تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خوش آمدید 'بہت عزیز برادران، میرے لئے آپ اپنے ساتھ خوشی، امید اور ولولہ لائے ہی ۔ الحمد للہ ان دنوں آپ کی میٹنگوں میں بہت اہم باتیں کہی گئيں اور مجھے ان میں سے بعض کی اطلاع ہوئی جو بہت اچھی، مفید اور گہری ہیں۔ ابتک آپ کی میٹنگیں الحمدللہ مبارک رہی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا اور ان مٹنگوں، مشاورتوں، فیصلہ کرنے، اپنا جائزہ لینے، خدا سے مدد طلب کرنے اور خدائے متعال سے تجدید عہد کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ زیادہ مبارک ہوگا۔
میں جب آپ کی تنظیم پر نگاہ ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ یہ آرگنائزیشن اور ایسی ہی دیگر تنظیمیں، البتہ ایسی تنظیمیں بہت کم ہیں، معنوی اور الہی الطاف کے لحاظ سے بہت ممتاز اور کم نظیر ہیں۔ آپ کو خدائے متعال کے الطاف حاصل ہیں جن میں سے ہر ایک، اس کے لئے جس کے پاس یہ نہیں ہیں، بہت ولولہ انگیز ہے۔ یہ تمام الطاف آپ کے ساتھ ہیں۔ اول یہ کہ آپ جوان ہیں اور خود یہ نعمت بہت سی نعمتوں سے بالاتر ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ کے قلوب راہ ہدایت پر ہیں۔ اس دنیا میں کتنے گمراہ جوان ہیں۔ وہ جوان جو اس زندگی کو ایک اندھے کی طرح گذار رہے ہیں اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب وقت گذر چکا ہوگا۔ فکشفنا عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدید اس کے بعد ان پر جو چیز طاری ہوگی وہ حسرت ہے اوراس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ آپ ایسے ہیں کہ یہ مرحلہ آنے سے پہلے ہی آپ کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ آپ خدا کو پہچانتے ہیں۔ دین خدا اور اولیائے خدا کو پہچانتے ہیں۔
دوسری نعمت جو بہت اہم ہے، نعمت جہاد ہے۔ الحمد للہ آپ نے ایک کم نظیر اور استثنائی جہاد کو اپنے گوشت و پوست اور رگ وریشے سے لمس کیا اور اس کی سختیاں دیکھیں۔
گھٹن اور جدوجہد کے دور میں بعض لوگ ، اس مجاہدت کو قبول نہیں کرتے تھے یا نہیں سمجھتے تھے کہ مجاہدت اور جہاد کیوں کیا جائے؟ مگر ایسے مومن انسان بھی تھے جو کہتے تھے کہ کاش ایسے امکانات فراہم ہوجائیں کہ ہم وہاں جائیں جہاں دشمن خدا ہے، تلوار چلائیں، محاذوں پر مورچوں پر جاکر جنگ کریں اور فضیلت جہاد حاصل کریں۔ ان کے دل اس حالت کی طرف پرواز کرتے تھے ۔
جہاد ہرایک کو نصیب نہیں ہوتا ہے ۔ خطرے کے میدان میں دشمن سے جہاد ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔ آپ پندرہ سال سے اس میدان میں ہیں۔ اب کچھ ایسے ہیں جنہوں نے صرف آٹھ سال جہاد کیا ہے۔ مگر پاسداران انقلاب کا جہاد ان آٹھ برسوں سے پہلے شروع ہواتھا اور آج تک جاری ہے۔ یہ ایک اور خصوصیت ہے اور یہ ان خصوصیات میں سے ہے کہ جن پر خدا کے نیک اور صالح بندے رشک کرتے ہیں۔ ممتاز ہستیاں ان پر رشک کرتی ہیں۔ امام ( خمینی رہ) کا کلام نقل ہوا ہے اور یقینا آپ نے تہہ دل سے فرمایا ہے کہ میں بھی ایک پاسدار ہوتا اس جملے پر غور کریں کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ امام (خمینی رہ) کون ہیں ؟ یہ عظیم فقیہ، عارف، زاہد جو راہ خدا کی برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک ہے اور جو بھی راہ خدا میں ہو، جس دین اور ملت سے بھی ہو، اگر اہل معنویت و روحانیت ہے تو عظیم امام (خمینی رہ) کے نور وجود کا ادراک ضرور رکھتا ہے، وہ کہتے تھے کاش میں بھی پاسدار ہوتا۔
پاسدار کون ہے جو اس عظیم ہستی میں اس طرح جذبہ شوق پیدا کردیتا ہے ؟ یہ وہی چیز ہے جو میں نے عرض کی۔ یعنی شوق جہاد، دشمن سے جنگ اور خطرے کے میدان میں جانے کا شوق ہے ، اس کو آپ نے حاصل کیا۔ یہ اپ کے اعمال نامے میں ہے، آج بھی ہے، ختم نہیں ہوا ہے۔
کوئی یہ نہ سوچے کہ جہاد اسی مسلحانہ جہاد کو کہتے ہیں۔ نہیں بلکہ علمی جہاد ، مالی جہاد، اقتصادی جہاد اور تعمیرنو کے محاذ پر جہاد یہ سب اپنی جگہ محفوظ ہیں اور فضیلت رکھتے ہیں۔ البتہ مسلحانہ جہاد کی فضیلت دیگر جہادوں کی فضیلت سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ اس جہاد کا میدان، ایک ایسا میدان ہے جو خود ایک موقع ہے۔ یہ الہی نعمت ہے۔ آپ کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ان مواقع نے آپ کے درمیان ایسا گروہ تیار کر دیا ہے کہ جس کے افراد انسانی کمال تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ پہنچ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی سوچے کہ الحمد للہ ہمارا سامان تو بندھ گیا آپ کے پاس یہ وسائل، یہ لباس، یہ کوہ پیمائی کے مخصوص جوتے اور قوی پٹھے ہیں۔ اب یہ آزمائش ہے۔ جا بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی جاسکتے۔ بعض ان وسائل کے ساتھ اوج کی طرف جانے کے بجائے پستی کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور یہ بہت بڑی شقاوت ہے۔ خدا ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے ۔ بنابریں یہ آپ کے وسائل ہیں۔
عزیز بھائیو' سعی و کوشش ، جہاد اور مجاہدت سب کے لئے پسندیدہ اور زیبا ہے۔ بالخصوص اس کے لئے جس کے پاس اس کے وسائل ہیں اور وہ اس جہاد کو بہترین مقام تک پہنچا سکتا ہے اور اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ ہمارے مد نظر جو فائدہ ہے وہ کیا ہے ؟ اس فائدے کے دو حصے ہوسکتے ہیں۔ ایک ذاتی اور انفرادی حصہ ہے جو اصل معاملہ ہے (اس پر توجہ کریں )۔ راہ خدا میں مجاہدت کا بڑا حصہ خود آپ کے لئے ہے۔ علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم خدا کے بندے کے عنوان سے بندگی سے عہدہ برآ ہوں۔ اگر اس میں کامیاب ہوئے تو اس صورت میں سربلند ور سعادتمند ہوں گے ۔ کامیاب نہیں ہوئے تو اس صورت میں شقاوت ہے ۔ ہم جو وسعی و کوشش اور مجاہدت کرتے ہیں ، تعمیر ، خود سازی اور دوسروں کی اصلاح جو کرتے ہیں خلق خدا کی جو خدمت کرتے ہیں ، جوعدل و انصاف قائم کرتے ہیں ، حکومت قائم کرتے ہیں، پہلے مرحلے میں اس لئے ہے کہ پرودگار کے حضور ایک بندے کی حیثیت سے کہہ سکیں کہ میرے پرورگار! میں نے جہاں تک ہوسکا حق بندگی ادا کیا دعا میں ہے کہ وجعل من ظن بہ علی عبادہ فی کفاء لتعزیتہ حقہ بہت اچھی دعا ہے ۔ اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ معصوم سے صادر ہوئی ہو۔ (اس وقت سند دعا میرے پاس نہیں ہے ) وجعل من ظن بہ علی عبادہ فی کفاء لتعزیتہ حقہ یعنی جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے اور ہم پر احسان کیا ہے، اگر اس سے کام لیں تواس حق کو ادا کرنے کے لئے کافی ہے جو ہماری گردن پر ہے۔ بنابریں پہلے درجے میں کوشش مدنطر ہے ۔
دوسرے درجے میں دوسرے مسائل مد نظر ہیں۔ جیسے انسانیت کی نجات، عدل و حق کی حکومت کا قیام، اس راہ کی تلاش جس پر چل کے انسان ہدایت اور خدا تک پہنچ سکے۔ یہ کوششیں جن کا نام میں نے لیا یہ سب تمہید ہیں اس بات کی کہ ہم خدا کے حضور حق بندگی ادا کریں۔ البتہ حق بندگی بھی ان کاموں کے علاوہ اورکسی طرح ادا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کمرے میں بند ہوکے صرف انفرادی عبادت کرے تو خدا کے حق کو ادا نہیں کرسکے گا۔ یہ انفرادی ہدف اور فریضہ فداکاری، سعی وکوشش، بندگان خدا کی فکر کرنے ، خلق خدا کی خدمت کرنے اور اجتماعی فرائض کی انجام دہی سے پورا ہوگا۔ توجہ کریں یہ دوباتیں خلط ملط نہ ہوں ۔
اب اس اہم فریضے یعنی حق بندگی ادا کرنے کی راہ کیا ہے؟ راہ روایات اور دعاؤں وغیرہ میں بیان کی گئ ہے۔ دو راستے ہیں۔ ایک خدا کا راستہ ہے اور دوسرا نفسانی خواہشات کا راستہ ہے۔ راہ خدا نفسانی راہ کے مقابلے میں ہے۔ اگر انسان راہ خدا پر چلے تو اس اعلا اور آخری ہدف یعنی حق بندگی کی ادائيگی تک پہنچ جائے گا۔ لیکن اگر نفسانی خواہشات پر چلا اور ان کو پورا کرنا چاہا تو جتنا نفسانی خواہشات کی راہ میں اپنی طاقت لگائے گا اورمادہ پرست ہوگا اتنا ہی راہ الہی سے دور ہو جائےگا۔
مقدس اسلامی شریعت اور تمام الہی شریعتیں اسی اساس پر استوارہیں۔ بنابریں ہمارا فریضہ کیا ہے، یہ معلوم ہے۔ خواہشات نفس کو پہچاننا ، اس کی مخالفت کرنا، راہ خدا پر چلنا اور اس راہ میں تکالیف کو برداشت کرنا، یہ وہ عوامل ہیں جو انسان کو سعادتمند بناتے ہیں ۔ اسی بناء پر آئمہ علیہم السلام کے کلام، دعا و مناجات میں نفس انسانی اور ذاتی و انسانی خواہشات کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ اسی لئے صحیفہ سجادیہ میں ہم پڑھتے ہیں ھذا مقام من استحیی لنفسہ منک یعنی پروردگار! اپنے نفس کی وجہ سے تجھ سے شرمندہ ہوں ۔ توجہ فرمائیں کہ یہ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ میرا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ آئمہ علیہم السلام دعا میں، آدھی رات کو اپنی مناجات اور گریہ وزاری میں جو کچھ فرماتے تھے وہ صرف اس لئے تھا کہ ہم سیکھیں۔ بلکہ وہ قصد انشا یعنی جو کہتے تھے ارادے کے ساتھ اور حقیقت فرماتے تھے ۔ البتہ انسانی نفوس کے مراتب کے لحاظ سے مختلف ہیں ۔ جس کو وہ حضرات ہوائے نفس کہتے تھے ممکن ہے کہ ہماری زندگی میں عبادت اور مستحب ہومگر حضرت امام زین العابدین کی زندگی میں وہی چیز ہوائے نفس ہے ۔ چونکہ آپ کا مرتبہ زیادہ ہے۔ آپ کی روح کی لطافت اور روحانی پاکیزگی زیادہ ہے۔

ھذا مقام من استحیی لنفسہ منک وسخط علیھا و رضی عنک کہتے ہیں پروردگارا! میں اپنے نفس پر ناراض ہوں مگر تجھ سے راضی ہوں۔ خدائے متعال سے بندے کا راضی ہونا عظیم انسان کا اعلا مرتبہ ہے۔ اس راہ میں چلیں۔ انسان کو ہمیشہ انتخاب کرنا ہے۔
میں نے ایک بار عرض کیا کہ یہ جو ہم ہر نماز میں کہتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم اس آیہ کریمہ کے اسرار و رموز اور حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دو راہے پر ہے - البتہ یہ مجھ جیسے لوگوں کی ناقص عقل اور بہت کمزور معلومات کی بات ہے ورنہ مردان خدا اور اہل معرفت و حکمت یقینا زیادہ سمجھتے ہیں- اس آیہ کریمہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ انسان زندگی کے تمام مراحل میں دو راہے پر ہے۔ اس وقت بھی ہم اور آپ ایک جملہ کہنے کے لئے، کوئی فیصلہ کرنے کے لئے، ایک قدم اٹھانے کے لئے، کوئی چیز دینے کے لئے دو راہے پر اور معرض انتخاب میں ہیں۔ انسان معرض انتخاب میں ہے۔ راہ خدا کا انتخاب کرے یا راہ ہوائے نفس کا انتخاب کرے۔ لہذا آپ کا خدائی انتخاب جتنا بہتر ہوگا آپ کا عروج اتنا ہی بہتر ہوگا اور آپ کو ارتقاء حاصل ہوگا۔ خدائی انتخاب جتنا زیادہ ہوگا، روح کی پاکیزگی اتنی ہی زیادہ ہوگی ، قوت ارادی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ ذاتی توانائی اتنی ہی بڑھے گی۔ بڑے کام کرنے کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ حتی دنیاوی دشمنوں پر غلبہ پانے کی توانائی اور ملک چلانے کی توانائی اتنی ہی بڑھے گی ۔
تاریخ کا ایک واقعہ ایسا ہے کہ اگر ہم رائج تاریخی معیاروں پر اس کو حل کرنا چاہیں تو اس کا حل محال ہوگا اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک قوم نے جو انسانی تمدن کے ابتدائی ادوارمیں محروم رہی ہے ، ایسی بنیاد رکھی کہ عظیم ترین انسانی تمدن وجود میں آیا اور وہ اسلامی تحریک ہے۔ تمدن کو کون لوگ وجود میں لاتے ہیں ۔ قدیم روم اور یونان کا تمدن جس پر آج بیسویں صدی کے اواخر میں بھی یورپ ناز کرتا ہے اور تاریخی اور علمی بحثوں میں اس کا حوالہ دیتاہے، اس کا ہر قدم پہلے کے اقدام کو مرتب کرنے والا رہا ہے۔ کیا کوئی بڑا تمدن یونہی صحرا میں اگتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے ؟ مگر اسلام کے سلسلے میں ایساہی ہوا۔ کچھ لوگ جو پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے تھے، چہ جائیکہ گوناگون کتابوں کو پڑھنے کا علم رکھتے ہوں کہ علمی نظریئے تک پہنچنے پر منتج ہو اور بعد میں یہی علمی نظریہ انسان کے علمی نظریات کے مقابلے میں بالاتر رتبہ حاصل کرے، ان لوگوں نے عظیم تمدن کی بنیاد رکھی۔ بنابریں آپ دیکھیں کہ یہ کتنے طویل راستے ہیں۔
کیسے ممکن ہے کہ کوئی معاشرہ اور قوم ان راستوں کو طے کرے اور پھر جب اس کے علمی نظریات ، تمام مسائل میں ، دنیا کے درجہ ایک کے تمام نظریات پر غالب آ جائیں تو اپنے فائدے میں دوسرے تمدنوں کو ختم کردے اور صرف ایک تمدن رہ جائے ؟ عربستان کی قوم نہ صرف یہ کہ کوئی ممتاز علمی نظریہ نہیں رکھتی تھی ، بلکہ سرے سے اس کا کوئی علمی نظریہ ہی نہیں تھا۔ اس وقت اس گروہ نے ہجرت کے بعد پیغمبر کی مبارک حیات اور حکومت کے دس برسوں میں ایسے تمدن کی بنیاد رکھی کہ اس تمدن نے کئی سو سال تک دنیا کو چلایا اور دنیا کے تمام تمدنوں پر اثر انداز ہوا۔ ان صدیوں میں، تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں مغربی تمدن عظیم اور برتر تمدن تھا۔ مشرقی تمدن ختم ہوچکا تھا اور ایرانی تمدن بھی درحقیقت کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تمدن نے برتر مغربی تمدن کو ختم کردیا ۔ مغربی تمدن اس تمدن کے مقابلے میں اس معنی میں ختم ہوگیا کہ جیسے سورج نکلنے کے بعد ستارے کی روشنی ختم ہوجاتی ہے، اب وہ کچھ نہیں رہتا۔ جیسے کوئی معمولی ڈاکٹر ہو جو کسی درجہ ایک کے اسپیشلسٹ اور پوسٹ اسپیشلائزیشن کی متعدد ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے حامل کسی ماہر ڈاکٹر کے آنے کے بعد اگر یہ کہے کہ کوئی میرے پاس آئے تو یہ جسارت کہلائے گی، اسلامی تمدن کے آنے کے بعد ایسا ہی ہوا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تمدن کے مقابلے میں یورپ کی ہرچیز پھیکی پڑگئی۔ اور یہ بات چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری تک جاری رہی۔ البتہ اس کے بعد برسوں اسلامی تمدن زوال پذیر رہا۔ یہاں تک کہ نشائت ثانیہ کا دور آیا۔ اس کے بعد دوبارہ مغربی تمدن کا عروج شروع ہوا ۔ مگر مغربی تمدن اسلامی تمدن کے غلبے کے بعد ان تمام برسوں میں اس تمدن سے خوراک لے رہا تھا۔ اس دور کی کتابوں اور منابع پر نظر ڈالیں ، ممتازترین دانشور وہ تھے جو اسلامی کتب اور آثار سے سروکار رکھتے تھے، ان کوسمجھ سکتے تھے اور ان کا ترجمہ کرسکتے تھے۔
اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ اسلامی تمدن کس طرح وجود میں آیا ؟ بعض کہتے ہیں کہ ایران سے لیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ روم سے لیا ہے۔ مگر یہ جاہلانہ اور بچکانہ باتیں ہیں۔ فرض کریں کہ کہیں کی دس کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ کیا ان دس کتابوں سے کوئی تمدن وجود میں آسکتاہے؟ کیا اسلامی تمدن یونانی ، رومی اور ہندوستانی علمی تخلیقات کے ترجمے سے وجود میں آیا ہے؟ نہیں' اسلامی تمدن کا جوہر خود اس کے اندر موجود ہے۔ البتہ زندہ تمدن دوسروں سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیشرفتہ دنیا ، یہ علم سے کام لینا، یہ عالم وجود کے حقائق کا انکشاف - یہی عالم مادہ ، جو مسلمانوں کے ذریعے پہچانا گیا، یہ افکار اور ذہنوں سے کام لینا، یہ عظیم علمی سرگرمیاں ، یہ اس دور کی عالمی سطح کی یونیورسٹیاں ، یہ اس دور میں دسیوں دولتمند اور طاقتور ملکوں کو وجود میں لانا اور تاریخ کی ایک بے نظیر سیاسی قوت ، یہ سب کہاں سے وجود میں آیا؟ آپ کو تاریخ میں اسلام کی سیاسی قوت کے علاوہ کوئی طاقت ایسی نہیں ملے گی کہ جس نے قلب یورپ سے لیکر برصغیر تک ایک ملک تشکیل دیا ہو اور ایک مستقل طاقت اس پر حکومت کرے۔ قرون وسطی کا دور، یورپ کے لئے جہالت اور بد بختی کا دور تھا۔ یورپ والے قرون وسطی کو سیاہ اور تاریک دور کا نام دیتے ہیں۔ وہی قرون وسطی جو یورپ کے لئے تاریکی اور سیاہی تھا ، ایران سمیت اسلامی ملکوں میں علم کی نشرواشاعت کا دور تھا ۔ چوتھی صدی ہجری کے بارے میں جو علم کے پھیلنے کا دور ہے ، تحقیقات کی گئیں اور کتابیں لکھی گئیں ۔ ایسی سیاسی قوت ، ایسی علمی طاقت، دنیا کوایسا آراستہ کرنا، انسان کی تمام زندہ ، فعال اور تعمیری قوتوں سے اس طرح کام لینا، کس چیز کے زیر اثر تھا؟ اسلامی تعلیمات کے زیر اثر۔ مسئلہ صرف یہ ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایک درس دیا ہے ۔ یہ درس جب بھی مسلمانوں کے پاس ہوگا، اس کا نتیجہ درخشندگی اور معنوی و مادی ترقی کی شکل میں نکلےگا۔ وہ خالصانہ اور مخلصانہ مجاہدت کا درس ہے۔ جہاں بھی خالصانہ اور مخلصانہ مجاہدت ہوگی، نتیجہ درخشندگی اورچمک ہوگا۔ البتہ خالصانہ اور مخلصانہ مجاہدت ممکن ہے کہ خدا کے لئے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ غیر خدا کے لئے ہو۔ اگر خدا کے لئے ہوئی تو جاوداں اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہوگی اور اگر غیر خدا کے لئے ہوئی تو باقی نہیں رہے گی ۔ ممکن ہے کہ کوئی کسی کا عاشق ہو، اس کے لئے خلوص کے ساتھ کوئی کام کرے یا اپنے وطن کا عاشق ہو اور خلوص کے ساتھ اپنے وطن کے لئے کوئی کام کرے۔ یہ سب باقی نہیں رہے گا۔ صرف اس وقت تک ہے جب تک یہ ولولہ اور جذبہ اس کے اندر ہے۔ اس کا جذبہ ذرہ برابر بھی کم ہوا تو اس کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ خود سے کہے گا کہ میں جا کے اپنی جان دوں تاکہ فلاں کھائے اور موٹا ہو؟ لیکن اگر خدا کے لئے ہو تو ایسا نہں ہوگا۔ انسان جتنا زیادہ غور و فکر کرےگا اس کی مجاہدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ کیونکہ جانتا ہے ماعندکم ینفذ وما عند اللہ باق جو خدا کے لئے دیا وہ باقی رہے گا۔
پیغمبر کی خدمت میں ایک بکرا لائے ۔ آپ نے اسے ذبح کیا اور فرمایا جو گوشت چاہے لے جائے۔ مدینے کے نادار لوگ پیغمبر کے گھر کی طرف چل پڑے ۔ پیغمبر نے ہر ایک کو ایک ٹکڑا دیا۔ جب سب چلے گئے تو صرف دست کا ایک ٹکڑا رہ گیا تھا۔ پیغمبر کی ایک زوجہ نے کہا یارسول اللہ اتنا بڑا بکرا ختم ہوگیا اورصرف یہی دست کا ٹکڑا بچاہے؟ پیغمبر نے فرمایا کہ سب بچ گیا صرف یہی دست کا ٹکڑا جائے گا۔ یعنی ہم اس کو کھائیں گے ختم ہوجائے گا۔ لیکن جو دیدیا وہ باقی رہے گا۔ یہ دو اور دو چار کا حساب ہے۔ جب کام خدا کے لئے ہوتو عقل انسان جتنی زیادہ اور تیز ہوگی اس کی فداکاری اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ چونکہ وہ جانتا ہے کہ اتنی عمر گذارنا، دنیا میں محنت کرنا، پسینا بہانا، سوچنا، دوڑنا، پیسہ کمانا، عیش و عشرت یہ سب ختم ہوجائے گا۔ کام جتنا زیادہ ہوگا ناکامی اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ یہی ہے کہ
کفارہ شربخواریھائے بی حساب ھشیار درمیانہ مستان نشستن است
انسان جتنی لذت حاصل کرے گا ، لذت ختم ہونے کے بعد حسرت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ لیکن اس لمحے جب آپ نے اپنی جان کی قربانی دی ، کیونکہ ممکن تھا کہ آپ کی بٹالین محاصرے میں آجاتی ، آپ اٹھے ، آدھی رات کی نیند چھوڑی ، دوڑے، خود کو مرکز تک پہنچایا، چونکہ وائرلیس نہیں تھا اس لئے یہ اطلاع زبانی پہنچائی، کمک آئی اور ایک بٹالین کو نجات مل گئی، آپ کا وہ آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا، وہ اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس آدھے گھنٹے کی قیمت کیا ہے؟ صدیاں بیت جائیں گی مگر آپ کا وہ آدھا گھنٹہ ہیرے کی طرح ہوگا، اس میں سے کچھ کم نہیں ہوگا۔ اب اگر آپ کے پاس ایسے ہی سو آدھے گھنٹے ہوئے، تو دیکھیں کہ کتنی قیمت ہوئی۔ یہ کام خدا کے لئے ہے۔ کوئی بھی عامل اس کام کو جو آپ نے خدا کے لئے کیا ہے، ختم کر سکتا ہے؟! صرف ایک عامل یہ کام کرسکتا ہے اور وہ خود آپ ہیں۔
خداوند عالم نے انسان کو کم طاقت و توانائی نہیں دی ہے۔ انسان کو یہ توانائی بھی دی ہے کہ اپنے تمام اچھے کاموں کو خراب کردے۔ مگر آپ کے علاوہ کوئی اور اس کام کو جو آپ نے خدا کے لئے کیا ہے اور اس لمحے کو جو آپ نے راہ خدا میں گذاراہے، ہرگز ختم نہیں کرسکتا۔ دیکھیں کہ خدا کے لئے کام کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو اسلام نے سکھایا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دانشور جس کا یہ نظریہ ہو، ایک لمحے کے لئے بھی کام سے ہاتھ کھینچ سکتاہے؟ اور تنخواہ ، گھر اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے بہانے کوتاہی کرے گا؟ مغرب کے تمام معروف دانشور اور سائنسداں جو حالیہ چارسو برسوں میں بڑے کام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی جذبے کے ساتھ سائنسی پیشرفت تک پہنچ سکے ہیں، یعنی اپنے کام سے عشق کے جذبے کے ساتھ انہوں نے کام کیا۔
اگر انسان کو راہ خدا مل گئی اور اس کو معلوم ہوگیا کہ خداکے لئے کس طرح کام کرے، اس وقت آپ دیکھیں کہ یہ کام کا عشق، کام کو کتنا آسان بنا دے گا۔ اسلامی تمدن اسی طرح وجود میں آیا۔ معمار جب کسی عمارت کا نقشہ بناتا ہے تو وہ بھی اسی طرح ہے، مزدور جب اینٹوں کو جوڑتا ہے تو اسی طرح ہے ۔ کمانڈر جب ہیڈکوارٹر میں بیٹھتا ہے تو اسی طرح ہے، فوجی جب محاذ کی اگلی قطار میں چلتا ہے تو اسی طرح ہے۔ بغیر مورچے کے مورچہ بنانے والا اسی طرح ہے، سڑک اور گلی کا نگہبان جب ڈیوٹی دیتا ہے تو اسی طرح ہے۔ عالم دین اپنے درس میں اسی طرح ہے، سیاسی حاکم جہاں بھی بیٹھا ہے اگر کوئی سیاسی فیصلہ کرنا چاہتا ہے، اسی طرح ہے ، مختصر یہ کہ سبھی خدا کے لئے کام کررہے ہیں ۔ کیا ایسی قوم اور ایسا ملک ، زندگی کے لحاظ سے پسماندہ ہوسکتا ہے؟ کیا ایسی قوم اور ایسا ملک دنیا میں معمولی سی بھی توہین اور ذلت کا سامنا کرے گا؟ کیا پھر کوئی اس قوم سے زور زبردستی کرسکتا ہے؟
اس قوم کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے ۔ جی ہاں ، لیکن اگر اسی قوم کے لیڈران ، فاسد ، خدا سے غافل ، اور دنیا پرست ہوں جیسے خلفائے بنی امیہ و بنی عباس تھے تو وہ بنیاد کو کمزور کردیں گے۔ خلفائے بنی امیہ و بنی عباس نے، اس کئی سو سالہ بنیاد کو جو پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس برسوں میں رکھی تھی، ہتھوڑے ، تیشے اور آری سے خراب کردیا ۔ یہ بہت قابل توجہ باتیں ہیں ۔ کوئی یزید جیسا ، اپنی تمام برائیوں اور خرابیوں کے ساتھ ، سرے سے تمدن کو ہی ختم کرنے کے لئے کافی ہے ۔ کوئی ایک متوکل ان تمام مظالم کے ساتھ ، ملک کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ اتنے زیادہ ظالم حکمراں، اتنے زیادہ برے حکمراں، اتنے زیادہ بدمست اور عقل و ہوش کھوئے ہوئے حکمراں، جو تین سو چار سو برسوں میں برسراقتدار آئے، انہوں نے ہتھوڑوں ، تیشوں ، اور آریوں سے اس عمارت کو جو پیغمبر نے دس سال میں تیارکی تھی ، خراب کردیا ۔
میرے عزیزو! پیغمبر نے مومن اورمخلص انسانوں کے ساتھ کام کیا ۔ اگر آپ اس اخلاص کو جس کی زمین آپ کے اندر ہے ، راہ خدا میں اس مجاہدت کو ، اس پاکیزگي کو ، دنیا سے دل وابستہ نہ کرنے کو --میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو نہ چاہنا، اس کو دور پھینک دینا اور اس سے نفرت کرنا - محفوظ رکھیں اورہمارے مومن نوجوان بھی اس کی حفاظت کریں ، تو دنیا کے ان طوفانوں ، برائیوں اور مخالف ہواؤں کے درمیان ایسی بنیاد رکھی جاسکتی ہے کہ صدیاں بیت جائیں لیکن مفسدین اس کے گوشے کو اکھاڑ نہ سکیں ۔ یہ بنیاد آپ رکھ سکتے ہیں ۔ جس طرح امام (خمینی رہ) نے رکھی ہے۔ جس طرح مخلصانہ مجاہدت کے نتیجے میں یہ انقلاب آیا۔ یہ انقلاب لانا مذاق تھا؟ اس ملک میں جو اس طرح تمام طاقتوں کی لالچوں کی آماجگاہ تھا، انقلاب لانا آسان تھا؟ آپ دیکھیں کہ امریکا ایک ہیٹی کے لئے کیا کررہا ہے، پناما کے لئے کیا کررہا ہے، کویت کے لئے کیا کررہا ہے، کویت ہاتھ سے نکل رہا تھا ، آپ نے دیکھا کہ کیا کیا۔ پھر اتنا بڑا ایران، اتنے بڑے، تیل اور دیگر قدرتی ذخائر کے ساتھ ، اتنی بڑی سرزمین، ایسی اسٹریٹیجک پوزیشن اور ایسی جغرافیائی حیثیت، ایسے ملک کو وہ آسانی سے ہاتھ سے نکلنے دے گا؟ اس کی مخلص فرمانبردار کٹھ پتلی حکومت کو اس کی آنکھوں کے سامنے ختم کردیں اوروہ دیکھتا رہے ؟ کیا یہ کام ممکن تھا؟ یہ کام افسانہ کی طرح تھا۔ مگر ہوا۔ اگر سو قسمیں کھاتے تو خوش فہم ترین لوگ بھی کہتے نہیں ہوگا۔ آیت اللہ طالقانی جیسی ہستی جو عالم بھی تھے ، اہل معرفت اور علمی مرتبے کے مالک تھے ، سیاست بھی جانتے تھے ، مجاہد بھی تھے ، جیل بھی جاچکے تھے اور جدوجہد سے نہیں ڈرتے تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا جس دن امام (خمینی رہ ) نے کہا کہ شاہ اور شاہی حکومت کو ختم ہونا ہے ۔ تو میں نے غلط سمجھا اور کہا کیا باتیں کر رہے ہیں ، کیا یہ ہوسکتاہے ؟ جب امام (خمینی رہ) نے صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ، انقلاب سے کتنے سال پہلے کی بات ہے؟ یعنی ابھی حال تک آیت اللہ طالقانی جیسا عظیم انسان ، مومن، مجاہد ، جو جیل بھی جا چکا تھا، جس نے کوڑے کھائے تھے، ایذائیں برداشت کی تھیں ، وہ کہتا تھا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا ان کے الفاظ یہ تھے یہ شخص کہیں اور سے متصل ہے، کہیں اور سے بات کرتا ہے
امام خدا کے مومن اور مخلص تھے، آپ نے کچھ لوگوں کو اپنا پیرو بنایا اور وہ کام کیا جو واقعی افسانہ معلوم ہوتا تھا۔ یعنی دراصل ناممکن اور ناقابل یقین تھا۔ اس دنیا میں جہاں ہر چیز اسلام کے خلاف تھی، کوئی آئے اور اس جگہ جہاں دنیا کے تمام افکار یہ تھے کہ یہ جگہ اسلام ، ایمان اور قرآن سے دور رہے ، وہاں اسلامی حکومت قائم کرے ؟ آیا یہ کام ممکن تھا؟ مگر امام نے کیا اور بعد میں آپ مومن ، مخلص، بسیج، پاسداران انقلاب اور فوج کے رکن آپ مجاہدین اور عام لوگوں نے مختلف جگہوں پر یہ کام کیا اور ہوا۔
الحمد للہ یہ عمارت بہت مستحکم ہے ۔ آپ اپنا کام دیکھیں، خداکے لئے مجاہدت کریں، تاکہ یہ عمارت پوری ہوجائے ، انشاء اللہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مرور ایام اس کو ہلا سکے اور صدیوں کے گذرنے اور باد و باراں سے اس کو کوئی نقصان پہنچے ۔
میرے کانوں میں اذان کی آواز آئی ، ظہر کا وقت ہے ، اس سے زیادہ گفتگو نہیں کروں گا۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ