ان حالات میں قائد انقلاب اسلامی نے انیس جون دو ہزار نو کو جمعہ کی نماز کی امامت کی۔ یہ نماز جمعہ، تاریخی نماز جمعہ بن گئ۔ اس میں ایک اندازے کے مطابق تقریبا دو کروڑ افراد نے شرکت کی۔ نماز جمعہ میں قائد انقلاب اسلامی نے نہایت تاریخی اہمیت کے حامل خطبے دئے اور آپ کے یہ خطبے قول فیصل ثابت ہوئے۔ نماز جمعہ میں دئے گئے دونوں خطبوں کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

خطبہ اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین نحمدہ و نستعینہ و نتوکّل علیہ و نستغفرہ و نصلّی و نسلّم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد (ص) و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین و المعصومین سیّما بقیۃ اللہ العالمین والصّلوۃ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین
قال اللہ الحکیم فی کتابہ : ھو الّذی انزل السّکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایمانا مّع ایمانھم و للہ جنود السّموات و الارض و کان اللہ علیما حکیما ( سورۂ فتح/ 4)
( یعنی صاحب حکمت اللہ اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرماتا ہے: وہ (خدا) وہی ہے جس نے مؤمنین کے دلوں میں طمانیت نازل کی کہ ان کے ایمان میں ایمان کا اور زیادہ اضافہ کر دے اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ کے ہی ہیں وہی سب سے زيادہ جاننے والا حکیم اور مدبر ہے )

تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو نصیحت کرتا اور دعوت دیتا ہوں کہ تقوائے الہی کا خیال رکھیں اور خدا کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر حال میں الہی فضل و رحمت سے دلوں کو وابستہ رکھیں۔ اگر ہم تقوائے الہی سے کام لیں، اگر ہر حال میں اپنا دل خدا سے وابستہ رکھیں، اپنے پروردگار کی مقدس ذات کے سامنے اپنے حاضر ہونے کو فراموش نہ کریں، جیسا کہ تقوی کےحقیقی معنی بھی یہی ہیں، تو یقینی طور پرالہی برکتیں، الہی رحمتیں اور الہی مدد ہمارے شامل حال ہوجائے گی۔ نماز جمعہ میں ہر ہفتے نمازیوں کے قلوب خداوند متعال کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو، اس حیرت انگیز نکتے کو اپنے تئیں دہراتے رہنا چاہئے۔ خود کو تقوے کی تلقین کریں، یہ ایام ایک طرف صدیقۂ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے مبارک ایام سے متصل و مربوط ہیں تو دوسری طرف ماہ رجب المرجب کے قیمتی اور مالامال ایام سے منسلک ہیں۔ ذکر و تسبیح کا وقت ہے۔ دعا کا وقت ہے ( خدا کی طرف) توجہ کا وقت ہے ۔
یہ آیت کہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے مومنین کو الہی طمانیت کے نزول کی بشارت دے رہی اور یاد دہانی کرا رہی ہے ۔
سکینہ یعنی طرح طرح کے اندرونی اور معاشرتی طلاطم کے وقت طمانیت و سکون۔ یہ آيت (صلح) حدیبیہ ( کے واقعے) سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے کئی سو صحابیوں اور دوستوں کے ہمراہ سنہ 4 ہجری میں عمرہ کی نیت سے مکۂ معظمہ سے مدینۂ منورہ کی طرف رسول اکرم (ص) کی روانگي کے دوران کچھ ایسے حادثے پیش آئے جو کئی پہلوؤں سے مومنین کے دلوں میں طوفان برپا ہو جانے کا باعث بنے۔ ایک طرف سے دشمنوں کی مسلح افواج نے ان کا محاصرہ کررکھا تھا اور یہ لوگ مدینہ سے دور بھی تھے کیونکہ حدیبیہ مکہ سے قریب ہے، دشمن افواج مکہ کی بلند پہاڑیوں کا سہارا لئے ہوئے تھیں؛ فوج بھی تھی اور اسلحے بھی موجود تھے، تعداد زیادہ تھی، لوگوں کے اضطراب کا یہ ایک پہلو تھا جو بہت سے مومنین کی تشویش کا سبب تھا ، دوسری طرف پیغمبر اکرم (ص) نے اس عظیم و پنہاں الہی حکمت عملی کے تحت جو بعد میں تمام لوگوں پر آشکارا ہوئی، اپنے مقابلے پر آنے والے کفار کے سامنے کسی حد تک دبی ہوئے انداز سے کام لیا۔ انہوں نے کہا کہ رحمان و رحیم کا نام اور بسم اللہ ( صلح کے ) نوشتے سے نکال دیں اور پیغمبر (ص) نے قبول کرلیا اور بھی کچھ مسائل اسی طرح کے پیش آئے۔ ان باتوں نے بھی دلوں میں تشویش اور اضطراب پیدا کیا اور شکوک و شبہات میں ڈالا۔ اس طرح کے حالات میں، جب اسلام پر ایمان رکھنے والے مومنین کے لئے چاہے ذاتی مسائل کے لحاظ سے ہو یا اجتماعی مسائل کے لحاظ سے، طرح طرح کے اضطراب اور بے چینیاں پیش آئیں تو ایسے مقام پر الہی سکون اور سکینہ کا انتظار کرنا ضروری تھا،ایسے ہی وقت کے لئے خدا فرماتا ہے ہو الّذی انزل السّکینۃ فی قلوب المومنین خدا نے دلوں کو قوت دی ، ان کو آرام و سکون عطا کیا، ان کو روحانی طلاطم سے بچایا اور نجات دی، نفسیاتی طور پر مسلمانوں کو آسودگی حاصل ہوگئی اس آرام و سکون کے سبب جو اللہ نے ان کودیا تھا۔ اس وقت ان کے اس الہی آرام و سکون کے نتیجہ میں لیزدادوا ایمانا مع ایمانہم ایمان کے بیج ان کے دلوں میں اور زيادہ گہرائي سے بار آور ہوتے ہیں، نور ایمان ان کے دلوں کو اور زيادہ منور کردیتا ہے، ان کے ایمان میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی چیز ہے جو مسلمانوں کے ایک گروہ کے لئے، مومنین کی ایک جماعت کے لئے اہم ہے۔ وہ خدا سے حسن ظن رکھے ۔ یقین جانے کہ مدد کرنا خدا کا کام ہے۔ یاد رکھے کہ خدا راہ حق کے راہگیروں کی پشتپناہی کرتا ہے۔ جب دل مطمئن ہوتے ہیں تو قدم بھی محکم اٹھتے ہیں ۔
جس وقت قدم محکم و استوار ہوں راہ آسانی سے طے ہوجاتی ہے اور منزل قریب نظر آنے لگتی ہے۔ دشمنان اسلام نے ہمیشہ یہی چاہا ہے کہ مسلمانوں کےدلوں میں اضطراب و بے چینی پیدا کردیں۔ تاریخ اسلام کے طویل دور میں ایسے مواقع بہت زیادہ پیش آئے ہیں، اسلام سے پہلے بھی وہ عظیم جہادی اقدامات جو مرسل اعظم (ص) سے قبل کے نبیوں کے زمانے میں انجام پائے ہیں اور جن میں مومنین ایمان پر ثابت قدم رہے ہیں اور روحانی سکون حاصل کرسکے ہیں ، اس آرام و سکون نے ان کی حرکت اور اقدامات کو ایمانی پہلوؤں سے ان کے اختیار میں رکھا ہے۔ وہ تشویش میں نہیں پڑے۔ اضطراب کا شکار نہیں ہوئے اور اپنی راہ کو گم نہیں کیا، تشویش و اضطراب کی صورت میں صحیح راہ ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ انسان جو روحانی سکون کا حامل ہو صحیح طور پر سوچتا ہے، صحیح فیصلے کرتا ہے اور صحیح سمت میں چلتا ہے۔ یہ تمام چیزيں الہی رحمت کی نشانیاں ہیں ۔
آج ہمارے انقلابی معاشرے اور ہمارے مومن عوام کو اسی آرام و سکون کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سکون اور اطمینان و وقار اپنے یہاں زيادہ سے زيادہ پیدا کرنا چاہئے، الا بذکر اللہ تطمئنّ القلوب خدا کی یاد ہی دلوں کو دنیا کے اور زندگی کے طوفانی حادثوں سے محفوظ رکھتی ہے، خدا کی یاد کو غنیمت سمجھئے، ماہ رجب کے ایام نزدیک ہیں۔ یہ ماہ رجب کی دعائیں معرفت کاایک سمندر ہیں۔ دعا میں صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اپنا دل خدا سے قریب کرتا ہے، یہ بھی ہے( لیکن) ایک ہمہ گیری پائي جاتی ہے۔ دعا میں تعلیم بھی ہے اور تزکیہ ؤ تربیت بھی ہے۔ دعا ذہن کو بھی روشن کرتی ہے اور ایسے حقائق و معارف ہمیں عطا کر دیتی ہے کہ جن کی ہمیں اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ہمارے قلب کو بھی خدا کی طرف متوجہ کرتی ہے، ذکر الہی کو غنیمت سمجھئے، یہی نماز جمعہ آپ کے لئے ذکر الہی کا مصداق ہے۔ یہاں جو چیز آپ کے دل پر، آپ کی زبان پر، آپ کی حرکات و سکنات پر غالب ہونا چاہئے یاد خدا ہے۔ دل میں خدا کی یاد، زبان پر خداوند قدوس کا نام و ذکر، ہاتھ پیر اور جسم کی حرکات و سکنات، یاد پروردگار اور الہی احکام کی اطاعت و پیروی کی سمت ہونا چاہئے۔ وہ چیز جس کی ہم میں سے ایک ایک فرد کواحتیاج ہے یہی ہے۔ میں آپ سے عرض کروں کہ انقلاب کے آغاز سے آج تک جب تیس سال گزر چکے ہیں مختلف حادثوں میں اور وہ بھی ایسے حوادث کہ جن میں بعض ایسے بھی ہیں جو ایک ملت کو اور ایک نظام کو اپنی جگہ سے اکھاڑ پھینکتے اور ایک ملک کو ایسے طوفانی سمندر سےدوچار کردیتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ جیسا کہ ہم نے اپنے بعض پڑوسی ملکوں میں دیکھا ہے کہ جب اس قسم کے حوادث ان ملکوں میں پیش آئے۔ لیکن یہ محکم و پائيدار کشتی کہ جس نے آپ کے ایمان آپ کے عزم و ارادے اور ذکر و یاد خدا سے نورانی آپ کے قلوب پر بھروسہ اور تکیہ کررکھا ہے، طرح طرح کے ان طوفانوں میں ذرا سی بھی ڈگمگائی نہیں۔
یہ سب الہی رحمت کی نشانی ہے، خداوند متعال کے فضل و الطاف کی علامت ہے۔ جو آپ تمام ملت عزيز کے شامل حال ہے۔ ( مگر) الہی لطف و تفضل شامل حال ہونا ایک مسئلہ ہے اور اس الہی رحمت اور فضل و الطاف الہی کی حفاظت ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم خود فریبی کا شکارہو جائيں۔ ایسا نہ ہو کہ پروردگار کے امدادی ہاتھ دیکھنے کے بعد ہم یہ سوچ لیں کہ خدا کا لطف ہمارے شامل حال ہے اور پھر ہم اپنے فرائض سے غافل ہوجائیں ۔
ایسا نہ ہو کہ ہمارے دلوں سے خدا کی یاد نکل جائے؛ خاص طور پر میں اپنے عزيز جوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں ، جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ جہاں بھی ہیں، ہمارے یہ پاک دل نوجوان اپنے نورانی قلوب کے ساتھ، دلوں کی اس نرمی اور سکون و آرام کو غنیمت سمجھیں۔ اس کو یاد پروردگار سے سیراب کیجئے اور یاد خدا سے لبریز کردیجئے۔ خداوند متعال اپنی رحمت اور لطف کی نگاہ اس ملت پر مستدام کردے گا اورآپ یاد رکھیں،میں آج عرض کررہا ہوں جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ملت اور اس سے پہلے بھی ہماری ماضي کی تاریخ میں، جیسا کہ مجھے خبر ہے، یہاں اس ملک میں اور دوسرے ملکوں میں، مجھے اطمینان ہے اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے توفیق دی اور اس کی مدد اور قوت شامل حال رہی تو یہ ملت اپنے تمام بلند مقاصد کی تکمیل کرکے رہےگی۔
معاشرے پر حکمفرما اس معنوی ماحول کی قدر کیجئے، ایسا نہ ہو کہ سیاسی ہیجان ہم کو خدا سے غافل کردیں، ایسا نہ ہو کہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں جو ایک ملک میں پیش آتی ہیں اور ایک آزاد قوم کے درمیان ایک فطری چیز سمجھی جاتی ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ چیزيں ہم کو غافل بنا دیں اور ہم نہ سمجھ سکیں کہ کس رخ پر جا رہے ہیں۔ نہ سمجھ سکیں ہم کس انداز سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ انقلاب شروع سے ہی سچے اور پاکیزہ ایمانوں پر استوار رہا ہے اور آگے بھی اسی بنیاد پر قائم و دائم رہ سکے گا ۔
بحمداللہ ! انحرافات کےتمام اسباب و عوامل کے باوجود، ہماری ملت خدا پر ایمان رکھتی ہے، خدا دوست اور دین شناس ہے۔ روحانیت میں دلچسپی رکھتی ہے۔ آج کے نوجوان دنیا میں جہاں مادیت حکمفرما ہے حیرت و ا‌ضطراف میں غرق ہیں۔ روحانیت سے دوری نے ان کو آشفتگی وبے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ ان کے مفکرین بھی پریشان ہیں اور ان میں بعض سمجھ توگئے ہیں کہ ان کے امور معنویت کی طرف توجہ کے بعد ہی درست ہو سکتے ہیں لیکن جس معنویت سے دست بردار ہوچکے ہیں اور دوسو سال سے جس روحانیت کی مغربی ملکوں نے مسلسل طور پر، طرح طرح کے وسیلوں سے بیخ کنی کی ہے کس طرح اور کیسے اس کو دوبارہ حاصل کریں؟ یہ ایک مسئلہ بن گيا ہے۔ ادھر پلٹنے کی خواہش کے باوجود راہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں! یہ کام آسان نہیں ہے؛ لیکن ہماری ملت ان حالات سے دوچار نہیں ہے۔ ہماری ملت روحانیت کے اس عظیم سرچشمے سے متصل رہ کر آگے بڑھی ہے۔ اس نے معنویت کے سہارے ایک انقلاب جو اس عظمت کا حامل ہے کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ اس نے معنویت کے سہارے، اس مادی دنیا میں ایک اسلامی نظام کو، جو معنویت پر استوار ہے، سربلندی عطا کی ہے۔ اس کے ستون اس قدر محکم کردئے ہیں کہ طرح طرح کی یلغاروں کے مقابلے میں قسم قسم کے طوفانوں سے ٹکرانے کے بعد بھی محفوظ رہ سکیں۔ ( دشمن کی ) مسلط کردہ ایک آٹھ سالہ جنگ، اسی روحانیت کے سہارے پوری سرافرازي کے ساتھ کامیابی سے سرکی گئی ہے۔ آج بھی ہمارے نوجوانوں میں ، زيادہ تر نوجوان مومن اور معنویت سے سرشار ہیں حتی وہ لوگ بھی کہ جن کے چہروں سے معنویت کی طرف میلان عیاں نہیں ہے ۔ حساس موقعوں پر انسان دیکھتا ہے کہ ان کے دل بھی خدا کی طرف متوجہ ہیں، میں ( یہ بات) بارہا عرض کرچکا ہوں ۔
یہاں قدر کی راتوں میں، اعتکاف کے ایام میں، نماز عید الفطر میں وہ کون سے افراد اور کون سے اشخاص ہیں کہ انسان گمان کرسکتا ہے کہ ان کے قلوب خدا کی یاد و ذکر سے منور نہیں ہیں ۔
پروردگارا ! میں تجھے قرآن ( حکیم) کی قسم دیتا ہوں تجھے ائمۂ ہدی علیہم السلام اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم دیتا ہوں کہ ہمارے دلوں کو پہلے سے بھی زیادہ معنویت سے پر اور معمور کردے ۔پروردگارا! اس ملت عظیم کے دلوں پر الہی سکینہ اور طمانیت و تقوی نازل فرما۔ پروردگارا! اس مظلوم و مقتدر ملت کو دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! ہمارے دلوں کواپنی طرف مائل رکھ۔ پروردگارا! ہم جو کچھ کہتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور ہم سے قبول فرما؛ پروردگارا! ہمارا سلام اپنے ولی، اپنی حجت اور اپنے عبد صالح حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی بارگاہ میں پہنچا دے اور اس ذات عظیم کی دعا ہمارے حق میں مستجاب فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ، و العصر ، انّ الانسان لفی خسر، الّا الّذین امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر

خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نتوکّل علیہ و نستغفرہ و نصلّی و نسلّم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد (ص) و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین الہداۃ المہدیّین المعصومین سیّما علی امیر المؤمنین و حبیبتہ فاطمۃ الزھراء و الحسن و الحسین سیدی شباب اہل الجنّۃ و علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسی و محمدبن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المہدی صلواتک علیہم اجمعین و صلّ علی ا‏ئمّۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ ۔

اس خطبہ میں بھی میں اپنے تمام عزيز بھائیوں اور بہنوں کو جو نماز میں شریک ہیں تقوے اور پرہیزگاری کی دعوت دیتا ہوں ۔
وہ مسئلہ جو اس خطبے میں مجھے عرض کرنا ہے انتخابات کا مسئلہ ہے جو فی الحال ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے۔ تین باتیں ، تین گروہوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنی ہیں۔ ایک بات اپنی عزيز ملت سے، چاہے وہ اس ملک عزیز کے جس حصے میں بھی ہوں عمومی طور پر عرض کرنی ہے جو میں آپ تمام ملت عزیز سے عرض کروں گا ؛ ایک بات اہم سیاسی شخصیتوں، صدارتی انتخابات کے امیدواروں اور انتخابات کے مسائل میں سرگرم افراد اور کارکنوں سے میں عرض کروں گا اور ایک بات عالمی سامراج کے سربراہوں سے بھی عرض کروں گا وہ جو بعض مغربی حکومتوں اور خبررساں اینجسیوں کو چلاتے ہیں ۔
پہلے موضوع سے متعلق گفتگو میں جس کے مخاطب آپ تمام عزیز عوام ہیں ، مجھے جو بات کہنی ہے وہ آپ کی جلالت و عظمت کی تعریف اور شکرانے کی بات ہے ، میں اپنے خطبوں اور تقریروں میں پسند نہیں کرتا کہ اپنے مخاطبین کی نسبت مبالغہ آرائی اور خوشامد سے کام لوں لیکن انتخابات کے اس مسئلے میں آپ تمام عزيزوں کو خطاب کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ جس قدر بھی مبالغے سے کام لوں زيادہ نہیں ہے حتی اگر اس سے خوشامد کی بو بھی آئے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ نے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ۔
12 جون کے انتخابات ، اپنے ملک کی تقدیر سے متعلق ہماری ملت کے احساس ذمہ داری کو نمایاں کرنے والی ایک عظیم نمائش تھی؛ اپنے ملک کا نظام چلانے میں عوام الناس کی مشارکت کے جذبوں کو جلوہ نما کرنے والی ایک عظیم نمائش تھی؛ اپنے نظام کے سلسلے میں عوام کی قلبی وابستگی کو آشکارا کرنے والی ایک عظیم نمائش تھی؛ حقیقت یہ ہے کہ اس اقدام کی نظیر جو ہمارے ملک میں انجام پایا ہے ، میں آج کی اس دنیا میں ، طرح طرح کی ان ڈیموکریسیوں میں چاہے وہ جھوٹی اور ظاہری جمہوریت ہو اور چاہے حقیقی معنی میں وہ ڈیموکریسی ہو جو واقعا عوام کے ووٹوں پر قائم ہیں ، مجھے کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اسلامی جمہوریہ ( ایران) میں بھی ( یکم) اپریل سنہ 1979 کے ریفرنڈم کے سوا اس کی کوئی اور نظیر نہیں پائی جاتی جو آپ نے پچھلے ہفتہ کے انتخابات میں انجام دیا ہے ۔ پچاسی فی صدی کے لگ بھگ تقریبا چار کروڑ افراد کی شرکت ؛ ایسی عظمت کے حامل واقعات، جو خدا کی نظر لطف کی نشانی ہیں ان کی پشت پر ولی عصر (ع) کے مبارک ہاتھ انسان کو نظر آتے ہیں میرے لئے لازم ہے کہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ، پورے ملک میں جہاں جہاں بھی ہیں آپ تمام عزيزوں کی نسبت ادب و احترام کا اظہار کروں کہ جس کے آپ واقعا مستحق ہیں ۔
ہماری نوجوان نسل نے خاص طور پر دکھا دیا کہ اس میں وہی جوش و جذبہ اور سیاسی شعور اور وہی سیاسی دینداری اور احساس ذمہ داری موجود ہے جو انقلاب کی پہلی نسل میں پایا جاتا تھا بس یہ فرق ہے کہ انقلاب کے دوران انقلاب کی سلگتی بھٹیاں دلوں میں ہیجان پیدا کردیتی تھیں اور بعد میں بھی جنگ کے دوران دوسرے انداز سے (جوش پیدا ہوتا تھا ، لیکن ) آج یہ سب بھی نہیں ہے پھر بھی یہ فرض شناسی، یہ ذمہ داری کا احساس اور جوش و جذبہ اور شعور ہماری موجودہ نسل میں موجود ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یقینا لوگوں کے درمیان طریقۂ کار کا اختلاف اور ووٹ اور رائے کا اختلاف ہے۔ کوئی کسی کو قبول کرتا ہے اور کوئی کسی اور کو قبول کرتا ہے۔ دوسرے کی بات قبول نہیں کرتے یہ سب کچھ ہے اور فطری بھی ہے لیکن (اس میں) ایک اجتماعی احساس ذمہ داری کو بھی انسان محسوس کرتا ہے ، تمام لوگوں کے درمیان، ان کی راہوں کے اختلاف کے ساتھ ایک اجتماعی عہد، اپنے ملک کی حفاظت کے لئے، اپنے نظام کی حفاظت کے لئے موجود ہے۔ تمام لوگ اتر پڑے، شہروں میں، دیہاتوں میں، بڑے شہروں، چھوٹے شہروں میں، مختلف قومیں، مختلف مذاہب، مرد، عورت، بوڑھے ، جوان سب کے سب اس میدان میں نکل آئے ، سبھی نے اس عظیم کام میں شرکت کی۔ یہ انتخابات ، میرے عزيزو ! آپ کے دشمنوں کے لئے ایک سیاسی زلزلہ اور آپ کے دوستوں کے لئے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ایک حقیقی جشن تھا۔ ایک تاریخی جشن۔ انقلاب کے تیس برسوں میں اس طرح لوگ نکلے ہوں اور اس انقلاب کی نسبت اور اس نظام کی نسبت اور عظیم قائد امام (خمینی رہ) کی نسبت وفاداری کا اظہار کریں، یہ ایک عمومی اور عوامی عمل تھا، تجدید عہد کے لئے امام (خمینی رہ) کے ساتھ ، شہداء کے ساتھ اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے ایک نئی جان پڑجانے کے مترادف تھا۔ نئے سرے سے ایک جنبش اور ایک حرکت کا ایک عظیم مرقع، ان انتخابات نے پوری دنیا کے سامنے دینی جمہوریت کا مرقع پیش کردیا ہے۔ تمام وہ لوگ جواسلامی جمہوریہ کے بدخواہ ہیں انہوں نے دینی جمہوریت دیکھ لی ۔ یہ جابرانہ نظاموں اور ( مطلق العنان ) ڈکٹیٹر حکومتوں کے مقابل ایک رخ سے اور دین و معنویت سے دور ڈیموکریسیوں کے مقابل ایک دوسرے رخ سے ، ایک نئی راہ ہے، یہ دینی جمہوریت ہے ( یہ مذہبی ڈیموکریسی ہے ) یہ ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور لوگوں کو میدان میں لے آتی ہے، آپ نے اپنا امتحان پورا کیا۔ یہ اس انتخابات کے بارے میں ایک بات ہوئی ۔
انتخابات کے سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ 12 جون کے انتخابات نے ثابت کردیا کہ لوگ اس ملک میں بھروسے ، امید اور قومی شادابی وتازگی کےساتھ رہ رہے ہیں۔ یہ بہت سی ان باتوں کا جواب ہے جو آپ کے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں کہا کرتے ہیں۔ اگر لوگ ملک میں اپنے مستقبل کی طرف سے امیدوار نہ ہوں تو انتخابات میں شرکت نہیں کرتے اگر اپنے نظام پر بھروسہ نہ کرتے ہوں تو انتخابات میں حصہ نہیں لیتے، اگر آزادی کا احساس نہیں کرتے ہوں تو انتخابات کے سلسلے میں خوشی و شادمانی کا اظہار نہیں کرتے؛ اسلامی جمہوری نظام پر عوام الناس کا اعتماد انتخابات میں آشکار ہوگیا اور میں بعد میں عرض کروں گا کہ دشمنون نے لوگوں کے اسی اعتماد اور بھروسے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ملت ایران کے دشمنون کی کوشش ہے کہ اس اعتماد کو پارہ پارہ کردیں۔ یہ اعتماد جو اسلامی جمہوریہ کی سب سے بڑی پونجی ہے، چاہتے ہیں یہی چیز اسلامی جمہوریہ سے چھین لیں، شک و شبہ پیدا کردینا چاہتے ہیں۔ ان انتخابات کے سلسلے میں شبہے ایجاد کردینا ان کا مقصد ہے۔ یہ اعتماد جو لوگوں نے کیا ہے اس اعتماد کو متزلزل کردینے کی فکر میں ہیں۔ ملت ایران کے دشمنوں کو معلوم ہے جب اعتماد باقی نہ رہے گا مشارکت بھی پھیکی پڑجائے گی اور جب میدان میں موجودگي اور مشارکت میں کمزوری پیدا ہوگی نظام کی شرعی اور قانونی حیثیت بھی تزلزل کا شکار ہوجائے گی۔ وہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔ دشمن کا ہدف یہ ہے؛ چاہتے ہیں اعتماد سلب کرلیں تا کہ مشارکت چھین لیں تا کہ اسلامی جمہوریہ کی قانونی حیثیت چھین لیں۔ اس کا نقصان ، بینک میں آگ لگانے اور بس پھونکنے کی نسبت کہیں زيادہ ہے ۔ یہ سب وہ چیز ہے کہ جس کا کسی بھی نقصان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ملک کے عوام آئیں اور اس طرح کے عظیم الشان کام میں مشتاقانہ طور پر شرکت کریں بعد میں لوگوں سے کہا جائے کہ آپ نے غلط کیا جو نظام پر بھروسہ کیا! نظام اعتماد کے قابل نہیں تھا!! دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس نے اس راہ پر انتخابات سے پہلے ہی کام شروع کردیا تھا، اس سے دو تین مہینہ قبل ، میں نے 21 مارچ کو مشہد مقدس میں کہا تھا ، میں نے عرض کیا تھا کہ مسلسل طور پر تلقین کر رہے ہیں اور اس بات کی تکرار کر رہے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہونا طے شدہ ہے۔ چاہتے تھے کہ زمین فراہم ہوجائے اور ماحول تیار کردیں، میں نے اس وقت اپنے نیک دوستوں کو ٹہوکا دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ یہ باتیں نہ کیجئے کیونکہ دشمن یہ باتیں لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام پر لوگ اعتماد کرتے ہیں ، یہ اعتماد آسانی سے ہاتھ نہیں آیا ہے۔ تیس سال لگے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام نے اپنے ذمہ داروں کے ذریعہ اپنی کارکردگی اور بے پناہ کوششوں کے سہارے لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں یہ اعتماد راسخ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ دشمن اسی اعتماد کو ہم سے چھین لینا چاہتا ہے تا کہ لوگ تزلزل میں مبتلا ہوجائیں ۔یہ بھی ایک اہم بات ہے ۔
تیسری بات انتخابی مقابلہ آرائیوں کے مسئلے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ باہمی مقابلے پوری طرح آزاد، سنجیدہ اور صاف ستھرے مقابلے تھے ( مختلف امیدواروں کے درمیان) یہ باہمی مقابلے، گفتگوئیں اور مناظرے اس قدر شفاف اور صریح تھے کہ بعض کو اس پر اعتراض بھی ہوا اور عرض کروں گا کہ کسی حد تک وہ حق بجانب بھی تھے اس سے وہ جوش و اشتعال پیدا ہوا کہ اس کے اثرات اب بھی قابل مشاہدہ ہیں ۔
میں آپ سے عرض کروں ، ہم نے یہ فرض کیا تھا اور ابھی بھی یہی فرض ہے کہ یہ مقابلے جو (صدارتی) انتخابات کے چار امیدواروں کے درمیان ہیں، مقابلے میں کھڑے تمام افراد اور (فکری) لہریں اسلامی نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ جو دشمنوں کی کوشش ہے اور مختلف ذرائع ابلاغ کہ جن میں زیادہ تر ایجنسیاں ذلیل و خبیث صیہونیوں سے تعلق رکھتی ہیں ایسا ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ یہ مقابلے اور اختلاف نظام کے طرفداروں اور نظام کے مخالفوں کے درمیان ہے ، ایسا نہیں ہے بالکل نہیں۔ ان کی شرارت ہے جو اس طرح کی باتیں کررہے ہیں ، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ چار افراد جو انتخابات میں اترے ہیں سب کے سب عناصر نظام کا حصہ ہیں، نظام سے ان کا تعلق تھا اور ہے۔ ان میں سے ایک تو ہمارے ملک کے صدر جمہوریہ ہیں ایک خدمتگزار، محنتی، زحمت کش اور مورد اعتماد صدر جمہوریہ ۔ ان میں ایک اور خود میری صدارت کے زمانہ میں آٹھ سال وزير اعظم رہے ہیں، آٹھ سال تک خود میرے وزير اعظم تھے۔ ان میں ایک اور صاحب کئی برسوں تک مسلسل پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر رہے ہیں اور مقدس دفاع کے زمانے میں وہ کلیدی کمانڈروں میں سے تھے، ان کے درمیان ایک اور صاحب ملک کی مقننہ کے دو دوروں میں سربراہ رہ چکے ہیں۔ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے سربراہ ۔ یہ لوگ نظام کے عناصر میں ہیں، یہ سب کے سب نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ آپس میں اختلاف نظر رکھتے ہیں، الگ الگ منصوبے ہیں، مختلف سیاسی فیصلوں اور نقطۂ نگاہ کے حامل ہیں لیکن نظام کا سرمایہ ہیں اور چاروں افراد میں ہر ایک نظام کے عناصر میں ہے۔ یہ مقابلہ آرائي خود نظام کے داخلی افراد کے درمیان ہوئی نظام میں داخل اور اس سے خارج افراد کے ما بین نہیں، جیسا کہ صیہونی، امریکی اور خبیث برطانوی میڈیا نے رٹ لگارکھی ہے ، یہ انتخابی مقابلہ تھا نظام کے درونی عناصر کے درمیان جو نظام سے ہی وابستہ ہیں اور سب کے سب اپنے اس ماضی کے ساتھ ، نظام سے ہی تعلق رکھتے ہیں ، ان سب کو میں قریب سے جانتا ہوں۔ ان کے کاموں سے آشنا ہوں۔ ان کی دلچسپیوں سے واقف ہوں۔ ان کی روش و رفتار کی خصوصیات سے آگاہ ہوں۔ ہر ایک کے ساتھ قریب رہ کر میں کام کرچکا ہوں۔ ان سب کو پہچانتا ہوں۔ البتہ میں ان حضرات کے تمام نظریات کوقبول نہیں کرتا۔ ان کے بعض نظریات اور بعض کارکردگیاں میری نظر میں قابل تنقید ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ بعض کو، ملک کی خدمت کے لئے، بعض دوسروں سے زيادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ لیکن انتخاب عوام کو کرنا تھا اور کرنا ہے، لوگوں نے منتخب کیا ہے میں نے اپنی خواہش اور اپنی پسند نہ لوگوں کے سامے ظاہر کی اور نہ ہی لوگوں پر اس کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ لوگوں نے خود اپنی جگہ خود اپنے معیارات کے مطابق فیصلہ کیا، اقدام کیا اور کام انجام دیا۔ کروڑوں اس طرف اور کروڑوں اس طرف؛ بنابریں مسئلہ ، نظام کا اندرونی مسئلہ ہے، لیکن اگر کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مسئلے کی نوعیت تبدیل کردیں تو یہ سو فی صدی خود سری اور خباثت آلود اقدام ہوگا ۔ مقابلہ انقلاب اور مخالفین انقلاب کے درمیان نہیں ہے ۔ اختلاف ان عناصر کے درمیان ہے جو خود دائرہ نظام کے اندر ( نظام کا عنصر ہیں ) اور وہ لوگ بھی کہ جنہوں نے ان چاروں افراد کو ووٹ دیا ہے انہوں نے بھی نظام کو مانتے ہوئے ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ شخص نظام کے لئے بہتر ہے اور نظام کا زيادہ پابند ہے اور اس کو ووٹ دیدیا ۔ جس شخص کو نظام کی خدمت کے لئے زیادہ صالح اور نیکوکار سمجھا اس کو ووٹ دے دیا، لوگوں نے بھی نظام کے دائرۂ کار میں اقدام کیا ہے ۔ یہ مقابلہ آرائی اور مناظرے ایک اہم اور دلچسپ ، صاف و صریح اور سنجیدہ قسم کی جدت و ندرت کے حامل تھے ۔ ان مناظروں نے ان لوگوں کے دہن بند کردئے جو باہر سے پروپگنڈے کیا کرتے تھے کہ یہ مقابلے صرف دکھاوا ہیں، ان میں کوئی حقیقت اور سنجیدگی نہیں پائی جاتی، انہوں نے بھی دیکھ لیا کہ نہیں ، یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے ۔ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوکر بحثیں کررہے ہیں، دلیلیں پیش کررہے ہیں، بنابریں یہ مناظرے اور بحث و گفتگو اس لحاظ سے بیحد اہمیت رکھتی ہے اور اس کے یقینا مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں لیکن کچھ عیوب بھی تھے جو میں آپ کے سامنے عرض کروں گا۔ اس کے وہ پہلو جو مثبت تھے یہ ہیں کہ ان مناظروں میں، باہمی بات چیت اور ٹیلیویژن پر ایک دوسرے کے روبرو بیٹھ کر بحث و گفتگو میں سبھی نے کھل کر صاف و صریح باتیں کیں۔ اپنے دل کی باتیں زبان پر لائے۔ تنقید و تبصرے کا ایک سیلاب تھا جو جاری ہوگیا اور سبھی مجبور ہوئے کہ اعتراضات کے جواب دیں۔ ان پر تنقیدیں ہوئیں اور انہیں مقام جواب میں آنا پڑا کہ اپنا دفاع کریں۔ افراد اور گروہوں کے موقف کسی بھی طرح کے ابہام اور پیچیدگیوں کے بغیر بالکل صاف اور عریاں طور پر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آگئے کہ ان کی پالیسیاں اور ان کے منصوبے کیا ہیں ؟ ان کے منصوبے اور عہد کیا اور کس حد تک ہیں؟ یہ سب باتیں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آگئیں اور لوگ فیصلے کرسکے۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ انہیں اسلامی نظام میں غیر اور بیگانہ نہیں سمجھا جاتا۔ ملک کا نظام اپنا اور بیگانہ قرار نہیں دیتا۔ سب کچھ لوگوں کے سامنے آشکارا اور تمام نظریات لوگوں کے سامنے بیان ہوئے۔ معلوم ہوگیا لوگوں کے ووٹ اسی دقت نگاہ اور غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ لوگوں کے ووٹ دکھاوا نہیں ہیں ۔ انتخاب کا حق در حقیقت لوگوں سے تعلق رکھتا ہے، لوگ چاہتے ہیں پوری آگاہی اور ہوشیاری کے ساتھ انتخاب کریں۔ مناظروں نے یہ دکھا دیا ۔ یقینا پچھلے دوروں کے انتخابات کے آخری حد نصاب کی نسبت ایک کڑور ووٹوں کے اضافے کی ایک وجہ یہی تھی کہ لوگوں کے ذہن و فکر کو مشارکت کی دعوت دی گئی۔ لوگ میدان میں آئے فیصلہ کیا اور انتخابات میں شریک ہوئے ۔ یہ مناظرے ، سڑکوں تک پہنچ گئے، گھروں کے اندر بھی داخل ہوگئے ، یہ چیزیں لوگوں کے انتخاب کی قوت میں اضافے کا باعث بنیں۔ اس طرح کے مباحثے اور گفتگوئیں ذہنوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ انتخاب کی قوت کو بلند کرتی ہیں اور یہ چیز اسلامی جمہوریہ کی نگاہ سے مثبت ہے ۔
البتہ میں ، اسی منزل میں عرض کردوں کہ یہ گفتگوئیں اس مقام تک نہیں پہنچنا چاہئے کہ کینہ و کدورت میں تبدیل ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا اثر الٹ جائے گا۔ اگر اسی شکل میں رہے جو اس روز تھا اور اسی حد تک ٹہرا رہا ، ٹھیک تھا لیکن اگرطے پایا کہ اسی طرح جاری ہے اور بحث کا سلسلہ بڑھتا جائے تو یہ چیز آہستہ آہستہ کینہ و دشمنی کی صورت اختیار کر لےگی۔ اس طرح کے مناظرے حکام بالا کی سطح پر جاری رہنا یقینا بہت اچھا ہے لیکن ان عیوب سے پرہیز کے ساتھ کہ جن کی طرف ابھی میں اشارہ کروں گا ۔
اگر اس طرح کے مناظرے تمام سال، پورے چار سال کے دوران چلتے رہیں تو پھر انتخابات کے وقت جب اس طرح کے مناظرے پیش آئیں گے دھماکہ خیز صورت پیدا نہیں کریں گے۔ تمام باتیں، طویل زمانے کے دوران کہی اور سنی جا چکی ہوں گی۔ تنقیدیں ( اور اعتراضات)، جوابات اور توضیحات؛ یہ سب ان مناظروں کی اچھائیاں ہیں جو بہت ٹھیک تھیں لیکن کچھ عیوب بھی تھے ان عیوب کو برطرف کرنا ہوگا ۔
بعض مقامات پر محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان مناظروں میں ، مناظرہ کا ( عقلی و ) منطقی پہلو کمزور پڑگیا ہو۔ جذبات اور احساسات کا پہلو غالب آ گیا ہو اور تخریبی پہلو نمایاں ہو گیا ہو، ان مناظروں میں (ملک کی ) موجودہ صورتحال کے بارے میں زیادتی سے کام لیتے ہوئے کی جانے والی الزام تراشی صاف طور پر دیکھی گئی۔ اسی طرح ان مناظروں میں پچھلی حکومتوں سے متعلق بھی بد نمائی قابل مشاہدہ تھی۔یہ دونوں چیزیں غلط تھیں۔ ایسے اتہامات سامنے آئے جو کسی جگہ ثابت نہیں ہوئے۔ افواہوں پر اعتماد کیا گیا اور بعض اوقات ناانصافی کا نظارہ بھی کرنا پڑا ۔ یہ ناانصافی موجودہ حکومت کے سلسلے میں بھی کی گئی حالانکہ اس خدمات بے پناہ ہیں اسی طرح پچھلی حکومتوں کی نسبت بھی ناانصافی سے کام لیا گیا۔ یہ حضرات اپنی گفتگو میں جذباتی ہوگئے۔ اچھی اچھی باتوں کے درمیان ، جو باتیں اچھی نہیں تھیں وہ بھی کہی گئیں۔ میں نے بھی تمام افراد کی مانند بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر یہ مناظرے دیکھے اور اظہار خیال کی آزادی سے لطف اٹھایا کہ اسلامی جمہوری نظام کو عوام کی اس سلسلے میں مدد کرنے کی توفیق حاصل ہے کہ وہ اپنی انتخاب کی قوت و صلاحیت کو بلند کرسکیں۔ میں نے لطف اٹھایا لیکن اس مسئلے کے معیوب حصے کو دیکھ کر تکلیف ہوئی۔ امیدواروں کے طرفداروں کے لئے وہ معیوب حصے، وہ اشارے، وہ وضاحتیں اضطراب و اشتعال اور تشویش و بے چینی کی باتیں تھیں۔ دونوں ہی طرف سے تھیں۔ میرا فرض ہے اس جگہ سے، نماز جمعہ کے منبر سے خطبے میں جو خود نماز کا جز ہے، حقائق ہی بیان کروں گا۔ افسوس ! کہ دونوں فریق اس عیب میں برابر کے شریک تھے۔
ایک طرف سے بالکل صاف الفاظ میں ملک کے قانونی صدر جمہوریہ کی توہین حتی ان مناظروں کے دو تین مہینے پہلے سے شروع کردی گئیں۔ یہ تقریریں میرے پاس لائی گئیں، میں نے دیکھیں اور بعض سنی بھی ہیں، تہمتیں لگائی گئیں اور باتیں بنائی گئیں، کس کے خلاف؟ اس کے خلاف جو قانونی طور پر لوگوں کا صدر جمہوریہ ہے اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آیا ہے۔ قوم کے صدر جمہوریہ کو جو لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوا تھا غلط نسبتیں دی گئیں۔ ملک کے صدر جمہوریہ پر کہ جسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے ؟!
حکومت کی کارکردگي کی خلاف حقیقت رپورٹیں تیار کرکے ادھر ادھر شایع اور تقسیم کی گئیں۔ ہم جو تمام امور سے آگاہ ہیں دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب حقیقت کے خلاف ہیں۔ بدکلامی کی گئی۔ صدر جمہوریہ کو خرافات گو، رمال اور اسی قسم کی شرم آور نسبتوں سے نوازا گیا۔ اخلاق و قانون اور انصاف کو پاؤں تلے روندا گیا۔ یہ سب کچھ اس طرف سے ہوا اور اس طرف سے بھی یہی سب ہوا۔ اسی سے ملتے جلتے کام دوسرے انداز سے انجام پائے۔
تیس سالہ انقلاب کے درخشاں کارناموں کو پھیکا کرکے دکھایا گیا۔ بعض افراد کے نام اچھالے گئے جبکہ یہ لوگ اس نظام کی شخصیتوں میں سے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی عمریں نظام کی راہ میں صرف کی ہیں۔ میری کبھی یہ عادت نہیں رہی کہ نماز جمعہ میں افراد کے نام لوں، لیکن یہاں چونکہ نام لئے گئے ہیں لہذا میں بھی نام لینے پر مجبور ہوں۔ خاص طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی اور جناب ناطق نوری صاحب کا نام لینا اور کچھ عرض کرنا ضروری ہے ۔ البتہ خود ان حضرات پر کسی نے مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا ہے۔ اب رہی بات ان کے رشتہ داروں اور دوسروں کی بات، تو جو بھی جس طرح کا بھی دعوی کرتا ہے اسے اس کے قانونی راستوں سے ثابت کرنا چاہئے، ثابت ہونے سے پہلے اس کو ذرائع ابلاغ میں نہیں لایا جا سکتا۔ اگر کوئی چیز ثابت ہوجائے تو معاشرے کے تمام افراد کے درمیان کوئی بھی ہو فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ثابت ہونے سے قبل ان باتوں کو منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا اور نہ ہی وثوق کے ساتھ ادعا کیا جا سکتا۔ جب اس طرح کی باتیں چھڑتی ہیں معاشرے میں غلط تاثرات پھیلتے ہیں۔ نوجوان کچھ اور سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جناب ہاشمی کو سبھی لوگ پہچانتے ہیں۔ میری ان سے شناسائی انقلاب کے بعد کی نہیں اور نہ ہی انقلاب کے بعد ان کو دی جانے والی ذمہ داریوں کے وقت سے ہے۔ میں ان کو سنہ 1957 یعنی باون سال پہلے سے اور بہت قریب سے جانتا ہوں۔ جناب ہاشمی (رفسنجانی) انقلابی جد و جہد کے دوران تحریک کے بنیادی ترین افراد میں تھے۔ انقلاب سے قبل پوری سنجیدگي سے مسلسل جد و جہد کرنے والے انقلابیوں میں تھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، امام خمینی (رہ) کی معیت میں اسلامی جمہوریہ کی مؤثرترین شخصیتوں میں تھے اور امام (خمینی رہ) کی رحلت کے بھی ، آج تک رہبر انقلاب کے ساتھ رہے ہیں۔
بارہا یہ شخص، شہادت کی حدوں تک آگے گیا ہے۔ انقلاب سے پہلے اپنا سرمایہ انقلاب کے لئے خرچ کرتے رہے ہیں۔ مجاہدین کو دے دیا کرتے تھے۔ یہ باتیں مناسب ہے کہ جوانوں کو معلوم ہوجائیں۔ انقلاب کے بعد ان کے پاس بڑی ذمہ داریاں رہی ہیں۔ آٹھ سال تک صدر جمہوریہ تھے، اس سے پہلے پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے اور بعد میں دوسری ذمہ داریاں اٹھائی ہیں اور اس پورے عرصے میں کوئی ایک مثال نہیں ہے کہ انہوں نے خود اپنے لئے کوئی ذخیرہ اس انقلاب کے ذریعہ جمع کیا ہو۔ یہ وہ حقائق ہیں جو معلوم ہونا چاہئے۔ حساس ترین موقعوں پر انہوں نے انقلاب اور نظام کی خدمت کی ہے اور میں یقینا مختلف امور میں جناب ہاشمی سے اختلاف نظر رکھتا ہوں اور یہ ایک فطری بات ہے، مختلف مسائل میں۔ لیکن لوگ کسی قسم کے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ کوئی اور بات ذہن میں نہ لائیں۔ ان کے درمیان اور صدر جمہوریہ کے درمیان سنہ 2005 کے انتخابات کے وقت سے ہی اختلاف نظر تھا اور اب بھی ہے۔ آپس میں دونوں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ غیر ملکی مسائل کے سلسلے میں بھی اور سماجی انصاف پر عمل درآمد کے طریقۂ کار کے سلسلے میں بھی دونوں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور بعض ثقافتی مسائل میں بھی اختلاف نگاہ ہے البتہ صدر جمہوریہ کا نقطۂ نگاہ میرے نقطۂ نگاہ سے زیادہ قریب ہے۔ جناب ناطق نوری کی بھی یہی صورت ہے۔ جناب ناطق نوری بھی انقلاب کی خدمتگزار شخصیتوں میں ہیں۔ انہوں نے بھی بہت زيادہ خدمات انجام دی ہیں اور اس نظام اور اس انقلاب سے ان کی دلچسپی و وابستگی میں کوئی شک نہیں ہے۔
ٹیلی ویژن پر براہ راست مناظرے ٹھیک ہیں لیکن یہ نقائص برطرف ہونا چاہئے۔ میں نے اسی وقت اس مناظرے کے بعد جناب صدر جمہوریہ کو متنبہ کیا چونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس کا خیال رکھیں گے۔
مالی بدعنوانی سے مقابلے کے سلسلے میں نظام کا موقف ایک واضح و آشکار موقف ہے۔ سماجی انصاف سے متعلق مسائل میں بھی نظام کا موقف بالکل واضح موقف ہے۔ بدعنوانی جس جگہ بھی ہے اس سے مقابلہ اور اس کی بیخ کنی ہونا چاہئے ۔
میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم اس کے دعوے دار نہیں ہیں کہ ہمارے نظام میں مالی اور اقتصادی بدعنوانی نہیں ہے کیونکہ اگر اس کا وجود نہ ہوتا تو چند سال قبل میں نے ملک کی تینون شعبوں ( مجریہ ، مقننہ اور عدلیہ) کے سربراہوں کے نام آٹھ شقوں پر مشتمل خط نہ لکھا ہوتا اور اس میں اس قدر تاکید نہ کی ہوتی۔ کیوں نہیں، خرد برد اور بدعنوانی ہے لیکن یہیں میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوری نظام دنیا کے سیاسی اور معاشرتی نظاموں کے درمیان ایک صحتمند ترین نظام ہے۔ ہم کسی صیہونی مرکز کی رپورٹ کی بنیاد پر ملک میں بدعنوانی کی بات کریں تو یہ بالکل صحیح نہیں ہے اور یہ بھی کہ ہم افراد کو اور ملک کے ذمہ داروں کو بلاوجہ بدعنوانی کے سلسلے میں زير سوال لائیں، یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ مالی بدعنوانی اسلامی نظام میں بہت ہی اہم مسائل میں سے ہے اور پوری سنجیدگي کے ساتھ اس سے مقابلہ ضروری ہے۔ کابینہ کو بھی عدلیہ کو بھی اور پارلیمنٹ کو بھی ( اس سے مقابلہ کرنا چاہئے ) اگر مقابلہ نہ ہوا اور روک تھام نہ کی گئی تو (بد عنوانی) پھیلتی چلی جائے گی۔ جیسا کہ بہت سے مغربی ممالک، جو اس قدر مالی بدعنوانی اور کالے دھن کو سفید بنانے کی مہم کے خلاف پیکار کا دم بھرا کرتے ہیں گلے تک بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ، برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ کے معاملے آپ نے سنے ہیں یہ مسائل کا صرف ایک گوشہ ہے، پورا معاملہ اس سے کہیں زيادہ ہے۔اب میں ملک کے عوام سے خطاب کا یہ حصہ سمیٹتا ہوں۔
میرے عزیزو! 12 جون کا دن ایک عظیم کارنامے کا دن تھا۔ (اس دن) ایک تاریخی اور عالمی کارنامہ انجام پایا ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض دشمنوں نے چاہا ہے کہ نظام کی اس نمایاں کامیابی کو ایک مشکوک و مشتبہ قابل بحث موضوع میں تبدیل کر دیں۔ حتی بعض نے تو یہ کوشش کی کہ اس کو ایک قومی شکست میں تبدیل کردیں۔ انہوں نے چاہا ہے کہ آپ سے اس شیرینی سے محظوظ ہونے کا موقع چھین لیں اور عالمی سطح پر انتخابات میں شرکت کا ریکارڈ ، بے مثال ٹرن آؤٹ کا ریکارڈ آپ کے نام نہ ہوسکے۔ لیکن یہ ( ریکارڈ) درج ہوچکا ہے اور اس میں کوئی تحریف اور الٹ پھیر نہیں کی جا سکتی۔
یہ (انتخابی) مقابلے تمام ہوچکے ہیں۔ وہ تمام لوگ کہ جنہوں نے ان چاروں امیدواروں کو ووٹ دئے اجر کے مستحق ہیں اور انشاء اللہ اجر الہی کے حامل ہوں گے۔ یہ سبھی انقلاب کے اندرونی مورچے سے تعلق رکھتے ہیں اور نظام سے وابستہ ہیں۔ اگر تقرب خدا کی نیت سے ووٹ ڈالے ہیں تو انہوں نے عبادت کی ہے۔

انقلاب کو چار کروڑ ووٹ ملے ہیں نہ کہ 2 کروڑ پینتالیس لاکھ ووٹ جو منتخب صدر جمہوریہ کو حاصل ہوئے ہیں۔ عوام کو تو اطمینان حاصل ہے اور میں امیدواروں کے طرفداروں کو بھی اطمینان دلاتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران لوگوں کے ووٹوں کے سلسلے میں خائن نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں انتخابات کا قانونی سسٹم ایسا ہے جس میں دھاندلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس بات کی ہر وہ شخص جو انتخابات کے مسائل میں دخیل ہے تصدیق کرےگا اور وہ بھی ایک کروڑ دس لاکھ ووٹوں کا فرق! ایک دفعہ دو افراد کے درمیان اختلاف ایک لاکھ ووٹوں کا ، پانچ لاکھ ووٹوں کا دس لاکھ ووٹوں کا ہے تو بھی چلئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ کہیں دھاندلی ہوئی ہے اور ووٹ ادھر ادھر ہوئے ہوں گے!! لیکن ایک کروڑ دس لاکھ ووٹ بھلا کس طرح ادھر ادھر کئے جا سکتے ہیں؟
اس صورتحال کے باوجود، میں نے کہا ہے ( فقہا اور قانون دانوں کی سپریم کونسل ) شورائے نگہبان بھی یہی بات مانتی ہے کہ اگر کسی کو شک و شبہہ ہے اور وہ ثبوتوں کو پیش کرتے ہیں تو حتمی طور پر اس کی چھان بین ہوگی البتہ متعلقہ قانونی طریقوں سے۔ اعتراض صرف قانونی راہوں سے کیا جائے۔ میں غیر قانونی بدعتوں کے دباؤ میں نہیں آؤں گا۔
آج اگر قانونی دائرے توڑے گئے تو آئندہ دوسرے کسی بھی انتخابات کی صحت کی ضمانت نہیں رہ جائے گی۔ بالآخر ہر انتخابات میں کچھ کامیاب ہوں گے اور کچھ ناکامیاب ہوں گے، پھر کسی بھی انتخابات پر اعتماد باقی نہیں رہ جائے گا۔ کوئی ضمانت نہیں رہ جائے گی۔ بنابرین ہر کام ہوسکتا ہے اور تحقیق کی جا سکتی ہے سب صحیح ہے لیکن قانون کے دائرے میں۔ اگر حقیقت میں کوئی شک و شبہہ ہے قانون کی راہ سے اس کو دیکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں قانون کامل ہے، خود قانون میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ جس طرح امیدواروں کو حق دیا گیا ہے کہ نگرانی کریں اسی طرح حق دیا گیا ہے کہ شکایت کریں اور اس کی تحقیق کی جائے۔ میں نے محترم شورائے نگہبان سے کہا ہے کہ اگر مطالبہ کریں تو ووٹوں کو پھر سے گنا جائے۔ خود امیدواروں کے نمائندوں کے سامنے یہ کام انجام دیں۔ (نمایندے) وہاں رہیں اور خود وہی شمار کریں اور اندراج کریں ارو دستخط کریں۔ بنابریں اس رخ سے کوئی مشکل نہیں ہے۔
میرے خطاب کا دوسرا حصہ، سیاستدانوں ( انتخابات کے ) امیدواروں، مختلف پارٹیوں اور فکری حلقوں کی رہنمائی کرنے والوں سے تعلق رکھتا ہے۔ میں ان حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ملک کے لئے ایک بڑا ہی حساس تاریخی لمحہ ہے۔ دنیا اور مشرق وسطی کی حالت پر نگاہ ڈالئے، دنیا کی اقتصادی حالت اور عراق ، افغانستان اور پاکستان کی مانند پڑوسی ملکوں کے مسائل پر نظر ڈالئے، ہم تاریخ کے ایک حساس نقطے پر پہنچے ہیں۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس تاریخی مرحلے میں ہوشیاری اور دقت نظر سے کام لیں، غلطی نہ کریں، انتخابات کے اس مسئلے میں عوام الناس نے حق و انصاف یہ ہے کہ اپنا فریضہ پورا کر دیا ہے۔ ان کا فریضہ یہ تھا کہ وہ پولنگ کے مراکز تک آئیں، اپنے ووٹ ڈالیں۔ یہ فریضہ بہترین انداز میں انجام پایا ہے، لیکن ہم اور آپ اس سے زیادہ بھاری فرائض کے حامل ہیں۔ وہ لوگ جو کسی بھی طریقے اور عنوان سے لوگوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں، سیاسی شخصیتیں، پارٹیوں کے قائدین، سیاسی حلقوں کے رہنما اور وہ لوگ جن کی بات کچھ لوگ سنتے اور مانتے ہیں، یہ سب کے سب اپنی رفتار و گفتار کے سلسلے میں بہت محتاط رہیں۔ اگر انہوں نے ذرا بھی افراط سے کام لیا تو اس افراط کا دائرہ اور اس کا اثر عوامی طبقوں میں بہت ہی حساس و خطرناک جگہوں تک پہنچ جائے گا، جو ممکن ہے خود کھ خود ان کے بھی قابو سے نکل جائے۔ اس کے نمونے ہم دیکھ چکے ہیں۔ افراط و زیادہ روی جب معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہے تو ہر افراطی اقدام ، دوسروں کے افراطی اقدام کو ہوا دیتا چلا جاتا ہے۔ اگر اہم سیاسی دماغ قانون کو پاؤں تلے روندتے ہیں، یا ابروؤں کی اصلاح کے چکر میں آنکھوں کو اندھا کرلیتے ہیں تو مانیں یا نہ مانیں وہ، لوگوں کے خون، تشدد اور افرا تفری کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے۔
میں ان تمام حضرات، قدیمی دوستوں اور ان بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ پر قابو رکھیں۔ شرح صدر کا مظاہرہ کریں، دشمنوں کے ہاتھوں کو دیکھیں، گھات لگائے بیٹھے بھوکے بھیڑیوں کو دیکھیں جو اب اپنے چہروں سے سفارتی نقابیں بھی اتارتے جا رہے ہیں اور اپنے حقیقی چہرے دکھا رہے ہیں ان کی طرف سے بے توجہی نہ کریں، آج کچھ مغربی ملکوں کی ممتاز سفارتی شخصیتیں جو اب تک سفارتی تکلفات کے ساتھ ہم سے باتیں کیا کرتی تھیں انہوں نے ان چند دنوں میں چہرے سے نقاب الٹ دئے ہیں اور حقیقی چہرے کے ساتھ سامنے آگئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خبیث، حکومت برطانیہ ہے۔
میں ان بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ پیش خدا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سوچیں۔ وہ پیش خدا جواب دہ ہیں، آپ سے سوال کیا جائے گا، امام (خمینی رہ) کی آخری وصیتوں کو یاد کیجئے۔ قانون قول فیصل ہے۔ انتخابات، ہوتے کس لئے ہیں؟ اس لئے کہ تمام اختلافات، بیلٹ باکسوں پر طے پائیں، بیلٹ باکسوں سے پتہ چلے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں، نہ یہ کہ سڑکیں کے ناپنےکے ذریعے۔
اگر یہی ہونے لگے کہ ہر انتخابات میں جن کو لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ہے ، سڑکوں پر لشکر کشی کریں، اپنے طرفداروں کو شاہراہوں پر لے آئیں اور پھر وہ بھی کہ جن کو ووٹ ملے ہیں ان کے جواب میں افرادی قوت کا مظاہرہ کریں اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لے آئیں تو پھر انتخابات کی کیا ضرورت ہے؟ لوگوں کا قصور کیا ہے یہ عوام، سڑکوں پر جن کے کاروبار ہیں، آنے جانے کی جگہیں ہیں جہاں وہ زندگی بسر کرتے ہیں، ان لوگوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ ہم اپنے طرفداروں کو ان کے سامنے سڑکوں پر لا رہے ہیں۔ اس طرف سے ایک عنوان کے تحت اور اس طرف سے ایک اور عنوان کے تحت۔ دہشت گردوں کے لئے دراندازی ( کی راہ کھول رہے ہیں) وہ جو دہشت گردانہ حملے کی تاک میں ہیں، ان کا مسئلہ، سیاسی مسئلہ نہیں ہے ان کے لئے اس سے بہتر کیا ہے کہ ان ہی لوگوں کے درمیان چھپ جائیں جو مظاہرے یا اجتماع کے خواہشمند ہیں، اگر یہ اجتماعات ان کے لئے پردے کا کام کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟
ابھی یہی چند افراد جو ان واقعوں میں مارے گئے ہیں کہ جو عوام الناس میں سے تھے یا رضاکاروں میں سے تھے، ان کے سلسلے میں جواب دہ کون ہے؟ ردعمل جو اس کے بعد ظاہر ہوں گے(اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟) رضاکار( دستے ) کے جوان کو قتل کردیتے ہیں، پولیس فورس کے اہلکار کو مار ڈالتے ہیں تو ٹھیک ہے اب اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ جذبات اور اشتعال میں آکر ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔ ان جوابی اقدامات کا محاسبہ کس کے ذمہ ہے؟ اس طرح کے واقعات سے انسان کا دل خون ہوجاتا ہے۔ کوئے دانشگاہ ( یونیورسٹی لین) میں داخل ہوتے ہیں، نوجوانوں کو، یونیورسٹی کے لڑکوں کو اور وہ بھی مومن و مخلص لڑکوں کو نہ کہ ہنگامہ مچانے والوں کو، حملے کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قائد انقلاب کے تعلق سے نعرے بھی لگا دیتے ہیں!! ان حادثوں سے انسان کا دل خون نہ ہوگا؟ انتخابات کے بعد سڑکوں پر زور آزمائی کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ انتخابات اور جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے۔ میں تمام لوگوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس روش کو ختم کریں۔ یہ طریقۂ کار صحیح طریقۂ کار نہیں ہے۔ اگر اس کا خاتمہ نہیں کرتے تو پھر عواقب اور افرا تفری کی ذمہ داری انہیں کی ہوگی۔
یہ تصور، غلط فہمی ہی ہوگی کہ لوگوں کو سڑکوں پر لاکے ہنگاموں کے ذریعے نظام پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ نظام کے حکام کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ مصلحت کوشی تحت مطالبات کو جبرا قبول کرلیں گے۔ جی نہیں! یہ خیال بھی غلط ہے۔
اولا دباؤ میں آکر غیر قانونی مطالبات کے سامنے جھک جانا خود ایک طرح سے ڈکٹیٹرشپ کا آغاز ہے۔ یہ سوچنا اور سمجھنا غلط ہے۔ ایک غلط اندازہ لگایا گيا ہے۔ اور اگر اس کے کچھ عواقب ہوتے ہیں تو انہیں وہ افراد بھگتیں گے جو ان واقعوں کی پشت پر موجود ہیں۔ اور اگر ضرورت پڑی تو عوام مناسب وقت پر ان سے روشناس بھی ہو جائیں گے۔ میں ان تمام دوستوں سے، ان بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ برادری و اخوت کو بنیاد قرار دیں۔ مفاہمت کو بنیاد بنائيں۔ قانوں کا پاس و لحاظ کریں۔ قانوں کی راہ کھلی ہوئی ہے محبت و اخلاص کی راہ کھلی ہوئی ہے۔
اس راہ سے آگے بڑھئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ خداوند متعال توفیق دے گا کہ سبھی لوگ اس راہ کو اپنائیں۔ سبھی ملک کی ترقی چاہتے ہیں، چار کروڑ عوام کی کامیابی کا جشن منائیں۔ بھائیو! اس کی اجازت نہ دیجئے کہ دشمن اس جشن کو برباد کر دے۔ جیسا کہ دشمن کی خواہش ہے۔ اب اگر کچھ لوگوں نے دوسری راہ انتخاب کرنی چاہی تو پھر میں دوبارہ آؤں گا اور عوام کے سامنے اس سے زيادہ کھل کر بات کروں گا۔
خطبہ کا تیسرا حصہ، عالمی استکبار کے لیڈروں اور استکباری ایجنسیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے ان دو تین ہفتوں کے دوران امریکہ اور کچھ یورپی ملکوں کے حکام کی رفتار و گفتار کا جائزہ لیا ہے، انتخابات سے قریب ان ہفتوں میں، اور وہ انتخابات کے دن، اور انتخابات کے بعد والی رات میں اور اس کے بعد دوتین دنوں کے دوران ایک بالکل ہی مختلف اور بدلا ہوا ماحول نظر آیا۔ پہلے تو انتخابات شروع ہونے سے قبل ان کے ذرائع ابلاغ اور حکام کا موقف یہ تھا کہ خود انتخابات کے سلسلے میں شکوک و شبہات ایجاد کریں کہ شاید لوگوں کی مشارکت میں کمی آجائے۔ البتہ یہی نتائج جو سامنے آئے ہیں، خود ان کے اندازے کے بھی مطابق ہیں۔ اپنے بیانات میں یورپیوں نے بھی اور امریکیوں نے بھی ان ہی نتائج کی پیشین گوئیاں کی تھیں لیکن عوام کی اس عظیم مشارکت کی انہیں توقع نہیں تھی۔ یہ پچاسی فی صدی مشارکت اور یہ کھ چار کروڑ عوام آ جائیں گے اس کا انہیں قطعی اندازہ نہیں تھا اور جب انہوں نے اس عظیم شراکت کا مشاہدہ کیا تو انہیں شاک لگا، سمجھ گئے کہ ایران میں بڑا عظیم واقعہ پیش آیا ہے۔ سمجھ لیا کہ انہیں اپنے آپ کو ان نئے حالات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار کرنا پڑے گا۔ بین الاقوامی مسائل میں بھی، مشرق وسطی اور اسلامی دنیا کے امور میں بھی، ایٹمی انرجی کے مسئلے میں بھی اور ایران کے سلسلے میں بھی، انہیں سانپ سونگھ گیا۔ سمجھ میں آگیا کہ اسلامی جمہوریہ سے متعلق امور میں ایک نیا باب کھل گیا ہے اور وہ اس کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ انہوں نے اس وقت سمجھا جب عوام کا یہ عظیم اقدام ان کی نگاہوں کے سامنے آیا جسے یہاں سے خود ان کے آلہ کاروں نے نقل کیا۔ ان سب نے بھی اظہار تعجب کیا۔ اسی جمعہ کے دن سے یہ بیانات شروع ہوگئے، وہاں بھی ان بیانات کے بعض ردعمل دکھائی دئے اور جب انہیں یہاں بعض امیدواروں کے اعتراض نظر آئے تو یکایک انہیں محسوس ہوا کہ ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اس موقع کو انہوں نے غنیمت سمجھا۔
سنیچر اور اتوار سے ان کا لب و لہجہ بدل گیا۔ آہستہ آہستہ ان کی نگاہیں امیدواروں کی طرف سے اعلان شدہ بعض عوامی اجتماعات مثلا سڑکوں پر ہونے والے ازدہام پر پڑیں اور ان کی امیدیں جاگ اٹھیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنا نقاب اتارنا شروع کردیا اور طے کیا کہ خود کو نمایاں کریں۔ امریکہ اور کچھ یورپی ملکوں سے کچھ وزرائے خارجہ سربراہان مملکت اور صدر جمہوریہ نے ایسی باتیں شروع کردیں جن سے ان کا باطن آشکارا ہوگیا۔ صدر جمہوریۂ امریکہ کی زبانی ان کا قول نقل ہوا کہ انہوں نے کہا ہے ہمیں اسی دن کا انتظار تھا کہ لوگ سڑکوں پر نظر آئیں۔ ایک طرف سے تو خط لکھتے ہیں اور تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے تئیں احترام کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف سے یہ باتیں کرتے ہیں۔ ہم ان کی کس بات پر یقین کریں؟! ملک کے اندر بھی ان بیرونی عناصر کے آلہ کاروں نے کام شروع کردئے۔ سڑکوں پر تخریب کاری اور آگ زنی کی راہ اپنائی گئی۔ قومی املاک کو پھونک دیا گیا۔ لوگوں کے کام کاج کے مراکز عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لوگوں کی دوکانوں کے شیشے توڑدیتے ہیں، بعض دوکانوں کو لوٹ لیتے ہیں، لوگوں کی جان اور مال کا تحفظ سلب کرلیتے ہیں، ان سب کا تعلق عام لوگوں اور امیدواروں کے طرفداروں سے نہیں ہو سکتا۔ یہ سب کچھ بدخواہوں کی کارستانی ہے ( اغیار کے ہاتھ) بکے ہوئے لوگوں کا کام ہے۔ مغربی اور صیہونی خفیہ ایجنسیوں کےایجنٹوں کا کام ہے۔ یہ کام جو ملک کے اندر بعض لوگوں کی جہالت و نادانی کے تحت انجام پایا ہے اس نے ان لوگوں کی حرص و طمع بڑھا دی۔ وہ سمجھنے لگے کہ ایران بھی جارجیا ہے، جہاں ایک صیہونی امریکی سرمایہ دار نے آج سے چند سال قبل خود اس کے اپنے دعوے کے مطابق جیسا کہ اخباروں میں اور ذرائع ابلاغ میں نقل ہوا ہے،کہ اس نے ایک کروڑ ڈالر خرچ کئے اور جارجیا میں مخملی انقلاب برپا کر دیا اور ایک حکومت کو ختم کرکے دوسری حکومت لے آیا۔
بیوقوفوں نے سمجھا کہ اسلامی جمہوریۂ ایران بھی ( جارجیہ کی مانند ہے ) آپ اس عظيم ملت کا موازنہ کس سے کر رہے ہيں۔ دشمنون کی مشکل یہ ہے کہ وہ ملت ایران کو ابھی بھی نہیں پہچان سکے ہیں۔ وہ چیز جو اس درمیان مجھے سب سے بدتر اور سب سے گری ہوئی محسوس ہوئی، وہ باتیں تھیں جو ہمدردی کے عنوان سے انسانی حقوق کی حمایت کے طور پر امریکی حکام کی زبان سے کہی گئی ہیں کہ اگر لوگوں کے ساتھ یہ روش و رفتار جاری رہی تو ہم مخالفت کریں گے۔ ہم کو تشویش ہے!! آپ کو لوگوں کے سلسلے میں تشویش ہے؟! آپ سرے سے انسانی حقوق نام کی کسی چیز کو تسلیم بھی کرتے ہیں؟! افغانستان کو کس نے خاک وخون میں غلطاں کیا ہے؟ عراق کو کس نے اپنے فوجیوں کے جوتوں سے روند کر رسوا کیا ہے؟ فلسطین میں کس نے ظالم صیہونی حکومت کو اس قدر سیاسی اور مادی امداد پہنچائی ہے؟ خود امریکہ میں، انسان واقعا تعجب کرتا ہے ان ہی ڈیموکریٹوں کے زمانۂ حکومت میں امریکہ میں جب ڈیموکریٹک پارٹی بر سر اقتدار تھی ان ہی خاتون (ہلیری کلنٹن) کے شوہر کے دور صدارت میں جو اظہار خیال فرما رہی تھیں، اسی(80) سے کچھ اوپر افراد کو جو داؤدی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے زندہ آگ میں بھون دیا گیا۔ اس میں انکار کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ خود ان ہی لوگوں نے، ان ہی حضرات نے یہ کام کیا ہے۔ انہی ڈیموکریٹوں کی حکومت تھی۔ داؤدی فرقہ والے کسی وجہ سے امریکی حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے اور ایک گھر میں انہوں نے خود کو محصور کرلیا۔ انہوں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن وہ لوگ باہر نہیں نکلے۔ پوری عمارت کو آگ لگا دی گئی اور اسی افراد کو جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے اسی گھر میں زندہ جلا دیا گيا۔ آپ کو شعور بھی ہے کہ انسانی حقوق کیا ہے؟ میری نظر میں ان امریکی اور یورپی حکام کو کچھ تو شرم و حیا ہونی ہی چاہئے اور اسے اپنے وتیرہ قرار دینا چاہئے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران، انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام اور لبنان، عراق، افغانستان اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مظلوم پائے جاتے ہيں ان کے لئے ہماری حمایت اسی بات کی نشانی ہے۔ اس بات کی نشانی ہے کہ انسانی حقوق کا پرچم، اسلام پر ایمان و اعتقاد کے سبب، اس ملک میں لہرا رہا ہے اور ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں کوئی ہم کو نصیحت کرے۔
تو یہ انتخابات سے متعلق ہماری گزارشات تھیں اور اب ایک آخری چند جملے بھی عرض کردوں گا اپنے مولا کو مخاطب قرار دیکر۔ اپنے آقا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو۔ اے ہمارے سید و سردار! اے ہمارے مولا! ہم کو جو انجام دینا چاہئے انجام دے رہے ہیں ہم کو جو کہنا چاہئے ہم نے کہہ دیا ہے اور کہتے رہیں گے ۔ میرے پاس ایک بے قیمت سی جان ہے، ایک معلول جسم ہے، تھوڑی سی آبرو بھی ہے جو خود آپ نے ہم کو دی ہے، یہ سب کچھ میں نے ہتھیلی پر لے رکھا ہے کہ اس انقلاب کی راہ میں ، اس اسلام کی راہ میں قربان کردوں گا، یہ سب کچھ آپ پر نثار۔ اے ہمارے سید ! اے ہمارے مولا! ہمارے لئے دعا کیجئے۔ ہمارے مالک آپ ہی ہیں؛ اس ملک کے مالک آپ ہی ہیں؛ اس انقلاب کے مالک آپ ہی ہیں؛ ہمارے پشتپناہ آپ ہی ہیں؛ اور ہم سب اس راہ پر بڑھتے رہیں گے اور پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ اس راہ میں اپنی دعا سے، اپنی تائيد سے اور اپنی توجہ سے ہماری مدد اور پشتپناہی کیجئے۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
اذا جاء نصراللہ والفتح و رئیت النّاس یدخلون فی دین اللہ افواجا ، فسبّح بحمد ربّک و استغفرہ انّہ کان توابا