص احترام ہے اور اسے بہت کارآمد اور کارساز بھی قرار دیا گيا ہے۔ انسان کے احترام کا مطلب یہ ہے کہ ایک معاشرے کے مستقبل کے تعین میں عوام کی رای اور مرضی کو بنیادی رول ملنا چاہئے کیونکہ اسلامی تعلیمات پر استوار امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں متعارف کرائي جانے والی جمہوریت، حقیقی اور سچی جمہوریت ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کی مانند عوام فریبی اور عوام کے ذہنوں کو یرغمال بنانے سے عبارت نہیں ہے۔ امام (خمینی رہ) کی جمہوریت میں عوام اپنے ارادے، اپنی مرضی، اپنی خواہش اور ایمان کی بنیاد پر راستے کا تعین کرتے ہیں۔ اپنے حکام کا انتخاب کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی کو دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ امام (خمینی رہ) نے انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آنے والے نظام کے سلسلے میں عوام کی رای لی۔ آپ اس روش کا مقائسہ دنیا میں فوجی بغاوت کرنے والوں سے کیجئے، کمیونسٹ حکومتوں کے طرز عمل اور آج امریکہ کی روش سے اس کو ملائیے۔ عراق پر امریکہ کے قبضے کو پندرہ مہینے گزر چکے ہیں اور اب تک اس نے عراقی عوام کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ حکومت کے لئے کیا چیزیں اور کیسے افراد کا انتخاب چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے کل اپنے انٹرویو میں کہا کہ چونکہ امریکہ نے عراق پر قبضہ کر رکھا ہے اس لئے اس ملک کی حکومت کے لئے افراد کے انتخاب میں امریکی حاکم کی مرضی اور رای کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ تو یہ ہے ان کی جمہوریت! یہ جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ حتی خود ان ممالک کے اندر بھی حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ بے تحاشا پیسے خرچ کرکے رنگا رنگ پرچار کیا جاتا ہے نتیجے میں عوام کچھ سمجھ ہی نہیں پاتے۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رای کا واقعی فیصلہ کن رول ہے۔ اسے کہتے ہیں عوام کی رای اور مرضی کا احترام۔ دوسری طرف امام (خمینی رہ) کا ماننا تھا کہ عوامی رای کی طاقت اور قوم کے آہنیں ارادے کی بدولت دنیا کی ہر جارح طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور آپ نے ایسا کیا بھی۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں جمہوریت کا سرچشمہ دین ہے اس کا سرچشمہ و امرھم شوری بینھم کا اصول ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں کسی کی نقل نہیں کی ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ حکومت میں عوام کا کیا کردار ہونا چاہئے یہ چیز مغرب کے لوگ آکر ہمیں سکھائیں۔ مغرب والے تو خود ہی ایک چوراہے پر سرگرداں ہیں۔ یہی امریکی اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوے کرنے والے افراد محمد رضا پہلوی جیسے آمروں کو جس نے پینتیس سال ہمارے ملک میں مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کی اور اس سے قبل اس کے باپ نے تقریبا بیس سال تک آمرانہ انداز میں حکومت کی، گود میں بٹھایا، ان کی حمایت کی۔ ایسے ہوتے ہیں جمہوریت کے طرفدار؟! یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ جسے ان کی جمہوریت دیکھنی ہے عراق چلا جائے یا افغانستان میں جاکر عوام کےساتھ ان کا رویہ دیکھ لے۔ امریکی جمہوریت دیکھنے کے لئے، جرائم پیشہ شیرون کے لئے واشنگٹن کی لا محدود حمایت کا مشاہدہ کر لے۔ ان کی جمہوریت یہی ہے۔ یہ ہمیں جمہوریت کا درس دینے کے لائق ہیں؟! ان کی نظر میں انسان کی کوئي قدر و وقعت ہے؟ آپ غور کریں کہ فلسطین میں آج کیا المیہ رونما ہو رہا ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں ہیں؟ کیا وہ اپنی سرزمین کے مالک نہیں ہیں؟ کیا ان کو اپنی رای اور اپنی سوچ رکھنے کا حق نہیں ہے؟ آج فلسطین، عراق اور افغانستان میں بد ترین برتاؤ لوگوں سے کیا جا رہا ہے، ماضی میں دوسرے علاقوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ یہ حرکتیں کرنے والوں کو شرم بھی نہیں آتی، جمہوریت کی حمایت کے دعوے کرتے ہیں! امریکی صدر بڑی بے حیائي سے دعوی کرتا ہے کہ دنیا اور مشرق وسطی میں جمہوریت کی ترویج کی ذمہ داری سے ان کے شانے دبے جا رہے ہیں۔ دنیا، ابو غریب جیسی جیلوں میں جن کی تعداد عراق اور گوانتاناموں میں کم نہیں ہے، ان کی جمہوریت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہے ان کی جمہوریت اور انسانی حقوق۔ بڑی سادہ لوحی ہوگی اگر ہمارے معاشروں میں یا امت مسلمہ کے بیچ یہ خیال ظاہر کیا جائے کہ مغرب والے آکر ہمیں جمہوریت کا درس دیں۔ ہمیں توقع ہے کہ انصاف پسند مصنف اور مقرر ایسی بات نہ لکھیں اور نہ کہیں جس سے یہ لگے کہ وہ (مغرب والے) ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔ جمہوریت تو امام (خمینی رہ) نے پیش کی ہے۔ جمہوریت کا تحفہ تو انقلاب کے ہاتھوں سے ملا ہے۔ جس ملک کی پوری تاریخ میں بہت مختصر وقفوں کے علاوہ، جو بہت جلد گزر بھی گئے، عوامی رای اور مرضی کو کبھی خاطر میں نہیں لایا گيا، ہم نے اپنی پوری عمر میں کبھی بیلٹ باکس کی شکل نہیں دیکھی تھی، عوام کی رای اور مرضی کی کوئی اہمیت نہیں تھی، آمر حکمراں عوام کی مرضی کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے، ایسے ملک میں ہمارے امام، ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام نے جمہوریت قائم کی۔ بعض افراد ایسی باتیں کرتے ہیں کہ گویا ہم جمہوریت کے میدان میں اب قدم رکھنے جا رہے ہیں۔ یہ نا انصافی نہیں ہے؟! یہ حقیقت سے منہ موڑنا نہیں ہے؟!
امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کا تیسرا اصول عالمی نقطہ نظر ہے۔ امام کا خطاب اور آپ کے سیاسی افکار صرف ملت ایران کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہیں۔ ہاں ملت ایران نے اس پیغام کو ہمہ تن گوش ہوکر سنا، اسے قبول کیا، اس کا دفاع کیا اور نتیجے میں اسے خود مختاری ملی، اس کا وقار بحال ہوا لیکن یہ پیغام تھا ساری دنیا کے لئے۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں امت مسلمہ اور پوری انسانیت کی آزادی و خود مختاری کی بات کہی گئی ہے۔ یہ تھا ایک سچے مسلمان کا پیغام، البتہ امام خمینی (رہ) اور دیگر افراد میں جو اپنے لئے عالمی سطح کے فرائض کے قائل ہیں، بنیادی فرق یہ ہے کہ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں اس بات کی ہرگز گنجائش نہیں ہے کہ توپ، ٹینک، اسلحہ اور ایذا رسانی کے ذریعے کسی ملت کو رام کیا جائے۔ کہتے تو امریکی بھی ہیں کہ ہمارے عالمی سطح کے فرائض ہیں، ہم دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اچھا! تو جمہوریت کے فروغ کا طریقہ ہیروشیما پر ایٹم بم سے حملہ ہے؟! لاطینی امریکہ اور افریقہ میں بغاوتیں کروانا اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہے؟ آج مشرق وسطی میں بھی یہی مظالم و جرائم اور فریب و مکاری جاری ہے۔ عالمی فریضے کی ادائگی کا ان کا یہی انداز ہے۔ اسلام کا سیاسی مکتب فکر، اپنی بات اور اپنا پیغام پوری وضاحت کے ساتھ رای عامہ کے سامنے پیش کر دیتا ہے پھر وہ نسیم بہاری اور عطر گل کی مانند فضا میں چکراتا رہتا ہے، جس کے پاس صحیح قوت شامہ ہے وہ اس سے محظوظ ہوتاہے، اس سے مستفیض ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج دنیا کے بہت سے ممالک میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ہمیں امام خمینی کے پیغام سے حیات نو اور بیداری کی نعمت ملی۔ لبنانیوں کا کہنا ہے کہ صیہونیوں پر فتح اور انہیں مار بھگانے کا فن ہم نے پیغام امام خمینی (رہ) سے سیکھا ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلم نوجوان، دانشور اور برجستہ شخصیات سب کے سب سیاسی میدان میں ملنے والی اپنی فکری برتری کو امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔ امت مسلمہ اسلام کے نام پر فخر کر رہی ہے۔ یہ انسانیت کے مسائل کے سلسلے میں امام (خمینی رہ) کے عالمی نقطہ نگاہ کا نتیجہ ہے۔ یہ عالم اسلام تک ہی محدود نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے حیاتی مسئلہ ہے۔ امت مسلمہ کی مشکلات ہمارے لئے دردناک ہیں۔ جو کچھ آج عالم اسلام میں ہو رہا ہے ملت ایران اور امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر سے لگاؤ رکھنے والے تمام افراد کے لئے بنیادی مسائل کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ان مسائل کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ استکبار مسلم قوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا چاہتا ہے لیکن اس کی کوشش ہے کہ دیگر مسلم قومیں دیکھ نہ پائیں، کچھ سمجھ نہ پائیں، مل کر کوئی حکمت عملی طے نہ کرنے پائیں اور اعتراض نہ کریں۔ ملت ایران یہ سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہی ہے اور اس پر آواز احتجاج بھی بلند کر رہی ہے، مناسب موقف اختیار کرتی ہے اور عالم اسلام کے مسائل سے پوری طرح با خبر ہے۔
امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت اقدار کی حفاظت ہے۔ اس کا سب سے واضح نمونہ ولایت فقیہ کا مسئلہ ہے۔ ابتداء انقلاب اور تشکیل نظام اسلامی سے ہی کچھ افراد نے ولایت فقیہ کے مسئلے کو حقیقت کے خلاف اور غلط انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ غلط نتیجے اخذ کئے گئے اور ایسی خواہشات پیش کی گئيں جو اسلام اور امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر سے قطعا ہم آہنگ نہیں تھیں۔ یہ جو دشمن کے ہاتھوں بکے ہوئے افراد کبھی کبھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سلسلہ اسی وقت سے جاری ہے۔ بعض افراد نے ولایت فقیہ کو فرد واحد کی مطلق العنان حکومت سے تعبیر کرنے کی کوشش کی۔ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق ولی فقیہ، ملک کے اعلی حکام کے اختیارات سلب کرنے والا نہیں ہے۔ یہ اختیارات تو نا قابل سلب ہیں۔ ولی فقیہ تو وہ انجینئر ہے جو نظام اسلامی کے ڈھانچے، اس کی سمت اور رخ کو بگڑنے اور دائيں بائيں کج ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ ولی فقیہ کا صحیح اور بنیادی مفہوم ہے۔ بنا بریں ولایت فقیہ کوئي نما‏ئشی اور علامتی عہدہ نہیں جو فقط نصیحتیں کرتا رہے، جیسا کہ اوائل انقلاب سے بعض افراد نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حکومتی شعبوں میں اس کا اجرائي کردار نہیں ہے کیونکہ ملک میں مجریہ کے حکام موجود ہیں، عدلیہ اور مقننہ ہے اور سب اپنے اپنے فرائض اور اختیارات کی بنیاد پر اپنے کام انجام دے رہیں ہیں اور متعلقہ امور کے لئے جوابدہ ہیں۔ ولی فقیہ کا رول اس پر نظر رکھنا ہے کہ اس پیچیدہ اور ایک دوسرے سے وابستہ مجموعے میں جاری مختلف قسم کی سرگرمیوں اور کوششوں میں اہداف اور اقدار سے کسی قمسم کا انحراف نہ ہونے پائے۔ اعلی اہداف اور اقدار کی جانب نظام کی پیش روی کے مجموعی عمل کی نگرانی، ولی فقیہ کا اہم ترین اور بنیادی ترین فریضہ ہے۔ امام (خمینی رہ) نے یہ کرداراسلام کی سیاسی فقہ اور متن دین سے اخذ کیا۔ جیسا کہ تاریخ شیعہ کے تمام ادوار مین فقہا نے ایسا کیا ہے، ہاں یہ ہے کہ اسے عملی جامہ پہنانے کا انہیں موقع نہیں مل سکا لیکن ان کی نظر میں یہ چیز فقہ اسلام کی مسلمہ باتوں میں تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ یہ انتہائی اہم رول، دینی معیاروں اور ضوابط اسی طرح عوامی رای اور خواہشات پر استوار ہے۔ یعنی امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کے مطابق ولایت فقیہ کے ضوابط، دینی ضوابط ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک کی طرح کسی ایک گروہ اور دھڑے کے ایجاد کردہ ضوابط کی مانند نہیں ہیں۔ ضابطے تو ان کے پاس بھی ہیں اور انہی ضوابط کے دائرے میں انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن ان کے ضوابط کا ما حصل یہ ہے کہ فلاں دولتمند اور ثروتمند گروہ کا حصہ بنے رہنا ضروری ہے اگر اس گروہ سے خارج ہو گئے تو گویا ضابطے سے خارج ہو گئے۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر میں یہ ضابطہ نہیں ہے۔ یہاں ضابطہ معنوی اور روحانی ہے۔ یہاں ضابطہ عبارت ہے، علم و تقوی اور فہم و درایت سے۔ علم کے نتیجے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے، تقوی سے شجاعت پیدا ہوتی ہے اور درایت سے ملک و قوم کے مفادات کو تحفظ بخشا جاتا ہے۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کے یہ بنیادی ضوابط ہیں۔ جو شخص اس حساس عہدے پر فائز ہے اگر ان میں سے کوئی ایک ضابطہ بھی وہ گنوا دے تو پھر پورے ملک کے عوام اس کے حامی ہی کیوں نہ ہوں وہ اس عہدہ کا اہل نہیں رہ جائے گا۔ عوام کی رای کی بہت اہمیت ہے، لیکن ضابطے کے اندر۔ جس شخص نے ولی فقیہ کا عہدہ سنبھالا ہے اگر ضابطہ علم یا ضابطہ تقوی یا ضابطہ درایت اس کے پاس نہ ہو تو پھر وہ عہدے کا اہل نہیں رہ جائے گا اب خواہ لوگ اس کی حمایت ہی کیوں نہ کریں، اس کے حق میں نعرے ہی کیوں نہ لگائیں وہ شخص اس عہدے پر باقی نہیں رہ سکتا۔ دوسری طرف یہ ہے کہ جس شخص میں یہ سارے ضوابط موجود ہیں اور عوام نے ماہرین کی کونسل کے توسط سے اس کا انتخاب کیا ہے، وہ خود یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے اندر یہ ضوابط ہیں لہذا عوام کو میری بات ماننا چاہئے۔ یہاں تحکمانہ لہجے کی گنچائش نہیں ہے۔ انتخاب عوام کا حق ہے، اب آپ یہاں غور کیجئے کہ کتنے خوبصورت انداز سے دینی ضوابط اور عوامی ارادے کی آمیزش کی گئي ہے وہ بھی نظام کے حساس ترین مرکز کے سلسلے میں۔ امام (خمینی رہ) سے یہ تحفہ ملا ہے۔ امام خمینی (رہ) اور آپ کے سیاسی مکتب فکر کے دشمنوں کا اس عہدے اور رول سے ناخوش رہنا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے پیش پیش وہ عناصر ہیں جو امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کی وجہ سے اس ملک کے قدرتی ذخائر کو اب لوٹ نہیں پا رہے ہیں۔ یہ پیش پیش ہیں اور چند افراد ان کے پیچھے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ بعض ہیں جو واقف ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں جبکہ بعض کا تو یہ عالم ہے کہ انہیں اس کا بھی علم نہیں ہے۔
امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کی آخری خصوصیت اور اصول کے طور پر میں سماجی مساوات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔ سماجی مساوات امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کا بہت بنیادی اصول ہے۔ حکومت کے تمام منصوبوں میں قانون سازی سے لیکر اجرا اور عدالتی امور تک ہر مرحلے میں سماجی مساوات کا خیال رکھنا اور طبقاتی فاصلے کو مٹانا ضروری ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم ملک کو دولتمند اور ثروتمند بنائیں گے، یعنی اپنی قومی پیداوار کی شرح بڑھائیں گے لیکن ساری دولت ایک خاص گروہ اور طبقے کے اختیار میں چلی جائے اور عوام کی اکثریت خالی ہاتھ رہ جائے تو یہ چیز امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر کی رو سے درست نہیں۔ طبقاتی فاصلے مٹانا، قومی وسائل کے استعمال میں تفریق و امتیاز کا خاتمہ، ہماری سب سے بڑی اور دشوار ذمہ داری ہے۔ تمام منصوبہ ساز، قانون ساز اور دیگر ادارے اس پر توجہ دیں اور اسے اپنی کارکردگی کے لئے بنیادی معیار قرار دیں۔ امام (خمینی رہ) کے سیاسی مکتب فکر نے اسلامی نظام کی بنیاد رکھی۔ اس واقعے کو پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس پوری مدت میں ہمارے ملک، ہماری قوم اور اس سیاسی مکتب فکر پر مسلسل شدید حملے ہوتے رہے ہیں لیکن ہماری قوم مسلسل ترقی کرتی رہی۔ ہماری قوم نے، سائنس و ٹکنالوجی، تعمیراتی شعبے، عالمی سیاست، گوناگوں اطلاعات اور مہارتوں، بنیادی تنصیبات کی تعمیر، عوامی صلاحیتوں کے نکھار اور جدید ٹکنالوجی کے حصول اسی دیگر متعدد شعبوں اور امور میں اتنی ترقی کی ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ سب اسلام کی برکت سے ہوا۔ ہمارا ہرگز یہ دعوی نہیں کہ ہم انقلاب کے منصوبوں کے سلسلے میں بر وقت اور جدید تقاضوں کے بالکل مطابق پیش رفت کرتے رہے ہیں اورآج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے۔ ہمارا یہ دعوی نہیں، لیکن یہ ہماری اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ مختلف سطح کے ہمارے عہدہ دار اگر بہتر انداز میں زیادہ کام کرتے تو یقینا آج کامیابیاں اور زیادہ ہوتیں۔ آج بھی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہمارے پاس ہے، ہماری قوم طاقتور ہو چکی ہے۔ حکومت قوی ہے۔ ملک کا انفراسٹرکچر بالکل آمادہ ہے۔ ہماری سائنسی پیشرفت اور نوجوانوں کی صلاحیتں حیرت انگیز ہیں۔ ہم اپنی رفتار بڑھا سکتے ہیں۔ ہماری قوم ایسا کرے گی بھی۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے ہم پیشرفت کریں گے۔ آج پرچم اسلام، پرچم دینداری، پرچم شجاعت اور پرچم خلاقیت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ دشمن اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے ان کامیابیوں کو بہت معمولی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ گوناگوں کوششیں کی گئیں۔ امریکہ کی سربراہی میں انقلاب دشمن عناصر نے یہ کوشش بھی کر لی کہ اسلامی نظام کی نقل کے طور پر، سراپا غلط نظام افغانستان میں قائم کریں۔ نتیجہ حکومت طالبان کی شکل میں نکلا اور یہ نظام ایک مضحکہ خیز کارٹون بن کر رہ گیا اور یہی ان کے لئے وبال جان بھی بن گیا۔ شاید ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اس قوم سے سیاسی اسلام اور اسلام پسندی کا پرچم چھین کر ایسے افراد کو دے دیا جائے جو خود ان کے تربیت یافتہ ہوں۔ وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے ارادے محکم ہیں، ہماری راہ واضح ہے۔ ہمارے عوام مومن ہیں اور امام (خمینی رہ) کا سیاسی مکتب فکر زندہ و پایندہ ہے۔ ہمارے دشمن کو بھی ہماری قوم کی طاقت کا انداز ہو گیا ہے۔ وہ بھی اس طاقت کے معترف ہو گئے ہیں۔ مختلف عالمی مسائل کے سلسلے میں ہمارا موقف آزادانہ ہے۔ ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آتے اور نہ ہی مسائل اور بحران کھڑے کرنے میں ہمیں کوئی دلچسپی ہے، ہاں ظلم کی ہم مذمت کرتے ہیں، ظالم کی اعلانیہ مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم فلسطین میں جاری صیہونیوں کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم فلسطین میں مظلوم عوام پر جاری صیہونی حکومت کے جرائم، گھروں کی تباہی، بچوں کے قتل عام، شیخ احمد یسین جیسے سن رسیدہ اور جسمانی طور پر معذور افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور ہزاروں فلسطینیوں کے ان کے وطن سےاخراج کو نفرت انگیز سمجتھے ہیں اوراس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں اور امریکہ پر جو ان مجرمین کی حمایت کرتا ہے لعنت بھیجتے ہیں۔
عراق کا جہاں تک تعلق ہے، دشمن جو بھی دعوے کریں، ہم اس کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے۔ ہمارماننا ہے کہ عراق، عراقیوں کا ہے۔ اس ملک کے مستقبل اور تقدیر کے فیصلے عراقی عوام کی مرضی سے ہونے چاہئیں۔ عراق میں مذہبی قیادت، سیاسی رہنما، ثقافتی اور علمی شخصیات کی کمی نہیں ہے، ہمارا خیال ہے کہ عراق میں قابضوں کو ایک دن بھی نہیں رکنا چاہئے۔ عراق کے تیل کے ایک قطرے پر بھی ان کا کوئي حق نہیں ہے۔ وہ عراق میں کوئي ایک عہدہ دار بھی منصوب نہ کریں۔ یہاں انہیں کوئي حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ ایک سال قبل کے مقابلے میں اس وقت عراق میں امریکہ کا کام کئی گنا زیادہ دشوار ہو گیا ہے اور روز بروز دشوارتر ہوتا جائے گا۔ امریکہ مانے یا نہ مانے، چاہے یا نہ چاہے، عراق میں اسے شکست ہو چکی ہے۔
پروردگارا! ہم اس شجاع ، مومن، اور ہمیشہ میدان عمل میں موجود رہنے والی قوم پر فخر اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں۔ خدایا اس ملت پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ اس قوم کو اس کے تمام بلند اہداف کے حصول میں کامیاب کر۔ خدایا ہمارے امام کو اپنے اولیاۓ کرام کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ