تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں آپ سب لوگوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہاں آنے کی زحمت گوارا کی۔ خاص طور پر ان لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مدح کے پھولوں سے اس جلسے کو معطر کیا۔ اسی طرح اچھے اشعار کہنے اور پڑھنے والوں کا بھی شکر گزار ہوں، خاص طور پر ان بھائیوں کا جو دور دراز سے یہاں تشریف لائے ہيں۔ میں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی، بے پناہ عظمتوں اور حیرت انگیز پہلوؤں کی وجہ سے، تاریخ میں افسانوی حیثیت کی حامل ہے۔ در حقیقت ہماری آنکھیں ان کی معنوی عظمتوں کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں، ہم ان کی عظیم ہستی اور ان کی فضیلتوں کا اپنے محدود ذہن میں تصور تک نہيں سکتے، لیکن سطحی طور پر دیکھنے والی ہماری آنکھوں کو جو کچھ نظر آتا ہے وہی بہت زیادہ ہے۔ یعنی وہ چھوٹی سی زندگی، چاہے بچپن کا زمانہ ہو، چاہے جوانی کا اور چاہے شادی اور خانہ داری کا زمانہ ہو، سب کچھ مفاہیم کا حامل ہے۔ کیا ہر کوئی امیر المومنین کا کفو ہو سکتا ہے؟ علی (علیہ السلام) کی عظمت تو اپنے سامنے پہاڑوں کو ہلکا ثابت کر دیتی ہے، ان کا کفو (ہم پلّہ ) ہونا ہی عظمت کی علامت ہے، آپ دیکھیں! ان دو عظیم شخصیتوں کا آپس میں تعلق کیسا ہے؟ اس قسم کی عظیم شخصیتيں کیسے ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں، کس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں؟ کس طرح سے اپنی تاریخی اور مثالی زندگی کو چلاتی ہیں اور کس طرح سے ہر ایک، اپنا کردار ادا کرتا ہے؟ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ جنگوں میں اس گھر کے شوہر کا کردار یہ ہے کہ وہ صف اول کا مجاہد اور مشکل کشا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد ان کا کردار بدل جاتا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے اس عظیم سانحے کو کون برداشت کر سکتا تھا؟ لیکن علی (علیہ السلام) نے برداشت کیا۔ یہ وہی خیبر کی بہادری اور احد کی طاقت ہے جس کی بدولت انہوں نے برداشت کیا۔ خلافت کا دور ہے اور ہر لفظ اور قدم، تاریخ میں ثبت ہو رہا ہے۔ ان حالات میں جو شخصیت ان کے ساتھ قدم بہ قدم رہی وہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی ہے۔ اگر تاریخ میں ان کی یہ عظیم اور جانکاہ مظلومیت ثبت نہیں ہوتی تو بعد میں حقائق اسلام جس طرح سے آشکار ہوئے ہیں، ظاہر نہ ہوتے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے، یہ سب خدا کی طرف سے منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ان مشکل کرداروں کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کا جوہر خدا کا منتخب کردہ جوہر ہوتا ہے۔ طول تاریخ میں اتنے انسانوں کے درمیان خدا نے کچھ ہی لوگوں کو منتخب کیا ہے، امتحنک اللہ الذی حلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ( التہذیب ، ج6 ص10 ) یہ امتحان کا مرحلہ ہے، عمل کا میدان ہے، کوئی اتفاقی بات نہيں ہے۔ کسی کو خصوصیت دینے کا مرحلہ یونہی نہیں ہے۔ خدا وند عالم کسی کو یونہی خصوصیت نہیں دیتا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جوہر، قوی ارادے، عزم راسخ، قربانی اور جانفشانی نے ان کو اس مرحلے میں پہنچا دیا تھا کہ وہ ایسے محور و مدار میں بدل گئيں کہ جن پر تمام چیزوں کا انحصار تھا۔ سخت کام، مضبوط لوگوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ کا بھاری بوجھ اور سخت امتحانات کی ذمہ داری، اس معمولی مدت کے دوران بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کاندھوں پر تھی۔ خداوند عالم نے انہیں منتخب کیا تھا اور آپ انسانیت کو نجات کے ساحل سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوئيں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا طول تاریخ میں انسانوں کی نجات دہندہ ہیں۔ اسی لئے تمام ائمہ علیھم السلام ان کا اتنا زیادہ احترام کرتے ہیں اور ان سے اظہار عقیدت کرتے ہیں۔ اس سے بلندتر کوئی مقام ہو سکتا ہے؟
اہل بیت پیغمبر کی مدح اور ان کے مصائب کا ذکر یقینا ایک بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ ہم نے گزشتہ برس اس قسم کے جلسوں میں بارہا اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کی ہيں اور مختلف الفاظ میں، قصیدہ خوانی سے اپنی عقیدت ظاہر کی ہے۔ آپ کے اس کام میں کئ زاویوں سے فن نظر آتا ہے۔ آپ کے اشعار، فن کے زمرے میں آتے ہیں، آپ کی آواز فن ہے، دھن بھی ہنر ہے اور جو اشارے کرتے ہيں وہ بھی فن کا حصہ ہیں۔ اس کام میں دوسرا عنصر تفکر و غور و فکر ہے؛ کیونکہ منطق، استدلال، صحیح بات، سچ بات اور اچھی بات، ان اشعار میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان سے ذہنوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ البتہ منطق کی مختلف شکلیں ہوتی ہيں۔ کبھی دلیل کے ساتھ ہوتی ہے، کبھی خطاب و کلام کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی اشعار کے ذریعے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ پیغام لوگوں کے ذہنوں کی گہرائیوں تک پہنچ جائے اور انہیں مطمئن کر دے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ دینی پیغام کے حامل سمجھے جاتے ہيں؛ آپ معنوی و ایمانی عہدوں کے حامل ہیں۔ دنیا میں اچھی آواز میں اشعار پڑھنے والے بہت زیادہ لوگ ہيں اور ہو سکتا ہے ان کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہوں لیکن وہ مداح نہیں ہیں، جبکہ آپ مداح اہل بیت کی حیثیت سے لب کشائی کرتے ہيں۔ یقینا دوسری بہت سی خصوصیات بھی ہيں لیکن یہ تین خصوصیتیں سب سے زیادہ اہم ہیں۔
میں یہ عرض کرنا جاہتا ہوں کہ ان تینوں خصوصیات سے بھرپور طرح سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور فائدے سے محروم بھی رہا جا سکتا ہے۔ غلط طرح سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اچھی طرح سے استفادے کی بھی الگ الگ نوعیت ہوتی ہے۔
آپ لوگ کوشش کریں کہ ان تین اہم خصوصیات سے، جو اللہ تعالی نے آپ کو عنایت کی ہيں، بہترین طریقے سے استعمال کریں۔ آپ کے اشعار بہترین، چست، اچھے مضامین کے حامل اور اطمینان بخش ہونے چاہئے۔ کبھی کبھی آپ کا کوئی قصیدہ، کسی خوش بیاں ذاکر کی گھنٹوں کی تقریروں سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آپ کا ایک بر محل شعر ایک کتاب کی اتنی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ سب آسانی سے حاصل ہونے والی چیزیں نہيں ہیں۔ انسان کو زحمت کرنی پڑتی ہے، محنت و جفاکشی کرنی پڑتی ہے، اچھے اشعار تلاش کرنے پڑتے ہيں، پھر انہیں یاد کرنا پڑتا ہے۔ البتہ آج کل لکھ کر اشعار پڑھنے کا رواج ہو گیا ہے۔ میری نظر میں اس میں کوئی مضائقہ نہيں ہے؛ لیکن پرانے زمانے میں یہ برا سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات آج بھی اپنی جگہ پر ہے کہ اگر مداح، شعر زبانی پڑھیں تو یہ ایک الگ ہی خصوصیت ہوگی؛ لیکن اگر زبانی نہ بھی پڑھیں تو بھی کوئی مضائقہ نہيں ہے۔ اہم یہ ہے کہ شعر، اچھا، گہرا، اچھی بندش والا اور اچھے مضمون کا حامل ہو ۔ اچھے، چست اور با معنی شعر کا معیار کیا ہے؟ کون سے اشعار مناسب نہيں ہیں؟ کون سے اشعار صحیح ہيں؟ ان سب باتوں کے لئے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے، جس کا بیان اس کے اپنے مقام پر کیا جاتا ہے، تاہم اچھی طرح سے استعمال، اچھی بات اور صحیح روش ہے اور ان خصوصیات کو استعمال ہی نہ کرنا یا غلط طریقے سے استعمال کرنا، اس فن کی غلط شکل ہے۔
پروردگار! تجھے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حرمت کا واسطہ، ہمیں ان کے شیعوں، ان کے عقیدت مندوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی شکل میں زندہ رکھ اور اسی شکل میں ہمیں موت عطا کر اور ہمیں اسی شکل میں محشور فرما۔ پروردگار! جو کچھ اس جلسے میں کہا گیا، پڑھا گیا اور جن باتوں پر عمل کیا گیا اسے تو قبول فرما۔ پروردگار! شفاعت اور ہدایت سے ہمیں نواز ۔ پروردگار! زندگی کے تمام مراحل میں، ہمیں اپنی ہدایت سے سرفراز کر ۔ پروردگار! ہمیں، اپنے حال پر نہ چھوڑ، ہماری قوم کے دشمنوں کو مغلوب و مایوس قرار دے، ہماری قوم کو اس کے تمام قابل فخر مراحل، سیاسی و دینی و انقلابی تاریخ کے تمام ادوار اور تمام امتحانوں میں، دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی عنایت فرما اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرما۔ پروردگار! حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نظر عنایت ہم پر قائم رکھ اور ان کی دعائيں ہمارے شامل حال فرما؛ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور شہداء کی ارواح کو ہمارے اس جلسے سے خوشنود فرما۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته