تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
شہادت کی خوشبو جو در حقیقت ہماری مادی زندگی میں شمیم بہشتی کا درجہ رکھتی ہے اسے روحانیت و الفت سے معمور اس اجتماع میں انسان با قاعدہ محسوس کر سکتا ہے۔ میں سب سے پہلے تو تمام بھائیوں، بہنوں اور شہداء کے خاندانوں کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ سب یہاں تشریف لائے اور مجھے یہ موقع ملا کہ عزیز شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کروں اور ان شہیدوں کی مقدس ارواح سے جن کے آپ بازماندگان ہیں، روحانی و معنوی استفادہ کروں۔ جن عزیزوں نے ابھی پروگرام پیش کیا جو نظم و نثر پر مشتمل بڑا خوبصورت پروگرام تھا اسی طرح جن عزیزوں نے ترانہ پڑھا میں ان کا شکرگزار ہوں۔
میں اپنے تمام دوروں میں شہدا کے خاندانوں سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا ہوں اور جیسا اجتماع یہاں منعقد ہوا ہے دیگر صوبوں میں اسی کے مانند منعقد ہونے والے اجتماعات میں خاص روحانیت و تقدس کا احساس کرتا ہوں۔ البتہ میں یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ کردستان کے شہدا اور ان کے خاندانوں کی کچھ دیگر خصوصیات بھی ہیں جو دیگر صوبوں میں بہت کم ہی نظر آتی ہیں، اکثر و بیشتر ان کا مشاہدہ نہیں کیا جاتا۔ ان خصوصیات میں ایک تو یہ ہے کہ اس علاقے کے شہدا زیادہ مظلومیت اور بے کسی کے عالم میں شہید ہوئے اور ان کے خاندانوں کو زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ انقلاب دشمن عناصر اور ملک دشمن عوامل نے صوبے میں بالخصوص (مسلط کردہ جنگ کے) ابتدائی برسوں میں شہدا کے خاندانوں کے لئے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ (شہیدوں کے) والدین اور بھائی بہنوں کے لئے زندگی شہادت سے زیادہ سخت اور مشکل ہو گئی تھی۔ ان انقلاب دشمن عناصر نے، جو کردستان کو خانہ جنگی اور ملک کے اندر برادر کشی کے مرکز میں تبدیل کر دینا چاہتے تھے، یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ صوبے کے بہترین اور قیمتی نوجوانوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا، ان کے اہل خانہ کو ایک طویل عرصے تک شدید دباؤ میں رکھا۔ ملک کے دیگر صوبوں میں شہدا کے خاندانوں کا غم یہ تھا کہ ان کا پارہ جگر ان سے بچھڑ گیا ہے۔ لوگ ان کے شہیدوں کا تذکرہ بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے تھے اور ان پر افتخار کرتے تھے۔ لیکن کردستان میں بہت سے واقعات ایسے ہوئے جن کی ہمیں اطلاع ملی، کہ اس صوبے اور اس ملک کے دشمنوں نے شہدا کے خاندانوں کو شدید ایذائيں دیں۔ انہیں ذہنی اور جسمانی تکلیفیں پہنچائیں۔ البتہ ان حرکتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، یہ عناصر عوام کی نظروں میں اور بھی روسیاہ ہو گئے۔ کردستان کے عوام جہاں ہمدردی و مہربانی اور مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں جو کھلی حقیقت بھی ہے، وہیں وہ اپنی دلیری و شجاعت اور فہم و فراست کے لئے بھی جانے جاتے ہیں۔ اسی لئے اس قوم کے دشمن شہدا کے خاندانوں کو جھکا نہیں سکے۔ میں نے سنندج شہر کے سفر کے وقت ایک خاندان کے بزرگ کی زیارت کی جن کے چھے بیٹے شہید ہوئے ہیں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، چھے چھے بیٹے! تین بیٹے محاذ جنگ پر اور تین مظاہروں کے دوران بعثیوں کی بمباری میں۔ چھے بیٹے شہید ہو گئے لیکن ان شہدا کے والد محترم مجھے اتنے مستحکم نظر آئے کہ ان کی عظمت کے سامنے احساس کمتری ہونے لگا۔ یہ چیز مجھے کردستان میں نظر آئی۔ آج اس عظیم شخصیت کے دوسرے دو بیٹوں سے یہاں ملاقات ہوئی میں نے ان سے ان کے والد کی خیریت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ ان کا تو انتقال ہو گیا۔ دو اور تین شہیدوں کی قربانی دینے والے خاندان، اپنے شوہروں اور بیٹوں کا داغ اٹھانے والی خواتین دشمن کے شدید نفسیاتی اور سیاسی دباؤ اور ایذا رسانی کا نشانہ بنیں لیکن اپنے جگر گوشوں کے غم کے پہاڑ تلے دبے ہوئے یہ افراد دشمن کے سامنے جھکے نہیں۔ یہ بڑی عظیم چیز ہے جو مجھے کردستان میں نظر آئی۔
آپ کے عزیز نوجوانوں نے بھی انقلاب دشمن عناصر اور صدام کی بعثی حکومت دونوں کے خلاف جنگ کی۔ ان نوجوانوں نے ان کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ کرد نوجوانوں نے، سقز، مریوان، بانہ، قروہ اور بیجار کے نوجوانوں نے فاؤ آپریشن میں اپنے دیگر ہم وطن سرفروشوں کے شانہ بشانہ جنگ کی، استقامت کا مظاہرہ کیا اور شہید ہوئے۔ اس علاقے میں بھی انہوں نے انقلاب دشمن عناصر اور بعثی دشمن کا مقابلہ کیا۔ میں مریوان اور دزلی میں ان نوجوانوں کے طاقت فرسا جہاد کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جس میں وہ دشمن پر شعلوں کی مانند حملہ آور ہوتے تھے۔
میرے عزیزو! یہی استقامت قوم کو اندر سے مستحکم بناتی ہے۔ ہم غفلت اور سستی کے ساتھ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ قوموں کے درمیان جاری مقابلے میں زور زبردستی کے سامنے ہتھیار ڈال کر ہمیں کوئی مقام حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ نہج البلاغہ میں یہ جو ارشاد ہوا ہے ان الجھاد باب من ابواب الجنۃ فتحھ اللہ لخاصۃ اولیائھ اس سے کیا مراد ہے؟ (اس سے مراد ہے کہ) جہاد فی سبیل اللہ، حق کی راہ میں جنگ بہشت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے اولیائے خاص کے لئے وا کر دیا ہے۔ یعنی آپ کے نوجوان، آپ کے شہدا اور آپ کے عزیزوں کا شمار خاصان خدا میں ہوتا ہے جو اس دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ انہیں خاصان خدا کیوں قرار دیا گیا؟ اس لئے کہ اگر یہ جہاد نہ ہو تو قوم مسلسل ظلم سہتی رہے گی، پسماندگی کا شکار رہے گی، ہمیشہ کمزور رہے گی، ہمیشہ دھونس اور دھمکیاں سنتی رہے گی۔ عظیم ملت ایران نے اپنی عظمت کا مظاہرہ کیا اور آپ نے بھی بڑا کامیاب امتحان دیا۔ اس امتحان و آزمائش میں آپ سرخرو ہوکر باہر نکلے۔
دو بڑے اہم نکات ہیں جنہیں نہ تو مجھے فراموش کرنا چاہئے اور نہ ہی کبھی آپ انہیں فراموش کریں۔ بالخصوص ہمارے نوجوان اور بچے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ شہید کے نام اور ان کے ذکر سے جو احساس افتخار ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے، اس کی ہم حفاظت کریں، جیسے ہم صدر اسلام کی عظیم ہستیوں کی دلاوری پر ناز کرتے ہیں، اسی طرح اپنے زمانے کی ان عظیم ہستیوں پر بھی ہم فخر کریں۔ دشمن کو یہ چیز پسند نہیں ہے۔ اس کی تو خواہش ہے کہ شہیدوں کو فراموش کر دیا جائے۔ اس کی تمنا ہے کہ جہاد کے یہ واقعات اور ان عظیم شخصیات سے متعلق کوئی بھی بات عوام کے ذہنوں میں باقی نہ رہے۔ ہم سب کو اس کے بالکل برخلاف عمل کرنا چاہئے۔ شہیدوں کی یاد تازہ رکھئے ان کا ذکر مسلسل کیجئے ان کے نام نمایاں رکھئے۔ یہ رہا پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہماری قوم، ہمارے نوجوان، ہماری عورتیں اور مرد ہرگز یہ گمان نہ کریں کہ جہاد کا زمانہ گزر گیا اور اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ہمارے لئے کوئی فوجی خطرہ نہ ہو اور یقینا ایسا ہی ہے، آج ملت ایران طاقت کے اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ دشمن اپنے آپ کو کمزور محسوس کرنے لگا ہے اور اس میں اس قوم پر لشکر کشی کی جرئت باقی نہیں رہی ہے کیونہ اسے پتہ ہے کہ یہ قوم استقامت والی قوم ہے، اس کی سرکوبی کر دے گی۔ بنابریں فوجی لشکر کشی کا خطرہ بہت کم ہے۔ لیکن بہرحال حملہ صرف فوجی لشکر کشی کی صورت میں نہیں ہوتا۔ دشمن کی توجہات اب ان نکات پر مرکوز ہیں جو ہماری قومی استقامت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ وہ اب ہمارے قومی اتحاد اور ایمان و عقیدے کو ہدف بنا رہا ہے۔ یہ حملہ فوجی لشکر کشی سے زیادہ خطرناک ہے۔ فوجی لشکر کشی میں آپ کو اپنے حریف کا علم ہوتا ہے، آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دشمن کون ہے، لیکن ثقافتی یلغار کے وقت آپ کو دشمن نظر نہیں آئے گا، یہاں بہت زیادہ احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ میں پوری ایرانی قوم بالخصوص شہدا کے خاندانوں اور آپ تمام عزیزوں، سب سے بڑھ کر نوجوانوں سے یہ چاہتا ہوں کہ پوری چوکسی کے ساتھ اپنی فکری و روحانی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ دشمن کو یہ موقع ہرگز نہ دیں کہ وہ لوگوں کی فکری و ایمانی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ جائے، یہ بہت ضروری ہے۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ اپنی فکری اور روحانی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملت ایران کے دشمن اس وقت ہماری سرحدوں کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ ماضی میں، اوائل انقلاب میں بھی طاقتور سامراجی و صیہونی دشمن سازشیں کرتے تھے لیکن آج عالم یہ ہے کہ علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں دشمنوں نے آپ کی جغرافیائی سرحدوں کے نزدیک اپنے مراکز اور ٹھکانے قائم کر لئے ہیں اور ان مراکز کو اپنی سافٹ معاندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بنابریں سب کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ میں خاص طور پر اپنے نوجوانوں سے کہوں گا کہ عزیزو! آپ کے ملک کو آج آگاہی و بیداری کی ضرورت ہے۔ آپ ان افراد کی نقل و حرکت کی نشاندہی کیجئے جو دلوں سے اتحاد و اخوت کے جذبے کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ آج اس شہر میں میں تمام افراد کی خدمت میں بھی وہی بات عرض کرنا چاہوں گا جو دیگر افراد سے کہہ چکا ہوں کہ بعض عناصر اس بات کے در پے ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو عوام کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا کر دیں۔ جس کسی کو بھی آپ اس سمت میں کام کرتے دیکھیں سجمھ جائیں کہ وہ دشمن کا آلہ کار ہے خواہ خود اسے اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اسے علم نہ ہو کہ وہ دشمن کا آلہ کار بنا ہوا ہے، دشمنوں کے لئے کام کر رہا ہے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوگا، جو شخص دانستہ آپ کو نقصان پہنچا رہا اور جو شخص لا علمی میں یہ کام کر رہا ہے، عملی طور پر دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خوش قسمتی سے ہماری قوم بیدار ہے۔ گزشتہ برسوں کے ان طویل تجربات کے ذریعے ہماری قوم بے حد تجربہ کار ہو گئی ہے۔ ہمارے عوام انواع و اقسام کی سازشوں کی شناخت کر لینے میں کامیاب رہے ہیں اور انہوں نے ان کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہمیں خود کو اندرونی طور پر زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانا ہے، علمی میدان میں بھی، معاشی شعبے میں بھی، ایجادات کے سلسلے میں بھی اور سب سے بڑھ کر ایمان و عقیدے کے لحاظ سے۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے یہی نوجوان فضل الہی سے زمام اقتدار سنبھالیں گے، یقینا مستقبل قریب میں ہمارا ملک اور ہماری قوم اس مرحلے پر پہنچ جائے گی کہ دشمن اس ملک اور اس قوم پر کسی بھی قسم کے حملے نہ سیاسی، نہ فوجی اور نہ اقتصادی کسی بھی حملے کے تصور سے بھی کانپنے لگے گا۔ آج جو کچھ ہمارے پاس ہے، برسوں کی طویل جد و جہد اور مشقتوں کا ثمرہ ہے جو ہمارے جوانوں نے کیں۔ یہ سب کچھ ہمارے شہیدوں کے خون کا ثمرہ ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس عظیم امانت کی حفاظت کی توفیق دے اور ملت ایران کے عظیم سرمائے میں روز افزوں اضافہ کرے۔ خدایا! ہمارے عزیز شہدا کی ارواح طیبہ کو پیغمبر اعظم کے ساتھ محشور فرما اور ہمیں حقیقی معنی میں شہدا کا پیروکار قرار دے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته