آپ نے اسلامی انقلاب کی تحریک اور مقدس دفاع کے دوران یہاں کے عوام کے تعاون اور مختلف حساس مراحل پر ان کے دانشمندانہ اقدام کی تعریف کی۔ آپ نے علاقے کی ضروریات اور مطالبات کی تکمیل پر تاکید فرمائی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الّرحيم‏
والحمدللَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا أبى القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين و صحبه المنتجبين سيّما بقية اللَّه فى الأرضين‏

اس بڑے اور با شکوہ اجتماع میں شرکت پر مجھے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل میں نے کبھی آپ کے اس خوبصورت شہر کا سفہر نہیں کیا لیکن سقز اور اس شہر کے دلیر و شجاع اور جوشیلے عوام کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا تھا۔ اسلامی انقلاب کے تیس برسوں کے دوران شہر سقز کے عوام نے حساس ترین مراکز اور مقامات پر بڑا سخت امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ شائد ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں اور آج کی نوجوان نسل کو نہ معلوم ہو کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران حساس ترین مواقع اور دشوارترین مراحل میں سقز کے جوانوں نے ہراول دستے میں شامل ہوکر ملک کا دفاع اور جہاد کیا۔ جزیرہ مجنوں میں سقز، مریوان اور کردستان کے دیگر شہروں کے دلیروں نے دیگر مجاہدین کے ساتھ پہلی صف میں شامل ہوکر ملک کا دفاع کیا۔ جو بھی مسلط کرد جنگ کے شروعاتی برسوں کے خیبر آپریشن اور بدر آپریشن کے بارے میں جانتا ہے اسے اس چیز کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔
آج سقز کے رہنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے اجتماع میں میں اس شہر اور اس ضلعے کے افتخار آمیز واضح موقف کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہیں سے درود و سلام بھیجتا ہوں بانہ اور صوبے کے دیگر شہروں اور اضلاع کے لوگوں پر جہاں کا سفر کرنے اور عوام سے نزدیک سے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ میں ان سب کے لئے توفیقات الہی کی دعا کرتا ہوں۔
ایک انتہائی اہم اور حساس چیز جس نے اسلامی نظام اور اسلام کے دشمنوں کو بے بس کر دیا اور جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، یہ ہے کہ عالم اسلام اور اسلامی ممالک کی اس عظیم آبادی میں سارے مفکرین اور دانشور، دینی شخصیات اور یونیورسٹی کے حلقے اسلامی جمہوری نظام( کے وجود) کو دعوت اسلام لبیک کہے جانے کے مترادف اور (اس نظام کے ذریعے) بلند کئے جانے والے پرچم اسلام کو تمام عالم اسلام کے لئے افتخار کی بات سمجھتے ہیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سامراج سے وابستہ سیاستدانوں اور سیاسی منصوبہ سازوں کو یہ امید تھی کہ عالم اسلام میں مذہبی اور مسلکی اختلافات کی بنا پر وہ اسلامی جمہوری نظام اور مسلم اقوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ سازش سامراج کی پیرو کچھ حکومتوں کے سلسلے میں تو کسی حد تک کامیاب رہی لیکن قوموں کے سلسلے میں بے اثر ثابت ہوا۔ عالم اسلام کے مفکرین اور دانشوروں کو اس بات پر کہ مشرق وسطی کے حساس علاقے میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر پوری خود مختاری اور وقار کے ساتھ ایک سیاسی نظام معرض وجود میں آیا ہے، بڑا فخر محسوس ہوا۔ یہ بات ان گزشتہ برسوں میں دانشوروں، مفکرین، ممتاز علما، با ایمان یونیورسٹی حلقوں نے جن کا تعلق شمالی افریقہ سے لیکر بر صغیر ہند تک اور ایشیا کے دور دراز کے علاقوں سے ہے، خود ہم سے کہی ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پر فخر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق الگ الگ فرقوں سے اور مکاتب فکر سے ہے۔ دشمن کو یہ امید تھی کہ مذہبی اختلافات کو ہوا دیکر خلیج پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائےگا لیکن مسلم مفکرین اور مومن عوام نے اپنی فکری پختگی اور عزم راسخ سے دشمن کو ناکام کر دیا۔
یہی چیز خود ہمارے ملک کے اندر پیش آئی۔ عزیز بھائیو اور بہنو! اسی کردستان کے علاقے میں۔ آج آٹھواں دن ہے کہ میں کردستان کے شہروں میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہا ہوں، عظیم عوامی اجتماع سے میں نے خطاب کیا، صوبے کی علمی شخصیات سے میری ملاقات ہوئی، صوبہ کردستان کے مختلف کرد قبائل کے عمائدین سے بھی میری گفتگو ہوئی، یونیورسٹی میں طلبا کے جم غفیر سے میں نے خطاب کیا۔ ان تمام ملاقاتوں اور تقاریر کے مواقع پر میری کوشش یہ رہی کہ لوگ، دانشور اور علمی شخصیات واشگاف الفاظ میں اپنے دل کی باتیں بے جھجک بیان کریں۔ پورے صوبے میں جو چیز مجھے بار بار سنائی دی وہ اسلام نوازی اور اسلام و اسلامی نظام سے وفاداری کی پر وقار آواز تھی جو اس صوبے کے عوام کے انتہائی قابل قدر جذبات کی آئینہ دار ہے اور یہ دشمن کی آرزو کے بالکل برخلاف بھی ہے۔ صوبے کے لوگوں سے دو بدو ملاقاتوں میں دشمن کی خواہش کے بالکل بر خلاف چیز سامنے آئی۔ یہ میرے لئے تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں برسوں سے کرد نوجوانوں، کرد مجاہدین اور کرد عوام کو نزدیک سے جانتا ہوں۔ کرد عوام کی محبت و وفاداری، شجاعت و دلاوری کو میں پہلے سے جانتا ہوں یہ میرے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے تاہم میری نظر میں یہ ضروری تھا کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پروپیگنڈوں کے باوجود تمام ملت ایران کے سامنے بھی اور دیگر ملکوں میں ہمارے خیر خواہوں اور بد خواہوں کے سامنے بھی ٹی وی کے اسکرین پر یہ پاکیزہ جذبات، یہ جوش و خروش، یہ وفاداری، یہ روشن خیالی، یہ آگاہی و بیداری اور یہ اتحاد و یکجہتی اس انداز سے نمایاں ہو اور ایسا ہی ہوا۔
میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کرد عوام اور صوبہ کردستان نے اپنے عمل سے، اپنے اقدام سے اور اپنے پروقار تعاون سے ملت ایران کے دشمنوں کو بتا دیا کہ ملت ایران اور ایرانی قوموں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں کرد عوام کے ہاتھوں ناکام بنا دی گئیں۔ یہ بڑا بنیادی نکتہ ہے۔ میں اپنے اس سفر کے ان آخری گھنٹوں میں تمام عوامی طبقات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، میں یہی کہنا چاہوں گا آپ نے اپنا فریضہ بخوبی نبھایا۔ یہ ملت ایران کی عظمت کا مظہر ہے۔ ملت ایران کے مختلف فرقوں، گروہوں اور مکاتب فکر سے بھی میں کہنا چاہوں گا کہ دھوکے میں نہ آئیں۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کو ہر آن نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں معدودے چند گروہوں کی حرکتوں کو اس پوری آبادی اور علاقے کے عزیز عوام سے نہ جوڑا جائے۔ کردستان ہو یا دوسرے علاقے، ہر جگہ ہی کچھ شر پسند یا بھٹکے ہوئے کچھ عناصر ہوتے ہیں لیکن ان کا معاملہ صوبے کے عوام اور آبادی سے الگ ہوتا ہے۔ اسی طرح خراسان، اصفہان، فارس یا کسی اور صوبے میں انقلاب مخالف عناصر کا معاملہ وہاں کے عوام سے الگ ہے۔ دشمن یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اس صوبے میں امن و سلامتی کا فقدان ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے بلند حوصلوں، آپ کی بیداری اور نوجوانوں کی دلیری کا نتیجہ ہے کہ ملت ایران اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہے کہ صوبے میں پوری طرح امن و امان قائم ہے۔ میں اس موقع پر مسلم کرد نوجوانوں کے شجاع دستے پیش مرگان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا ان دلیروں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی برسوں میں یہاں قیام کیا اور دشمن کے مقابلے میں ایسی شجاعت اور جاں نثاری کا مظاہرہ کیا جس کی مثال شائد ہی کہیں ملے۔ اس کی وجہ کیا تھی یہ بھی بتا دوں کیونکہ میں غیر مدلل باتیں کرنا پسند نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ رضاکار فورس بسیج سے وابستہ افراد کو ہر صوبے اور ہر علاقے میں عوام بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، عوام اس کے تحفظ سے اپنے لئے احساس تحفظ کرتے ہیں۔ اس علاقے اور دیگر سرحدی علاقوں میں کرد جوان گلی کوچے، شہر کے بازار اور میدان و بیابانوں کی حفاظت کرتا تھا اور دشمن اس سے انتقام لیتے تھے۔ دشمن کے آلہ کار گروہ ان جوانوں کی سوجھ بوجھ پر انتقامی کاروائیاں کرکے ان کے خاندانوں کو بڑی بے برحمی سے تہہ تیغ کر دیتے تھے لیکن ان شجاع لوگوں نے ان مشکلات کا پامردی کے ساتھ سامنا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں پیشمرگان کے نام سے معروف ان شجاع جوانوں کو ملک کے صف اول کے شجاعوں میں شمار کرتا ہوں۔ میں نے سکیورٹی کے بارے میں بات کی میں نے آپ عزیز عوام کی آگاہی کے سلسلے میں گفتگو کی، یہ سب حقائق ہیں۔ یعنی کردستان کے عوام اور یہاں کے شجاع جوانوں نے اپنے بلبوتے پر صوبے میں امن و امان قائم کیا۔ دوسرے علاقے کے جوانوں نے بھی ان کی مدد کی اور سب نے مل کر دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کر دیا، یہ ایک سچائی ہے۔ البتہ میں اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ عزیز عوام اپنی اس آگاہی کو برقرار رکھیں، کوئی غفلت نہ برتیں۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: من نام لم ينم عنه یعنی اگر آپ نے غفلت برتی تو ضروری نہیں ہے کہ آپ کے دشمن سے بھی غفلت ہو جائے۔ دشمن کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔ ملک کے تمام عوام، تمام سرگرم اور آگاہ شعبوں کے لئے میری یہ نصیحت ہے کہ اپنی آگاہی و ہوشیاری کو برقرار رکھیں۔ اگرچہ دشمن اوائل انقلاب کی مانند اب اس امید میں تو نہیں ہے کہ انقلاب کی بیخ کنی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، ایسا اب نہیں ہے، پہلے انہیں یہ امید تھی کہ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو نابود کر لے جائیں گے، اب وہ مایوس ہو چکے ہیں، اب ایسی کوئی امید انہیں نہیں ہے کیونہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تو تناور درخت بن چکا ہے لیکن پھر بھی ان کے مکر و حیلے کی جانب سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ ہماری مغربی سرحدوں کے اس پار امریکی، خطرناک منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں، دہشت گردوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ پیسہ، اسلحہ، تنظیمی امور اور دیگر ساز و سامان کی فراہمی کا سلسلہ ہماری مغربی سرحدوں کے دوسری جانب جاری ہے تاکہ اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کیا جائے، اسے نقصان پہنچایا جائے۔ بنابریں ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔
یہ تجزیہ اور قیاس آرائی نہیں ٹھوس اطلاعات ہیں کہ کردستان کے سلسلے میں امریکیوں کے خطرناک منصوبے ہیں۔ ان کا مقصد کرد قوم کا دفاع نہیں بلکہ کرد قوم سے زور آزمائی اور اس پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔ یہ باتیں میں اطلاعات کی بنا پر کہہ رہا ہوں، یہ کوئی تجزیہ اور اندازہ نہیں ہے، یہ اطلاعات ہیں۔ میرے عزیز کرد بھائيو! سرحد کے اس جانب سے ہمیں اطلاعات ملی ہیں اور مل رہی ہیں کہ امریکی افسران پیسے کے ذریعے کرد نوجوانوں کی جان کی قیمت پر اطلاعات حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے ایجنٹ تیار کرنے کے لئے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ایک کرد نوجوان کے شایان شان نہیں ہے۔ وہ کرد قوم کے پیکر میں اپنا پنجہ گاڑ دینے کے لئے جہاں بھی ممکن ہوگا کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں۔ ہماری قوم اور ایرانی کرد بحمد اللہ پوری طرح بیدار ہیں۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کرد قوم ایران کے باہر بھی خود کو ایرانی سمجھتی ہے اور ایرانی ہونے پر اسے فخر بھی ہے۔ اگر ایران سے باہر کے کردوں میں کوئی امریکی اہداف کے لئے کام کر رہا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ قلیل مدت کے لئے ممکن ہے اسے کچھ ہاتھ لگ جائے لیکن دراز مدت میں کرد قوم کی لعنت و نفرین اس کا پیچھا کرتی رہے گی اور اس سے وہ کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر سکےگا۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھئے۔ یہ ہوشیاری صرف اسی معاملے تک محدود نہیں ہے بلکہ اندرونی اختلاف نظر کے سلسلے میں بھی ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ میں نے سنندج میں اپنے سفر کے پہلے دن گزشتہ منگل کو یہ بات کہی تھی اور آج یہاں اس کا اعادہ کر رہا ہوں کہ اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اسلامی اہداف اور مقاصد کی جانب برادرانہ انداز میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے بڑھنا چاہئے۔ دشمن اس امید میں بیٹھا ہے کہ وہ ان مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر لے جائے گا۔ کوئی بھی دشمن کے اس خیانت اور خباثت آمیز منصوبے کا شکار نہ بنے۔ ان کی خواہش ہے کہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے مد مقابل آ جائيں، ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے پھر جائیں، وہ ایک دوسرے کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اعلان کیا ہے اور اب ایک بار پھر اس پر تاکید کرنا چاہوں گا کہ اسلامی نظام اور ہماری نظر میں ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی ریڈ لائین کا درجہ رکھتی ہے۔ شیعہ ہو یا سنی جو بھی ایک دوسرے کے مقدسات کی اندھے تعصب کی بنا پر یا غفلت کا شکار ہوکر بے حرمتی کرتا ہے وہ در حقیقت سمجھ نہیں رہا ہے کہ وہ کس چیز کا مرتکب ہو رہا ہے۔ دشمن کے بہترین آلہ کار ایسے ہی لوگ ہیں، یہی لوگ دشمن کے بہترین وسائل ہیں۔ تو یہ (مقدسات) ریڈ لائن ہے۔
شیعہ اور سنی سبھی اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، اپنے عادات و اطوار کے مطابق اپنے دینی امور انجام دیتے ہیں اور ایسا کرنا بھی چاہئے۔ لیکن ریڈ لائن یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے کے مقصد سے کوئی چیز بیان کرے۔ خواہ وہ چیزیں ہوں جو بعض شیعہ افراد نا دانستگی میں انجام دیتے ہیں اور خواہ وہ باتیں ہو جو بعض اہل سنت کہتے ہیں اور ایک دوسرے کی نفی کرنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ تو وہ چیز ہے جو دشمن چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ میں نے پہلے بھی متعدد رپورٹوں کے ذریعے کردستان کے مسائل کےبارے میں اچھی خاصی اطلاعات حاصل کر لی تھیں اور ان چند دنوں کے دوران بھی مختلف ملاقاتوں، لوگوں کے بیانوں، اپنے مشاہدات میں کردستان کے مسائل کے بارے میں ہمدرد افراد کے ذریعے مزید بہت کچھ معلومات مجھے ہوئی اور میں نے رپورٹوں میں بھی پڑھا۔ یہاں بہت سی ضرورتیں ہیں۔ پہلے دن بھی میں نے یہ بات کہی تھی اور آج بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ صوبے کی سب سے اہم ضرورت روزگار کے مواقع ہیں جو صنعتی اور زراعتی شعبے میں سرمایہ کاری کرکے پیدا کئے جائیں۔ میں دوسرے صوبے کے لوگوں سے یہ عرض کروں گا کہ ذخائر سے مالامال با ایمان اور محنتی لوگوں اور اچھے نوجوانوں کی یہ سرزمین سرمایہ کاری کے لئے بہت مناسب ہے۔ اگر کبھی یہ تصور تھا کہ یہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں تو اب وہ حالات نہیں رہے۔ آج بحمد اللہ یہاں امن و امان ہے، سیکیورٹی کی بڑی اچھی صورت حال ہے۔ لوگ یہاں آکر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ حکومت وسائل فراہم کرے گی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائےگی۔
یہاں کی ضروریات اور مسائل کے سلسلے میں کابینہ کے اراکین کے دو بار کے دوروں میں جو منصوبے منظور کئے گئے اور (میرے) اس دورے میں سرکاری اور غیر سرکاری عہدہ داروں نے جن چیزوں کا جائزہ لیا ہے اگر ان پر عملدرآمد ہو جائے اور سب کو عملی جامہ پہنا دیا جائے تو صوبے کی اہم مشکلات برطرف ہو جائیں گی۔ حکام کے لئے ہماری سفارش یہ ہے کہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور ضروریات کی تکمیل کے لئے سنجیدگی سے کوشش کریں۔ بحمد اللہ صوبے میں بڑا اچھا عملہ موجود ہے، صوبے کا نظم و نسق چلانے والے عہدہ دار بڑے با استعداد ہیں۔ یہاں بھی ان منصوبوں پر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور میں یہیں سے مرکز کے عہدہ داروں سے کہنا چاہوں گا کہ جو منصوبے منظور کئے گئے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ جو مطالبات رکھے گئے وہ واقعی منطقی اور مناسب ہیں۔ علمی شخصیات نے علاقے کی جن ضروریات کی نشاندہی کی جو باتیں طلبا سے سننے کو ملیں اور سفر میں عوام کے جو خطوط موصول ہوئے ان سے یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ جو مطالبات کئے جا رہے ہیں ان میں بیشتر بڑے معقول اور سمجھ میں آنے والے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کابنیہ نے اپنے دو دوروں میں جو منصوبے منظور کئے اور اسی طرح (میرے) اس سفر میں جن منصوبوں کو منظوری ملی ہے اگر اللہ تعالی کے لطف و عنایت سے ان پر عملدرآمد ہو گیا تو ان میں بیشتر مطالبات کی تکمیل ہوجائے گی۔ البتہ بعض جگہوں پر ایسا لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی مطالبات کئے جاتے ہیں، جو ٹھیک نہیں ہے۔ معقول مطالبات وہی ہیں جو صوبے کے حکام، نماز جمعہ کے اماموں اور لوگوں کے خطوط کے ذریعے بیان کئے گئے اور جن کی طرف علمی شخصیات اور دانشوروں نے اشارہ کیا۔ یہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ عقل میں نہ سمانے والے اور نا قابل عمل مطالبات کی ایک طویل فہرست تیار کر لی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انتظامیہ اس کی تکمیل نہیں کر سکے گی اور لوگوں میں بد گمانی پھیلائی جائے گی۔ معقول مطالبہ تو وہی ہے جو عوام اپنی زبان سے بیان کر رہے ہیں، یا اپنے خطوط میں جن کی نشاندہی کر رہے ہیں اور علمی شخصیات و دانشوروں نے بھی جن کا اعادہ کیا ہے۔ اس سفر کے دوران حکام اور عوام سے جو کچھ کہا گيا وہ ہمارے خیال میں ایسی باتیں ہیں جو پوری طرح حقائق پر مبنی ہیں اور اس بات پر میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میرا کہنا ہے کہ کردی زبان ایک قومی دولت ہے، یہاں کے نوجوانوں کی علمی اور فنکارانہ صلاحیتیں قومی ثروت ہے، کردستان کے نوجوانوں کی اسپورٹس کے میدان کی صلاحیتیں قومی دولت ہے۔ اس قومی سرمائے سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے، اسے بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عوامی ہمدردی رکھنے والے حکام صوبے کے مسائل پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں، اس کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے اور میں یہ چیز دیکھ رہا ہوں۔ حکومتی عہدہ دار اپنے صوبائی دوروں اور تمام منصوبوں میں عوامی مسائل پر پورے اخلاص کے ساتھ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ چیز میں نے خود محسوس کی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ اسی جذبے اور اسی تندہی سے کردستان کے مسائل پر توجہ دی جاتی رہے گی۔ ہم ان (عہدہ داروں) سے بات کریں گے اور جو کچھ انجام پانا ہے اس سلسلے میں تاکید کی جائے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ کردستان کا مستقبل ملک کے دیگر علاقوں کی مانند اس وقت کے مقابلے میں زیادہ تابناک ہوگا۔ الحمد للہ سفر کے آخری دن آپ لوگوں سے ملاقات نے اس دن کو بڑا شیریں اور پر کشش بنا دیا۔
پروردگارا! کردستان کے ان با صلاحیت اور عزیز نوجوانوں کو ہمارے وطن عزیز ایران کے لئے محفوظ رکھ۔ اپنی توفیقات ان کے شامل حال کر دے۔ خدایا! اس علاقے اور ملک کے تمام خطوں میں آباد ہمارے عوام کی مشکلات دور فرما۔ خدایا! دنیا کے تسلط پسندوں کے مقابلے میں ملت ایران کے عز و وقار میں روز بروز اضافہ فرما۔ پروردگارا! ہمیں اپنے نیک و صالح بندوں میں قرار دے۔ ہم نے جو کچھ کہا اور کیا اسے قبول فرما اور ہمیں مزید کام کرنے کی توفیق کرامت فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏