تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے؛

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم

میں عظیم امت مسلمہ، ملت ایران، جملہ حاضرین بالخصوص (غیر ملکی) مہمانوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو اسلام کی بہت بڑی اور نہایت اہم عید ہے۔
عدیم المثال خصوصیات والی اس امت مسلمہ کی تشکیل، اسی بعثت کی برکتوں کا ایک نتیجہ ہے۔ امت مسلمہ کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ عقیدے کے ایک محور کے گرد جمع ہو گئے ہوں۔ امت مسلمہ، پیغمبر اسلام اور قرآنی تعلیمات کے مطابق جو اس (امت مسلمہ) کے بنیادی ستون ہیں، ایسے انسانوں کا مجموعہ ہے جو علم و دانش، اخلاق و ادب، حکمت و معرفت، روابط حسنہ اور مساوات پر مبنی تعلقات سے بہرمند ہوں اور ان خصوصیات کا نتیجہ اس نقطہ کمال تک رسائي ہے جس تک پہنچنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے (مسلمانوں کو) ودیعت کر دی ہے۔ امت مسلمہ، اسلامی تعلیم و تربیت کا مظہر ہے۔ اس تحریک کا آغاز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ناسازگار ترین حالات میں بالکل ابتدائي نقطے سے کیا تھا۔ بعثت کے کچھ ہی لمحوں بعد جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے توحید کا پیغام نکلا، اس وقت دنیا کا گوشہ گوشہ، کفر و الحاد، ظلم و ستم، اخلاقی انحطاط، بے شمار مشکلات اور فتنہ و فساد سے بھرا ہوا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تحریک تیرہ سال کے عرصے میں معجزاتی طور پر آگے بڑھی اور تیرہ سال بعد مدینہ منورہ میں امت مسلمہ کا پودا لگایا گیا۔ یہ چھوٹا سا پودا تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں ایک تناور درخت میں تبدیل ہو گيا اور عظیم امت مسلمہ کی تشکیل عمل میں آ گئی، اس کا راز تھا پختہ ایمان، کثیر الجہت اور پہلو دار تعلیمات، عزم محکم اور سعی پیہم۔ انہی چیزوں نے اس زمانے کے مدینے کے کچھ ہزار افراد پر مشتمل معاشرے کو چوتھی اور پانچویں صدی کا زمانہ آنے تک ایک طاقتور اور عظیم امت اور علم و حکمت کے گہوارے میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اس کےبعد امت مسلمہ نے متعدد نشیب و فراز دیکھے، جب بھی اس نے تعلیمات دین سے غفلت برتی پسماندگی اور ناکامیاں اس کے دامنگیر ہو گئیں۔ جب بھی علم و اخلاق، سماجی تعلقات، عدل و مساوات، روحانی اقدار، عزت و وقار اور اتحاد و یکجہتی کو اس نے نظر انداز کیا، اس کا نشو نما رک گیا اور وہیں سے اس کا زوال شروع ہو گیا۔ نوبت یہ آ گئی کہ حریص جارح طاقتوں نے اس کے حصے بخرے کر دئے۔ اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا اور پھر اس پر اپنا تسلط قائم کرکے ذخائر کی بندر بانٹ شروع کر دی۔
عصر حاضر میں کچھ عشروں سے انہی دینی تعلیمات کی برکت اور ان کی جانب مسلمانوں کے رجوع کے نتیجے میں اسلامی بیداری کی لہر شروع ہوئی اور وحدانیت کا پرچم ایک بار پھر لہرانے لگا۔ اس نئی لہر کا نقطہ اوج عالم اسلام کے حساس ترین علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل تھی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مردہ احساسات پھر سے جاگے اور انہیں اپنے تشخص اور وقار کی فکر لاحق ہوئی۔ اس وقت ہم انہیں حالات سے گزر رہے ہیں جن سے امت مسلمہ انحطاط و زوال کے ابتدائي برسوں میں گزری۔ اس وقت بھی امت مسلمہ کے خلاف با قاعدہ جنگ چھڑی ہوئي ہے کہ کسی صورت سے اس لہر کو دبا دیا جائے۔ عالم اسلام کے قدرتی ذخائر اور عظیم افرادی قوت پر بھوکی نظریں لگائے سامراجی طاقتوں نے ایک جنگ شروع کر رکھی ہے یہ جنگ جمہوریت اور آزادی کے پرچم تلے لڑی جا رہی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ در حقیقت اس کا مقصد امت مسلمہ کے وقار کو مٹی میں ملا دینا اور اسلام کی نابودی ہے۔ اصل مقصد مزاحمت کے جذبے کو کچل دینا ہے تاکہ اس خطے میں بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئي نہ رہ جائے۔ جب بھی ہم نے کمزوری دکھائی اور کوئي بھی کوتاہی کی دشمن نے اسی مقدار میں پیش قدمی کی۔ اس وقت عالم اسلام میں جگہ جگہ بحرانی کیفیت ہے۔ بہت سے مسلم ممالک انہی جہاں خوار تسلط پسند طاقتوں کے پیدا کردہ خطرات سے دوچار ہیں۔ ہم اسلام کا دامن تھام کر اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکتے ہیں، دشمن کے سامنے ثبات قدم کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام کو جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ہے اتحاد، اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کے مظالم سے مسلم اقوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے۔ جو کچھ آج عراق، فلسطین اور افغانستان میں ہو رہا ہے اسے دیکھ کر مسلم اقوام غیظ و غضب سے پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔ مسلم حکومتوں کو اس عظیم توانائي سے استفادہ کرنا چاہئے۔
امریکہ کی سامراجی طاقت جو سراپا شیطنت اور شر ہے اور جو ایک اسلامی علاقے میں شیطنت کی آگ برسا رہی ہے، صرف ایک طاقت ہے جس کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی اور وہ ہے قوموں کی طاقت۔ قوموں کو سہارا بنانا، انہیں آگاہ کرنا، انہیں ان کے مفادات سے باخبر کرنا، انہیں توہم آمیز باتوں اور خرافاتوں سے، اگر دوچار ہیں، باہر نکالنا، انہیں زمینی حقائق سے روشناس کروانا وہ طریقے ہیں جن سے قوموں کو سامراج کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
سامراج کہیں بھی منصفانہ گفتگو اور مصالحت نہیں کرتا، دنیا میں آپ اس کے نمونے خود دیکھ رہے ہیں۔ سامراج صرف طاقت کی زبان میں گفتگو کرنا جانتا ہے، وہ صرف اس طاقت کو ظالمانہ انداز میں استعمال کرنا جانتا ہے جو اسے حاصل ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو خود بڑھاوا دیتا ہے۔ امریکی دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر ملکوں میں گھس جاتے ہیں اور پھر قوموں کو اپنے چنگل میں جکڑ لیتے ہیں، ان پر بموں کی برسات کر دیتے ہیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب ان کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ اس کا جواز ان کے پاس یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کو مار رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی اس کے علاوہ کچھ ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کیا جائے؟ آج امریکہ عراق میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ اس کے علاوہ کچھ ہے؟ امریکی فوجیوں کا تو عراق میں موجود رہنا ہی جارحیت اور ظلم ہے، کوئي دن ایسا نہیں گزرتا جب عراق سے درجنوں افراد بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی کہیں زیادہ کے قتل اور زخمی ہونے کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ عالم اسلام کے قلب میں فلسطین واقع ہے۔ ساٹھ سال سے صیہونی غیر قانونی طریقے سے طاقت کے استعمال اور جارحانہ اقدامات سے فلسطینی عوام کو کچل رہے ہیں۔ آپ غور کیجئے کہ فلسطین میں آج کیا ہو رہا ہے؟ کیا عالم اسلام کو یہ دیکھتے رہنے کی عادت پڑ چکی ہے؟ کیا مسلمان حکام یہ دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں کہ عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کا بے رحمی سے قتل عام کیا جائے، کھیتیاں اور گھر بار اجاڑے جائيں؟ اسے کیا نام دیا جا سکتا؟ کیا اس سے بھی بڑی دہشت گردی ہو سکتی ہے؟ دہشت گردی کے مروج عناصر نے آج ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور اسی بہانے مسلم ممالک میں مداخلتیں کی جا رہی ہیں۔
اس وقت عالم اسلام کا فریضہ ہے کہ متحد ہوکر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹ جائے۔ عالم اسلام کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان سراپا شر اور شیطنت طاقتوں یعنی امریکہ اور سامراج کے سامنے ڈٹ جانے کے علاوہ کوئي دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہئے کہ پسپائي اور نرمی سے سامراجی طاقتیں کبھی بھی مطمئن ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ طاقتیں عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطی کے حساس ترین علاقے پر قابض ہو جانے سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہیں ہوں گی۔ آپ یہ بھی یاد رکھئے کہ قوموں میں مقابلے کی طاقت ہے۔ قومیں مسلح اور ساز و سامان سے لیس طاقتوں کو پسپا کر سکتی ہیں۔ ان کی خوں آشام شمشیروں کو کند کر سکتی ہیں۔ حالیہ برسوں کے تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے جبکہ آج فلسطین اور عراق میں بھی ایک بار پھر یہی حقیقت صحیح ثابت ہونے جا رہی ہے۔
عراق میں امریکی بری طرح پھنس چکے ہیں۔ صیہونی، نہتے فلسطینیوں کے مقابلے میں جن کے پاس قوت ایمانی اور جذبہ خود مختاری کے علاوہ کچھ نہیں، بے بس ہو چکے ہیں۔ صیہونی برسوں سے فلسطینیوں کا نسلی صفایا کر رہے ہیں لیکن وہ فلسطینیوں کا موقف تبدیل نہیں کر سکے۔ ایک مسلح طاقت کی اس سے بڑی شکست کیا ہوگی؟!
بعثت کے بعد کے ابتدائي ایام میں اللہ تعالی نے اپنی رحمت و عنایت سے مسلمانوں کے قلوب کو دشوار گزار راستوں پر آگے بڑھنے کے لئے آمادہ کیا۔ ھو اللذی یصلی علیکم و ملائکتہ لیخرجکم من الظلمات الی النور و کان بالمومنین رحیمامسلمانوں، مومنین اور خاصان خدا کے لئے اس کی رحمت یہ ہے کہ اگر انہوں نے بے وقعت (دنیوی) چیزوں سے توجہ ہٹا کر فساد اور سامراج کے خلاف جد و جہد اور مزاحمت پر توجہ دی تو اللہ تعالی ان کی مدد کرےگا، جیسا کہ پہلے کر چکا ہے۔ کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ قلب اسلام میں، اس علاقے میں جو پوری طرح امریکہ اور صیہونیوں کے محاصرے اور دباؤ میں ہے، اسلامی جمہوری نظام کی شکل میں ایک نئی طاقت معرض وجود میں آجائےگی۔ آپ نے دیکھا کہ یہ پودا لگایا گیا، اس کی آبیاری ہوئي، اس نے نشو نما کے مراحل طئے کئے اور تناور درخت بن کر آج بارآوری کی منزل میں پہنچ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے روز بروز اس کا پھیلاؤ بڑھتا ہی جائے گا۔ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے کا ایک تجربہ ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کو حوصلہ و ہمت عطا کرے، ہمیں عزم راسخ کی نعمت سے نوازے تاکہ ان دشوار حالات میں جن کا امت مسلمہ کو سامنا ہے، ہم راستے سے بھٹک نہ جائيں بلکہ پوری قوت و توانائی کے ساتھ اسی راہ پر آگے بڑھتےرہیں اور ایک دن اسلام کی فتح و سر بلندی کا نظارہ دیکھیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ وہ مظلوم ملت عراق، مظلوم ملت افغانستان، مظلوم فلسطینیوں اور دیگر مسلم قوموں کی مدد فرمائے اور انہیں شیاطین کے شر سے محفوظ رکھے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ