قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی فوجیوں کی ایمان و تقوی کی خصوصیت کو قابل تعریف قرار دیا اور مقدس دفاع کے دوران نمایاں رہنے والے فوجیوں کے جذبہ ایثار و قربانی کی قدردانی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فلسفہ جہاد پر روشنی ڈالی اور جہاد اکبر و جہاد اصغر کی تشریح کی۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

آج میں آپ انقلاب کے بہادر نوجوانوں کے ساتھ ہوں۔ یہ میرے لئے ناقابل فراموش ایک یادگار لمحہ ہے، ہمیشہ یہ موقع مجھے یاد رہے گا۔ ہم آپ جیسے نوجوانوں اور اس مایہ افتخار فوج پر ناز کرتے ہيں۔ جب یہ فوج ایک چھوٹے سے دستے کی شکل میں سرگرم تھی اور پھر ایک بڑی فوج میں تبدیل ہوئی میں اس وقت سے میں اس دستے سے آشنا ہوں۔ اس بات کو کئی برس گزر چکے ہيں اور ان برسوں میں اس فوج نے قابل فخر کارنامے انجام ديئے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے با ایمان اور انقلابی نوجوان، اس قسم کے فوجی دستوں میں شامل ہوکر ان لوگوں کے لئے ایک جیتا جاگتا ثبوت بن گئے جو یہ خیال کرتے تھے کہ مادی آلائشوں اور بدعنوانیوں سے بھری اس دنیا میں کہ جس میں نوجوان طبقہ، مختلف قسم کے ذہنی و جسمانی و جذباتی مسائل اور بدعنوانیوں کا شکار ہے، پاکیزہ و نورانی دلوں، حریت پسندانہ جذبات اور مضبوط ایمان کے حامل نوجوان ایسے راستے پر گامزن نہيں ہو سکتا جس پر چل کر وہ دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ عمل بنے اور تمام لوگ اس کا اقتداء کریں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ الحمد للہ ہمارے نوجوانوں اور آپ جیسے بہادر لوگوں نے، اس نورانی و قابل فخر فوجی دستے میں اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ جیسے خدا کا دین ہمیشہ زندہ ہے اسی طرح گوہر انسانیت بھی جو خدا کی عظیم تخلیق ہے، ہمیشہ زندہ ہے اور مختلف حالات میں پاکیزہ و نورانی و منتخب انسان، منصہ وجود پر ظہور پذیر ہو سکتے ہيں اور دوسروں کو اس راستے کی سمت مائل کرکے ان کے لئے مشعل راہ بن سکتے ہيں۔
ایک دور، جنگ اور مقدس دفاع (1980تا 88) کا تھا اور ایثار و قربانی و تقوی و فداکاری کے مقدس محاذ پر نوجوانوں کی موجودگی کا جذبہ واضح شکل میں موجود تھا۔ شہادت و قربانی و جہاد کی مقدس مشعل نے اس ماحول کو اتنا زیادہ روشن کر دیا کہ فتنہ و نفاق و کفر و بدعنوانی کے تمام بادل چھنٹ گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ جذبے، مقدس دفاع کے موقع پر ہمارے ملک میں موجود نہیں تھے، موجود تھے لیکن مضمحل ہو گئے تھے، اس درخشاں نور کے سامنے ماند پڑ گئے تھے جو با ایمان انسانوں کی پاکیزہ روحوں سے جہاد و ایثار و شہادت کے میدان میں چمکتا تھا اور آپ سب کو نورانی کر جاتا تھا اور سب لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ ہمارے قائد تو نور و ضیاء کے امام تھے، پاکيزگی کے امام تھے، تقدس و تقوے کے امام تھے، روحوں کے امام تھے، وہ بھی اس نور سے بہرہ مند ہوتے تھے اور خود بار بار اس بات کا ذکر بھی کرتے تھے۔ وہ دور ہمارے تاریخ کا ایک بے مثال دور تھا۔
کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی دلوں میں روشن معنویت و روحانیت کی شمع فروزاں بھی بجھ جائے گی۔ یہ غلط تصور تھا۔ ہمارے کچھ پاکیزہ و با ایمان نوجوانوں نے اسی دور میں جنگ کے خاتمے کی خبر سن کر سوگ منانا شروع کر دیا۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شہادت و روحانیت کے دروازے بند ہو گئے اور ہم چہار دیواری میں قید ہو کر رہ گئے۔ یقینا «انّ الجهاد باب من ابواب الجنّة»(1)؛ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہيں لیکن سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کی روحانی بہشت کے بہت سے دروازے ہيں اور دوسری بات، میدان جنگ میں جہاد، جہاد کی ایک قسم ہے۔ پیغمبر عظيم الشان جو تمام بشریت کے معلم تھے اور ملائکہ بھی جن کی حکمت سے استفادہ کرتے تھے اور جن کا پاکیزہ دل وحی الہی کی آماجگاہ تھا، انہوں نے جنگ سے واپس ہونے والے اپنے دور کے نوجوانوں سے فرمایا کہ:
«مرحبا بقوم قضوا الجهاد الاصغر و بقى عليهم الجهاد الاكبر»(2) چھوٹا جہاد کر لیا اب بڑے جہاد کی باری ہے؛ نفس کے ساتھ جہاد، اندھیرے میدانوں میں جہاد، صاف اور واضح میدانوں میں نہيں، جنگ میں میدان جنگ واضح ہوتا ہے، دشمن دوسری طرف ہوتا ہے۔ اپنے، اس طرف ہوتے ہیں، دشمن جانا پہچانا ہوتا ہے؛ اپنے بھی جانے پہچانے ہوتے ہيں۔ دشمن کے وسائل کا بھی علم ہوتا ہے؛ دشمن کے منصوبوں کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دشمن کے خلاف سب سے زیادہ آسان جنگ وہیں ہوتی ہے۔ اب یہ نہ کہيں کہ وہاں جان کا خطرہ ہوتا ہے ، تمام طرح کے جہادوں میں جان خطرے میں ہوتی ہے تاہم جان انسانوں کے ہاتھوں سے جانے والی سب سے قیمتی چیز نہیں ہوتی۔
ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہر روز سو بار مرنے کی دعا کرتے ہيں۔ بہت سی قربانیوں ہیں جو جان کی قربانی سے بھی زيادہ اہم ہوتی ہیں، کچھ ایسے کام ہیں جو جان دینے کی تکلیف سے زیادہ سخت ہوتے ہيں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: اب جہاد اکبر کی باری ہے اور پیغمبر اسلام کے دور میں جہاد اکبر بہت ہی زیادہ دشوار کام تھا۔ آپ لوگوں سے آج میری جو دوسری ملاقات ہوگی اس میں میں جو گفتگو کروں گا اس سے آپ کو علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں جہاد اکبر کتنا مشکل تھا؛ کیونکہ فتنے کے اسباب واضح نہیں تھے لیکن آج ایسا نہيں ہے۔ آج ہمارے دور میں فتنے کے اسباب واضح ہيں اور جہاد جاری سرچشمے کی طرح ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
کچھ لوگ جہاد کے نام سے بدکتے ہيں! سوچتے ہیں کہ کسی ملک کے قیام، کسی تمدن کی تشکیل، زندگی میں نظم و نسق، مادی و معنوی زندگی میں ترقی اور انسانوں کے لئے جائز سہولتوں کی فراہمی، جہاد سے ممکن نہيں ہے اور جہاد ان سب چیزوں سے تضاد رکھتا ہے! یہ کتنی بڑی غلطی فہمی ہے، کتنی بڑی غلطی ہے! جہاد کے بغیر انسانوں کو کچھ بھی حاصل نہيں ہوتا؛ نہ دنیا نہ آخرت۔ جہاد کے بغیر جنگل کے بے دست و پا بھيڑئے کے سامنے بھی کھڑا ہونا ممکن نہيں ہے توعالم سیاست و معیشت کے ان خطرناک بھيڑئوں کی بات ہی کیا جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو چیر پھاڑ کر حلق میں اتار لیا ہے۔
کیا کوئی قوم جہاد کے بغیر سر اٹھا کے جی سکتی ہے؟ کیا کوئی قوم جہاد کے بغیر عزت نفس سے آشنا ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی قوم جہاد کے بغیر اقوام عالم کے درمیان کسی مقام و منزلت کی حامل ہو سکتی ہے؟ «انّ الجهاد باب من ابواب الجنّة». ہمیشہ ایسا ہی ہے اور جہاد ہمیشہ بہشت کا ایک دروازہ ہے۔ خدا کی خلد بریں کا دروازہ بھی ہے۔ یعنی آخرت کی بہشت کا اور اس دنیا کی راحت بھی ہے۔ یہ سب جہاد سے ممکن ہے۔ تمام ملکوں میں اور تمام اقوام میں بھی ایسا ہی ہے کہ اگر صحیح معنوں میں جہاد مقصود ہو تو اس کے لئے کچھ ایسے نمونہ عمل انسانوں کی موجودگی ضروری ہوگی جو لوگوں کے لئے قابل تقلید ہوں۔ بغیر نمونہ عمل اور علامت کے کچھ بھی نہيں ہو سکتا۔ بہت سے نوجوان ، خدا کے بیکراں لشکر کی طرح ، عدم کے اندھیروں سے سماج میں ظاہر ہوتے ہيں۔ بہت سے ملکوں میں جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے، زیادہ تر اور بہت سے ملکوں میں کم ہی سہی لیکن کتاب کے ذریعے سے ہی یہ سمجھانا ممکن نہيں ہے کہ عزت و اعلی اہداف اور اعلی انسانی مقاصد کے لئے خدا کی راہ میں جہاد کیا جائے۔ کہنے کے ساتھ ساتھ، نمونہ عمل اور مثال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ اس میں اس طرح کے نمونہ عمل اور مثالیں بڑی تعداد میں موجود ہيں۔ یہی جنرل، یہی کمانڈر، یہی مختلف عہدے دار، یہی پاکیزہ و نورانی نوجوان وہی لوگ جس کی امام خمینی آرزو کیا کرتے تھے(کاش میں بھی ایک پاسدار ہوتا) وہی لوگ جنہوں نے جنگ کے دوران، جہاں بھی ہو سکا، جس گھر تک بھی ان کی رسائی ہوئی اسے معنویت سے منور کر دیا۔ وہی لوگ جن کے وجود کو امام خمینی نے انقلاب اسلامی کی فتح الفتوح قرار دیا ہے ۔
صدر اسلام میں فتح الفتوح ایک فوجی مہم تھی۔ مسلمان ایک عرصے تک، اس دور کے میدان جنگ کے مشرقی حصے میں اور آج کے ایران کے مغربی حصے میں ٹھہرے رہے۔ یہاں تک کہ کئ قلعوں پر فتح حاصل کر لی، جب فتح حاصل ہو گئی تو آپ نے کہا کہ یہ فتح الفتوح ہے۔ آج بھی تاریخ میں، نہاوند اور جلولا کی کامیابیوں کو فتح الفتوح کہا جاتا ہے، یعنی ایک فوجی کارروائی۔ امام خمینی نے فرمایا ہے کہ انقلاب اسلامی کی فتح الفتوح، کوئی فوجی عمل یا واقعہ نہيں ہے بلکہ ایک انسانی عمل اور واقعہ ہے؛ یعنی ان نوجوانوں کا ظہور، ان نورانی انسانوں کا وجود، اہریمن کی اس دنیا سے فرشتوں کی آمد جس کے مختلف علاقوں میں نورانیت کی کوئی کرن نظر نہيں آتی تھی۔ آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں کسی حد تک نورانیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ فتح الفتوح یہ نوجوان رہے ہیں؛ وہی شہید کمانڈر جنہوں نے اس فوج کی تشکیل کی ہے؛ وہی جنرل علی فضلی، جنرل ناصح اور یہی با ایمان نوجوان اور یہی نورانیت جو لوگوں کے دلوں میں معنویت کی شمع روشن کرتی ہے۔ یہ لوگ باعث عزت ہيں، یہ لوگ قابل فخر ہیں۔ کسی بھی ملک کے لئے یہ لوگ قابل فخر ہو سکتے ہيں، ان کا نام لینا فخر کا باعث ہے، ان کی یاد منانا قابل فخر ہے، ان کے راستے پر چلنا فخر کا باعث ہے۔
یہ غلط تصور ہے، اگر کوئی یہ سمجھے کہ جنگ، شلمچہ، قربانی، فوجی اور کمانڈر کا نام نہيں لینا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس طرح کے سماج کی تشکیل چاہتے ہيں وہ منصوبہ خراب ہو جائے! جی نہيں ، یہ غلط ہے۔ مطلوبہ حالت، اچھی صورت حال، عظمت، عزت، طاقتور حکومت، قابل فخر قوم اور واضح راستہ، اس وقت ممکن ہوگا جب جہاد کا مفہوم اعلی و پاکیزہ انسانوں کی شکل میں سماج میں ظہور پذیر ہوگا اور ہمارے سماج میں ایسا ہی ہوا ہے۔
پیارے نوجوانو! نورانی نوجوانو! خدا کا شکر ہے کہ حکومت کو آپ کی قدر و قیمت کا علم ہے، قوم آپ کی قدر کرتی ہے؛ ملک کے حکام آپ کی قدر کرتے ہیں، صدر مملکت آپ کی قدر کرتے ہيں، پارلیمنٹ آپ کی قدر کرتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ عزت و جہاد و قربانی کا جو پرچم آپ نوجوانوں کے ہاتھوں ہمارے ملک میں لہرایا گيا آج کے نوجوانوں کے ہاتھ میں موجود ہے، با ایمان نوجوانوں کے ہاتھ میں، مختلف میدانوں میں پاکیزہ و نورانی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر دشمن کی مخاصمت کے مقابلے میں، جہاد و استقامت کا جذبہ ہوگا تو یہ نوجوان جہاں بھی ہوگا، فوجی چھاونی میں، یونیورسٹی میں، دینی مدارس میں، بازار میں، کارخانے میں، مختلف میدانوں میں وہ ہر جگہ مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا۔ اقدار و دین کا پاسدار ہوگا اور یہ چیز آج الحمد للہ پائی جاتی ہے اس کی قدر کریں۔
آپ لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے میدان جنگ کو دیکھا ہے اور وہاں موجود رہے ہیں تاہم آپ لوگوں میں سے جو لوگ میدان جنگ میں موجود نہيں بھی رہے ہيں وہ بھی آج اپنے پورے وجود سے اس کا احساس کر سکتے ہيں۔ آج بھی دشمن موجود ہے۔ آج بھی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ آج بھی اگر دشمن اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ ایک اور جنگ مسلط کرکے وہ ایران کی قوم اور انقلاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو وہ دوسری جنگ مسلط کر دے گا۔ آج بھی اگر دشمن اقتصادی، ثقافتی، تشہیراتی، سیاسی یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے اس پرچم کو نقصان پہنچا سکے جسے ایران اور ایرانی قوم نے اٹھا رکھا ہے اور جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو شناخت ملی ہے اور جس شناخت کے وقار کا آج افریقا، ترکی، یورپ، ایشیا اور پوری دنیا میں مشاہدہ کیا جا رہا ہے تو وہ نقصان پہنچا دے گا۔ یہ خیال نہ کریں کہ دشمن کا ارادہ بدل گیا ہے۔ دشمن، آئندہ، بیس برس، تیس برس، چالیس برس، پچاس برس کے لئے منصوبے بناتا ہے؛ کیونکہ دشمن کوئی ایک شخص تو ہے نہيں؛ دشمنوں کا پورا کیمپ ہے۔ اسلام کا بھی کیمپ ہے۔ اسلام کے کیمپ میں بھی آئندہ دس برسوں، بیس برسں، پچاس برسوں، سو برسوں کے لئے تیاری ہو رہی ہے۔ جی ہاں، صرف دشمن ہی آئندہ پچاس برسوں کو نظر میں نہيں رکھے ہوئے ہے؛ ہم بھی آئندہ سو برس کو دیکھ رہے ہيں اور خدا کے فضل سے آپ لوگ مشاہدہ کریں گے کہ «كيدهم فى تضليل(3)»، «انّ كيد الشّيطان كان ضعيفا(4)» وہ غلط تھے ۔ آپ یقینا دیکھیں گے کہ انہیں ایک بار پھر منہ توڑ جواب ملے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک بار پھر عالمی سامراج ناک رگڑے گا۔ اقوام عالم اس کا مشاہدہ کریں گی اور اس آیت کے مصداق کا کہ جس میں کہا گیا ہے : «الم تر كيف ضرب اللَّه مثلاً كلمة طيّبة كشجرةٍ طيّبة اصلها ثابت و فرعها فى السّماء، تؤتى اكلها كل حين بأذن ربّها و يضرب اللَّه الامثال للناس»(5) مشاہدہ کریں گی۔ خداوند عالم اس طرح کی مثالیں دیتا ہے تاکہ ہم صحیح طور پر سمجھ سکیں۔
آپ نوجوانوں کو سب سے پہلے تو اپنی قدر کرنی چاہئے۔ اور پھر اپنے فوجی یونیفارم، سپاہ پاسداران کے یونیفارم اور رضاکار دستے کے خاص لباس کی قدر و منزلت سمجھنا چاہئے۔ اس کے بعد ان قاعدوں اور قوانین کی قدر کرنی چاہئے جو اپنی جگہ پر ضروری ہونے کے ساتھ ہی ساتھ آپ کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہيں اور ان تمام قوانین پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ کو اپنے پاس موجود وسائل، اسلحے اور چیزوں کی قدر ہونی چاہئے اور ان کا تحفظ کرنا چاہئے، ان میں اضافہ اور ان کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے اندر موجود ایمان کی جو ان تمام چیزوں کا مضبوط سہارا ہے ، قدر کرنی چاہئے اور اس کا تحفظ کرنا چاہئے۔
یہ جان لیں کہ بہت سے معنوی سرمائے اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود تحفظ کے محتاج ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر محبت کا تحفظ کرنا چاہئے؛ یہ ایک پودے کی طرح ہے کہ اگر اس کا تحفظ نہ کیا جائے تو وہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایمان بھی ایسا ہی ہے۔ ایمان کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ ایمان کا تحفظ اچھے سلوک، اچھی طرح سے غور و فکر، خدا پر توجہ اور خدا سے رابطے کو بنائے رکھنے سے ممکن ہوتا ہے ۔ اس گوہر کا تحفظ، صبر و حق کی نصیحت سے ممکن ہے۔ آپ لوگوں میں سے ہر ایک دوسرے کو حق و صبر کی نصیحت کریں ۔ صبر یعنی پائیداری و استقامت ۔
حضرت ولی عصر (عجل اللہ فرجہ الشریف) کا وجود آپ کو سہارا عطا کرے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مبارک آپ سے خوشنود رہے۔ شہداء کی پاکیزہ روحیں آپ سے خوش رہیں۔
خدایا! تجھے محمد و آل و محمد کا واسطہ، جو لوگ شہادت کی قدر کرتے ہيں اور اس کی معرفت رکھتے ہيں ان کے نصیب میں شہادت قرار دے۔ پروردگارا! اپنی رضا ہم سے ایک لحظے کے لئے بھی دور نہ کر۔ پروردگارا! ہمیں اپنی ہدایت سے ایک لحظے کے لئے بھی محروم نہ کر۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

(1) كافى، ج 5، ص 4
2) كافى، ج 5، ص 12
3) فيل: 2
4) نساء: 76
5) ابراهيم: 24 و 25