تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم ‏الله‏ الرّحمن ‏الرّحيم

یہ جلسہ میرے لئے بہت دلچسپ اور شیریں ہے۔ ایران کے قدیمی ترین شہر سے تعلق رکھنے والے عزیز نوجوانوں اور علم و سیاست اور افتخار و شہرت کے ایک طویل تاریخی سلسلے کی وارثوں کے جلسے میں شرکت! میں اپنے ہر سفر میں نوجوانوں کے خصوصی جلسے میں شرکت کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دیگر عمومی اجتماعات میں بھی نوجوان موجود ہوتے ہیں۔ سفر کے پہلے دن جب میں اسٹیڈیم میں پہنچا تو اس جم غفیر میں اکثریت نوجوانوں کی ہی نظر آئی۔ شائد آپ لوگوں میں سے بھی بہت سے افراد وہاں موجود رہے ہوں گے۔ بسیجیوں (رضاکاروں) شہدا کے بازماندگان اور دیگر افراد سے ملاقاتوں کے دوران بھی اکثر نوجوان چہرے نظر آئے، لیکن اس کے باوجود میری خواہش ہوتی ہے کہ نوجوانوں، طلبہ و طالبات کے خصوصی اجتماع میں بھی شرکت کروں۔ الحمد للہ آج یہاں یہ خواہش پوری ہوئی۔ یہ خواہش نوجوانوں کو ان کا پیغام پہنچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ نوجوانوں یعنی ملک کی سب سے اہم نسل کے روبرو بیٹھنا، اس سے گفتگو کرنا، ایک ثقافت بن جائے اور اس کا رواج ہو جائے۔ خوش قسمتی سے ہمارے اس جلسے میں اساتذہ، یونیورسٹیوں کے سربراہان اور شعبہ تعلیم و تربیت کے عہدہ داران تشریف فرما ہیں۔ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نوجوانوں نے جو باتیں کہیں وہ در حقیقت میری بھی دلی خواہش ہے۔ طالب علم کا احترام، روزگار کا موضوع، شادی کا مسئلہ، علمی و سائنسی تحقیقات کے امور، یونیورسٹیوں کی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی ضروریات، اہل علم و دانش کی توقیر، یہ چیزیں خود میرے دل میں بھی ہیں اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ آج یہ خیال عمومی شکل اختیار کر گيا ہے۔ یعنی یہ باتیں اب صرف ہم تک محدود نہیں رہیں بلکہ خود آپ یہ باتیں مجھ سے فرما رہے ہیں۔ مجھے اس پر بڑی خوش ہوتی ہے کہ جلسے میں کوئی نوجوان کھڑے ہوکر ملک میں صلاحیتوں کے انکشاف اور انہیں نکھارنے کی ضرورت کی بات کرے۔
آج جب میں یہاں آنے کے لئے تیار ہو رہا تھا تو ایک بات یاد آ گئی اور وہ یہ کہ میں نے ہمدان کا پہلا سفر انیس سو ساٹھ کے عشرے میں نوجوانوں سے متعلق ایک اجتماع میں شرکت کے لئے کیا تھا۔ یہی جناب محمدی صاحب جو اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں اس وقت بیس سالہ نوجوان تھے۔ یہ تہران آئے اور مجھ سے ملے۔ بس اتفاق تھا کہ میں تہران میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمدان میں ہم چند نوجوانوں نے ایک پروگرام رکھا ہے۔ آپ آئیے ایک تقریر کر دیجئے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ انہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا۔ میں نے پوچھا کہ ہمدان پہنچنے کے بعد کہاں جاؤں۔ انہوں نے ایک ایڈریس دیا اور کہا کہ اس پتے پر آ جائیے۔ میں مقررہ دن وہاں پہنچا۔ مجھے گاڑی کا کرایہ تک نہیں دیا۔ میں نے جاکر خود ہی بس کا ٹکٹ خریدا، شام کے وقت بس روانہ ہوئی اور پانچ چھے گھنٹے میں ہمدان آ گیا۔ رات ہو چکی تھی۔ پتہ ہاتھ میں لئے میں لوگوں سے راستہ دریافت کرنے لگا۔ مجھے ایک سڑک پر جانے کو کہا گیا جو ایک سرکل سے نکلی تھی۔ یہی سرکل جہاں سے پانچ چھے سڑکیں نکلی ہیں۔ میں ایک گلی میں داخل ہوا جس میں جناب سید کاظم اکرمی کا دولت خانہ تھا۔ وہی سید کاظم اکرمی جو وزیر رہ چکے ہیں اور اس وقت یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ بھی اس وقت جوان تھے۔ البتہ جناب محمدی صاحب سے بڑے تھے اور اس وقت ہمدان کے ایک اسکول میں پڑھا رہے تھے۔ وہ میرے منتظر تھے۔ پتہ چلا کہ میرا رات کا قیام جناب اکرمی صاحب کے گھر ہوگا۔ اگلے دن مجھے ایک چھوٹی سی مسجد میں لے جایا گیا۔ وہاں بیس تیس نوجوان بیٹھے ہوئے تھے اور سب طالب علم تھے۔ ایک کرسی رکھی ہوئی تھی۔ میں کرسی پر بیٹھا اور ان کے لئے ایک دلچسپ بحث شروع کی۔ ایک گھٹنے سے کچھ زیادہ کی تقریر ہوئی۔ میں نے تقریر ختم کی تو ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور کہنے لگے کہ ابھی کچھ اور بیان کیجئے۔ چونکہ مسجد کے شبستان میں نماز جماعت ہوتی تھی اور امام جماعت بھی آنے والے تھے لہذا یہ لوگ کچھ فرش وغیرہ لے کر مجھے شبستان کے اوپر والے کمرے میں گئے۔ پھر مجھے یاد نہیں کہ کتنی دیر ان نوجوانوں سے گفتگو ہوئی۔ تو ہمدان سے یہ میری پہلی آشنائی تھی۔ ان نوجوانوں میں سے چند افراد آج ہمارے عزیز وطن اور اسلامی جمہوری نظام کی برجستہ شخصیات ہیں۔ البتہ ان دنوں ہمدان میں آج جتنے نوجوان نہیں تھے۔ جتنے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی تھی وہ آج کی تعداد کا شاید ہزارواں حصہ ہوں۔ ان دنوں ہماری قوم بالخصوص نوجوان عام طور پر غفلت کا شکار تھے۔ ان غافلوں میں دیندار اور متقی افراد بھی تھے اور بے دین اور لا ابالی قسم کے انسان بھی۔ ایسے نوجوان تھے جن کے دل پاکیزہ تھے لیکن غفلت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسلامی تحریک سے ملت ایران کو سب سے بڑا تحفہ بیداری کی شکل میں ملا۔ ہم غفلت اور بے توجہی سے باہر آئے۔ سعدی نے گلستاں کے باب اول کی دوسری یا تیسری حکایت میں کچھ قزاقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قزاق کچھ افراد پر حملہ کرنے والے تھے لیکن وہ اپنی نیند سے مجبور ہو گئے اور غافل سو گئے۔ قبل اس کے کہ وہ افراد آتے جن پر یہ حملہ کرنا چاہتے تھے ان کے ایک اندرونی دشمن نے انہیں شکست دے دی۔ وہ دشمن کوئي اور نہیں خود ان کی نیند تھی۔ ہم بھی غفلت کی نیند سو رہے تھے۔ انقلاب نے ہمیں بیدار کیا۔ میں خود جب ہمدان کی اکتیس سو سالہ تاریخ کے بارے میں غور کرتا ہوں تو فخر محسوس ہوتا ہے۔ ہمدان میرا بھی وطن ہے۔ ایک شہر اکتیس سو سال تک آباد رہے تو واقعی قابل فخر ہے البتہ یہ فضیلت کا صرف ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایران کی اس اکتیس سو سال کی تاریخ میں کہ ہمدان جس کا مظہر ہے، آیا ہم ایرانی عوام اپنے مستقبل اور تقدیر کا اس طرح فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جیسا دین الہی اور پیغمبروں کی مرضی تھی؟ کیا ہم خود کو پہچان سکے؟ اپنے مستقبل کے لئے ہم نے کوئی خاکہ کھینچا؟ اس طویل اور قدیمی تاریخ کا سب سے اچھا دور وہ ہے جس میں کوئی با صلاحیت آمر بر سر اقتدار تھا۔ اسی نے ہماری قسمت کا فیصلہ کیا، اسی نے ہمارے لئے مستقبل کا خاکہ کھینچا۔ اسی نے دوسرے علاقوں پر قبضہ کیا۔ اسلامی انقلاب سے قبل ملت ایران کو کبھی بھی اپنے مستقبل کے فیصلے کا موقع نہیں ملا۔ اس مطلوبہ مستقبل کے لئے منصوبہ سازی کی اجازت نہیں ملی۔ مطلوبہ افق کی جانب پیش قدمی کی مہلت نہیں ملی۔ حالانکہ جب تک آپ اپنے لئے اچھے مستقبل کا تعین نہ کریں کوئی صحیح کام انجام نہیں دے سکتے۔ سارا ہم وغم روزمرہ کی چیزوں تک محدود رہے گا۔ اسی طرح مستقبل کا تعین ہو جانے کے بعد اگر اس کے لئے منصوبہ بندی نہ کی جائے، کمر ہمت نہ باندھی جائے، پیش قدمی نہ کی جائے، اعضاء و جوارح اور ذہن و فکر کو بروی کار نہ لایا جائے اور آگے نہ بڑھا جائے تو منزل تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ چیزیں لازمی ہیں۔
کبھی کسی ایک شخص کا انفرادی مسئلہ ہوتا ہے، وہ اٹھنے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر آگے بڑھنے لگتا ہے لیکن کبھی مسئلہ پوری قوم کا ہوتا ہے۔ پوری قوم کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ پوری ملت کو پیش قدمی کرنا ہوتی ہے۔ پوری قوم کو انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر آکر کام دشوار ہو جاتا ہے۔ انقلاب نے ہمیں وہ توانائی عطا کر دی جسے بروی کار لاکر ہم نے ان دیواروں کو گرا دیا جو پوری تاریخ میں محاصرہ کئے رہیں۔ انقلاب نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ ہمارے سامنے ایک آئيڈیل اور نمونہ پیش کر دیا ہے اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ۔ جمہوری اور اسلامی یہ جو آج کل ہم دینی جمہوریت پر گفتگو کر رہے ہیں وہ اسلامی جمہوریہ سے مختلف کوئی چیز نہیں ہے۔ آج بہت سے افراد بڑی شد ومد سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ تاریخ ایران میں کبھی بھی جمہوریت کا نام نہیں آیا۔ یہ حقیقت تو اسلامی جمہوریہ نے ہمیں متعارف کرائی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ البتہ اب اس جمہوریت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس میں مزید خوبیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں یہ ضرور ذہن میں رہنا چاہئے کہ یہ انقلاب کا تحفہ ہے۔ ہماری سمجھ میں آ گيا کہ دو چیزیں معتبر ہیں۔ ایک تو یہ کہ عوام فیصلہ کریں، انتخاب کریں اور اقدام کریں۔ یہ جمہوریت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس انتخاب اور اقدام کے اہداف کا تعین اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انجام پائے۔ کہیں اسلام کی جگہ کچھ اور ہوتا ہے۔ دنیا میں کیا ہوتا ہے؟ آپ کے خیال میں دنیا کے لبرل جمہوری نظاموں کے اہداف کا تعین کون کرتا ہے؟ کون لوگ ان اہداف کی تشریح کرتے ہیں؟ کیا وہ مفکرین یہ کام انجام دیتے ہیں جن کے دل انسانیت کی ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہیں؟ یا یہ کہ حکومتوں پر غلبہ رکھنے والے افراد اور عالمی طاقتیں، سرمایہ دار، کمپنیاں اور اس وقت سب سے بڑھ کر صیہونی (یہ کام انجام دیتے ہیں)؟ یہ چیز آج ہمارے سامنے ہے کہ یہ لوگ حقیقی اہداف کبھی بھی منظر عام پر نہیں لاتے۔ میں نے کل یا پرسوں ایک اجتماع میں بھی کہا اور اس وقت آپ سے بھی کہہ رہا ہوں کہ اس وقت عالمی برادری کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے لیکن دنیا پر خاص اثر و رسوخ رکھنے والوں کے نزدیک جس چیز کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے وہ انسانی حقوق ہی ہیں۔ جمہوریت کا دم بھرتے ہیں، جبکہ اس وقت دنیا کے لبرل جمہوری نظاموں کے پیروکار کسی بھی زاوئے سے جمہوریت کے حامی نہیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ عوام کچھ امیدوں اور توقعات کے تحت ستر اسی فیصد کی اکثریت سے ایسے شخص کا انتخاب کر لیں جو ان (مغرب والوں) کا پیروکار ہو، یہ الگ بات ہے۔ آج جن ممالک میں لبرل جمہوری نظام ہے، امریکہ اور یورپ کی نہج پر، وہاں حقیقی معنی میں جمہوریت ہے ہی نہیں اور وہ (مغرب والے) جمہوریت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ یہ کتنے ڈھیٹ ہیں کہ اسی(نام نہاد) جمہوریت کے لئے عراق و افغانستان پر حملہ کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ یہ پوری انسانیت کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
حالات یہ ہیں اور ہماری قوم بہت ہی حساس علاقے میں آباد ہے۔ اگر ہم مغربی افریقہ یا دنیا کے کسی دور افتادہ علاقے میں ہوتے، عالم اسلام کے مرکز میں واقع نہ ہوتے تو ہمارے سلسلے میں اتنا ہنگامہ آرائی نہ کی جاتی۔ دوسرے یہ کہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے بھی ہم بہت مالامال ہیں۔ تیل اور گیس کا شعبہ جس میں ایران کا مقام بہت فیصلہ کن ہے اور چند ماہ قبل ملک کے اعلی عہدہ داروں سے ملاقات میں میں نے اعداد و شمار کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی، اس کے علاوہ بھی دنیا کے رقبے اور ہمارے ملک کے رقبے میں جو تناسب ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو دنیا کی قیمتی دھاتوں کے ذخائر کا ہمارا تناسب کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمارا رقبہ دنیا کے رقبے کا سواں حصہ ہے اور ہماری آبادی بھی دنیا کی آبادی کا تقریبا ایک فیصد حصہ ہے لیکن چار اہم ترین اور بنیادی ترین دھاتوں کے ذخائر ہمارے پاس دنیا کے کل ذخائر کا تین، چار اور پانچ فیصدی ہیں۔ ہمارے پاس زرعی وسائل ہیں۔ اچھا پانی ہے۔ یوں تو پورے ملک میں پانی کی بہتات نہیں ہے لیکن بعض علاقوں میں پانی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے پاس بڑا صارف بازار ہے۔ دنیا کی کمپنیوں کی نظریں، صارف بازاروں پر لگی ہوئي ہیں۔ ہمارے پاس بڑا بازار ہے۔ تقریبا سات کروڑ ہماری آبادی ہے۔ ہمارے پاس زبردست صلاحیتیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں دنیا کی تسلط پسند اور سامراجی طاقتوں کے لئے بہت اہم ہوتی ہیں۔ برطانیہ تیل کے لالچ میں ایران میں داخل ہوا۔ اسے خبر نہیں تھی کہ تیل کے علاوہ بھی ایران میں بے پناہ دولت ہے۔ اس کے بعد امریکی ٹوٹ پڑے اور یہیں انہوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ لیکن اب یہ سب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یہ سب تو ان کے قبضے سے نکلا ہی، ملت ایران نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ خود مختاری و خود انحصاری، اور بڑی طاقتوں سے بے خوفی کی راہ پر آگے بڑھتے رہنے کا عزم راسخ رکھتی ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوگی۔ میں ایک عہدہ دار کی حیثیت سے جو ہمیشہ دشمن کا سب سے پہلا ہدف قرار پاتا ہے اور ایسے شخص کی حیثیت سے جو ملک کے بارے میں وسیع اطلاعات رکھتا ہے، یعنی وسائل، خطرات اور دشمنوں کی مخاصمتوں سے بخوبی آگاہ ہے، جب غور کرتا ہوں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ یہ جذبات سے متاثر تجزیہ نہیں ہے بلکہ بہت باریک بینی سے لیا گيا جائزہ ہے۔ ہم بیس سالہ ترقیاتی منصوبے کو، جو چند ماہ قبل منظوری کے مراحل طے کرنے کے بعد متعلقہ اداروں تک پہنچا دیا گيا ہے، اسی معینہ مدت میں جامہ عمل پہن سکتا ہے۔ اس پس ماہرین نے باقاعدہ گفتگو اور بحث کی ہے اور تفصیل سے اس کا جائزہ لیا ہے۔
آپ نوجوان اس کا بغور جائزہ لیں۔ اگر غور نہیں کریں گے تو محسوس ہوگا کہ بعض افراد بیٹھ کر یونہی کچھ لکھتے چلے گئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس منصوبے کے ایک ایک لفظ کا ماہرانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں ہم ان خصوصیات میں، معینہ معیاروں کے ساتھ علاقے کے ممالک میں پہلے نمبر پر پہنچ جائيں گے۔ اس کا ایک ایک لفظ ماہرانہ جائزے کے مراحل سے گزرا ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔
عزیزو! آپ سب میرے بیٹوں کی مانند ہیں۔ میں آپ عزیز نوجوانوں میں ایک ایک سے دلی محبت کرتا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں جو کچھ بھی ہونا ہے اور ہو سکتا ہے وہ آپ کے ہاتھوں انجام پانا چاہئے۔ البتہ ہر کام کا اپنا خاص اسلوب ہے۔ میں پوری سچائی کے ساتھ مسئلے کو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ترقیاتی منصوبہ عملی ہے۔ لیکن اس کے لئے مناسب راستوں کی تلاش ضروری ہے۔ یہ ذمہ داری نوجوان نسل کے دوش پر ہے۔ یہ جو ہمارا نعرا ہے کہ ہم کر سکتے ہیں یہ اسلامی اور قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اسلام اور دینی تعلیمات میں ایک چیز ہے قضا اور ایک چیز ہے قدر اور دونوں کو ایک ساتھ قضا و قدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قضا و قدر پر ہمارا ایمان ہے۔ قدر بھی بر حق ہے اور قضا بھی۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ انسان اگر قضا و قدر پر یقین کر لے تو انسان کے ارادہ و اختیار اس کی نظر میں بے اثر ہوکر رہ جائيں گے، لیکن یہ قضا و قدر کی غلط تفسیر ہے۔ ہم قضا و قدر اور ساتھ ہی انسان کے ارادہ واختیار پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ میں چند جملوں میں اس بات کو واضح کرنا چاہوں گا۔
قدر اور تقدیر کے معنی مقدار معین کرنے کے ہیں یعنی دنیا کی چیزوں اور قوانین کو معین کرنا اور چیزوں کے درمیان رابطے کو سمجھنا اور یہ دیکھنا کہ کون سی چیز کس چیز کی وجہ اور سبب ہے۔ اگر کوئی زہر پی لیتا ہے تو اس کی تقدیر موت ہے۔ انسان کے ہاضمے، گردش خون اور دیگر حیاتی عوامل پر زہر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ زہر انہیں نابود کر دیتا ہے۔ اگر کوئي اونچائی سے زمین پر کود جائے تو اس کی تقدیرمیں ہڈیوں کا ٹوٹ جانا لکھا ہے۔ اگر شخص یہاں سے اٹھے اور الوند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کا ارادہ کرے اور پھر قدم آگے بڑھا دے تو اس کی تقدیر میں الوند کی چوٹی تک رسائي ہے۔ علل و اسباب اللہ تعالی نے بنائے ہیں۔ اور ان علل و اسباب کے اثرات کچھ چیزوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ کوئی ایسا عامل جو نتیجہ خیز نہ ہو، کیا آپ اس کا انتخاب کریں گے؟ اگر آپ نے اس کا انتخاب کر لیا تو تقدیر تو اسی عامل اورسبب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب (انتخاب کے بعد) یہی چیز ہو جائے گی قضا۔ قضا یعنی حکم، یعنی حتمی فیصلہ۔ قضا حتمی ہوتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے انتخاب نہیں کیا ہے مثلا آپ ایک جگہ کھڑے ہیں جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ اگر آپ نے پہلی سڑک کا انتخاب کیا تو آپ کی تقدیر یہ ہے کہ آپ فلاں جگہ پہنچیں گے، دوسری سڑک پر چلے تو کسی اور مقام پر پہنچیں گے اسی طرح تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی سڑک پر چلے تو اس جگہ پہنچیں گے جہاں یہ سڑکیں ختم ہوتی ہیں لیکن اگر آپ نے کسی بھی سڑک پر جانے کا فیصلہ نہ کیا تو کیا آپ ان منزلوں میں سے کسی ایک پر بھی پہنچیں گے؟ نہیں، آپ نے کسی بھی منزل پر نہ پہنچنے کا انتخاب کیا ہے اس لئے آپ نہیں پہنچیں گے۔ اگر آپ نے پہلی سڑک کا انتخاب کیا، ارادہ کیا اور اپنی توانائی کو بروی کار لاتے ہوئے اسی پر قدم بڑھائے تو آپ متعلقہ منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اب آپ کی قضا یعنی آپ کے سلسلے میں حتمی حکم یہ ہوگا کہ آپ اس منزل تک پہنچیں گے۔ تو جو چیز تقدیر اور قدر کو قضا یعنی حتمی انجام میں بدل سکتی ہے وہ آپ کا ارادہ، انتخاب اور عمل ہے۔ تقدیر طے شدہ ہے لیکن وہ آپ کے سلسلے میں حتمی شکل میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اسے حتمی شکل آپ خود اپنے ارادہ و اختیار سے دیں گے اور اس اقدام کے نتائج کی ذمہ داری بھی آپ کو خود ہی اٹھانی چاہئے۔ اگر ہم کسی دوراہے پر کھڑے ہوں جہاں سے ایک راستہ ہماری منزل مقصود تک جاتا ہو جبکہ دوسرا راستہ ہمیں کسی دلدل یا خطرناک مقام پر لے جاتا ہو تو گویا ہمارے سامنے دو متبادل تقدیریں موجود ہیں۔ ان میں سے ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر ہم نے پہلے راستے کا انتخاب کیا اور بیچ راستے میں تھکے نہیں، ہماری ہمت نہیں ٹوٹی، ہماری طاقت نے جواب نہیں دیا تو ہماری قضا یہ ہوگی کہ ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن اگر اس کے بر عکس ہم نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور راستے میں بھی ہمیں ہوش نہیں آیا، ہم متنبہ نہ ہوئے، ہم نے توبہ نہ کی اور اس راستے سے نہ پلٹے بلکہ اسی پر آگے بڑھتے رہے تو حتمی تقدیر اور یقینی انجام یہ ہوگا کہ ہم دلدل میں داخل ہو جائیں گے، اس خطرناک مقام پر پہنچ جائيں گے۔ انتخاب خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس سلسلے میں ایک معنوی اور روحانی نکتہ بھی ہے جس کی جانب میں اشارہ کروں گا۔ انتخاب خود ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دو راستے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ہمت ہار کر بیٹھ جائیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ جیسا کہ بعض عناصر اپنی تحریروں اور تقریروں سے یہی پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملت ایران اور یہ نوجوان نسل دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کی کوشش میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے۔ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ اگر ایٹمی توانائي چاہئے، اگر ایٹمی فیول سائکل چاہئے اور علمی اور سائنسی وسائل درکار ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کی جاسوسی کی تنظیمیں اور نشریاتی ادارے آپ کے خلاف پروپیگنڈے نہ کریں تو آپ امریکہ کے سامنے بلکہ یوں کہا جائے کہ عالمی سامراجی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ ایسے عناصر بس مٹھی بھر ہیں لیکن بہرحال ہیں۔ یہ افراد یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایران اپنے مسائل اور تشویش کم کرنا چاہتا ہے تو گھٹنے ٹیک دے۔ سر تسلیم خم کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی جغرافیائی پوزیشن، آب و ہوا کی خصوصیات، ثقافتی دولت، مایہ فخر تاریخ اور عظیم افرادی قوت، سب کچھ ان کے حوالے کر دیجئے جو تسلط پسندی، حرص و طمع اور لوٹ کھسوٹ میں کسی حد کے قائل نہیں ہیں۔
ہمارے سامنے دوسرا راستہ یہ ہے کہ ملت ایران نے اگر اپنے ارادہ و اختیار اور فکر و نظر کے مطابق زندگی گزارنے اور بلند اہداف تک پہنچنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔ کیوں ایران نام نہاد ترقی پذیر ملکوں کی صف میں شامل ہو؟ ترقی پذیر تو ایک تکلفاتی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ملک ہے۔ کیا ہماری صلاحیتیں اور فکری طاقت ان لوگوں سے کمتر ہیں جو سائنس کے میدان میں دو سو سال آگے ہیں؟ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہم کمتر نہیں ہیں۔ اگر وہ ہم سے دو سو سال آگے ہیں تو یہ ہمارے بادشاہوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ مطلق العنان نظاموں کی دین ہے۔ ان پلید خاندانوں کی کوتاہی کا نتیجہ ہے جو اس ملک پر حکومت کرتے رہے۔ خاندان پہلوی کی غلطیوں کا ثمرہ ہے۔ آج جو جذبہ ہمارے اور آپ کے اندر ہے اور جو اس ملک میں رہنا چاہئے تھا اسے دبا دیا گيا تھا، کچل دیا گيا تھا۔ کیوں کچل دیا گيا؟ کیونکہ اس ملک کے حکام انہی طاقتوں کے رحم و کرم پر اقتدار میں تھے جو اس ملک کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتیں، جومفت میں ہاتھ لگ جانے والی اس ملک کی عظیم اور بے پناہ دولت کو کبھی بھی اپنے قبضے سے باہر نہیں جانے دینا چاہتی تھیں۔ اگر گھر کا مالک بیدار ہو تو چور گھر کا سامان اس کی آنکھوں کے سامنے چرا نہیں سکتا۔ بس یہی راستہ ہے کہ یا تو اسے گہری نیند سلا دیا جائے اور یا پھر اس کے ہاتھ پیر باندھ دئے جائیں۔ ورنہ اگر وہ بیدار رہے، اس کے ہاتھ پیر بھی کھلے ہوں اور دفاع کی طاقت بھی رکھتا ہو تو بھلا چور کو کہاں موقع مل سکتا ہے؟ جو لوگ چاہتے تھے کہ قوم محو خواب رہے یا اس کے ہاتھ پیر باندھ دئے جائیں تاکہ وہ اپنی عظیم اور بے پناہ قدرتی دولت کو اپنے اختیار میں لینے کی کوشش نہ کرے، انہوں نے اپنے مہروں کو اس ملک کی باگڈور سونپی۔ رضاخان کو برطانیہ نے حاکم بنوایا اور محمد رضا کو برطانیہ اور امریکہ کے اتحاد نے اس ملک پرمسلط کر دیا۔ عالمی سطح پر بڑے سنہری مواقع پیدا ہوئے لیکن پچاس پچپن سال کے اس دور میں ایران کو بے بس بنا کر رکھا گيا۔ سیاسی اور سکیورٹی کے میدان ہی نہیں ثقافتی میدان میں بھی ہمیں پسماندگی سے دوچار کر دیا گیا۔ برسوں تک جاری رہنے والی ثقافتی یلغار میں ہمیں یہ یقین دلانے کی کوش کی گئی کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ کو بس مغرب اور یورپ کے نقش قدم پر چلنے پر اکتفا کرنا چاہئے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔ آج آپ سائنس و ٹکنالوجی، ریاضیات یا دیگر علمی شعبوں میں کوئی نیا نظریہ پیش کریں جو پرانے نظرئے کا خلاف ہو تو کہا جاتا ہے کہ مثلا اقتصادیات کے تعلق سے آپ کا یہ نظریہ فلاں کے نظرئے سے متصادم ہے، علم نفسیات کے سلسلے میں آپ کا یہ نظریہ، فلاں کے نظرئے کے خلاف ہے۔ یعنی جس انداز سے مومنین، قرآن و کلام خدا اور وحی پر ایمان رکھتے ہیں، یہ لوگ یورپی سائنسدانوں اور نظریہ پردازوں کے نظریات پر اسی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر یقین رکھتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریات منسوخ بھی ہوتے ہیں اور ان کی جگہ نئے نظریات قائم ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ پچاس سال قبل کے نظریات کو مقدس اصولوں کی کی طرح کلیجے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ دسیوں سال سے پوپر کے سیاسی اور سماجی نظریات منسوخ ہو چکے ہیں اور ان پرخط بطلان کھینچنے والی درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن حالیہ چند برسوں میں کچھ افراد سامنے آئے ہیں جو فلسفی ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور پوپر کے نظریات کی ترویج میں مصروف ہیں۔ کئی عشرے قبل اقتصادی مراکز کے بہت سے اصول منسوخ ہو گئےاوران کی جگہ نئے اصول متعارف کرائے جا چکے ہیں لیکن بعض افراد ہیں جو اب بھی کوئي اقصادی منصوبہ بندی کرتے وقت انہی منسوخ شدہ اصولوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں دو برائياں ہیں، ایک تو یہ کہ یہ لوگ دوسروں کی تقلید کر رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ افراد تازہ تبدیلیوں اورتحقیقات سے بے خبر ہیں۔ نصاب کی کتابوں میں جو پڑھ لیا ہے اسے مقدس کتاب کی عبارت کی مانند ذہن نشین کئے ہوئے ہیں اور اب وہی سب ہمارے نوجوانوں کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا ملک تو فلسفے کا گہوارہ رہا ہے اور ہم فلسفہ سمجھنے کے لئے دوسروں سے رجوع کریں؟!
ہمدان کے اسلامی دور کی مجھے اطلاع ہے۔ اسلام سے قبل کے دور کی مکمل اطلاعات میرے پاس نہیں ہیں۔ اس دور کے حالات کسی کو بھی بخوبی نہیں معلوم ہیں لیکن اسلامی دور میں، یعنی اس وقت جب ابن سینا نے اسی شہر میں ادق و اعلی فلسفیانہ نظریات پیش کئے اور علم طب، ریاضیات اور دیگر علوم و فنون سے متعلق نئے اصول وضع کئے اور ان کی تدریس شروع کی، ایک شخصیت کا ذکر آتا ہے جسے ہماری منطق و فلسفے کی کتابوں میں رجل ہمدانی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اس شخصیت کے کچھ منقطی اور فلسفیانہ نظریات تھے جو متروک ہو گئے تھے۔ جب ابن سینا ہمدان پہنچے اور اس عالم سے ان کی ملاقات ہوئی تو بعد میں ابن سینا نے کہا کہ وہ بہت سن رسیدہ اور بے شمار خوبیوں کا مالک شخص تھا۔ ابن سینا نے جو باتیں اس شخص کے سلسلے میں کہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص ایک ہزار سال قبل ریاضیات، فلسفہ اور منطق جیسے موضوعات پر عبور رکھتا تھا۔ ایک ہزار سال قبل کا مطلب چوتھی صدی ہجری اور دسوی صدی عیسوی۔ دسویں صدی عیسوی کون سی صدی ہے؟ قرون وسطی کی وسطی صدی۔ قرون وسطی کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا کہ اس کا تعلق یورپ سے ہے، ایران سے نہیں۔ جب یورپ میں قرون وسطی کی تاریکی اور جہالت چھائی ہوئی تھی، ہمدان میں ابن سینا اور رجل ہمدانی جیسی شخصیات جلوہ فگن تھیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد، رشید الدین فضل اللہ، بابا طاہر اسی طرح دیگر علما اور فضلاء نے علمی ضوفشانی کی۔ یہ ہماری علمی اور ثقافتی تاریخ ہے تو ہم کیونکر یہ باور کر لیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ ہمیں ترقی سے باقاعدہ روکا گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہم علمی میدان میں دنیا سے دو سو سال پیچھے ہو گئے۔ لیکن علم کی سرحدوں تک پہنچنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اسی راستے پر چل پڑیں جس پر یورپی گامزن ہیں۔ یعنی ہم بھی دو سو سال میں یہ سفر طے کرکے وہاں پہنچیں جہاں یورپی آج پہنچ چکے ہیں۔ نہیں یہ نہیں ہونا ہے۔ ہم شارٹ کٹ راستے تلاش کریں۔ ہم یورپیوں کے ہاتھوں سے علم جھپٹنے کی کوشش کریں۔ سیکھنا کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہےکہ دنیا چند گروہوں پر قائم ہے، ان میں ایک ان افراد کا گروہ ہے جو ان چیزوں کو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے نا واقف ہیں۔ ذہن انسانی کی علمی تخلیقات کو ہم ضرور سمجھیں گے، جو ہمیں نہیں آتا اسے پورے شوق سے سیکھیں گے اور اپنے استاد کا احترام بھی کریں گے۔ جس سے ہمیں علم مل رہا ہے ہم کبھی اس کی بے احترامی نہیں کریں گے۔ لیکن علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہ ہو کہ طالب علم ہمیشہ شاگرد ہی بنا رہے۔ نہیں، اگر آج ہم شاگرد ہیں تو کل انہی کے استاد بن جائیں گے۔ جیسا کہ وہ لوگ ایک دن ہمارے شاگرد تھے لیکن آج ہمارے استاد ہیں۔ مغرب والوں نے علم ہم سے لیا ہے۔ آپ پیئر روشو کی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔ اس میں لکھا ہے کہ چار پانچ صدی قبل ایک تاجر یورپ میں ایک استاد سے رجوع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میری خواہش ہے کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے۔ تو اسے کس اسکول میں بھیجوں؟ استاد نے جواب دیا کہ اگر جمع اور تقسیم کی مقدار پر اکتفا کرنا چاہتے ہو تو اسے اسی ملک یا یورپ کے کسی بھی اسکول میں داخلہ دلوا دو لیکن اگر اعلی تعلیم کی خواہش ہے تو اسے انڈولیشیا یا کسی دوسرے ملسمان علاقے میں بھیج دو۔ یہ چیز پیئر روشو نے لکھی ہے۔ یہ میرا اپنا جملہ نہیں ہے۔ صلیبی جنگوں کے سہارے انہوں نے ہم سے علم حاصل کیا۔ ان کے علما ہمارے علاقوں میں ہجرت کرکے آئے، ہمارے علما ان کے علاقوں میں گئے، ہماری کتابیں انہیں ملیں اور انہوں نے سیکھا۔ تو ایک زمانہ وہ تھا جب انہوں نے ہم سے سیکھا، علم حاصل کیا اور ہمارے شاگرد بنے۔ پھر ہمارے استاد بن گئے۔ اب ہم ان سے سیکھیں ان کے شاگرد بنیں اور پھر خود کو استاد کے درجے پر پہنچائیں۔ ہمارے ملک کے محققین کا طبقہ یہ بات ذہن نشین کر لے کہ آج اگر مغرب والوں کو علمی برتری حاصل ہے تو وہ دن دور نہیں جب آپ کے بلند حوصلوں کے نتیجے میں وہ مقام حاصل ہوگا کہ کل کو وہ آپ کے پاس سیکھنے کے لئے آئیں گے۔ آپ علم کی سرحدوں کو توڑ دیجئے۔ یہ جو میں سافٹ ویئر کی تحریک کی بات کرتا ہوں تو آپ نوجوانوں اور اساتذہ سے مجھے یہی امید اور توقع ہے۔ آپ علم کی پیداوار کی کوشش کیجئے۔ علم کی آخری حدوں کی سمت بڑھئے، غور و فکر کیجئے، محنت کیجئے۔ محنت اور کوشش سے علم کی موجودہ حدوں کے آگے جایا جا سکتا ہے۔ کچھ شعبوں میں زیادہ وقت درکار ہے تو کچھ میں آپ تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ٹکنالوجی بھی اسی طرح ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی پر توجہ رہنی چاہئے۔ ٹکنالوجی بھی بہت اہم چیز ہے۔ اس شعبے میں بھی ہم آگے جا سکتے ہیں، جس طرح ہم نے اب تک پیش قدمی کی ہے۔
آپ کو یہ سن کا خوشی ہوگی کہ ملک کے بعض علمی شعبوں میں جو کام ہوئے ہیں وہ دنیا میں اب تک کہیں اور نہیں ہو سکے ہیں۔ اسٹم سلز پیدا کرنے کی ٹکنالوجی کے شعبے میں آپ کی مانند کچھ نوجوان جو تہران میں ہیں آگے بڑھے۔ انہوں نے ہمت دکھائي، گئے اور دوسروں سے اس کا علم حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی فکری صلاحیتوں کا بھی استعمال کیا نتیجے میں آج وہ اسٹم سلز کی پیداوار، انہیں منجمد کرنے اور ان کی نگہداشت اور پھر پیوندکاری کی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ ان نوجوانوں نے پہلی بار انسولین سلز تیار کئے جو اب تک دنیا میں کہیں بھی تیار نہیں کئے جا سکے ہیں۔ لہذا پہلے شاگرد بننے کا مطلب ہمیشہ شاگرد ہی بنے رہنا نہیں ہے۔ نہیں، آپ حوصلے بلند رکھئے تو ایک دن آپ خود دیکھیں گے کے دوسرے آپ سے سیکھنے کے متمنی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ علمی میدان میں شاگردی کا مطلب ثقافتی طور طریقوں کی تقلید نہیں ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ قاجاریہ دور حکومت میں پہلی دفعہ مغربی ثقافت کے اثرات ہمارے ملک میں نظر آئے۔ اس وقت کے ایرانی درباریوں نے سب سے پہلے یورپیوں سے رابطہ برقرار کیا لیکن سب سے پہلے جو چیز انہوں نے حاصل کی وہ علم نہیں تھا، ان کا رہن سہن اور طور طریقہ تھا۔ غلطی کا یہ سلسلہ وہیں سے شروع ہوا۔ بعض افراد اس غلط فہمی میں ہیں کہ چونکہ مغرب والے علمی میدان میں ہم سے برتر ہیں تو ہمیں ان کا رہن سہن اور آداب و اطوار بھی اپنانا چاہئے۔ یہ غلط تصور ہے۔ اگر کوئی استاد آپ کر درس دے رہا ہے اور بہت اچھا استاد ہے، آپ اسے بہت پسند کرتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لباس کا رنگ بھی اسی کے جیسا ہونا ضروری ہے؟ اگر اس میں کوئی بری عادت ہے تو کیا آپ بھی اسے اختیار کریں گے؟ فرض کیجئے کہ استاد درس کےدوران ناک میں انگلی ڈالتا ہے تو آپ اس سے علم حاصل کیجئے، یہ عادتیں کیوں اختیار کر رہے ہیں۔ یورپ والوں میں بہت سی بری عادتیں پائی جاتی ہیں تو ہم ان عادتوں کے سلسلے میں کیوں ان کی تقلید کریں؟ کوئی کہے کہ جناب ہم سر سے پیر تک مغربی رنگ میں رنگ جائیں۔ جی نہیں، ہم ایرانی ہیں، ہمیں ایرانی ہی رہنا چاہئے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں مسلمان ہی رہنا چاہئے۔ ان کےپاس ہم سے زیادہ علم ہے تو ٹھیک ہے، ہم ان کے پاس جائیں گے، ان سے علم حاصل کریں گے لیکن ان کے طرز زندگی کی تقلید کرنے کا کیا جواز ہے۔ یہ کتنی غلط سوچ ہے؟ اب بعض وجوہات کی بنا پر وہ اپنی گردن میں ٹائی لپٹتے ہیں، البتہ میں ٹائی پہننے سے منع نہیں کرتا لیکن یہ چیز ہے انہی کی، تو کیا ہم بھی انہی کی تقلید کریں۔ ہماری نظر میں اس کا جواز کیا ہے؟ ہم لباس، گفتگو اور طرز زندگی میں ان کے جیسا بننے کی کوشش کیوں کریں؟ ان کے لہجے میں کیوں بات کریں؟ میں کبھی کبھی دیکھتا ہوں کہ ہمارے ٹی وی چینل کا نمایندہ دنیا کے اس سرے سے رپورٹ دے رہا ہے، رپورٹ ایران کے موضوع پر ہے لیکن ایسے لہجے میں فارسی بولتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا کوئی انگریز فارسی بول رہا ہو۔ یہ احساس کمتری ہے۔ ہمیں ایرانی ہونے پر احساس کمتری کیوں ہو؟ مجھے اپنی زبان پر فخر ہے، مجھے اپنی ثقافت پر ناز ہے، مجھے اپنے وطن اپنے ملک اور اپنے ماضی پر فخر ہے تو میں ان کی تقلید کیوں کروں؟ اس کی کوئی وجہ اور جواز نہیں ہے۔ ان کا علم زیادہ ہے تو ٹھیک ہے ہم ان سے علم حاصل کریں گے۔ اگر اس پر خرچ بھی آتا ہے تو وہ بھی ہم ادا کریں گے۔ ویسے ان کے یہاں چلن ہو گیا ہے کہ پیسے لیکر علم دیں گے۔ اس وقت مغرب والوں کے لئے سب سے اہم چیز پیسہ ہے۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں علم خاص عزت و شرافت کے مقام کا حامل ہوتا ہے۔ ان کی نظر میں علم کی اہمیت کا معیار اس سے حاصل ہونے والی دولت ہے۔ وہی علم ان کے لئے با ارزش ہے جس سے ڈالر اور پونڈ حاصل کئے جاسکتے ہوں۔ ہم ان کی اسی کمزوری سے استفادہ کریں۔ ان سے ان کا علم خریدیں۔ اس کی قیمت ادا کریں لیکن ان کی تقلید نہ کرنے لگیں۔ یہ آپ نوجوانوں کے لئے میری نصیحت ہے۔ البتہ یہ باتیں کہنا تو آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا آسان نہیں ہے۔
ملک کے ذمہ دار ادارے، حکومتی شعبے اور مختلف محکمے، قانون ساز، علمی، سائنسی، تحقیقاتی مراکز، یونیورسٹیاں، شعبہ تعلیم و تربیت سب کو مل کر بھرپور محنت کرنی چاہئے۔ ہمیں راستہ مل چکا ہے۔ ہمیں بخوبی علم ہے کہ کس راستے پر آگے بڑھنا ہے اور خود کو اوج تک پہنچانا ہے تو اب ہمیں محنت کرنا چاہئے ۔ ویسے یہ ہے تو سخت، اس میں خون پسینہ ایک کرنا ہوگا۔ تھکن کا احساس بھی ہوگا، بعض افراد تھکن کے مارے بیچ راستے سے ہی لوٹ آتے ہیں لیکن اکثریت آگے بڑھتی ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ کام دشوار تو ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالی نے چاہا تو ہم کامیاب ہوکر رہیں گے۔
میں یہاں دو نکات کی جانب اشارہ کروں گا اور پھر آپ کی زحمت تمام۔ میں نے ثقافتی امور میں تقلید اور پیروی کے نکتے کی جانب اشارہ کیا۔ یہ چیز بہت خطرناک ہے، ہاں یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ میں زندگی کے طور طریقوں میں تبدیلی اور تنوع کے خلاف ہوں۔ بالکل نہیں۔ شوق، اور نئے فیشن اگر اس میں انتہا پسندی سے کام نہ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں بچوں کی طرح دیکھا دیکھی کا مسئلہ نہ ہو تو کوئی برائی نہیں ہے۔ لباس، سجنے سنورنے کا انداز اور طور طریقوں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، کوئي بات نہیں لیکن آپ اس کی بابت ضرور ہوشیار رہئے کہ اس سارے فیشن اور تنوع کا ارتکاز یورپ کی سمت نہ ہو۔ یہ برا ہے۔ اگر یورپ اور امریکہ کے فیشن ڈیزائنروں نے اپنے معاشرے کی عورتوں اور مردوں کے لئے کوئی لباس ڈیزائن کیا تو کیا یہاں ہمدان، تہران اور مشہد میں ہم اسی کی تقلید شروع کر دیں؟ برائی اسی میں ہے۔ آپ خود ڈیزائن کیجئے، خود تیار کیجئے۔ میں نے اپنی صدارت کے زمانے میں سپریم کونسل برای ثقافتی انقلاب میں قومی لباس کا موضوع اٹھایا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ آئیے اپنا ایک قومی لباس تیار کرتے ہیں۔ یہ کوٹ پینٹ تو ہمارا قومی لباس نہیں ہے۔ میں کوٹ پینٹ کا مخالف نہیں، خود میں بھی بعض اوقات پہاڑوں یا دیگر مقامات پر جیکٹ پہنتا ہوں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہرحال یہ ہمارا قومی لباس تو نہیں ہے۔ عربوں کے پاس ان کا قومی لباس ہے۔ ہندوستانیوں کے پاس ان کا قومی لباس ہے۔ انڈونیشیائی اپنا قومی لباس پہنتے ہیں۔ مختلف مشرقی ممالک کے پاس ان کا قومی لباس ہے۔ افریقیوں کے پاس ان کا قومی لباس ہے۔ جنرل اسمبلی میں لوگ اپنے اپنے قومی لباس میں آتے ہیں۔ میں نے ایک صدر ممکلت کو دیکھا جس کا قومی لباس صرف کرتے کی شکل کی ایک چیز تھی۔ اچھا خاصا آدمی صرف کرتا پہنے ہوئے تھا جو تقریبا گھٹنوں تک تھا، پیر کھلے ہوئے تھے۔ اسے کوئی شرمندگی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ جلسے میں فخریہ بیٹھا ہوا تھا، چل پھر رہا تھا، اٹھ بیٹھ رہا تھا۔ اس کا قومی لباس یہی تھا، تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ عرب فخریہ اپنا قومی لباس پہنتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہمیں اور آپ کو اس کا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے لیکن بہرحال یہ ان کا قومی لباس ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔ ہم ایرانیوں کا قومی لباس کیا ہے؟ آپ کو نہیں معلوم ہےکہ آپ کا قومی لباس کیا ہے۔ البتہ میرا یہ کہنا نہیں ہے کہ پانچ سو سال قبل والی پوشاک پہنی جائے۔ نہیں، میرا یہ کہنا ہے کہ آپ خود مل بیٹھ کر اپنا ایک قومی لباس ڈیزائن کیجئے۔ البتہ اس وقت آپ سے میرا یہ مطالبہ نہیں ہے، یہ چیز تو میں نے سپریم کونسل برای ثقافتی انقلاب میں کہی تھی۔ اس روز ہم نے ایک حکومتی شعبے کو اس کی ذمہ داری سونپی اور کہا کہ اس سلسلے میں کام کیا جائے۔ کچھ ابتدائی کام ہوا بھی تھا لیکن بہرحال انجام تک نہیں پہنچ سکا اور میرا صدارتی دور بھی ختم ہو گيا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ آپ اگر اپنے بال سنوارنا چاہتے ہیں، آپ لباس پہننا چاہتے ہیں، اگر آپ چلنے کا انداز بدلنا چاہتے ہیں تو یہ کام ضرور کیجئے لیکن کسی کی تقلید نہ کیجئے۔ آپ خود اپنے شوق کے مطابق یہ کام کیجئے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں تیس چالیس سال قبل سماجی مسائل کے شدید دباؤ کا شکار بعض نوجوان بڑے عجیب حلئے میں رہنے لگے تھے۔ انقلاب کے بعد میرا الجزائر جانا ہوا، ہماری گاڑی سڑک سے گزر رہی تھی، میں نے دیکھا ایک نوجوان نے آدھا سر منڈوا رکھا ہے جبکہ آدھے سر پر بال ہیں۔ اس میں خوبصورتی کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ کسی کی نقل کرنے کوشش کی ہے۔ اب یہاں الجزائر میں تو وہ دباؤ کی کیفیت نہیں تھی جس سے نوجوانوں میں وہ جذبات اور احساسات پیدا ہوں جو امریکہ اور برطانیہ کے نوجوانوں میں پیدا ہو گئے تھے۔ میں انہی چیزوں کا مخالف ہوں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ہمارا نوجوان یہ طور طریقے اپنائے، ہمارے لڑکے لڑکیوں کی نظریں ہمیشہ انہی کی جانب لگي رہیں۔
دوسرا نکتہ جو آپ کے سامنے عرض کرنا ہے وہ یہ کہ ہم نے تقدیر کے سلسلے میں کہا کہ انتخاب کا اختیار خود آپ کو ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن الہی امداد اور ہدایت کو آپ ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھئے۔ کبھی آپ کو کوئی کام کرنا ہے اور آپ تھکن کا احساس کر رہے ہیں تو ایسے عالم میں اللہ تعالی سے مدد مانگئے وہ آپ کو توانائی عطا کرے گا اور آپ دوبارہ آگے بڑھنے لگیں گے۔ کبھی انتخاب کے موقع پر آپ کو دقت پیش آ رہی ہے تو اس مرحلے پر بھی آپ اللہ تعالی سے مدد کی دعا کیجئے اللہ آپ کی ہدایت کرے گا۔ ایک شخص وہ ہے جو ان دشواریوں کا شکار ہے لیکن اللہ سے مدد نہیں مانگتا تو اسے توانائی بھی نہیں ملتی، اللہ تعالی سے ہدایت کی التجا نہیں کرتا تواسے ہدایت بھی نہیں ملتی۔ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ مجھ سے ہدایت مانگو، مدد مانگو اور توفیق کی دعا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ میں نوجوانوں سے خاص طور پرکہتا ہوں کہ اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مضبوط کیجئے اور دعا و مناجات اور اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کی قیمت کو پہچانئے۔ دعا کے معنی یہ نہیں کہ بس آپ اللہ تعالی سے مانگ لیں اور پھر بے فکر ہوکر بیٹھ جائیں، کوئي کوشش نہ کریں۔ نہیں ایسا نہیں، آپ اللہ تعالی سے دعا مانگئے کہ جب آپ کوشش کریں تو وہ آپ کی مدد کرے، آپ اللہ کی بارگاہ میں التجا کیجئے کہ جب آپ انتخاب کریں تو وہ آپ کی مدد کرے اور آپ کا انتخاب درست ہو۔ اگر دشوار موڑ پر پہنچ جائيں اور آپ کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا ہو تو اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ کی رہنمائي کرے۔
پروردگارا! حاضرین پر اپنا لطف و کرم اور رحمت و نصرت نازل فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ