قائد انقلاب اسلامی نے ہفتم تیر کے سانحے اور اس موقع پر شہید ہو جانے والی اہم ترین انقلابی شخصیات پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے:

بسم‏ الله‌ الرّحمن‏ الرّحيم‏

تمام عزیز بھای بہنوں، ملک کی عدلیہ کے محترم عہدہ داروں اور ہفتم تیر کے سانحے کے شہدا کے پسماندگان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مشیت الہی سے یہ دو مناسبتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہو گئی ہیں۔ ہماری عدلیہ میں شہادت اور شہدا کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ یہ واقعی بہت اہم خصوصیت ہے بشرطیکہ ہم اس سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں۔ چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا ہفتم تیر کے سانحے کے شہدا اور اس اہم سانحے کے بارے میں اور کچھ باتیں عدلیہ کے محترم عہدہ دارو‎ں کے تعلق سے۔ ہفتم تیر کے سانحے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے یہ ہے کہ اس سانحے میں انقلاب کے نمایاں ترین اور عزیز ترین افراد کی جاں نثاری کا منظر سامنے آیا اور انہوں نے خود کو قربان کر دیا۔ بہشتی شہید کی شخصیت جو انقلابی طبقے کی بے نظیر نہیں تو انتہائی کم نظیر شخصیت تھی جو انقلاب کی راہ میں قربان ہو گئی۔ مختلف اداروں کے اعلی عہدہ دار، سیاسی شخیصات، وزرا، اراکین پارلیمنٹ، اسلامی جمہوریہ کے سیاسی میدان کے کارکن، جن میں ہر ایک اپنی جگہ پر اہم شخصیت تھی، ہم ان میں بعض کو نزدیک سے جانتے تھے اور ان کے ساتھ کام بھی کر چکے تھے۔ (سب قربان ہو گئے) یہ بہت بڑی بات ہے کہ اس سطح کی شخصیات جاں بکف ہوں اور شہادت کے جام نوش کریں اور اس راہ میں قربان ہو جائیں۔ بہرحال ملک، نظام اور تہذیب بغیر ایثار اور قربانی کے کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ یہ افراد اس راہ کے پیشرو تھے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس نظام نے کیسے کیسے گوہر تراشے اور انہیں انقلاب کی خدمت کے لئے پیش کیا اور پھر وہ قربان ہو گئے لیکن کیا مجال ہے کہ نطام میں کہیں سے کوئی ڈگمگاہٹ پیدا ہوئی ہو۔ جو افراد ان شخصیات کے قتل کی سازشیں تیار کر رہے تھے ان کا نشانہ یہ افراد نہیں تھے۔ ان کا سب سے پہلا ہدف انقلاب کو ان چنندہ و نمایاں شخصیات سے محروم اور اندر سے کھوکھلا کر دینا تھا۔ وہ قتل کی ان سازشوں کے ذریعے اور ان افراد سے محروم کرکے انقلاب کو شکست سے دوچار کر دینا چاہتے تھے لیکن نتیجہ بالکل بر عکس نکلا۔ یعنی نظام کا اصلی ستون جو نظام و عوام کے گہرے رابطے سے عبارت ہے اور قوی ہوا۔ یہ سب ہمارے انقلاب سے ملنے والی عبرتیں ہیں۔ میں تو عرض کروں گا کہ آج بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ آج بھی اس نظام اور اللہ تعالی کی راہ میں ایثار و قربانی کے لئے کچھ جانیں سامنے آئيں گی اور قربان ہو جائيں گی تو یہ نطام مزید مستحکم ہوگا۔ اس نظام کی جڑیں اسی شجرہ طیبہ کی مانند جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے، اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء مستحکم ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو انقلاب کے اصولوں اور اقدار سے اس طرح جوڑنا اور وابستہ کر دینا چاہئے۔
بہشتی شہید؛ اس ممتاز اور نمایاں شخصیت کا حقیقت میں اسلامی جمہوری نظام اور عدلیہ پر بڑا احسان ہے۔ اسی چھوٹی سی مدت کے دوران جس میں آپ عدلیہ میں مشغول عمل رہے، یعنی تیرہ سو اٹھاون ہجری شمسی کے اواخر سے تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی کے اوائل تک، آپ نے عدلیہ کے لئے بڑے عظیم کام انجام دئے اور بڑے دور اندیشانہ منصوبے تیار کئے۔ بحمد اللہ عدلیہ نے بھی حرکت کی اور ان تیس برسوں میں بہت اچھے کام انجام پائے۔ اس وقت بحمد اللہ جناب شاہرودی جیسی ممتاز اور نمایاں شخصیت کی قیادت میں (عدلیہ بڑے کام انجام دے رہی ہے)، جو علم و دانش اور گوناگوں صلاحیتوں کے لحاظ سے واقعی بڑی ممتاز شخصیت کے مالک ہیں اور عدلیہ کی قیادت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عدلیہ کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر توجہ دینا چاہئے کہ عدلیہ کا فلسفہ وجودی کیا ہے۔ پھر سارے کام اسی جہت اور سمت میں انجام دئے جانے چاہئے۔ عدلیہ کا فلسفہ وجودی عدل و انصاف کا قیام ہے اور انصاف کا معیار ہے قانون پر عمل آوری۔ اگر افراد اور معاشرہ قانون پر عمل پیرا ہو تو گویا انصاف قائم ہے اور اگر قانون سے منحرف ہو جائے تو یہی نا انصافی ہے۔ اسلامی نظام میں قانون بھی اسلامی ہے۔ البتہ ہمارے قوانین میں ممکن ہے کچھ ایسے بھی قانون ہوں جو احکام اسلامی سے مکمل مطابقت نہ رکھتے ہوں، ممکن ہے پہلے کا قانون ہو جو اب تک باقی رہ گیا ہے یا کچھ دوسرے قوانین ہوں، ان کی اصلاح ہونا چاہئے۔ معیار اور کسوٹی یہ ہے کہ قانون پر عمل ہو۔ اسی صورت میں انصاف قائم ہو سکے گا۔ البتہ انصاف آسانی سے قائم نہیں ہوتا۔ جن بنیادی اقدامات کی جانب جناب شاہرودی صاحب نے (اپنی تقریر میں) اشارہ فرمایا وہ سب ضروری ہیں۔ یہی پالیسیاں وضع کرنا جو در حقیقت ایک بنیادی کام ہے، اچھی پالیسیوں کا انتخاب، جو بنیادی پروگرام عدلیہ کے اندر انجام پائے ہیں یا شروع کئے گئے ہیں، یہ سب لازمی ہیں۔ سات کروڑ کی آبادی والے ملک کے عدالتی شعبے کو چلانے والے وسیع ادارے عدلیہ کے اندر انصاف کا قیام صرف باتوں سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے انہی مقدمات کی ضرورت ہے انہی بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بنابریں جو بھی بنیادی محکمہ جاتی اقدامات کئے گئے ہیں سب با ارزش ہیں۔ ان کی قدر کی جانی چاہئے۔ انشاء اللہ یہ روش اور حکمت عملی اسی طرح جاری رہے گی۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کے سربراہ اور ادارے کے ان عہدہ داروں کا جنہوں نے بقول آیت اللہ شاہرودی کے مختلف سطح پر بڑی قابل قدر کوششیں کی ہیں شکریہ ادا کروں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نکتے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ ہمہ گیر اور وسیع سطح پر قیام عدل و انصاف کے لئے ان بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن ان بنیادی اقدامات کے انجام پا جانے سے ضروری نہیں ہے کہ عدل و انصاف قائم ہو ہی جائے۔ ممکن ہے کہ یہ ساری چیزیں تو ہوں لیکن انصاف نہ ہو۔ اس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ عدل و انصاف قائم ہوتا ہے پختہ ایمان اور عزم محکم رکھنے والے خدا ترس انسان کے ہاتھوں۔ جو صرف اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہ کھاتا ہو۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے،فلا تخشوا الناس واخشون جب یہ شرط پوری ہو جائے گی تو ہم آج کے جدید و مختلف النوع اداروں کے ذریعے انصاف کی ترویج کر سکیں گے۔ اگر ارادہ نہ پایا جاتا ہے، یا ارادے میں تزلزل پیدا ہو جائے تو یہ ادارے انصاف قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ یہ ناانصافی اور ظلم کے ذریعہ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے۔ عدلیہ کے عہدہ داروں سے میری یہ جو سالانہ ملاقات ہوتی ہے اس میں بھی اور عدلیہ کے دیگر شعبوں سے بھی جب میری گفتگو ہوتی ہے تو میرے معروضات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا اور اس بات پر نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے اقدامات کا نتیجہ عدل و انصاف کی صورت میں نکل رہا ہے یا نہیں۔ اگر نتیجہ انصاف کی صورت میں نکلا تب تو ہم پیش خدا بھی اپنے ضمیر کے سامنے بھی اور دنیا والوں کی نظروں میں بھی سرخرو و سرفراز ہیں۔ یعنی جب ہم فیصلہ کریں اور انصاف کریں تو درست ہے کہ ہمارے فیصلے سے ایک فریق خوش ہوگا اور دوسرا ناخوش لیکن وہ ناخوش فریق بھی اندر ہی اندر مطمئن ہو۔ اس کے بر عکس اگر ہم نے انصاف سے کام نہیں لیا ہے تو ہمارے فیصلے سے جو شخص خوش ہوا ہے وہ بھی اندر ہی اندر ہمارا مذاق اڑائے گا، ہم سے اس کا اعتماد اٹھ جائے گا، دل ہی دل میں ہم پر ہنسے گا۔ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ ہماری تمام تر کوشش اسی پر مرکوز ہونا چاہئے۔ عدل و انصاف بھی ان چیزوں میں ہے کہ الحق اوسع الاشیاء فی التواصف و اضیقھا فی التناصف اس کا کہنا تو آسان ہے لیکن اس کی عملی پابندی کرنا دشوار ہے۔ بےحد دشوار ہے۔انسان کو جب سخت دشواریاں در پیش ہوتی ہیں تو اگر اس کے پاس عزم راسخ اور ذات خدا پر توکل نہیں ہے تو وہ بیچ راستے میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس نکتے کو عدلیہ میں بار بار اٹھانا چاہئے، یہ جذبہ ہمیشہ جگائے رکھنے کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا فریضہ انصاف کرنا اور قیام عدل ہے۔
انصاف سب سے دشوار اس وقت ہوتا ہے جب عدل کے مقابلے میں طاقتور افراد فریق کے طور پر کھڑے ہوں، جو کچھ بھی سننے کو تیار نہ ہوں، صرف منمانی کرنا چاہتے ہوں۔ ایسے موقع پر استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ قاضی کا فن یہ ہے، اس کی آزاد منشی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے مواقع پر صرف اور صرف اللہ تعالی اور قانون کو پیش نظر رکھے۔ اگر تمام امور کے سلسلے میں، وہ ذاتی ہوں یا سماجی، قانون کو معیار عمل قرار دیا جائے تو انصاف قائم ہو جائے گا۔ حالیہ (دسویں صدارتی انتخابات کے) مسئلے میں بھی ہم نے یہی عرض کیا کہ ہمیں یہ بات قبول نہیں کہ ملک کے عوام کو، عزیز قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیا جائے۔ بہت سے امور میں عوام کے نظریات و افکار اور موقف مختلف ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹکراؤ، شروع ہو جائے، جھڑپ ہونے لگے اور لوگ دست بگریباں ہو جائیں۔ ہمیں عوام کو تصادم سے دور رکھنا چاہئے۔ میں دونوں فریقوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل و برانگیختہ نہ کریں۔ عوام کو آپس میں نہ لڑوائیں۔ قوم متحد ہے۔ سب کا ایمان ایک ہے۔ قلبی طور پر یہ سب اپنے اسلامی نظام سے وابستہ ہیں اور اس کا ایک ثبوت انتخابات میں ان کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ اگر وہ پر امید نہ ہوتے اگر انہیں یقین نہ ہوتا، اگر انہیں اعتماد نہ ہوتا تو انتخابات میں شرکت نہ کرتے۔ پولنگ مراکز پر نہ آتے۔ چنانچہ قوم کو اپنے نظام سے کوئی دشواری اور مشکل نہیں ہے۔ اس متحد قوم کو تقسیم کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ایک گروہ کو دوسرے کے خلاف اور دوسرے کو پہلے کے خلاف اکسانا نہیں چاہئے۔ ایسے مواقع پر مسئلے کے حل کے لئے قوانین موجود ہیں۔ اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو تو قانون پر عمل کرنے کے نتیجے میں بعض افراد کو جس تلخی کا احساس ہوتا ہے لا قانونیت کے نتیجے میں جو بلا سب پر نازل ہوگی وہ اس سے کہیں زیادہ تلخ ہوگی۔ ومن ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل قانون کی مراعات کرنا ہے۔ اگر قانون پر عمل کرنے سے ہمیں محدودیت کا احساس ہوا اور ہم نے قانون کی بالادستی قبول کرنے سے گریز کیا تو لا قانونیت سے جو بلا ہم پر نازل ہوگی وہ بدرجہا تلخ تر اور اس کا تحمل کر پانا کہیں زیادہ دشوار ہوگا۔ اس پر سب کو توجہ دینا چاہئے۔
اللہ تعالی کی توفیقات اور نصرت و ہدایت کے نتیجے میں ہمارے عوام باایمان ہیں۔ سب آگاہ ہیں، سب مومن ہیں، ہمیشہ میدان عمل میں موجود رہتے ہیں، ہر ضرورت (پر مدد) کے لئے آمادہ ہیں۔ اصلاح ہمیں اپنی کرنی ہے۔ سیاسی شخصیات کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے، اپنی باتوں کے سلسلے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ میں تمام شخصیات سے کہہ رہا ہوں، کسی ایک فریق اور ایک حلقے سے نہیں۔ سب محتاط رہیں۔ سب ذہن نشین رکھیں کہ قوم متحد ہے۔ ایک فریق کے جذبات کو دوسرے فریق کے خلاف برانگیختہ کیا جائے، دوسرا فریق کے جذبات پہلے کے خلاف بھڑکائے جائیں اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اگر آپ متحد رہے، اگر آپ نے اپنے ملک اور اپنے نظام پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تو عالمی خبیثوں، ان ظالم سیاستدانوں، انسانیت سے ناآشنا مداخلت پسندوں کے یہ وسوسے آپ کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔
آپ ذرا دیکھئے! دنیا کے بعض رہنماؤں نے امریکی حکام سے لیکر بعض یورپی ممالک کے عہدہ داروں تک سب نے تمام دوسری مشکلات کو فراموش کر دیا ہے اور اب گویا بس ایران کا ہی ایک مسئلہ لا ینحل رہ گیا ہے۔ اس سو فیصدی داخلی اور عوامی معاملے میں لفاظی کر رہے ہیں احمقانہ بیان دے رہے ہیں، اس سے غافل ہیں کہ سیاسی موقف کے لحاظ سے جہاں بھی ان کے قدم پڑے ملت ایران کی نظر میں وہ جگہ نجس تصور کی جائے گی۔ ان کی حمایت کے بالکل بر عکس نتیجہ نکلے گا۔ عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایسا کیا ہو گیا کہ یہ دشمن جو تیس سال سے اسلامی انقلاب کے خلاف سرگرم عمل رہے ہیں اور اس ملک اور اس قوم کے خلاف ہر ممکنہ حربہ اور ذریعہ استعمال کرتے رہے ہیں، اب ہمارے ہمدرد بن گئے ہیں؟ قوم سازشوں کو پہچانتی ہے۔ ہمارے عوام خباثت کو سمجھتے ہیں۔ ان (دشمنوں) کی ساب سے بڑی مشکل بھی یہی ہے۔ اگر ان کا واسطہ کسی بے خبر اور غافل قوم سے ہوتا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا لیکن ان کا واسطہ تو ایک ہوشمند و تجربہ کار قوم سے پڑا ہے۔
ہمارے تیس سالہ تجربات کے نتیجے میں قوم آگاہ ہو چکی ہے۔ عوام کو بخوبی علم ہے کہ یہ وہی حکومتیں ہیں جنہوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ملت ایران کے خلاف کیسے کیسے بھیانک جرائم کئے۔ شہروں پر بمباری ہوئی، گھروں کو ویران کر دیا گيا، کیمیائي بم مارے گئے، بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گيا، یہ سب ہوا اور نہ صرف یہ کہ ملت ایران کے لئے ان کے ہاں کوئی نرم گوشہ پیدا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے ملت ایران کے دشمن کی مدد کی۔ ہمارے عوام یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ یہ تو فراموش کر دی جانے والی چیزیں نہیں ہیں۔ اور اب بڑے ہمدرد بن بیٹھے ہیں! عوام ان قوموں کے ساتھ ان کا برتاؤ دیکھ رہے ہیں جہاں انہوں نے اپنے پنجے گاڑ دئے ہیں۔ جیسے ملت افغانستان، جیسے ملت عراق، جیسے پاکستانی قوم، جیسے ملت فلسطین۔ جہاں انہوں نے اپنے پنجے گاڑے وہاں انہوں نے ہر ممکن ضرب لگائی ہے۔ یہ عوام پر رحم نہیں کرتے۔ عوام دوستی ان کے مزاج کے منافی ہے۔ اور اب یہ لوگ ملت ایران اور ملک کے اندر بعض افراد اور بعض حلقوں کے طرفدار بن بیٹھے ہیں! واضح ہے کہ ان حرکتوں کے پس پردہ ان کے کیا عزائم پوشیدہ ہیں۔ عوام یہ جانتے ہیں۔ اگر آپ متحد رہیں۔ اگر آپ ایک ساتھ شانہ بشانہ رہیں۔ اگر آپ استقامت کے اس جذبے کو جو اسلامی انقلاب سے ملت ایران کو ملا اور ملت ایران نے جس کی آج تک حفاظت کی ہے، اسی طرح برقرار رکھیں تو لا یضرکم کیدھم شیئا ہرگز ان کی دشمنی کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ ملت ایران کا بال بھی بیکا نہیں کر پائیں گے۔
اللہ تعالی سے آپ تمام بھائیوں اور بہنوں، محترم حکام کے لئے جو مختلف عہدوں پر فائز ہیں توفیقات الہی کی دعا کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت امام زمنہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی دعائيں ہمارے شامل حال رہیں۔ ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) عظیم المرتبت شہدا اور ہفتم تیر کے شہدا کی ارواح طیبہ ہمارے قول و فعل سے راضی و خوشنود رہیں۔

 

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‏