قائد انقلاب اسلامی نے آیہ کریمہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا کی روشنی میں اتحاد بین المسلمین کے تعلق سے انتہائی اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن میں اللہ تعالی کی رسی کو ایک ساتھ تھام لینے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اگر کوئی کہے کہ میں نے ذاتی طور پر اللہ تعالی کی رسی پکڑ لی ہے تو اس نے اس آیت کا تقاضا پورا نہیں کیا ہے، بلکہ آیت پر عمل اس صورت میں ممکن ہے جب ایک ساتھ مل کر اللہ کی رسی کو پکڑ لیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کا یہ گرانقدر خطاب حسب ذیل ہے:

بسم ‏اللَّه‏ الرّحمن ‏الرّحيم

تمام حاضرین محترم، عزیز بھائی بہنوں بالخصوص محترم قاریان قرآن اور اسلامی ممالک سے یہاں تشریف لانے والے میہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ بڑی اچھی نشست رہی۔ آپ قاریان قرآن اور عاشقان کلام پاک سے مل کر میں بھی بہت محظوظ ہوا۔ محترم قاری حضرات نے جو دلنواز تلاوت کی اس سے بہرہ مند ہوا۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہ بہرہ مندی، محفل (قرآن) اور صرف چشم و گوش تک محدود نہ رہے بلکہ ہمارے قلوب بھی بہرہ مند ہوں۔ قرآن عمل کرنے کیلئے ہے۔ قرآن سمجھنے اور تدبر کرنے کے لئے ہے۔ عالم اسلام میں یہ اتنی ساری مشکلات کیوں ہیں؟ اپنی اس عظمت کے باوجود امت مسلمہ کمزور کیوں ہے؟ دنیا بھر میں مسلمان بھائیوں کے قلوب ایک دوسرے سے قریب اور شانے ایک دوسرے سے ملے ہوئے کیوں نہیں ہیں؟ کیا قرآن نے یہ نہیں کہا ہے کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا (1) آیا قرآن نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ و للہ العزۃ و لرسولہ و للمؤمنین (2) آج کیوں مسلم امہ کو دنیا میں وہ وقار اور مقام حاصل نہیں ہے جو اس کے شایان شان ہے؟ آخر کیوں؟ عملی میدان میں ہم پیچھے کیوں ہیں؟ عالمی مسائل کے جائزے اور سیاسی مرتبے میں مسلم امہ پیچھے کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ قرآن پر عمل نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن ہمارے دعؤوں کے بر خلاف ہماری معرفت و ہمارے عمل کا محور و معیار نہیں ہے۔ ہم قرآن پر جس مقدار میں عمل کریں گے اس کے اثرات اسی مقدار میں نظر آئیں گے۔
اسلامی جمہوریہ میں ہم نے قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسی مقدار میں اللہ تعالی نے ہمیں اس عمل کا نتیجہ بھی عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی کے ہاں وعدہ خلافی نہیں ہے۔ ومن اصدق من اللہ قیلا (3) اللہ تعالی نے مومنین سے جو نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے وہ زمین کا خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے، عز و وقار کا وعدہ ہے، یہ وعدے سچے ہیں۔ اگر ہماری زندگی کی سطح پر یہ وعدے ادھورے نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی جانب سے مقرر کردہ شرطوں پر عمل نہیں کرتے۔ و اوفوا بعھدی اوف بعھدکم (4) تم مجھ سے کئے گئے عہد و پیمان پر عمل کرو تو میں بھی اپنے عہد و پیمان پر عمل کروں گا۔ اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے اور ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے۔
ان قرآنی محفلوں، قرآنی نشستوں ، قرآنی مقابلوں اور ملک بھر سے قاریوں کو مدعوں کرنے کے پیچھے ہمارا ہدف یہ ہے کہ اس منزل سے نزدیک ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کی قربت حاصل کریں، عمل و معرفت کی قربت، ہمارا ارادہ یہ ہونا چاہئے۔ آج دنیا قرآن پر عمل کے لئے بیتاب ہے لیکن دشمنوں کے لئے یہ دیکھنا گوارا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام دشمن عناصر کبھی کھل کر نہیں کہیں گے ہم قرآن کے دشمن ہیں، ہم اسلام کے دشمن ہیں۔ یخادعون اللہ و الّذین آمنوا وہ اللہ کے ساتھ بھی خداع اور دھوکہ کرتے ہیں بندگان خدا کو بھی فریب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے طرفدار ہیں لیکن ٹھیک اسی نقطے پر حملہ کرتے ہیں جو اسلام ہم سے چاہتا ہے۔
آج آپ دیکھئے بعض مسلم ممالک میں جہاد کا مسئلہ اٹھانا جرم ہو گیا ہے۔ نصاب کی کتابوں میں جہاد کا نام نہیں ہونا چاہئے۔ جو لوگ کسی طرح حکومتی اداروں اور محکموں سے جڑے ہوئے ہیں ان کی گفتگو میں جہاد اور شہادت کا نام نہیں آنا چاہئے۔ ان چیزوں اور ہمارے عمل کو نشانہ بناتے ہیں، اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، دلوں کو ایک دوسرے سے بد ظن کرتے ہیں۔ شیعہ سنی مسئلہ اور مختلف شیعہ فرقوں کا مسئلہ مختلف سنی فرقوں کا مسئلہ یہ سب اسلام دشمنوں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ وہ یہ تو نہیں کہتے کہ ہم قرآن کے خلاف ہیں، لیکن اس چیز کی مخالفت کرتے ہیں جو اسلامی پرورش اور قرآنی تعلیمات کا محور ہے۔ اس کی ایک مثال یہی اتحاد ہے۔ خیر خواہ افراد کتنی زحمتیں اٹھا رہے ہیں کہ عالم اسلام میں مسلمان بھائيوں کے ما بین اتحاد قائم کریں، لیکن کبھی کوئی بم دھماکہ ہو جاتا ہے-اتحاد مخالف دھماکہ- کبھی اس طرف سے تو کبھی دوسری طرف سے، ظاہر ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بیدار رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم ایران کے لوگوں کو بھی۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں صرف دوسروں کے لئے نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ ہمارے لئے ہے۔ ہمیں بھی اتحاد کی حفاظت کرنا چاہئے۔ آپ دیکھئے! ابھی جن آیتوں کی تلاوت کی گئی۔ و اذكروا نعمت اللَّه عليكم اذ كنتم اعداء فألّف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته اخوانا تم آپس میں بھائی ہو گئے۔ و كنتم على شفا حفرة من النّار فانقذكم منها (6) اسلام نے تمہیں تفرقے کی آگ سے نجات دی۔ کیا تم نے بھلا دیا؟ یہ اس پر نکتہ چینی کر رہا ہے اور دوسرا اس پر طنز کر رہا ہے۔ فروعات کو اصول کا درجہ دے دیں اور اصول دین کو بھلا بیٹھیں ہمارا اختلاف بڑھتا ہی رہے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے و اعتصموا بحبل اللَّه جميعا یعنی آپ سب ایک ساتھ مل کر اللہ تعالی کی رسی کو تھام لیجئے۔ یہ سارے لوگ ایک ہی سطح کے تو نہیں ہیں۔ بعض کا ایمان زیادہ محکم ہے، کچھ کا ایمان کمزور ہے۔ بعض کے اعمال بہتر ہیں بعض کے اعمال اوسط درجے کے ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالی نے سب کو حکم دیا ہے۔ فرماتا ہے کہ اعتصام بحبل اللہ کیجئے ایک ساتھ مل کر۔ آپ کہیں کہ میں نے تو اکیلے اعتصام بحبل اللہ کیا ہے اور دوسرے شخص نے نہیں کیا ہے۔ دوسرا کہے کہ میں نے بھی الگ سے اعتصام بحبل اللہ کیا ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ ایک دوسرے کو تحمل کیجئے۔ کچھ اصول ہیں، کچھ محور ہیں، ان اصول میں ہمیں ہم خیال و ہمفکر ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ سو فروعات میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہو لیکن یہ اجتماع اور باہم مجتمع ہو جانے کے منافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی باتوں کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہئے۔ دوسرے درجے کے مسائل میں دوسروں کو مسترد کر دینا، ان کی نفی کر دینا مصلحت کے خلاف ہے۔ آج ملت ایران ایک متحد قوم ہے۔ اس اتحاد کی قدر کرنا چاہئے۔ اختلاف پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ اختلافات کو ہوا نہیں دینا چاہئے، سب آپس میں بھائی ہیں، سب ایک دوسرے سے تعاون کریں، سب ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک دوسرے کی مدد کریں، کسی پر بلا وجہ الزام نہ لگائیں، کسی شخص کی کسی ایک بات کی وجہ سے اس کی ساری خصوصیات کی نفی نہیں کر دینی چاہئے۔ ہمیشہ انصاف سے کام لینا چاہئے، انصاف سے عمل کرنا چاہئے، انصاف سے بات کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی دشمنوں کے بارے میں فرماتا ہے و لا يجرمنّكم شنآن قوم على الّا تعدلوا اعدلوا هو اقرب للتّقوى (7) اگر کسی سے آپ کی دشمنی ہے تو یہ دشمنی اس بات کی وجہ نہ بنے کہ آپ اس کے حق میں بے انصافی کریں، حتی دشمن کے سلسلے میں بھی، تو پھر اس کی کیا بات ہے جو دشمن نہیں ہے؟ نا انصافیوں کو ترک کیجئے۔ سبھی لوگ نا انصافی سے کنارہ کشی کریں۔ سب اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ کچھ اصول ہیں جن کے تئیں سبھی اپنی وفاداری کا اعلان کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، نظریات الگ الگ ہیں تو کیا ہوا، اس میں کیا حرج ہے؟ نظریات ہمیشہ مختلف رہے ہیں۔ لیکن مختلف ادوار میں جب بھی نظریات کے اختلاف میں ہوائے نفس شامل ہوئی، معاملہ بگڑا اور خراب ہوا ہے۔ ہوائے نفس کے سلسلے میں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ہمیں ہوائے نفس کے فریب میں آ جانے کی بابت ہمیشہ خوفزدہ رہنا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا اور غور کرنا چاہئے کہ کہاں ہوائے نفس شامل ہو رہی ہے اور کہاں نہیں۔ احساس ذمہ داری اور احساس فریضہ اچھی چیز ہے لیکن احساس ذمہ داری میں بھی ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا قدم فریضے کے دائرے سے آگے نہ نکل جائے۔ زیادہ روی نہیں کرنا چاہئے۔ تب ہی اللہ تعالی کا لطف و کرم ہمارے شامل حال ہوگا جیسا کہ آج تک اور اب تک فضل الہی اور لطف خدا ملت ایران کے شامل حال رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہر ایک اپنے فرائض پر عمل کرے، سعی کرے، محنت کرے، ہم جو یہ عرض کر رہے ہیں کہ ہر شخص اپنے فریضے پر عمل کرے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے تمام فرائض پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے وما ابرّئ نفسی (8) ہمیں کوشش کرنا چاہئے، ہماری محنت جاری رہنا چاہئے۔ یہی تقوی ہے۔ تقوی یعنی فرائض کی انجام دہی کی کوشش اور اس سلسلے میں محتاط رہنا، یہ تقوی کا مفہوم ہے۔ ہمیں اس جہت میں کوشش کرنا چاہئے اب ممکن ہے کہ کبھی کوئی لغزش ہو جائے تو اسے اللہ تعالی معاف فرمائے گا۔ ایسی صورت میں اللہ تعالی ہماری لغزشوں سے درگذر فرمائے گا۔ کب؟ جب ہم محتاط رہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان نشستوں اور جلسوں، ان تلاوتوں اور ان سماعتوں اور اس گفت و شنید میں برکت دے۔ ہم سب کو بیدار کر دے اور ہمیں اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1) آل عمران: 103
2) منافقون: 8
3) نساء: 122
4) بقره: 40
5) بقره: 9
6) آل عمران: 103
7) مائده: 8
8) يوسف: 53