بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم عید سعید کی دنیا کے تمام مسلمانوں، عزیز ایرانی قوم، آپ بھائیوں، حاضرین کرام اور ملک کے حکام کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا اس عید کو ہماری قوم اور دیگر اقوام کے لئے مبارک کرے۔ جو چیز دیگر تمام چیزوں سے زیادہ اہم ہے اور ہرحال میں اس پر توجہ ضروری ہے، مخصوصا آج جیسے رمضان المبارک کے بعد آنے والے عیدالفطر کے دن، یہ ہے کہ ہر قوم کی تحریک اور کامیابی کی اساس یہ ہوتی ہے کہ اس کی روحانی، اعتقادی اور فکری بنیادیں مستحکم ہوں۔
اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا وآخرت کے اہداف کے حصول میں کامیابی کے لئے ، انسان کے باطن میں تغیر ضروری ہے۔ جب تک ایک معاشرے، اسلامی معاشروں میں، خاص طورپر یہ تغیر نہ آئے، جب تک قلوب خدا سے آشنا نہ ہوں اور صراط مستقیم اور سب سے برتر راستے کے عنوان سے راہ خدا پر توجہ نہ دی جائے اور اس پر نہ چلا جائے، اسلامی معاشروں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ماہ رمضان مسلمانوں کے پاس ایک الہی خزانہ، عطیہ، ہدیہ اور نفس پر قابو پانے کا ایک وسیلہ ہے اور نفس پر قابو پائے بغیر اور ہوا و ہوس کی لجام اپنے ہاتھ میں لئے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا۔ ماہ رمضان، روزہ داری کے سرمائے کے ساتھ، اس جہت میں ایک عملی مشق ہے۔ خدا کے فضل سے پیروان مکتب اہل بیت علیہم السلام، ماہ رمضان میں، ان عظیم ہستیوں سے منقول دعاوں کے سائے میں، اس مبارک مہینے کی راتوں، دنوں اور سحری کے اوقات میں، اپنے نورانی دلوں کے ساتھ، دعاؤں مناجات اور خدا سے راز و نیاز میں مشغول رہے۔ جو امام سجاد علیہ الصلوات والسلام کی مناجات سے واقف ہو، اچھی طرح سمجھتا ہے کہ راہ خدا سے ہمارے ہٹ جانے، معنویت سے دوری، ان معنوی و ملکوتی مدارج سے ہم جیسے لوگوں کی محرومی کی وجہ، وہ مشکلات ہیں جن میں ہم ہوا و ہوس کی پیروی اور نفس امارہ کی اطاعت کے سبب گرفتار ہوتے ہیں۔ امام سجاد علیہ الصلوات والسلام دعائے ابوحمزہ میں کہتے ہیں، فرق بینی و بین ذنبی المانع عن لزوم طاعتک ( 1) یعنی پالنے والے، میر ے اور ان گناہوں کے درمیان جو تیری اطاعت کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں جدائی ڈال دے۔ معلوم ہوا کہ گناہ انسان کی بلندی کی جانب پرواز اور عروج میں حائل ہوتے ہیں اور گناہ کا ارتکاب نفسانی خواہشات کی پیروی سے ہوتا ہے۔
رمضان المبارک میں ہم نے بارہا اور بارہا عرض کیا کہ اللہم غیر سوء حالنا بحسن حالک ہم نے خدا سے التجا کی کہ ہماری بدحالی کو اپنے لطف و کرم سے اچھے حال میں تبدیل کردے۔ اگر یہ ہو جائے تو تمام مشکلات دور ہوجائیں گی۔ خاص طور پر ہمیں، کہ ہم میں سے ہر ایک ملکی سطح پر ایک ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اس تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی بدحالی کا زیادہ گلا کرنا چاہئے۔ میں اپنے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ اس معنی میں مجھے آپ سے زیادہ اس تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ملک اور قوم میں تغیر اور ترقی کی کلید ہے۔ ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (2) جو ان کے نفسوں میں ہے ان کے اندر ہے، ان کے باطن میں ہے، اس کا بدلنا ضروری ہے تاکہ امور زندگی میں تبدیلی آئے۔
آج آپ اسلامی دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بدترین حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید تاریخ میں بہت کم ملے کہ مسلمانوں کی وہ سیاسی اور بین الاقوامی حالت رہی ہو جو آج ہے۔ اگرچہ آبادی زیادہ ہے، وسائل زیادہ ہیں، افرادی اور قدرتی ثروت زیادہ ہے۔ جغرافیائی حیثیت ممتاز ہے اور قیادت مسلمانوں کے پاس آنے کا امکان ہے مگر افسوس! جہاں بھی دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ مسلمان مشکلات میں گرفتار ہیں۔ مسلمان، دشمنان دین کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ یعنی یا وہ خود سے جھکے ہوئے ہیں، یا پھر انہیں طاقت سے کام لیکر اغیار کے سامنے جھکایا گیا ہے۔ آج مسلمانوں کا آپسی اختلاف ایک مصیبت ہے۔
میں تھوڑی دیر قبل دنیا کی مشکلات کا شمار کر رہا تھا۔ خونریزی ، فلسطین کے مسائل، بوسنیا کے مسائل، افغانستان کے مسائل، کشمیر کا قضیہ، تاجکستان کے مسائل، ہندوستان کے مسائل اور بعض دیگر ملکوں کے مسائل، یہ سب مسائل ہیں۔ مگر ان تمام مشکلات میں سب سے بڑی مصیبت، مسلمانوں کا اختلاف، تفرقہ اور عظیم امت اسلامیہ سے ان کی دوری اور غفلت ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اس میں تبدیلی آنی چاہئے۔ اگر مسلمان متحد ہوجائیں، اگر وہ بیدار ہوجائیں، اگر انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہوجائے، اگر انہیں یقین ہو جائے کہ موجودہ حالت بدلی جاسکتی ہے، اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کیا جاسکتا ہے، اگر وہ متوجہ ہو جائیں کہ بعض اقوام جیسے ایران کی عظیم قوم نے کس طرح اپنے امور اپنے ہاتھ میں لئے اور بڑی طاقتوں سے متاثر نہ ہوئی، تو یقینا اسلامی دنیا کی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ آج اصل مسئلہ یہ ہے۔
ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) کی اس دعوت عام کو فراموش نہیں کریں گے کہ آپ مسلسل مسلمانوں کو اتحاد و یک جہتی کی دعوت دیتے تھے۔ اتحاد سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو بعض ممالک چاہتے ہیں اور کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر پاتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آئیے سیاسی اتحاد کریں ۔ مالی اتحاد کریں۔ دوملکوں کو ملاکر ایک کردیں۔ دو حکومتوں کو ایک کردیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیشہ کہی گئی ہیں اور کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ اتحاد سے ہماری مراد، افہام و تفہیم ہے۔ حکومتوں کے درمیان تفاہم ہے۔ امت اسلامیہ کے اراکین اور اسلامی حکومتوں کے درمیان تعاون ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ان کی ہم خیالی ہے، دشمنوں کے زیر اثر نہ جانا ہے۔ یہ خلیج فارس کا اہم علاقہ، مشرق وسطی کا اہم علاقہ، پورا اسلامی علاقہ جو عالمی جغرافیے، دنیا کے سیاسی جغرافیے کے لحاظ سے بہت اہم ہے ان میں باہمی افہام تفہیم اور ہم خیالی ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران تمام مسلمان ملکوں کی طرف دوستی اور برادری کا ہاتھ بڑھانے اور اسلامی دنیا کے مسائل کے حل کے لئے ان کے ساتھ افہام و تفہیم پر تیار ہے۔ سب کو چاہئے کہ اسلامی دنیا کے مسائل کو سمجھیں اور جان لیں کہ استکبار اور مستکبرین مسلمان عوام کی فکر کبھی نہیں کریں گے۔ انہیں دیکھنا چاہئے کہ دنیا کے گوشہ وکنار میں کیا ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ ان کے ایام خونیں، تلخ اور سیاہ کر رہے ہیں۔ ان کی عزت و آبرو پر حملہ کر رہے ہیں۔ ان کے گھروں پر قبضہ کر رہے ہیں اور بڑی طاقتیں بے اعتنائی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں یا جارحین کی مدد کر رہی ہیں۔ اب تک کسی تیسری شق کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔ وہ فلسطین ہے جو چالیس سال سے زیادہ عرصے سے اس حادثے کا شکار ہے۔ اب بوسنیا میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ بقیہ اسلامی ممالک اور بعض حال ہی میں آزاد ہونے والے علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آج اسلامی حکومتیں اپنی اقوام کی خواہش کے مطابق اور امت اسلامیہ کی بھلائی میں اقدام کرسکتی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ اقوام خود اٹھ کھڑی ہوں گی اور فیصلہ کریں گی۔ اقوام بیدار ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کو عظیم امت اسلامیہ، زیادہ عرصے برداشت نہیں کرے گی۔
خداوند عالم اس عید کو تمام مسلمانوں کے لئے مبارک کرے، اسلامی اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا راستہ کھول دے۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود کرے، آپ کی پاکیزہ دعائیں ہمارے شامل حال کرے اور ہمارے امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ کے مقدس اہداف کو پورا کرے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- مفاتیح الجنان : دعائے ابوحمزہ ثمالی
2- سورہ رعد؛ آیت 11