تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

خدا کا شکر ہے کہ ایک بار پھر ملک کی فضا اور ہمارے عوام کے دل قرآن کی برکتوں سے معطر ہو گئے ہيں؛ حالانکہ کوئی ایسا دن نہيں ہے جب ہمارے ملک کے با ایمان عوام خود کو اور ماحول کو قرآن سے معطر نہ کرتے ہوں۔
قرآن خود ہی مختلف زبانوں میں اپنے آپ کو پہچنواتا ہے؛ جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد ہے: «ان هذا القرآن يهدى للّتى هى اقوم»(1) یعنی قرآن انسانوں کو، بہترین راستے، بہترین کام، بہترین نظام، بہترین طریقہ کار، بہترین عادات اور بہترین سماجی و انفرادی روش زندگی سے آشنا کرتا ہے۔ آج ہر ایک کو قرآن کی ضرورت ہے؛ لیکن اگر ہم مسلمان ہی قرآن پر عمل نہ کریں گے تو ہمارا نقصان دوسروں سے زیادہ ہوگا؛ کیونکہ ہمارے پاس یہ طریقہ کار اور قانون موجود ہے اور اس کا تاریخی تجربہ بھی ہے۔ بشریت صدر اسلام میں قرآن پر عمل کی برکت سے، علم، اخلاق، عمل اور مختلف دینی و دنیوی شعبے میں اوج پر پہنچی تھی۔ قرآن ہمیشہ زندہ ہے۔ قرآن انسانوں کی ضرورت پر توجہ دیتا ہے۔ قرآن ہر زمانے میں انسانوں کی سعادت و کامرانی کا بہترین لائحہ عمل ہو سکتا ہے۔
آج پوری دنیا میں انسانی معاشرے، معنویت سے دوری کی وجہ سے، انسانیت کی حقیقت سے دوری کی وجہ سے، اخلاق و خدا سے دوری کی وجہ سے اس حالت میں پہنچ گئے ہيں کہ تمام مادی ترقیاں بھی انہيں کامران و شادمان کرنے پر قادر نہيں ہیں۔ کیوں؟ تو آج کا انسان کسی بھی دوسرے عصر سے زیادہ دولت مند اور با علم نہيں ہے؟ کیا آج کے انسان کو کسی بھی دور سے زیادہ آسائش کے اسباب حاصل نہیں ہیں؟ تو پھر کیوں زندگی اتنی تلخ ہے؟ پوری دنیا میں اتنے زیادہ اختلافات کیوں ہيں؟ کیوں اتنی جنگیں ہيں؟ اتنی غداریاں کیوں ہيں؟ کیوں دولت سے مالامال ملکوں کے نوجوانوں کو بھی قلبی سکون میسر نہیں ہے؟ خوشحال زندگی کے لئے کون سی ایسی چیز ضروری ہے جو ان کے پاس نہيں ہے؟ اس کا جواب ایک ہی بات ہے: بشریت کے پاس انبیاء کے پیغام کا فقدان ہے۔ آج کے انسانوں کے پاس، خوشحال و پرسکون زندگی کے ضامن انبیاء کے طریقہ کار کا فقدان ہے یا اگر ان کے پاس ہے بھی تو وہ اس پر عمل نہيں کرتے۔ پریشانی یہ ہے۔ قرآن میں مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔
ہم ایرانی لوگوں نے اس مقدس کتاب کے کچھ حصوں پر عمل کیا ہے۔ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہم ایرانیوں نے اسلام پر مکمل طور پر عمل کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا دعوی کر سکتا ہے؟ ہم نے تو ابھی صرف اسلام کے ایک گوشے کو تھاما ہے، اسی سے جڑے رہے اور اسی پر عمل کیا؛ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے خود کو سامراج کی غلامی کی ذلت سے نجات دلا دی۔
آج دنیا میں، اہم عالمی امور میں، امریکا اور اس جیسے غنڈوں کی باتیں سنی جاتی ہیں۔ آپ خود ہی دیکھہ لیں! مشرق وسطی کے معاملے میں، افغانستان کے معاملے میں، یورپ، لاطینی امریکا، معیشت، تیل، ان سب چیزوں کے بارے میں انہی لوگوں کی بات چلتی ہے۔ بہت سی قومیں اور حکومتیں، مجبوری کے عالم میں ان کی باتیں سنتی ہيں۔ ہم ایرانی لوگ، اپنے تمام معاملات میں، جو کچھ ملک کے اندرونی معاملات سے متعلق ہے، جو کچھ حکومت سے متعلق ہے، جو کچھ معیشت، خارجہ پالیسی، مشرق وسطی، دوست و دشمن بنانے اور ان تمام چیزوں سے تعلق رکھتا ہے ان سب کے بارے میں ہمیں مداخلت کرنے والی سامراجی طاقتوں کی مرضی کا علم ہوا اور ہم نے ان سب سے کہا نہيں
یہ سب کچھ اسی ایک قدم کی برکت سے ہے جو آپ نے اٹھایا ہے۔ وہی ایک قدم جو آپ قرآن کے ساتھ چلے ہيں۔ اس نے آپ کو عزت عطا کر دی، آپ کو زندہ کر دیا۔ آپ کو تازگی عطا کر دی اور آپ پر آپ کے اپنے لوگوں کی حکومت قائم کی۔ دنیا میں بہت سے صدر ہیں، آپ غور کریں اور دیکھیں، دنیا میں وزراء کی بہت بڑی تعداد ہے، ہمارے ملک کے حکام، ہمارے ملک کے صدر اور ہمارے ملک کے وزراء کی طرح عہدے دار کس ملک میں نظر آتے ہيں؟ سب کے سب عوام کے لئے، عوام کے ساتھ، عوام کی خدمت میں ہيں، تواضع سے پیش آتے ہيں اور خود کو خدا کا بندہ سمجھتے ہيں۔ یہ سب کچھ قرآن و اسلام کی برکت سے ہے۔
آپ ایک قدم اگر خدا کی راہ میں اٹھاتے ہيں تو خدا آپ کی مدد کرتا ہے۔ خدا آپ کی ہدایت کرتا ہے۔ خدا دروازے کھول دیتا ہے: «و من يتق اللَّه يجعل له مخرجاً و يرزقه من حيث لا يحتسب و من يتوكّل على اللَّه فهو حسبه(2)» امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دعا میں ہم پڑھتے ہيں: «و ان الرّاحل اليك قريب المسافة»؛ اگر خدا کی سمت جاؤگے تو راستہ قریب ہوگا «و انك لا تحتجب عن خلقك» (3)
قرآن پر مکمل طور پر عمل آوری کے لئے پہلا قدم ، ‍قرآن کے متن سے آشنائی ہے۔ شاہی حکومت کے دور میں ہمارے عوام قرآن سے واقف نہ تھے۔ جو لوگ قرآن پڑھتے پڑھتے بھی تھے ان کی قرئت میں غلطیاں تھیں اور ان کی بھی تعداد بہت کم تھی۔ نوجوان، اور جوگ لوگ پہلوی دور میں پلے بڑھے تھے انہيں قرآن کے بارے میں کوئی معلومات نہ تھی۔ اگر ماں باپ با ایمان ہوتے تو انہیں کسی چھوٹے موٹے مدرسے میں بھیج دیتے جہاں انہيں قرآن پڑھنا سکھا دیا جاتا۔ اس دور میں ہمارے اسکولوں میں قرآن کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی؛ سماج میں قرآن متروک ہو چکا تھا۔ تہران جیسے بڑے شہر میں، قرآنی جلسے جہاں کچھ لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے اور ایک استاد انہيں تجوید یا قرائت کی تعلیم دیتا، معدودے چند تھے۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی صورت حال تھی۔ جب قرآن سماج میں آتا ہے تو قرآن کا وجود، اپنی حلاوت سے سب کو آشنا کر دیتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں قرآن کی بالادستی ہے۔ پہلا قدم قرآن پڑھنا سیکھنا ہے اور قرآن پڑھنے کی مہارت میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہيں کہ سب لوگ قرآن سے آشنا ہوں تو کچھ لوگوں کو آخری حد تک جانا ہوگا۔ تمام دیگر شعبوں کی طرح جیسے اگر ہم یہ چاہیں کہ ورزش اور کھیل کود معاشرے میں عام ہو تو کھیل کود میں عالمی شہرت کے حامل کچھ لوگوں کو عوام کے سامنے ہونا چاہئے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہيں کہ قرآن، گھروں میں، بچوں میں، بڑوں میں، عورتوں اور مردوں میں رائج ہو تو ہمیں قرآنی علوم کے ماہرین کی خاص طور پر عزت کرنی ہوگی۔ اسی لئے ہم ان کا احترام کرتے ہيں۔ یہ لوگ حاملین قرآن ہیں، یہ لوگ صاحب عزت و احترام ہيں۔ ان کی زبان قابل احترام ہے، ان کے لب، ان کے دل لائق احترام ہیں؛ کیونکہ وہ قرآن سے معمور ہيں۔ قرآن پر ہماری جانیں قربان! لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی؛ حفظ قرآن، قرآن کے کلمے کلمے کے معانی و مفہوم و ترجمے سے آشنایی ان لوگوں کے لئے ضروری ہے جو عربی زبان سے واقفیت نہيں رکھتے۔ جب قرآن کے کلمات آپ کی سمجھ میں آنے لگيں تو پھر ان کے معانی میں غور ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو عربی بھی اچھی طرح سے آتی ہے لیکن وہ قرآن کے معانی پر غور نہيں کرتا تو اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہيں ہے۔ قرآن میں غور و فکر ضروری ہے، تدبر ضروری ہے، تدبر یعنی قرآن کے مفاہیم میں غور و فکر۔ یہ بہت گہری بات ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے، اس پر غور کرنا چاہئے۔ قرآن خدا کا کلام ہے۔ اس کے کلمات ذات اقدس الہی کے کلمات ہیں۔ یعنی اس کے الفاظ، صرف مفاہیم نہیں، اس لئے اس پر غور ہونا چاہئے اسے سمجھنا چاہئے۔ اس میں تدبر کرنا چاہئے۔ یہ چیز صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب قرآن کے متن سے لگاؤ پیدا ہو جائے۔
اپنے بچوں کو قرآنی بنائيں، جیسا کہ وہ ہيں۔ آپ نوجوانوں کے پاکیزہ دل قرآن سے آشنا ہيں۔ اس لئے آپ کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔ جن لوگوں کو قرآن حفظ کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے انہيں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ یہ بہت قیمتی سرمایہ ہے، بہت اہم دولت ہے۔ اس کی قدر کرنے سے یہ سلسلے جاری رہے گا اور قرآن کے نورانی سرچشمے کی سمت پیش قدمی رکے گی نہیں۔ اس صورت میں امت مسلمہ قرآن کی برکت سے، اپنا صحیح مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ایرانی قوم اور پوری امت اسلامیہ کو یہ دن جلد دکھا دے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

1) ) اسراء: 9
2) ) طلاق: 2 و 3
3) ) الاقبال، ج 1، ص 158