تفصیلی خطاب پیش خدمت ہیں۔

بسم ‏الله ‏الرّحمن‏ الرّحيم
والحمدلله ربّ العالمين والصّلاة والسّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي ‏القاسم محمّد و علي اله الأطيبين الأطهرين
سيّما بقيّةالله في ‏الارضين
.

یہ بڑا محبت آمیز اور دوستانہ اجتماع ہے۔ اجتماع میں وہ بسیجی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین وقت کو رضاکارانہ طور پر اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر اور اسلام، ایران اور ایرانی قوم کے وقار اور ترقی و پیشرفت کے لئے وقف کر دیا۔ اسی طرح یہاں امام (خمینی رہ) اور انقلاب کے وہ گمنام نوجوان ہیں جو شعبہ انٹیلیجنس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس اجتماع میں اگر محبت و اخلاص کا سمندر موجزن دکھائی دے تو کوئي حیرت کی بات نہیں ہے۔
آپ عزیزوں کو بخوبی علم ہے کہ یہ عظیم اور معجزاتی کارنامہ یعنی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، وہ بھی دنیا کے اس حساس ترین علاقے میں ممکن نہ ہو پاتا اگر یہی خلوص و وفاداری کی جذبہ نہ ہوتا۔ عرب ممالک، ہمارے اطراف کے ممالک اور خود مسلم ممالک کے حالات پر ایک نظر ڈالئے اور غور کیجئے کہ ان میں سے کسی بھی ملک میں کوئي معمولی ترین کام جو عالمی تسلط پسند طاقتوں کے مفادات سے ہم آہنگ نہ ہو، انجام دیا جائے تو کس قدر شور و غل پرپا ہو جاتا ہے اور کس انداز سے اسے روک دیا جاتا ہے جبکہ وہ اس ملک کے قومی مفاد میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے اطراف میں دیکھئے، عراق کی مثال بالکل سامنے ہے۔ جب ان حالات کا صحیح طور پر ادراک ہو جاتا ہے تب انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ ایران جیسا ملک اس حساس ترین علاقے کے قلب میں اتنے عظیم مادی و معنوی ذخائر کے ساتھ کیسے موجود ہے حالانکہ وہ سامراجی طاقتوں کے لئے ہمیشہ سے مطلوبہ جنت رہا ہے۔ اس ملک کا تو جو بھی حصہ ان کے ہاتھ لگ جاتا ان کے لئے بہت بڑی نعمت تھا۔ یہ ملک پہلے تو علاقے میں امریکہ کی راجدھانی کا درجہ رکھتا تھا۔ یہ کیسے اچانک مزاحمت، غیرت و حمیت، اسلام پسندی اور امریکی تسلط اور منہ زوری کی مخالفت کا محور بن گیا؟ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ یہ سماجی معجزہ، حضرت موسی کے عصا کے ا‍ژدہا بن جانے کے معجزے سے مختلف ہے۔ وجہ ہے کہ کہ عصائے موسی والے معجزے میں انسانی ارادہ و اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جبکہ سماجی معجزہ ارادہ انسانی سے وابستہ ہے۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا م بانفسھم جب کوئی قوم بڑھ کے فیصلہ کرے گی، اقدام کرے گي، اہداف کے مطابق عمل کرے گی، تب سماجی معجزہ وقوع پذیر ہوگا۔ البتہ سماجی معجزے میں صرف حقانیت ہی کافی نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات موج باطل آتی ہے اور حق کو بہا لے جاتی ہے۔ اس لئے اس میں حقانیت کے ساتھ ساتھ اقدام، ارادہ و عمل اور استقامت و پائیداری بھی لازمی ہے تاکہ معجزہ واقع ہو سکے۔ یہ استقامت، یہ پاییداری، یہ قوت ارادی و وفاداری ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک میں، اسی خلوص، اسی بصیرت کے باعث عملی جامہ پہن سکی جو آج ہمارے مومن اور بسیجی نوجوانوں کے وجود میں سمائی ہوئي ہے۔ اس کا ایک نمونہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ایک چیز جو بہت زیادہ حیرتناک ہے کہ ہمارے اطراف میں کیسے کیسے بحران پیدا ہوئے، کیسے کیسے طوفان آئے لیکن اسلامی نظام نہ صرف یہ کہ باقی رہا بلکہ مسلسل پیشرفت بھی کرتا رہا۔ آج اسلامی جمہوریہ کی پوزیشن بیس سال قبل والی نہیں ہے۔ اس وقت کے سیاسی فورم میں اس انقلاب کی نابودی کو ناممکن قرار نہیں دیا جاتا تھا لیکن اب سے نا قابل تسخیر تسلیم کر لیا گيا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیونکہ اب اس پودے کی جڑیں گہرائي میں اتر چکی ہیں۔ اب یہ پودا مضبوط تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے دشمن چراغ پا ہیں، غیظ و غضب کی آگ میں خود ہی جل رہے ہیں۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ وہ ملک، جس پر طویل جنگ مسلط کر دی گئی جبکہ اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے آر پی جی کے گولے تک نہیں تھے، اسلحہ جاتی میدان میں اتنا آگے بڑھ جائے گا کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوکر رہ جائیں گی۔ شہاب 3 میزائل کا نام آج دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ علم و دانش کے میدان میں بھی ملت ایران کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ ملک کے نوجوان جو اس نظام سے وابستہ ہیں اکثر عالمی اولمپیاڈوں میں نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں دوسروں کے بر خلاف ہم نے باہری مدد کے بغیر خود اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے یورینیم افزودہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ ترقیاں جارح طاقتوں کو لرزہ براندام کر رہی ہیں۔ آج پچیس سال بعد جب وہ معاشرے پر نظر ڈالتی ہیں اور آپ جیسے باایمان، با خلوص اور با حوصلہ نوجوانوں کو دیکھتی ہیں تو آپ کی ایک ایک خصوصیت تیر کی مانند ان کے آنکھوں میں پوست ہونے لگتی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اسے کیسے روکیں؟ فوجی چڑھائی کی دھمکی دیں تو وہ بھی لا حاصل، اقتصادی معاصرے کی بات کرتی ہیں تو وہ بے سود، بڑے پیمانے پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتی ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ملک کے اندر نوجوانوں کو ایسے امور کی جانب لے جانے کی کوشش کرتی ہیں جن سے ملک کے نظام میں خلل واقع ہو تو بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ میں یہاں عرض کرتا چلوں کہ ملک میں بعض سیاسی سرگرمیوں کو میں معمول کی بات اور فطری نہیں سمجھتا۔ ان کے پس پردہ مجھے دشمن کا حیلہ گر اور سازشی ہاتھ نظر آتا ہے۔ ہمیں مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن سے یہ توقع کہاں کی جا سکتی ہے کہ وہ دشمنی بند کر دے؟ نوجوانوں کو برغلانے اور بے راہروی کی جانب لے جانے میں دشمن طاقتوں کی سازشیں کارفرما ہیں۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے، سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ یہ عام سماجی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بات میں صرف اندازے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ ان چیزوں کا ہمیں پورا یقین ہے۔ وہ ہنگامہ بھی خوب مچاتے ہیں۔ چند سال قبل جب(منشیات کے) اسمگلروں کو سزائے موت دی گئی تو غیر ملکی ریڈیو نشریات میں کہا جانے لگا کہ حریت پسندی کی لہر دبائی جا رہی ہے۔ ویسے ان کے نقطہ نظر سے تو منشیات کا اسمگلر، حریت پسند ہے۔ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ملک میں منشیات کا اسعتمال آزاد رہے۔ اگر آج معاشرے میں اخلاقی برائیوں اور بے راہروی کا دانشمندانہ انداز میں سد باب کر دیا جائے تب بھی وہ ہنگامہ ضرور مچائیں گی لیکن ان کے ہنگامہ مچانے سے حقیقت تو بدلنے سے رہی۔ اس ہنگامے سے فرائض میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔ حکام کو بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ کیا اقدامات کر رہے ہیں کیونکہ دشمن کا تو یہ عالم ہے کہ اگراسے ضرورت پڑی تو روز روشن کو کہے گا کہ شب دیجور ہے۔ وہ سادہ لوح انسانوں کو مختلف تشہیراتی حربوں سے ورغلاتا ہے۔ یہ سلسلہ دنیا میں جاری ہے۔ میں نے گزشتہ شب علما و طلاب کے اجتماع میں کہا کہ آج امریکہ اور صیہونزم سے وابستہ ذرائع ابلاغ جو در حقیقت عالمی سامراجی لٹیروں کی ملکیت ہیں، پوری عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ جمہوریت کے لئے مرے جا رہے ہیں جبکہ اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں۔ یہ کثیر القومی کمپنیاں، یہ کارٹل جس چیز کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے قوموں کے حقوق اور انسانی حقوق ہیں۔ وہ تیل کمپنی جو عراق کی تیل کی دولت کا یکبارگي سودا کر لیتی ہے اور اسے خوب لوٹ رہی ہے کیا کبھی بھی اس بات پر غور کرے گی کہ بصرہ، ناصریہ، عمارہ، کرکوک یا موصل میں کوئی غریب خاندان کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے جبکہ یہ دولت انہی افراد کی ہے؟! ہرگز نہیں اس کے پاس تو لوٹ کھسوٹ کرکے اپنی جیب بھرنے کے علاوہ کسی چیز پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں اور دعوی یہ ہے کہ ہم انسانی حقوق کے حامی ہیں۔ یہ طاقتیں ہمارے ملک کے ہر داخلی مسئلے کا خوب پروپیگنڈہ کرتی ہیں، حالانکہ اس کا کوئي اثر نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد کے طفیل ہماری قوم ظلم و استبداد کی جڑ اکھاڑ دینے میں کامیاب ہو گئی۔ اسلامی انقلاب نے ملک میں دو چیزوں کو بڑے مستحکم انداز میں رائج کر دیا ہے۔ ایک تو ہے آزادی اور دوسرے خود مختاری۔ جو معاشرہ ڈھائی ہزار برسوں تک آمریت اور ظلم و استبداد کا نشانہ بنا رہا، یہ ایرانی معاشرہ جو ظلم و استبداد سہنے کی عادت ڈال چکا تھا، آج انقلاب کی برکت سے اس کے حالات بدل گئے ہیں۔ آج اگر کوئی خدانخواستہ عوام سے استبدادی برتاؤ کرنا چاہےتو عوام ہرگز اس کی اجازت نہیں دیں گے لیکن دشمن یہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں ظلم و استبداد ہے۔ یہ لوگ کتنا ہنگامہ مچاتے ہیں۔ یہ تو دن کو رات کہنے والی بات ہے۔
جمہوری اسلامی نظام نے ملک میں خود مختاری اور خود کفالت کا پودا لگایا۔ یہ قوم اب بڑی طاقتوں پر انحصار، قبول کرنے والی نہیں ہے۔ میں آپ سب عزیز نوجوانوں اور بسیجیوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اب تک جو کچھ ہوا بہت با ارزش اور اہم ہے۔ یہی آزادی و خود مختاری کی بنیادوں کا استحکام اسی طرح دیگر مادی و معنوی کامیابیاں جو گزشتہ پچیس برسوں میں اسلامی جمہوری نظام کی برکت سے ملیں نا قابل بیان ہیں لیکن ابھی کام ختم نہیں ہوا ہے۔ ابھی تو کام شروع ہوا ہے۔ ہمیں ایک نمونہ ملک بنانا اور دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ کام ہے تو دشوار، اب تک ہم نے جتنی تعمیر و ترقی کی ہے اس کا دگنا ابھی باقی ہے لیکن ہمیں محنت کرنی ہے۔ الحق اوسع الاشیاء فی التواصف و اضیقھا فی التناصف انسان زبانی طور پر تو اپنے اہداف اور مطالبات کو بآسانی بیان کر سکتا ہے آپ اسی الوند پہاڑ کی چوٹی کو نیچے سے دیکھئے ایسا لگتا ہے کہ وہاں پہنچنا زیادہ مشکل کام نہیں لیکن جب آپ وہاں تک پہنچنے کے لئے سفر شروع کریں گے اور پیچ و خم سے گزریں گے تب اندازہ ہوگا کہ ہر ایک قدم کے لئے کتنی توانائی اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ میں نے جس چیز کی جانب اشارہ کیا وہ اسی قسم کے اہداف ہیں اور اب تک اس مقام پر دنیا کا کوئی ملک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ہمیں محنت کرنی پڑے گی، مشقتیں برداشت کرنی ہوں گي ہمت نہیں ہارنی ہوگی، پیروں کو لرزش اور لغزش سے بچانا ہوگا، قوت ارادی میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہونے دینا ہوگا اور مسلسل آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہمارے بس میں ہے۔ میں نے کل اپنی تقریر میں بھی کہا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو ایسے وسائل فراہم کر دئے ہیں جن کو بروی کار لاکر وہ دشوار کاموں کو انجام دے سکتا ہے۔ یہ وسائل ہیں عقل و ارادہ۔ ہم ملت ایران کے پاس اس کے ساتھ ہی ایک اور سرمایہ ہے۔ وہ ہے ہماری قوم کا جوان ہونا۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ آپ اس وقت اسی جلسے کو دیکھئے اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ اللہ تعالی نے قوم کو جوانی کی نعمت عطا کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی سے ہمیں پیش قدمی اور کامیابی کے تجربے کی نعمت بھی ملی ہے۔ ہم دیگر ممالک کی مانند لیت و لعل میں نہیں پڑتے کہ اقدام کریں کہ نہ کریں؟ کر بھی پائيں گے یانہیں؟ کہیں نہ ہوا تو؟ ہو سکتا ہے نہ ہو؟ ہم ان مراحل سے گزر چکے ہیں۔ ہم نے اقدام کیا ہے اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان ارادہ کرے۔ تو یہ تجربہ بھی ہمارے پاس ہے۔ یہ جو بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ قومی اور تاریخی دستاویز کے عنوان سے ملک کے لئے تیار کیا گيا ہے اسے آپ نوجوانوں کو چاہئے کہ ضرور پڑھیں۔ یہ منصوبہ اور لائحہ عمل اقتصادی، سیاسی اور سماجی امور کے ماہرین کے نظریات کے مطابق تیار کیا گیا ہے اور مطلوبہ ہدف تک رسائی حد امکان میں ہے۔ اگر یہ منصوبہ عملی جامہ پہن لیتا ہے تو ہمارے مطالبات کا ایک بڑا حصہ پورا ہو جائے گا لیکن اس کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت ہے۔
دو چیزیں پیش نظر رہنی چاہئیں، ایک تو محنت اور مشقت کے لئے تیار رہنا اور تھکن کے احساس سے مغلوب نہ ہونا، انسان کو اپنے کاموں میں اس جذبے کو ہمیشہ بیدار رکھنا چاہئےبالخصوص آپ نوجوانوں کے اندر تو سعی و کوشش کی لگن ہرگز کم نہیں ہونی چاہئے۔ دوسرے اس صحیح نقطے کا تعین جہاں کام انجام پانا ہے۔ آپ طالب علم ہیں، ملازم ہیں، تجارت کر رہے ہیں، فوج میں ہیں یا کسی دیگر سول شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پہلو اور جگہ کا تعین کیجئے جہاں کام کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جہاد صرف میدان کارزار سے مخصوص نہیں ہے۔ آپ کا جو یہ نعرہ ہے ما اہل کوفہ نیستیم (ہم اہل کوفہ نہیں) کہ جس سے میں بھی سو فیصد متفق ہوں، اس کےمعنی یہ نہیں ہیں کہ اگر میدان جنگ آراستہ ہو تو ہم اس میں اسلحہ لئے اتریں گے اور جنگ کریں گے۔ یہ تو صرف ایک پہلوہے۔ ویسے بھی یہ جنگ کا زمانہ نہیں ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ اس نعرے کے معنی یہ ہیں کہ دائمی کاموں جیسے علمی سرگرمیوں، تعمیراتی امور، سروسز کی فراہمی، مساوات کے قیام کی کوششوں، عمومی پاکیزگی و عفت کی حفاظت، دوسروں کی ہدایت و رہنمائی اور اس سے بھی بڑھ کر خود سازی اور اپنے نفس کی پاکیزگی کے سلسلےمیں جد وجہد کی جائے۔ عزیزو! بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اتقوا اللہ۔ نماز جمعہ کے امام کے لئے حکم ہے کہ نمازیوں کو تقوی و پرہیزگاری کی دعوت دے۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ زندگی کی ڈگر جو دوزخ وبہشت کے بیچ سے گزرتی ہے، بہت دشوارگزار ہے۔ انسان کو ہر لمحہ محتاط اور چوکنا رہنے اور صحیح انداز میں قدم بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں پیر لڑکھڑا نہ جائيں۔ اسی کو تقوی کہتے ہیں اور یہی تمام کاموں کی بنیاد ہے۔ ان دونوں نکات کو پیش نظر رکھئے اور یہ یقین رکھئے کہ یہ ملک مطلوبہ ہدف تک پہنچ کر رہے گا۔
مہم جوئی باطل کی سرشت میں شامل ہے۔ للباطل جولۃ اس وقت امریکہ دنیا بھر میں مہم جوئي میں مصروف ہے۔ کبھی کبھی ہمیں بھی احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ہمارے مغربی دروازے پر بھی تعینات ہے اور مشرقی دروازے پر بھی۔ یعنی عراق اور افغانستان میں۔ اس کا کہنا غلط بھی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ چیز امریکہ کے حق میں ہے؟ ہم تو سجمھتے ہیں کہ یہ امریکہ کی کمزوری کی علامت ہے اور اس طرح وہ دباؤ میں بھی ہے۔ اس وقت امریکہ عراق میں پھنسا ہوا ہے اور ان مشکلات سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ امریکہ خود اپنے پاؤں چل کر عراق میں داخل ہوا لیکن آج منصوبہ بندی اور فیصلے کا عمل اس کے اختیار میں نہیں رہا۔ اس وقت عراق میں امریکہ کی منصوبہ بندی دفاعی پوزیشن میں انجام پا رہی ہے۔ امریکی بہت سے کام مجبورا کر رہے ہیں۔ جس زمانے میں امریکہ نے عراق پر حملہ شروع کیا یا شروع کرنا چاہا تھا، میں نے اسی وقت نماز جمعہ میں کہا تھا کہ آپ آ تو اپنی مرضی سے رہے ہیں لیکن یاد رکھئے کہ اپنی مرضی سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔ اب تک ہونے والے نقصانات سے امریکہ کی کمر ٹوٹ گئی ہے جبکہ اس سے بھی بڑے نقصانات سے وہ دوچار ہونے والا ہے۔ (امریکی) عراق میں موجود رہتے ہیں تو اس کے اخراجات ہیں، نکل جاتے ہیں تو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا۔ تو عراق میں موجودگی امریکہ کی کمزوری کی علامت ہے یہ اس کی پوزیشن کی بہتری نہیں ہے۔ مالی نقصان جو دو سو ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے اس کے علاوہ بھی عراق میں امریکہ کو بہت سے نقصانات ہوئے ہیں، فوجی چڑھائی کے اخراجات، فوجی ساز و سامان، جانی نقصان، جو اعداد و شمار وہ دے رہے ہیں اور جیسا کہ ہمارا بھی اندازہ ہے کہ عراقیوں سے امریکہ کو پہنچنے والا نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہے جو اسے جنگ ویتنام میں ویتنامیوں کی جانب سے پہنچا تھا۔
یہ (امریکی) عراق کو نگل نہیں سکے۔ منہ میں رکھا تو ضرور ہے لیکن لقمہ حلق میں پھنس گیا۔ اب کچھ بھی کریں نقصان انہیں برداشت کرنا ہے۔ آج عراق میں امریکہ بڑی متضاد صورت حال کا شکار ہے۔ ایک طرف تو اسے عراق میں امن و امان قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عراق میں مفادات حاصل کرنے کے لئے امن و امان ضروری ہے۔ ایسے عالم میں جب ایک طرف کوئی پائپ لائن اڑا دی جا رہی ہے اور دوسری طرف کسی امریکہ فوجی کو قتل کر دیا جا رہا ہے، امریکہ اپنا کام کیسے کر سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکی فوجیوں کی موجودگی امن و امان کے منافی ہے۔ خود یہ موجودگی بحران انگیز ہے۔ اس سے حالات خراب ہو رہے ہیں اور عوام شورش کر رہے ہیں۔ اس حکومت کے لئے جو تشکیل پائی ہے اگر امن و استحکام برقرار کرنا چاہتے ہیں تو ایک طاقتور فوج کی ضرورت ہوگی۔ اس بات کی ضرورت ہوگي کہ عراقی حکومت کے پاس ایک طاقتور فوج ہو۔ لیکن دوسری طرف امریکی عراق میں ایسی فوج سے بھی وحشت زدہ ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ایک عرب اور مسلمان حکومت کے پاس طاقتور فوج کا مطلب اسرائیل کے لئے خطرات میں اضافہ ہے۔ یہ متضاد صورت حال ہے۔ اسی طرح کا ایک اور تضاد ہے۔ ایک طرف وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم جمہوریت قائم کرنے آئے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ جمہوریت ان کے بس کے باہر ہے کیونکہ ان کے مفادات کے منافی ہے۔ اگر آج عراق میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو ان افراد کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے جو سب سے زیادہ امریکہ مخالف ہوں گے۔ یہی جمہوریت ہے؟ تو رہی دوسری متضاد صورت حال جس سے وہ دوچار ہیں اور انہیں گلوخلاصی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ آج عراق میں وہ حکومت بر سر اقتدار ہے جو عوام کی منتخب کردہ نہیں ہے لیکن یہ حکومت ایسی روش اختیار کر سکتی ہے جس سے عوام اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ میں یہ بات موجودہ عراقی حکومت سے کہہ رہا ہوں۔ اس وقت عراق میں جو حکومت ہے ہم اس سے جنگ و جدل کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ حکومت جو عوامی حکومت نہیں، عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو امریکیوں سے فاصلہ بنائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مقررہ وقت پر آزادانہ انتخابات کرائے اور تاریخ میں پہلی بار عراقی عوام اپنی مرضی سے اپنا حاکم اپنے نمایندے منتخب کریں۔ یہ چیز عراق کی تاریخ میں آج تک نظر نہیں آئی۔ ہزارو‎ں سال پر محیط اس ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوگا کہ عوام یہ عمل انجام دیں گے۔ انتخابات کے لئے جہاں تک ممکن ہو یہ کوشش کریں کہ مقررہ وقت پر منعقد ہو جائیں۔ یہ عراقی عوام کے نزدیک خود ان کی ساکھ اور شبیہ کے لئے بھی بہتر ہوگا۔ تیسری شرط یہ ہے کہ غاصبانہ قبضے کا سنجیدگی سے مقابلہ کرے۔ عراق میں قابض فوجیوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے حملے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ قابضوں نے یہ جھوٹ کہا تھا کہ ہم عراق میں عام تباہی کے ہتھیار تباہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس جھوٹ کی قلعی پوری دنیا کے سامنے کھل گئی اور سب سمجھ گئے کہ وہ تیل، قدرت نمائی اور علاقے میں اڈے کی تلاش میں عراق میں داخل ہوئے ہیں۔ عراق میں گزرنے والا قابضوں کا ایک ایک لمحہ ناجائز ہے اور اس سے عراقی عوام میں ان کے لئے نفرت بڑھتی رہے گی۔ اس وقت بھی ایک سال قبل کے مقابلے میں عراقی عوام میں امریکہ اور برطانیہ کےخلاف نفرت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی وجہ وہ سلوک ہے جو قابضوں نے کیا ہے۔ عراقی عوام کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ غاصبانہ قبضے کا کیا مطلب ہے۔ وہ ابو غریب جیل کے واقعات، وہ قتل عام، وہ شہروں پر فضائی حملے، وہ شادی کی تقریب پر ہونے والا حملہ وہ بے گناہ راہگیروں کا قتل عام جنہیں برطانوی فوجیوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کے ذمہ داروں کی تلاش میں ناکامی کے بعد پکڑ لیا اور سڑک کے کنارے کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا۔ یہ سب کچھ عراقی عوام دیکھ رہے ہیں اور سجمھ رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر قابضوں سے ان کی نفرت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ بنابریں موجودہ حکومت عراقی عوام کے دل جیت سکتی ہے۔ عوام کو کسی حد تک اپنی جانب راغب کر سکتی ہے۔ البتہ اس کے لئے وہ شرطیں لازمی ہیں جن کا ذکر ہوا۔
اور جہاں تک سوال ہے نگوں بخت، رو سیاہ صدام کے مقدمے کا تو اس مقدمے کے سلسلے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ساری دنیا میں اس پر تبصرہ کیا جا رہا ہے جو آپ بھی سن رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں جس نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہےکہ صدام کے خلاف چارج شیٹ کا سب سے اہم معاملہ ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے آغاز کا ہے۔ یہ ہمارا دعوی نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ عدالت سے ہمارا کچھ لینا دینا ہے۔ یہ فیصلہ خود عراقیوں کو کرنا ہے کیونکہ یہ جنگ صدام نے ہمارے اوپر تومسلط کی ہی خود عراقیوں پر بھی یہ جنگ مسلط کی گئی تھی۔ عراقی قوم اس جنگ کے لئے تیار نہیں تھی۔ صدام نے آٹھ سال تک گھروں سے جوانوں کو زبردستی باہر نکالا اور انہیں محاذ جنگ پر بھیجا اور اس کے بعد ان کی لاشیں لوٹا دیں۔ کبھی بازماندگان کو لاشیں دی گئیں اور کبھی وہ بھی بھی نہیں دی گئیں۔ تو یہ جنگ ملت عراق پر بھی مسلط کی گئی اور عراقی عوام اپنے بڑے بڑے سرمائے سے محروم ہو گئی۔ یہ صحیح ہے کہ اس جنگ سے ہمیں بے حد نقصان پہنچا اور یہ نقصان بھی صدام نے ہی پہنچایا لیکن خود ملت عراق کو پہنچنے والا نقصان بھی کم نہیں تھا بلکہ شاید زیادہ ہی ہو۔ کیونکہ ہم یہ تو نہیں کر سکتے تھے کہ وہ جو بھی کرتا جائے ہم خاموشی سے دیکھتے رہیں ہم بھی پوری طاقت سے جواب دے رہے تھے، اپنا دفاع کر رہے۔ عراقیوں کی تو درگت ہو گئی۔ انہوں نے تو اپنے ذخائر خود اپنے ہاتھوں سے نابود کر لئے۔ یہ کام صدام کا تھا۔ آج ملت عراق کو چاہئے کہ صدام کا گریبان پکڑے اور سوال کرے کہ تونے ملت عراق پر آٹھ سالہ جنگ کیوں مسلط کی اور ہمیں ہمسایہ ملک ایران سے کیوں لڑایا جبکہ ہمارے درمیان کوئي ٹکراؤ اور جھگڑا نہیں تھا؟ یہ تو دو دوست اور ایک دوسرے سے مانوس قومیں تھیں۔ قدیم ایام سے ہمارے یہاں سے لوگ نجف و کربلا جاتے رہے ہیں زیارت کے لئے، ادھر وہ لوگ بھی زیارت کے لئے قم اور مشہد آتے رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے مانوس اور ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دو ہمسایہ قومیں اس قدر ایک دوسرے کے نزدیک ہوں جتنی کہ ملت ایران و عراق رہی رہیں۔ صدام پر اس بھیانک اور نا قابل معافی جرم کے لئے مقدمہ چلایا جانا چاہئے اور اس مقدمے کی سزا ایک سزائے موت نہیں بلکہ سو بار سزائے موت ہے۔ البتہ اگر اس جرم کے لئے صدام پر مقدمہ چلا تو بہت سے لوگ مجرم قرار پائيں گے، صرف صدام نہیں۔ اس عدالت کی صدام سے بھی زیادہ کریہ المنظر مجرم امریکی حکومت ہوگی، کیونکہ اسی نے صدام کی مدد کی تھی۔ اسی نے صدام کو کیمیاوی اسلحہ استعمال کرنے کے لئے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔ یہی منحوس موجودہ امریکی وزیر دفاع تھا جو اپنا ملعون چہرہ لئے آتا تھا اور ملت ایران کے خلاف کوئی بیان بھی دیتا تھا۔ حلبچہ کے واقعے کے بعد یہی بغداد آیا اور اس نے صدام سے ہاتھ ملایا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ کوئی بات نہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔ ریگن کے دور حکومت میں جب موجودہ امریکی صدر کا باپ نائب صدر تھا، امریکی سیٹیلائٹ سے تصویریں تیار کرکے عراقیو‎ں کو دی جاتی تھیں کہ ایرانی کس جگہ جمع ہوئے ہیں۔ کہاں نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ البتہ اسی زمانے میں ہمارے جوانوں نے، آپ بسیجیوں نے ہزاروں کی تعداد میں دریاۓ اروند عبور کرکے صدام کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ سیٹیلائٹ کیمرے اندھے ہو گئے، کچھ دیکھ نہ پائے، کوئي فائدہ نہیں پہنچا سکے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے انہی موجودہ کمانڈروں، انہی جناب صفوی اور دیگر افراد نے مل کر منصوبہ بندی کی تھی۔ واقعی کیا معجزے دکھاتی ہے ایمان و شجاعت سے آراستہ جوانی۔ بھلا یہ ممکن تھا کئی ہزار فوجی طویل مسافت طے کرکے دریائے اروند کے کنارے پہنچیں اور دشمن کو بھنک نہ لگے، پھر اس طرف سے عبور کرکے دریا کے اس طرف پہنچ جائیں اور دشمن پھر بھی سمجھ نہ سکے؟! یہ کارنامے انہی جوانوں کے ہیں۔ ان میں سے بعض کے تو اب بال سفید ہو چکے ہیں لیکن اس وقت وہ آپ ہی کی طرح جوان رعنا تھے۔ ایمان کی طاقت سے یہ معجزہ پھر دہرایا جا سکتا ہے۔
امریکہ عراق میں متضاد صورت حال سے دوچار ہے۔ ویسے ساری دنیا میں یہ لوگ مشکلات میں اسیر ہیں۔ انہوں نے دنیا کو بد امنی اور عدم استحکام سے دوچار کیا لیکن اس بد امنی اور عدم استحکام کا نقصان سب سے زیادہ انہی کو پہنچا۔
(عزیزوں!) دنیا آپ کی ہے، مستقبل آپ کا ہے۔ وطن عزیز آپ کا ہے۔ مستقبل کو بنانا اور سنوارنا آپ کا کام ہے۔ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی بلندیوں پر آپ ہی کو پہنچانا ہے۔ مختلف شعبوں کے دفاع کی ذمہ داری آپ کو اٹھانی ہے۔ وہ سیاسی شعبہ ہو یا اخلاقی و دینی شعبہ۔ اگر کبھی وقت پڑ جائے تو فوجی شعبہ کا بھی دفاع آپ کو کرنا ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں ان نوجوانوں کو اسلام و مسلمین کے لئے محفوظ رکھ، ان کے دلوں کی پاکیزگی و نورانیت میں روز بروز اضافہ فرما، ان پر اپنی رحمتیں اور نعمتیں نازل فرما، خدایا! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے عزیز شہیدوں کو ، اس راہ کے پیش رووں کو اور ان میں سب سے آگے ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ کو اپنے لطف و کرم سے بہرہ مند فرما

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ