تفصیلی خطاب پیش خدمت ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ریڈیو اور ٹی کے ادارے کے اہلکاروں کے درمیان ایک بار پھر حاضر ہونے اور اس انتہائی اہم سیاسی و ثقافتی شعبے میں سرگرم عمل افراد کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع عنایت فرمایا۔
میں آج کے معائنے سے مطمئن ہوں، بعض شعبوں کو میں نے نزدیک سے دیکھا اور اعلی عہدہ داروں سے ملاقات بھی کی اور اس وقت آپ حضرات کی خدمت میں خاضر ہوں۔ اس سے میں بہت خوش ہوں۔ یہ ایک ثقافتی مرکز ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کا سب سے موثر ثقافتی مرکز ہے۔
ثقافت، قوموں کے تشخص کی بنیاد ہے۔ ثقافت ہی ایک قوم کو ترقی یافتہ، محترم، توانا، عالم، خلاق اور عالمی وقار کا مالک بناتی ہے۔ اگر کسی ملک میں ثقافت انحطاط کا شکار ہو جائے اور ملک اپنی ثقافتی پہچان گنوا دے تو اس ملک کو عالمی برادری میں اس کے شایان شان مقام نہیں مل سکتا اور اس کے قومی مفادات کی حفاظت نہیں ہو سکتی خواہ باہر سے اس میں کتنی ہی ترقی اور ٹکنالوجی کیوں نہ انجکٹ کی جائے۔ میں سامراجی دور کے واقعات پر، جو اٹھارہویں صدی کے اواخر سے شروع ہوا، انیسویں صدی میں اپنے اوج پر پہنچا اور بیسویں صدی کے وسط تک جاری رہا، غور کرتا ہوں، سامراجی روش یعنی سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعے دنیا کے ممالک میں گھس جانا اور ان ممالک کے اندر سے اپنے مفادات کی تکمیل اور ان ممالک میں اپنی موجودگي کے ذریعے اپنے لئے سرمایہ تیار کرنا، یہ یعنی سامراج اس کو وہ خود بھی سامراج کہتے تھے اور آج بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے، ان واقعات پر غور کرنے پر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ طاقتیں جہاں بھی پہنچیں، اگر وہ وہاں کی ثقافت کو مضمحل اور کمزور کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو وہاں ان کے پیر جم گئے لیکن جہاں کی ثقافت، اپنی طولانی تاریخ اور مضبوط جڑوں کی وجہ سے کمزور نہیں کی جا سکی اور نابود نہیں ہوئي وہاں سامراجی طاقتوں اور قابضوں کے لئے زیادہ عرصے تک اپنے مفادات کی تکمیل ممکن نہیں ہو پائي اور انہیں اس علاقے سے نکلنا پڑا۔ یہ چیز ماضی کی جنگوں اور حملوں کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔ وہی حملہ آور اپنے فتح کردہ علاقے میں باقی رہ کر اپنے مفادات حاصل کر سکے ہیں جو اس علاقے کی ثقافت کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کبھی ایسا ہوا کہ ملک کی ثقافت کو یکسر نابود کر دیا گيا مثلا وہاں کی زبان بدل دی گئي، آپ آج دیکھیں کہ افریقہ، لاطینی امریکہ اور دیگر علاقوں کے ممالک میں بہت سے ایسے ہیں جن کی اپنی مقامی زبان نہیں ہے۔ پرتگالیوں، ہسپانویوں نے وہاں پہنچ کر مقامی زبان کو نابود کر دیا۔ مقامی زبانوں اور ثقافتی چیزوں کو ختم کر دیا۔ بعض ممالک میں وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ثقافت، قوم کی زندگی اور تشخص کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، جو خاص ثقافتی ہدف کے تحت معرض وجود میں آیا تھا، ثقافت پر خاص تاکید کی گئی یا قومی تشخص کی بات کی گئی تو اس کی برکتیں آج سامنے ہیں۔ یہ برکتیں ہرگز حاصل نہ ہو پاتیں۔ یہ ایجادات، یہ سائنسی ترقیاں، علم و تحقیق کے نئے میدانوں میں اترنے کی یہ جرئت جو آج ہمارے ملک میں دیکھی جا رہی ہے، اس خود اعتمادی کا نتیجہ ہے جو قومی تشخص کے احیاء سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ انقلاب کی کرامت ہے۔ انقلاب سے قبل قومی تشخص اور قومیت کی باتیں تو بہت ہوتی تھیں لیکن حقیقت میں کبھی بھی قومی تشخص کی تقویت کے لئے کوئي کام نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ جو افراد ایران کو اپنے مفادات کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کررہے تھے اور جنہوں نے ہمارے ملک کے اندر اپنے خاص مفادات تلاش کر لئے تھے، انہیں بخوبی علم تھا کہ اگر اس ملک میں قومی تشخص کا احیاء عمل میں آیا تو ان کے مفادات کے لئے حالات سازگار نہیں رہ جائيں گے اور تب وہ اپنے مطلوبہ مفادات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں قومی تشخص کو کمزور کیا گیا۔ اغیار کے مقابلے میں ہمارے تشخص کو اتنا کمزور کر دیا گیا کہ بڑے بڑے لوگوں نے زبان فارسی اور رسم الخط تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرنے میں کوئي شرم محسوس نہیں کی۔ زبان بدلنے کے مسئلے پر کم محنت کی گئی لیکن رسم الخط تبدیل کرنے کے لئے تو طاغوتی دور حکومت کے اخبارات و جرائد نے واضح طور پر رسم الخط بدلنے کا مسئلہ اٹھایا، اس پر بحث کی اور اس کی حمایت کی۔ اس کے لئے مغالطہ آمیز دلیلیں بھی لائی گئیں۔ تو یہ صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ جو لوگ پہلوی حکومت کو بر سر اقتدار لائے تھے ان کے لئے قومیت کا کوئی بھی معیار اور اصول قابل قبول نہیں تھا۔ البتہ ہماری قومیت ابتدا سے ہی اسلام سے گھلی ملی ہوئی تھی۔ ہماری زبان، ہماری رسومات، ہمارا علم اور ہمارے علما اسلام سے وابستہ تھے۔ آپ ہماری تاریخ میں دیکھیں گے کہ معروف علما اور دانشور وہ افراد تھے جنہوں نے علم دین کے ساتھ دیگر موضوعات پر کام کیا یعنی تمام علوم کا سرچشمہ دین تھا۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کی یہ خصوصیت تھی۔ نہیں، ہمارا معاشرہ دینی معاشرہ تھا، ہماری ثقافت، ہمارے علم، ہمارے طور طریقے اور آداب و رسومات پر دین کا رنگ چڑھا ہوا تھا اور ان میں سے بہت سی چیزوں کا سرچشمہ خود دین تھا۔ جب قومی تشخص کے خلاف اقدامات کئے جا رہے تھے تو فطری طور پر یہ اقدامات دین مخالف بھی تھے، چونکہ دین و ایمان تمام انسانی قدروں کی بنیاد ہے اس لئے دین و ایمان کی مخالفت بھی فطری تھی۔ یہ لوگ اس کے لئے بھی راضی نہیں تھے کہ ہمارے پاس ہمارا کوئی مقامی لباس ہو۔ اسے کہتے ہیں ثقافتی یلغار۔ ثقافتی یلغار، ثقافتی لین دین سے مختلف ہے۔ یہ دیگر ثقافتوں کی مفید و مثبت باتیں اختیار کرنے سے الگ چیز ہے۔ لین دین تو جائز بلکہ واجب ہے۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے، عقل کا بھی تقاضا ہے کہ کہیں کوئي خوبصورت، اچھی اور با ارزش بات نظر آئے تو اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو اس سے استفادہ کرو۔ یہ جملے تو زباں زد خاص و عام ہیں اطلبوا العلم و لو بالصین، یا انظر الی ماقال و لا تنظر الی من قال یہ نہ دیکھو کہ اچھی اور حکمت آمیز بات اور علم و معرفت کس کے پاس ہے۔ اگر بات اچھی ہے تو اسے اپنا لو۔ یہ لین دین، ثقافتی لین دین ہے۔ یہ تو لازمی چیز ہے لیکن یہ ثقافتی یلغار سے مختلف چیز ہے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنی رغبت، ضرورت اور خواہش کے مطابق کسی غذا، کسی دوا یا دوسری ضروری چیز کا انتخاب کرتا ہے اور اسے اپنے جسم کے اندر پہنچاتا ہے۔ یہ انتخاب کی بات ہے۔ یہ اچھی چیز ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو زمین پر لٹا کرایسی چیز زبردستی اس کے حلق میں ڈال دی جاتی ہے جو نہ تو اس کے لئے ضروری ہے، نہ اسے اس کی خواہش ہے اور نہ ہی وہ اس کے لئے مفید ہے۔ یہ نا قابل قبول ہے۔ ثقافتی یلغار اس انداز کی ہوتی ہے۔ وہی چیز جس کا ملت ایران کو برسہا برس تک نشانہ بنایا گيا۔ بے ضمیر سیاستدانوں اور بکے ہوئے لوگوں سے تو خیر کوئی توقع رکھنے کا سوال ہی نہیں تھا لیکن اس دور کی علمی اور ثقافتی شخصیات سے تو اس کی توقع تھی کہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں خواہ اسلام سے ان کا کوئی ناطہ نہ رہا ہو لیکن قوم کے ثقافتی تشخص کو تو اہمیت دیتے۔ لیکن انہوں نے اہمیت نہیں دی۔ انہوں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں، مسحور ہوکر رہ گئے اور ہمیں پسماندگی سے دوچار کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں اتنے پیچھے رہ گئے۔ لیکن آج صورت حال کچھ اور ہے، آج مختلف میدانوں میں قدم رکھنے کی ہمارے اندر جرئت پیدا ہو گئی ہے، یہ جذبہ انقلاب سے پیدا ہوا۔
اب یہ ثقافت ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کے ہاتھوں میں ہے۔ اعلی عہدہ داروں سے لیکر مختلف تکنیکی، تحقیقاتی، فنی و ہنری، سیاسی و غیر سیاسی تمام شعبوں میں مصروف عمل اہلکاروں اور ملازمین تک سبھی کے پاس یہ موقع ہے کہ معاشرے کی فضا میں ثقافت کی خوشبو بسائیں۔ ثقافت کی اس ترویج کے مقابلے میں جو آپ انجام دے رہے ہیں کوئی ٹک نہیں سکتا۔ آج دنیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ کا اہم ترین ہھتیار ذرائع ابلاغ ہیں۔ اس وقت بڑی طاقتیں بھی ذرائع ابلاغ پر بہت کام کر رہی ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ، ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ سائٹوں کی تاثیر ہتھیار، میزائل اور ایٹم بم سے زیادہ ہے۔ آج دنیا کا عالم یہ ہے اور اس میدان میں مسلسل وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ اعلی عہدہ داروں کے ساتھ اجلاس میں میں ابھی یہی کہہ رہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں ذرائع ابلاغ اور ثقافتی حربوں کی جو محاذ آرائي ہے وہ بہت پیچیدہ، گوناگوں پہلوؤں پر استوار، پیشرفتہ، وسیع اور بہت موثر ہے۔ آئي آر آئي بی، اس بڑی محاذ آرائی کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے اور الحمد للہ اب تک کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا ہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک آپ کامیاب رہے۔ آپ غور کریں کہ ان ریڈیو نشریات، ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ سائٹوں پر جن کا نشانہ ایران ہے کتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئي ہے۔ اگر سب کچھ ان کے اندازے کے مطابق ہو جاتا تو آج اسلام و ایران اور اسلامی جمہوریہ کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہتا۔ کیونکہ ان کی سرگرمیاں آج اور کل کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ تو انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سے شروع ہو گیا اور آج پچیس سال گزر جانے کے بعد اس میں اور بھی وسعت پیدا ہو گئی ہے، زیادہ شدت آ گئي ہے۔ الحمد للہ ہمارے قومی میڈیا نے خود کو آمادہ کیا اور اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں کے مطابق بنا کر میدان عمل میں قدم رکھا۔ آئی آر آئی بی کا موقف دشمن کے موقف کے بالکل بر عکس ہونا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت میں موجود ایمان، اقدار، اسلامی اصولوں اور آزاد قومی تشخص کی سمت رجحان کو ختم کر دیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں سے خود اعتمادی چھین لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اعلی سیاسی حکام کو بھی مختلف امور میں شجاعانہ اقدام سے روک دیں، انہیں ہراساں کر دیں۔ سامراج یعنی تسلط پسند طاقتوں کا بہت اہم حربہ خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ ماضی میں بھی یہ چیز تھی۔ آپ نے سنا اور دیکھا ہوگا کہ بادشاہ فان الحرب اولھا کلام کے اصول کےتحت اپنے سیاسی مخالفین کو خط بھیجتے تھے جس میں دھمکیاں ہوتی تھیں، طاقت و قوت کی رجز خوانی ہوتی تھی۔ یہ دھمکی کیوں دی جاتی تھی؟ اس لئے کہ حریف خوفزدہ ہو جائے۔ اس چیز کا فتح میں بڑا کردار ہوتا تھا۔ آج بھی اس کام کے لئے بڑا بجٹ خرچ کیا جاتا ہے تاکہ حریف کے حوصلے پست کر دئے جائیں اور عہدہ داروں میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ جائے۔ وہ نوجوانوں کو کسی اور انداز میں، عوام کو کسی اور روش سے، عہدہ داروں کو کسی الگ حربے سے، سیاستدانوں کو کسی الگ طریقے سے، موجدین اور میدان علم کے شہ سواروں کو کسی اور ہتکنڈے سے اپنے ذرائع ابلاغ کے حملوں کا ہدف بناتے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ اس کے ٹھیک مخالف سمت میں اقدام کریں۔ آئي آر آئي بی کی منصوبہ سازی اور اس کے پروگراموں کا مقصد، قومی اتحاد، حوصلہ افزائی، نئے اور تابناک افق کی نشاندہی، ملک کے محققین، موجدین اور خلاق فنکاروں کی ہمت افزائی، مختلف اداروں کے حکام، عہدہ داروں او پالیسی سازوں کی حمایت، عوام کو میدان عمل میں موجود رہنے کی دعوت ہونا چاہئے۔ عوامی تعاون اور ارادے سے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ البتہ اس کا بنیادی عنصر قلبی ایمان اور دین ہے۔ اگر کوئی ش‍خص دین کو عظیم روحانی اقدار کی حیثیت سے نہ مانتا ہو تو بھی دین معاشرے کے مسائل کے لئے بہت موثر دوا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بات صرف ہم یعنی اسلامی جمہوریہ کے حامی نہیں کہتے اور یہ جیز صرف ہمارے ملک سے مختص نہیں ہے بلکہ اس وقت دنیا کے سیاسی مفکرین بھی اسی نہج پر سوچ رہے ہیں۔ وہ دین کے فقدان سے پیدا ہونے والے خلا کو بہت شدت سے محسوس کر رہیں، خاص طور سے ان یورپی ممالک میں جہاں معاشرہ دینداری اور ایمان سے بہت دور ہو چکا ہے۔ اس خلا کی بابت بار بار خبردار کیا جا رہا ہے۔
میں دو باتوں پر خاص تاکید کرنا چاہتا ہوں تحقیق اور فن و ہنر۔ تحقیق بہت اہم ہے، جو کام تحقیق کے ساتھ عالمانہ انداز میں انجام دیا جاتا ہے، عوام کے لئے بھی جو عالم نہیں ہیں زیادہ دلچسپ واقع ہوتا ہے۔ عالمانہ کام کا مطلب کسی چیز کو بہت ثقیل انداز میں پیش کرنا نہیں بلکہ اس سے بالکل صحیح شکل میں پیش کرنا ہے خواہ اس کے لئے عام فہم زبان استعمال کی جائے۔ ہم سنتے ہیں کہ دنیا کے ممالک میں تمام علمی تحقیقات کے لئے بہت بڑے پیمانے پر بجٹ مختص کئے جاتے ہیں تو ثقافتی امور اور ان موضوعات کے سلسلے میں تحقیق جن سے ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کا تعلق ہے بہت اہم کام ہے۔ اور جہاں تک فن اور ہنر کا تعلق ہے تو اس کےبارے میں جو بھی کہا جائے کم ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہنر اور فن کو خاص اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اسے روز بروز بلندیوں کی سمت لے جانے کی ضرورت ہے۔ ہنر کی قابل افتخار شکل اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہنر سے خالی بات، دلچسپ اور جاذب نظر اور پائیدار ہونا تو دور کسی کے ذہن میں اترتی تک نہیں۔ ہنر، اچھے اور برے افکار کی ترویج کا اہم وسیلہ ہے۔ ہنر، ذرائع ابلاغ کا بہت اہم وسیلہ ہے۔ فن و ہنر اور اس کی پیش رفت کے سلسلے میں غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ ہنر برجستہ ترین الہی عطیات میں سے ایک ہے۔ یہ پروردگار صانع کی با ارزش ترین صنعت ہے۔ تمام کاموں، حتی معمولی سے پرچار کے لئے بھی فن و ہنر ضروری ہوتا ہے۔ اگر علمی کاموں اور افکار کی ترویج میں جو ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ انجام دے رہا ہے ہنر اور فن کا صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کی جاذبیت اور پائیداری میں بڑا اضافہ ہو جائے گا۔ تمام شعبوں میں تحقیق اور فن پر توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کی اپنی توفیقات آپ حضرات، ہمارے اور آئی آر آئی بی کے عہدہ داروں کے شامل حال کرے۔ میں آپ سب کا فردا فردا شکریہ ادار کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ پیشرفت و تکامل اور کام کی گہرائی و گیرائی کا سلسلہ روز بروز وسیع ہوگا۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ