تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم

سب سے پہلے تو میں کہنا چاہوں گا کہ آج ان برجستہ علمی شخصیات اور چنندہ نوجوانوں اور محققین سے جو ملک کے علمی اور سائنسی شعبے کے لئے تابناک مستقبل کے ضامن ہیں، ملاقات پر بڑی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ آپ عزیز بھائيوں ارو بہنوں کے با برکت وجود پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں تہہ دل سے شکر ادا کرتا ہوں اور لان شکرتم لازیدنکم کے الہی وعدے کی بنیاد پر امید کرتا ہوں کہ آپ کے وجود کی نعمت پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو قلبی شکر ادا کر رہا ہوں اس پر اللہ تعالی آپ کی تعداد اور صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کرے گا۔
میں جہاد دانشگاہی کے تعلق سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا، ایک بات تو ملک میں سائنس و ٹکنالوجی اور تحقیقات کے حوالے سے کہنی ہے اور چند جملے ایٹمی مسئلے پر عرض کرنا ہے جس پر دنیا بھر میں ہنگامہ برپا ہے۔
جہاد دانشگاہی کے سلسلے میں میرا ماننا یہ ہے کہ جہاد اور دانشگاہ (یونیورسٹی) کے الفاظ کی یہ ترکیب اور جہاد کو جو روحانی اور معنوی قدروں میں شمار ہوتا ہے سائنس اور یونیورسٹی سے جوڑ دینا، خاص پیغام کا حامل ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ علم جہادی اور جہاد علمی دونوں حاصل کیا جا سکتا ہے اور آپ حضرات اسی مہم میں مصروف ہیں۔ آپ کا علم جہادی علم ہے یعنی یہ جد و جہد اور سعی پیہم سے وابستہ ہے۔ یعنی آپ اس امید پر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے نہیں ہیں کہ کہیں سے تحفتا علم مل جائے، آپ خود علم کے متلاشی اور اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ ہے علم جہادی یعنی وہ علم جو مجاہدت اور سعی پیہم کا ثمرہ ہے۔ دوسری طرف آپ جہاد اور مقابلے میں بھی مصروف ہیں۔ اس جہاد کے معنی ہیں بلند اور مقدس ہدف کے لئے مقابلہ۔ جہاد کے کئی میدان ہیں۔ ایک میدان تو دنیا میں رائج مسلحانہ جنگ کا میدان ہے، اسی طرح سیاست کا میدان ہے، علم و دانش کا میدان ہے، اخلاقیات کا میدان ہے۔ جہاد کی حقانیت کا معیار یہ ہے کہ وہ با ہدف ہو اور اس کے تحت ان رکاوٹوں کو رفع اور دفع کیا جائے جو راستے میں موجود ہیں۔ اس کو کہتے ہیں جہاد۔ جہاد یعنی اس طرح کا مقابلہ اور لڑائی۔ اگر اس کا ہدف کوئی الہی امر ہوا تو اس جہاد میں تقدس اور مذہبی رنگ پیدا ہو جائے گا۔ آپ علمی جہاد کر رہے ہیں کیونکہ اس میدان میں آپ کے سامنے بڑے سر سخت دشمن ہیں جو آپ کی علمی اور تحقیقاتی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر میری نظر میں جہاد دانشگاہی صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک ثقافت ہے، ایک خاص طرز فکر اور تحریک ہے۔ ہم معاشرے میں اس ثقافت کی جتنی ترویج کر لے جائیں اسے پائیدار اور مستحکم بنا سکیں، ہمارا ملک اسی مقدار میں سربلندی و سرفرازی، عزت و وقار اور حقیقی خود مختاری حاصل کرےگا۔
خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ ادارہ توقعات پر پورا اترا۔ ایک زمانے میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ ادارہ بس نمائشی اور آرائشی ہے لیکن آج یہ ادارہ ملک کی قسمت سنوار رہا ہے۔ یہ ادارہ صرف نمونے تیار نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کی سرگرمیوں کے ثمرات کی ایک بوچھار ہے جو مسلسل جاری ہے۔ جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں بہت اہم ہیں۔ یہ کہ آپ بعض علمی اور سائنسی شعبوں میں صف اول میں کھڑے ہیں اور اس شعبے کو ملک کی علمی و صنعتی ترقی کے لئے استعمال کر رہے ہیں، تحقیقات کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ادارہ اب آرائشی چیز نہیں رہا بلکہ ایسی خوبصورت فضا پر مشتمل ہے جس کی دلکشی پورے ملک پر محیط ہوتی جا رہی ہے۔ میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ اس میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے جو رپورٹ پیش کی گئي وہ سٹم سیلز بنانے اور منجمد کرنے سے متعلق تھی۔ اس حوالے سے مجھے بہت اچھی رپورٹیں ملیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، انسولین سیلز تیار کر لئے گئے ہیں اور دل کی پیوندکاری میں کام آنے والے سٹم سیلز کو تجرباتی دور سے گزارا جا چکا ہے اور اس سے پیوند کاری کا عمل انجام دیا گیا ہے۔ یہی اس ادارے کی برکتوں کی معاشرے میں بوچھار ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں جو جہاد دانشگاہی ادارے کی برکتوں کا ثبوت ہیں۔
دنیا میں یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش ہوئی کہ علم سیکولر چیز ہے اور اس کا اقدار سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس چیز کے لئے با قاعدہ نظریات اور فلسفہ تیار کیا گیا۔ لمبی چوڑی بحثیں کرکے یہ ثابت کیا گيا ہے علم و دانش، اقدار سے عاری شئ ہے۔ یعنی اس کے بالکل بر عکس جو آج آپ نے انجام دیا ہے۔ آپ کہتے ہیں جہاد دانشگاہی اور جہاد کا شمار اقدار میں ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علم و عقل دو رخی وسیلے ہیں۔ انہیں اقدار کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہےاور ان سے درندگی اور حیوانیت کی بھی خدمت کی جا سکتی ہے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ علم کن افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر دنیا پرست، زر اندوز، تسلط پسند اور جاہ طلب افراد کے ہاتھوں میں ہوا تو وہی کچھ ہوگا جس کا آج دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ علم و دانش استحصال، لوٹ مار، قوموں کی تذلیل و تحقیر، غاصبانہ قبضے اور بد عنوانیوں اور منشیات کی ترویج کا وسیلہ اور ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اگر علم نہ ہوتا تو سامراج بھی نہ ہوتا۔ یورپی اپنے علم و دانش کے ذریعے ہی دنیا کی اقوام کو سامراجی تسلط کا نشانہ بنانے، دنیا کے علاقوں کو سو، ڈیڑھ سو، دو سو سال پیچھے دھکیل دینے، انسانی مہارتوں کو کچل دینے اور انسانوں کے قتل عام میں کامیاب ہوئے۔ جب علم و دانش تک ایسے افراد کی رسائي ہوجائے جو حیوانیت کے خوگر ہوں تو یہی سب تو ہوگا۔ ہاں اگر یہی علم صالح اور نیک بندوں کے اختیار میں ہو تو اس کے ذریعے خدمت ہوگی، کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ وہ افراد جنہوں نے ایٹمی توانائي کا انکشاف کیا اگر با تقوی ہوتے، اسے استعمال کرنے والے اگر خدا ترس اور صالح بندے ہوتے تو ہیروشیما کا سانحہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ اب بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا جہاں تک بس چلتا ہے اس توانائی کا تخریبی اہداف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان طاقتوں نے دس بارہ سال قبل عراق کے خلاف جنگ میں ہلکے یورینیم کا استعمال کیا جو انسانی نسل اور زراعت کی تباہی کا باعث بنا اور یہ طاقتیں یھلک الحرث النسل و اللہ لا یحب الفساد کی مصداق بن گئیں۔ انہوں نے انسانوں کو مقطوع النسل اور کھیتی کو تباہ کر دیا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی طویل مدت تک قوموں اور آئندہ نسلوں کے لئے اس کی زہریلی شعاعیں اور مہلک اثرات باقی رہیں گے۔ اگر علم نیک و صالح افراد کے ہاتھوں میں ہو تو یہ مسائل کبھی پیش نہیں آئیں گے بلکہ علم سے انسانیت کی خدمت ہوگی کیونکہ اس علم میں اس کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ بنابریں یہ خیال کہ علم سیکولر ہے اور اقدار کے ساتھ اس کا تال میل نہیں بیٹھ سکتا، بہت بڑا مغالطہ اور عوام کےلئے بہت بڑا دھوکہ ہے۔ علم ، اقدار سے بالکل ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ اسلامی معنویت و اقدار، علم کو حیوانیت اور درندگی اور فتنہ و فساد کے لئے استعمال کئے جانے کے منافی ہیں، خود علم و دانش اور تحقیقات و ایجادات سے ان کا کوئي بیر نہیں۔ علم، روحانیت کے سائے میں آگے بڑھ سکتا ہے اور علم و دانش اور تحقیقات و ایجادات سے روحانیت و معنویت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ آپ کے ادارے کا نام جہاد دانشگاہی ہے۔ آپ اس نام کو ذہن میں رکھئے اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حقیقی معنی میں جہاد کیجئے۔ اگر جہاد، اللہ تعالی کی راہ میں با ہدف جد وجہد کا نام ہے تو اس میں کامیابی ملنا یقینی ہے۔ ہم تمام شعبوں میں جدید ترین علوم کے نقطہ کمال کی سمت بڑھ رہے ہیں تو یہ بھی طے ہے کہ توکل بر خدا، جذبہ ایمانی اور خود اعتمادی کےبغیر یہ راستہ طے نہیں ہوگا۔ ہمیں یہ راستہ بہت برق رفتاری سے طے کرنا ہے، شارٹ کٹ راستے تلاش کرنے ہیں، خود کو علم و دانش کی آخری سرحدوں تک پہنچانا اور نئے افق تلاش کرنا ہے۔ یہ چیز ممکن ہے، کیونکہ ہم علمی لحاظ سے بڑی زرخیز سرزمین پر آباد ہیں اور آپ نے ثابت بھی کر دیا ہے کہ یہ چیز ممکن ہے۔ بہت سے علوم کے دروازے ہمارے ملک کی طرح دنیا کے ان سبھی ممالک پر بند کر دئے گئے ہیں جن کے پاس یہ علوم نہیں ہیں۔ علوم اسی وقت دوسروں کو منتقل کئے جاتے ہیں جب وہ پرانے ہو جاتے ہیں، جب ان کی تازگی ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ سلسلہ دوسرے سبھی شعبوں میں بھی جاری ہے۔ ہیومن سائنسز کے شعبے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ میں نے اقتصادیات اور مینیجمنٹ کے شعبے میں سرگرم عمل افراد سے بھی اپنی ملاقات میں کہا کہ جن فارمولوں پر آج یہاں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اس کے پیش رفتہ ورجن تیار کئے جا چکے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن یہاں بعض افراد جو ان (مغرب والوں) کے دلدادہ ہیں ان گھسے پٹے فارمولوں کو بڑے فخریہ انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ایسے افراد ہیں جو اللہ تعالی اور دین کے سامنے تسلیم ہو جانے پر معترض ہیں لیکن وہ خود مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور اسی سے وابستہ سیاسی ڈھانچے کو آنکھ بند کرکے تسلیم کر رہے ہیں۔
یہ (جہاد دانشگاہی) انقلابی ادارہ ہے، اسے انقلابی ہی رہنا ہے، اس پر میری خاص تاکید ہے۔ بعض افراد انقلاب کو آشوب اور سراسیمگی سے تعبیر کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ انقلابی نظم و نسق تو سب سے مضبوط نظم و نسق ہے۔ انقلاب کے آغاز پر جو بد نظمی نظر آتی ہے وہ در حقیقت عمارت میں پیدا ہو جانے والی کجی کو دور کرنے کی کوششوں سے ہوتی اور ان کوششوں کےنتیجے میں ایک اچھی عمارت وجود میں آتی ہے۔ ساری بد نظمی اوائل انقلاب تک محدود ہوتی ہے اور اسے بھی آپ بد نظمی نہیں کہہ سکتے۔ انقلاب تو تسلسل سے جاری رہنے والا تعمیری عمل ہے۔ انقلاب نشو نما ہے یہ چیز نظم و نسق کے بغیر کہاں ممکن ہے؟! انقلاب یعنی بہترین افراد کے ہاتھوں انقلابی جذبے کے تحت بڑے بڑے کاموں کا انجام پانا، اب وہ جنگ کا میدان ہو، تعمیراتی شعبہ ہو یا ثقافتی امور۔ لہذا آپ انقلابی بنے رہئے۔ انقلابی جذبے کے معنی ہیں مسلط کردہ حدود کا پابند نہ رہنا، کہیں سے ٹپکائے جانے والے قطروں پر اکتفا کرنے کے بجائے امید کے ساتھ ہدف کی سمت آگے بڑھنا اور جوش و ولولے اور بلند ہمتی کے ساتھ اسے حاصل کر لینا۔ یہ ہے انقلاب اور انقلابی تحریک۔
سائنس و تحقیق کی بابت عرض کروں کہ تسلط پسند طاقتیں موجودہ عالمی نظام کو جس میں کچھ ممالک ان کے دست نگر ہیں، برقرار رکھنے کے لئے تین چیزوں کا سہارا لیتی ہیں۔ ثقافتی تسلط، اقتصادی تسلط اور سائنسی تسلط۔۔ اس ہدف کے تحت یہ کوشش کی جاتی ہے کہ جن ممالک پر تسلط قائم ہو گیا ہے وہ ان تینوں شعبوں میں خود کفیل اور خود مختار نہ ہونے پائيں۔ نہ تو ثقافتی شعبے میں، جو ایمان و عقیدے، اہداف و اقدار اور خاص نظریاتی رجحان و میلان پر مشتمل ہے، نہ ہی اقتصادی شعبے میں اور نہ ہی علم و سائنس کے شعبے میں۔
تسلط پسندی کا شکار ممالک کے پاس کبھی بھی ٹھیک ٹھاک اور منظم معیشت نہیں رہی ہے۔ کبھی کبھار تھوڑی ترقی نظر آئی جیسا کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایسے ممالک میں ظاہری طور پر کچھ معاشی رونق تو ہے لیکن معاشی ڈھانچہ تباہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے لئے ایک کھڑکی کھلتی ہے تو دوسری بند کر دی جاتی ہے۔ سب کچھ بکھراؤ اور نابوی کے دہانے پر ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک سرمایہ دار نے اکیلے ہی جنوب مشرقی ایشیا کے کئي ملکوں کو دو تین مہینے کے اندر دیوالئے پن کے نزدیک پہنچا دیا۔ وہ بھی ایسے دو تین ملک جو بظاہر اچھی معاشی حالت کے مالک تھے۔ انہی میں سے ایک ملک کے سربراہ کا کسی سلسلے میں تہران آنا ہوا تھا اور مجھ سے ملاقات بھی ہوئي تھی۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہم راتوں رات فقیر ہو گئے۔ جس طرح کھیل کے دوران بنائی جانے والی عمارت ایک جھٹکے میں تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح ایک امریکی یہودی سرمایہ دار نے بس ایک جھٹکا دیا اور سب کچھ زمین بوس ہو گیا۔ امریکیوں نے جہاں اپنا مفاد دیکھا پچاس ساٹھ ارب ڈالر لگا دئے، ایک ملک میں پچاس اور دوسرے میں تیس ارب ڈالر، لیکن جب مفاد نہ ہو تو وہ ہرگز کوئی رقم لگانے والے نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کو تباہ کر دیتے ہیں۔ رقم بھی جو لگاتے ہیں تو وہ بھی ریت کی دیوار کھڑی کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی، وہ ہرگز اس کا موقع نہیں دیتے کہ ملکوں کی معیشت میں استحکام آئے۔
تسلط پسند طاقتیں، ہدف قرار پانے والے ملک کی ثقافت تبدیل کرنے پر سب سے پہلے توجہ دیتی ہیں۔ یہ سلسلہ قدیم ایام سے چلا آ رہا ہے۔ سب سے پہلے قربانی بنے ملک کی ثقافت، یعنی اس کی زبان، اقدار، آداب و رسومات، ایمان و اعتقادات سب کچھ بدل دیتی ہیں۔ کبھی تو دباؤ اور دھونس دھمکی سے اور کبھی تلوار کے استعمال سے۔ اس کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ مقامی افراد کو اپنی زبان میں گفتگو کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی تاکہ مجبورا قابضوں کی زبان سیکھیں۔ جب برطانیہ نے بر صغیر میں قدم رکھے تو زبان فارسی کو جو وہاں کی سرکاری زبان تھی، باقی نہیں رہنے دیا، فارسی ترک کروانے کے لئے طاقت کا استعمال کیا گيا۔ اس کی جگہ انگریز زبان لائی گئی۔ پہلوی دور حکومت میں ہمارے عوام سے بھی بتدریج ایمان و عقیدہ سلب کرنے کی کوشش کی گئي۔ انہیں بے راہ روی پر مائل کرنے کی کوشش کی گئ۔
یہ طاقتیں تسلط کا نشانہ بننے والے ملک میں ایک اور چیز کو روکنے کے لئے بھی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں اور وہ ہے علم و دانش کے شعبے میں ترقی۔ انہیں علم ہے کہ علم و دانش طاقت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ مغرب والے علم کے ذریعے ہی طاقتور بنے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ البتہ مشرق و مغرب میں علم کبھی کسی کے پاس تو کبھی کسی اور کے پاس گیا۔ ایک عرصے تک مغرب والے جہالت کی تاریکیوں میں غرق رہے۔ قرون وسطی، جس کی داستان وہ خود بیان کرتے ہیں، کا زمانہ مشرق میں علم و دانش کے عروج کا زمانہ تھا۔ مغرب والوں کو جب علم ملا تو اسے طاقت کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا۔ اسے دولت کے حصول، دیگر اقوام کے استحصال اور دیگر ممالک پر تسلط قائم کرنے کے لئے استعمال کیا گيا۔ علم سے سرمایہ بنایا گيا اور سرمائے سے دوبارہ علم کےشعبے میں کام ہوا۔ اس طرح انہوں نے علم و دانش کے شعبے کو ترقی دی۔ ان کو معلوم ہے کہ کسی قوم اور ملک کی تقویت میں علم و سائنس کا کتنا اہم رول ہوتاہے۔ اسی لئے وہ تسلط پسندانہ پالیسیوں کی راہ ہموار رکھنے کے لئے ان ممالک کو ہرگز ترقی کا موقع نہیں دیتے جو زیر تسلط ہیں۔ یہ طے شدہ حکمت عملی ہے جس میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا۔ آج بھی دنیا میں ان کی روش اسی انداز کی ہے۔ لہذا علم و تحقیقات کے لئے جہاد کرنے اور سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب سے قبل ایک طویل عرصے تک ہم کاروان علم و دانش سے الگ رہے۔ ایک دور تو خواب و غفلت کا دور تھا، ایک دور آیا جس میں فطری طور پر کچھ بیداری آئي لیکن وہ زمانہ فریب کا زمانہ تھا، اس زمانے میں حقیقی معنی میں قوموں کو علم سے مستفیض نہیں ہونے دیا گیا۔ کاموں میں تو لگا دیا جاتا تھا لیکن تحقیق کی راہ کبھی نہیں دکھائي جاتی تھی۔ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی، صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے کوشش نہیں ہوتی تھی۔ انقلاب نے ان دیواروں کو گرا دیا، سرحدیں ختم کر دیں اور علمی خود بیداری آئی۔ لیکن یہ تحریک صحیح مینیجمنٹ کے بغیر اور پختہ ارادے کے بغیر کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ سائنس و تحقیقات سمیت تمام شعبوں میں مینیجمنٹ کی ضرورت ہے۔ لہذا اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں حکومت پر عائد ہوتی ہیں اور کچھ کام یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کے ذمے ہے۔ جہاد دانشگاہی کی حیثیت سے آپ کا ادارہ اس ذمہ داری کے تعلق سے بہت اہم اور اچھا مرکز ہے آپ بہت مناسب انداز میں اس فریضے سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ آپ ایسا کر بھی رہے ہیں، میں علمی میدان میں آپ کی ترقی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں، آپ یہ سلسلہ جاری رکھئے۔
اب رہا سوال حالیہ مسئلے کا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں اور ان میں سب سے پیش پیش اور سب سے زیادہ خـبیث امریکی حکومت نے ایران کے خلاف ہنگامہ آرائي کی اور ایٹمی مسئلے ایران پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ قرار دیا۔ یہ وہی تاریخی کینہ ہے۔ وہ کینہ جو اسلامی انقلاب کی وجہ سے اور امریکہ کی دسترس سے ایران کے نکل جانے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس مسئلے میں کینہ نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایران کے خلاف اپنے آلودہ دہن کھولے اور بڑی دریدہ دہنی سے جو منہ میں آیا کہا۔ جو لوگ اپنے فریب اور دروغگوئی کے لئے دنیا بھر میں بدنام ہیں، انہوں نے ایران پر فریب اور دروغگوئی کا الزام لگایا۔ انسانیت سے جن کی دشمنی اور خباثت روز روشن کی مانند عیاں ہے اور ساری دنیا جن کی حرکتیں دیکھ رہی ہے آج وہی اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں، اور خود انسانی حقوق کے بڑے حامی بنے ہوئے ہیں۔! بدنام زمانہ امریکہ جس کی جیلیں عراق اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئي ہیں۔ ابھی چند روز قبل خبر آئی کہ ابو غریب جیسی امریکہ کی بیس جیلیں ہیں۔ یہ گروہ جو آج ساری دنیا پر حکومت کرنے کا سودا سر میں لئے پھر رہا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور وحشی گری کا مظہر بنا ہوا ہے وہ چلا ہے انسانی حقوق کے دفاع کر دعوی کرنے۔! غور کرنے کا مقام ہے کہ انسانیت کس انحطاط کا شکار ہو گئی ہے۔ آج کی نسل کے لئے اس سے بد نما کوئی داغ نہیں کہ اس قماش کے افراد، ایسے درندہ صفت افراد یہ خوں آشام بھیڑئے دعوی کر رہے ہیں کہ وہ تو انسانی حقوق کے پاسباں ہیں۔! اور یہی لوگ ایران پر انگشت نمائی کرتے ہیں، احمقانہ بیان دیتے ہیں اور جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں۔ البتہ یہ لوگ بیک وقت دو کام کر رہے ہیں۔ایک طرف تو بکواس اور ایران کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے، وہ ایٹمی اسلحے کے اتنے نزدیک پہنچ چکا ہے کہ آج وہ چاہے تو چند مہینوں میں یا دو سال میں ایٹم بم بنا لے گا۔ دوسری طرف یہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے کہ ایٹمی ٹکنالوجی پر کام کرنا بے فائدہ ہے لا حاصل ہے۔ ان کے کچھ مہرے اور زر خرید غلام بھی انہی حرکتوں میں لگے ہوئے ہیں۔
ایٹمی ٹکنالوجی اور ایٹمی ہتھیار کے سلسلے میں بات خلط ملط ہو جا رہی ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایٹمی ہتھیار کی ساخت کا انحصار یورینیم کی نوے فیصد سے زیادہ افزودگی اور ایک پیچیدہ ٹکنالوجی پر ہے۔ یہ کام وہی کرےگا جس کو خاص دلچسپی ہوگی۔ ہمیں کوئي دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہم نے اس کی جانب قدم بڑھایا ہے اور نہ آئندہ ایسا کوئي ہمارا ارادہ ہے۔ ہم اب تک اپنے دشمن کو مغلوب کرتے آئے ہیں اور اس سلسلے میں کبھی ایٹمی بم کا ہم نے سہارا نہیں لیا۔ ملت ایران پچیس سال سے امریکہ کو شکست دیتی آ رہی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ امریکہ ملت ایران سے پچیس سال سے منہ کی کھا رہا ہے کیوں؟ ہم نے امریکہ کو ایٹم بم سے شکست دی ہے یا اپنے عزم و ارادے، ایمان و عقیدے، آگاہی و بیداری اور اتحاد و یکجہتی سے؟ ہمیں اپنے ہدف کی خوب شناخت ہو چکی ہے۔ ہمیں علم ہے کہ ہم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ راستہ ہم تلاش کر چکے ہیں اور ہمارا سفر بھی شروع ہو چکا ہے۔ ہم توپ اور ٹینک سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم نے اپنی اس روش پر چل کر غلبہ حاصل کیا ہے۔ ہم نے ایٹم بم سے اپنا لوہا نہیں منوایا ہے۔ سابق سوویت یونین کے پاس کیا ایٹم بم نہیں تھے؟ سابق سوویت یونین کے ایٹم بموں کی تعداد غالبا امریکہ کے بموں سے زیادہ تھی۔ کیا وہ شکست سے بچ سکا؟! دنیا کے بڑے میدانوں میں شکست و فتح کا دار و مدار اس پر نہیں ہے۔ آج ہم نے عالم اسلام کے سامنے ایک نیا آئيڈیا پیش کیا ہے۔ دینی جمہوریت کا آئيڈیا، قومی وقار اور خود مختاری کا آئيڈیا۔ ان پچیس برسوں میں عالم اسلام امریکہ کے خلاف متحد ہو چکا ہے۔ قومیں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگا رہی ہیں۔ یہ نعرہ کون لگاتا تھا؟ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کے علاوہ یہ نعرہ کہاں سنائی دیتا تھا؟ آج عالم یہ ہے کہ یہ نعرہ ساری دنیا میں گونج رہا ہے۔ تو ہم نے ایٹم بم کے سہارے یہ پیشرفت نہیں کی ہے۔ عظیم اور تاریخی میدانوں میں ان ہتھیاروں سے فتح نہیں ملتی۔ آج کیا اسرائیل کے پاس ایٹم بن نہیں ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ صیہونی حکومت کے اسلحہ ڈبو میں دو سو سے تین سو ایٹمی وارہیڈ موجود ہیں لیکن کتنے سال ہو گئے کہ یہ حکومت اپنے حریفوں کے مقابلے میں بے بس و لاچار ہے، جن کے پاس ڈھنگ کی بندوقیں تک نہیں صرف پتھر ہیں لیکن ایسے پتھر جن کے پیچھے ارادے اور ایمان کی طاقت ہے۔
ہمارا مسئلہ ایٹم بم کا نہیں ہے۔ ہمیں ضرورت ہی کیا ہے ایٹم بم کی۔ ایٹم بم کا جب استعمال کیا جاتا ہے تو صرف دشمن ہی ہلاک نہیں ہوتے وہ لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں جو دشمن نہیں ہیں اور یہ چیز ہمارے دینی اصولوں کے خلاف ہے۔ ہماری روش میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ایٹم بم تو اچھے برے سب کا صفایا کر دیتا ہے۔ وہ تو گنہگار اور بے گناہ میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ اس کی زد میں ہر خشک و تر آتا ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا کام نہیں ہے۔ جہاں تک ایٹمی ٹکنالوجی کا تعلق ہے اور جس حد تک ہم یہ ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایک الگ چیز ہے۔ دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یورینیم ہے۔ ایٹم بم کے لئے یورینیم کو نوے فیصد تک افزودہ کرنے اور بہت پیچیدہ ٹکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بو شہر جیسے ایٹمی بجلی گھر کے ایندھن کے لئۓ تین چار فیصد کی افزودگی کافی ہوتی ہے۔ تین اور چار فیصد افزودہ یورینیم کہاں اور نوے فیصدی سے زیادہ افزودہ یورینیم کہا؟! عالمی قونین کی رو سے یورینیم کی تین اور چار فیصدی افزودگی کی اجازت سب کے لئے ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو، تمام ممالک کو تین سے چار فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کرنے کی اجازت ہے۔ این پی ٹی معاہدہ ہے جسے دنیا نے تسلیم کیا ہے، ہم نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ عالمی قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے میں بھی ہم سے کہیں کوئی کوتاہی نہیں ہوئي ہے۔ اگر ہمارے پاس یہ ٹکنالوجی نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کل کو جب ہمارا بوشہر ایٹمی ریئیکٹر بن کر تیار ہو جائےگا تو ہم ایندھن کے لئے کبھی اس ملک تو کبھی اس ملک کے آگے ہاتھ پیلانے پر مجبور ہوں گے اور اگر کبھی کسی وجہ سے، خواہ وہ سیاسی وجہ ہو کہ باہمی تعلقات کا مسئلہ ہو یا کوئي عالمی موضوع، اس ملک نے ہمیں ایندھن نہ دیا تو پھر ہمارا ایٹمی بجلی گھر ہو کر بھی بے سود ہوگا۔ وہ یہی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس سیلنڈر تو ہے لیکن گيس آپ ہر حال میں انہیں سے خریدیں۔ یعنی ریئیکٹر بن جانے سے آپ خود کفیل نہیں بلکہ ان پر اور بھی منحصر ہو جائیں گے۔ آج جو امریکہ سراسیمہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایران نے بجلی گھر تیار کر لیا اور ایٹمی بجلی پیدا کرنے پر قادر ہو گیا اور بجلی گھر کے لئے داخلی سطح پر ایندھن بھی تیار کرنے جا رہا ہے۔ یہ ان کے لئے تشویش کی بہت بڑی وجہ ہے۔ میں نے کسی موقع پر عرض کیا تھا کہ اگر کہیں تیل ان کے پاس ہوتا اور ہم تیل کے لئے ان کے محتاج ہوتے تو وہ یہی تیل سونے کے دام ہمیں بیچتے۔ بیس ڈالر، تیس ڈالر اور پینتیس ڈالر میں فروخت نہ کرتے۔ اب آپ ملاحظہ کیجئے کہ تیل سے مالامال ممالک مسلسل کم ہوتی جا رہی اپنی اس دولت کو بے ارزش کرنسی کے بدلے فروخت کر رہے ہیں۔ وہ ایٹمی ایندھن میں بھی یہی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح ہم اپنے ایٹمی بجلي گھروں کے ایندھن کے لئے ان کی کاسہ لیسی کریں۔
دوسرا مسئلہ بھی ان کی تشویش کا ہے۔ ان کو اس پر بہت رنج ہے کہ یہ ٹکنالوجی ایران میں داخلی سطح پر وجود میں آئي اور داخلی سطح پر ہی پروان بھی چڑھی۔ یعنی یہ مقامی ٹکنالوجی بن گئی۔ البتہ اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم نے مشینوں کو خود ہی بنا لیا ہے۔ نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم یہ کام سیکھنے کے لئے ان کے دروازے پر نہیں گئے۔ ہمارے نوجوان محققین نے، سیکڑوں دماغوں نے سسٹم مکمل کر لیا۔ انہوں نے ملکی سطح پر ہی ٹکنالوجی کو ڈیولپ کیا۔ یہ امریکہ کے لئے بہت تشویش کی بات ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ یہ چیز تو سامراجی اہداف کے بالکل منافی ہے۔ ان کو بخوبی علم ہے کہ اگر آج ایران ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی بلندیوں پر پہنچ گیا تو امت مسلمہ کی خود مختاری اور عالم اسلام کے وقار کا اس کا پیغام مسلمانوں اور مسلم سماجوں میں اور زیادہ مقبول ہو جائے گا۔ یہ چیز انہیں فکرمند کئے ہوئے ہے۔ ان کےسارے شور شرابے کی وجہ یہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے جبکہ وہ ظاہر کچھ اور کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمارے ملک کے حکام نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ صدر، ایٹمی پروجیکٹ کے عہدہ داروں اور وزارت خارجہ کے حکام نے جو موقف رکھا ہے وہ بالکل درست ہے۔ انہوں نے لن ترانیوں کا بخوبی جواب دے دیا ہے۔ مجھے اس مسئلے میں( اس وقت) کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ ایرانی عوام کے ذہنوں میں پوری طرح واضح ہو جائے۔ ملت ایران ظلم اور نا انصافی برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ (مغربی حکام) تشویش ظاہر کرتے ہیں کہ آپ ایٹمی ٹکنالوجی سے ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ اگر یورپی اور دیگر افراد سچائی سے کام لے رہے ہیں اور وہ واقعا ایٹمی ہتھیاروں کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں تو ہم اطمینان دلاتے ہیں کہ ہم ہرگز ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ وجہ وہی ہے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا لیکن اگر ان کو یہ اعتراض ہے کہ ملت ایران کے پاس یہ اہم ترین ٹکنالوجی جو اس کی اپنی صلاحیتوں سے حاصل ہوئی ہے، اس کے پاس کیوں ہے؟ تب بھی ہم انہیں اطمینان دلانا چاہیں گے کہ ملت ایران کسی دباؤ میں آنے والی نہیں ہے۔ آج ایٹمی شعبے میں حکومت ایران اور ایرانی سائنسداں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کا بہت عظیم فریضہ اور بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کام دوسروں پر اپنا انحصار ختم کرنے اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے لئے انجام دیا جا رہا ہے جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ جی نہیں یہ ملت ایران کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا کے بڑے ممالک اپی ضرورت کی توانائی کا بیشتر یا کم از کم ایک بڑا حصہ ایٹمی بجلی گھروں سے حاصل کر رہے ہیں، نہ کہ تیل کے ذخائر سے کہ جس سے آلودگی بھی بڑھتی ہے اور جو محدود بھی ہیں۔ ان ذخائر کو ایندھن کے بجائے دوسرے زیادہ باارزش مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیل کی قدرتی دولت سے مالامال ممالک کو اس عظیم الہی عطیئے سے محروم کر دینے کی سازش کرنے والے عناصر کہتے ہیں کہ آپ کے پاس تو تیل ہے ہی، آپ کو ایٹمی توانائی کی کیا ضرورت ہے؟ اچھا! تو تیل کی دولت سے مالامال ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اسے جلد از جلد ختم کر ڈالیں اور پھر کاسہ گدائی لیکر آپ کے دروازے پر پہنچ جائیں؟! کیا قوموں کا مقدر یہی ہے کہ ہمیشہ آپ کی محتاج رہیں؟ کہتے ہیں کہ آپ پہلے تیل استعمال کیجئے، جب یہ ذخائر ختم ہو جائیں اور آپ ہمارے محتاج ہو جائیں تب ہمارا دروازہ کھٹکھٹائیے۔ ہرگز نہیں، ہماری قوم اس کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔ ہم تو بجلی کی پیداوار کے لئے ایٹمی توانائی کے شعبے میں کام کریں گے۔ یہ ہمارے ملک کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس میدان میں آگے بڑھنا ہے۔ ورنہ گزشتہ ایک دو صدیوں کی ہماری پسماندگی دگنا ہو جائے گی اور ہم مزید سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بنابریں اس شعبے میں آگے بڑھنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اگر ہم اس میدان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ٹکنالوجی خود ہمارے اختیار میں ہونی چاہئے ورنہ دوسروں پر انحصار اور دوسروں کی محتاجی کا سلسلہ جاری ہی رہے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور تمام متعلقہ امور ہمارے اپنے اختیار میں رہیں تو اس کے لئے ظاہر ہے دشواریوں کا سامنا کرنا ہوگا، مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ جو افراد نا سمجھی میں اس موقف کی مخالفت کرتے ہیں انہیں شائد اندازہ نہیں ہے کہ وہ قوم کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔ امریکہ تو یہی چاہتا ہے کہ ایران میں کوئی صنعتی پیداوار نہ ہو اور ہم اپنی غذا بھی امریکہ سے حاصل کرنے پر مجبور رہیں۔ اگر ہمارے پاس ادا کرنے کے لئے پیسے ہوئے تب تو سامان ہمیں مل جائے گا اور اگر پیسے نہ ہوئے تو لاکھوں اور دسیوں لاکھ انسان لقمہ اجل بن جائیں ان کے کان پر جوں رینگنے والی نہیں ہے۔ آج ہمارا قومی فریضہ یہ ہے کہ ہم ایٹمی ٹکنالوجی اور اس جیسی دیگر ٹکنالوجیوں کی جانب پوری تندہی سے بڑھیں جو ہمیں علم و دانش کی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہیں۔ ان ٹکنالوجیوں کا حصول ہماری قوم کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔ اس سلسلے میں جو شخص جتنی بھی مدد کر سکتا ہے کرے کیوں کہ یہ اس کا قومی فریضہ ہے۔
اللہ تعالی سے آپ سب کی کامیابی و کامرانی کی دعا کرتا ہوں۔ جو افراد ملک کی علمی و سائنسی بے نیازی و عدم انحصار کے لئے کام کر رہے ہیں اللہ تعالی ان کو جزاء خیر دے اور ملت ایران علم و دانش اور تحقیق و جستجو کے اس عمل میں جو نوجوانوں نے شروع کیا ہے منزل کمال تک پہنچے اور اس کی کامیابیوں میں روز بروز اضافہ ہو۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ