آپ نے قرآنی مفاہیم اور برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے انتہائی اہم نکات کی جانب اشارہ فرمایا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

با صلاحیت نوجوان قاریوں سے مزین اس نورانی محفل قرآن میں حاضر ہونے کی توفیق ملنے پر پروردگار عالم کا شکر ادا کرتا ہوں۔
اس سال کی مانند ہم پچھلے کئی برسوں سے ماہ مبارک رمضان کا استقبال اس قرآنی محفل سے کر رہے ہیں۔ اس محفل کی خاص اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو نوجوان تلاوت کلام پاک کرتے ہیں وہ یقینی طور پر بے پناہ صلاحیتوں کےمالک ہیں اور اگر ان صلاحیتوں کو نکھارا جائے تو ہمارا ملک عالم اسلام میں تلاوت و قرئت کے نقطہ اوج پر پہنچ جائے گا۔ آواز اچھی ہے، سیکھنے کی استعداد اچھی ہے اور دلچسپی بھی نظر آتی ہے جو یقینی طور پر ایک بڑی نعمت ہے۔ اس استعداد اور صلاحیت کی نشو نما کے لئے وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں۔
میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ اچھی آواز اور اچھے انداز میں تلاوت کلام پاک سے لوگوں کے قلوب و افکار قرآن سے زیادہ قریب آتے ہیں۔ یہ کوئی رسمی عمل نہیں ہے، یہ رسم کی ادائیگی نہیں ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ ایک منطقی اور دانشمندانہ عمل ہے جس کا مقصد قرآنی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ قاریان قرآن کا مجمع ہے اور خاص قرآنی لہجے میں تلاوت سے دلچپسی رکھنے والوں کا اجتماع ہے تو یہاں پر میرا خطاب آپ لوگوں سے ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس میدان میں آگے بڑھئے اور اس کے لئے راہ ہموار کیجئے۔ آج مجھے جو تلاوت سننے کو ملی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب بہت بہتری آ چکی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم پیشرفت کر رہےہیں۔ انہیں نوجوان قاریوں میں سے بعض کی قرئت کبھی کبھی ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہوتی ہے اور میں کبھی کبھی سنتا بھی ہوں۔ یہ ہماری پیشرفت کی علامت ہے۔ البتہ دوسرے کاموں کی مانند اس کی بھی کچھ شرطیں ہیں جن پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔
ہرفن کے ضروری نکات اس فن کے استاد سے سیکھنا چاہئیں۔ استاد کی رہنمائی کے بغیر کوشش کرنا در حقیقت استعداد اور ذخیرے کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ایسی صورت میں انسان کی استعداد کا بھرپور استعمال نہیں ہوپاتا۔
تلاوت کلام پاک کے سلسلے میں ایک مشکل، کہ جس کی جانب اب توجہ دی جا رہی ہے، قاری کا آيت کے مفہوم پر توجہ نہ دینا ہے۔ اگر آپ آیت کے مفہوم سے واقفیت رکھتے ہیں تو قرئت کے وقت آپ کے وجود پر اس کا اثر نمایاں رہے گا اور اس اثر سے آپ کی آواز، آپ کا لہجہ، آپ کے حرکات و سکنات سب متاثر ہوں گے۔ اسی طرح حاضرین پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسے فارسی اشعار پڑھنے والے، جب فارسی شعر پڑھتے ہیں تو ان کے وجود پر اشعار کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس صورت میں ان کی آواز کی کشش اور تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ قرآن کی تلاوت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ مصر کے قاری چونکہ اس زاوئے پر خاص توجہ دیتے ہیں اس لئے ان کی آواز کی دلنشینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کی کیفیت پر اس کا بڑا اثر پڑتا ہے۔
آپ سب فن تلاوت سے واقف ہیں، میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس سال کی تلاوت کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس میں لمبی سانس کے مظاہرے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ اچھی بات ہے۔ قاریوں کو اس پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے کہ ان کی سانس بہت لمبی ہو۔ لمبی سانس کی ضرورت صرف اس وقت ہوتی ہے جب یہ صورت ہو کہ بیچ میں رک جانے سے آیت کے معنی ادھورے رہ جائیں گے۔ ایسی صورت میں لمبی سانس اچھی ہوتی ہے۔ البتہ سانس لمبی نہ ہو اور بیچ آیت میں ہی رکنا پڑ رہا ہو تو اس کے لئے بھی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مصر کے قاریوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی سانس لمبی نہیں ہے مثلا عبد الفتاح وغیرہ۔ یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ اساتذہ اس سے واقف ہیں کہ اگر سانس بیچ آیت میں ختم ہو جائے تو کس طرح بقیہ حصے کو پڑھیں کہ آیت نا تمام نہ محسوس ہو۔ وہ اس خاص نہج سے اچھی تلاوت کرتے ہیں۔ پرانے قاریوں میں اکثر اسی طرح کے ہیں۔ ہاں یہ نئے قاری جو سامنے آ رہے ہیں اور جن کی مثالیں ایران میں بھی زیادہ ہیں ان میں سے اکثر اسی غلطفہمی کا شکار ہیں کہ سانس بہت لمبی ہونی چاہئے۔ تلاوت کے دوران دم گھٹنے لگتا ہے لیکن سانس توڑتے نہیں۔ اس میں کوئی تعریف کی بات نہیں ہے۔ اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ کہاں وقف کرنا ہے، کہاں آيت کو دہرانا ہے۔ کہاں صرف ایک لفظ پر زور دیکر معنی کو سامع تک پہنچانا ہے۔
ایک نکتہ تلاوت کی خوش الحانی کے سلسلے میں عرض کرنا ہے کہ خوش الحان تلاوت کے خاص اصول اور ضوابط ہیں جن کی پابندی کرنا چاہئے۔ ویسے تلاوت میں اب بہتری آ گئی ہے۔ تلاوت کلام پاک کا لحن سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے اس میں زیادہ عمل دخل انسان کے اپنے ذوق کا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی کے اندر ذوق ہے تو وہ خود بخود اچھی تلاوت کرے گا۔ اس کا ذوق اس کی آواز کو اچھے لحن کی سمت موڑ دے گا۔ ان مسائل میں آپ دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں پر توجہ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
پروردگارا محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں قرآن کے ساتھ زندہ رکھ، قرآن کے ساتھ محشور فرما، ہمیں قرآن کے اعلی مفاہیم کے ادراک کی صلاحیت عطا فرما۔ ہمیں قرآن سے ہرگز جدا نہ کرنا اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال رکھنا۔

 

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته